SOURCE :- BBC NEWS

- مصنف, سربجیت سنگھ دھالیوال
- عہدہ, بی بی سی پنجابی، ٹورانٹو
-
ایک گھنٹہ قبل
’یہاں خواب میں بھی روزمرہ کی الجھنیں نظر آتی ہیں، کبھی بجلی کے بل سے متعلق گبھراہٹ تو کبھی قرض کا ٹینشن، کبھی نوکری کے حوالے سے تو کبھی گھر کی قسطوں کے حوالے سے پریشانی، یہ سب اب میری زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔‘
یہ بیان کینیڈین شہری رمندیپ سنگھ کا ہے جو کینیڈا کے تارکین وطن کی موجودہ صورتحال کی ترجمانی کرتا ہے۔
اگرچہ یہ کہانی پنجاب کے شہر فرید کوٹ سے تعلق رکھنے والے رمندیپ سنگھ کی ہے لیکن انڈیا اور پاکستان کے کینیڈا میں بسنے والے بہت سے تارکینِ وطن کی کہانی اس سے بہت مختلف نہیں ہے۔
رمندیپ سنگھ تقریباً 10 سال قبل انڈیا سے کینیڈا پہنچے تھے، اب وہ کینیڈا کے شہری ہیں۔ کینیڈا آنے سے پہلے رمندیپ سنگھ پنجاب میں ایڈہاک یعنی عارضی طور پر لیکچرار تھے۔
رمندیپ سنگھ کہتے ہیں کہ ’کینیڈا جدوجہد کا دوسرا نام ہے لیکن میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ کینیڈا ایک برا ملک ہے۔ کینیڈا سب سے اچھا ہے اور مجھے بہت پسند بھی ہے لیکن کووڈ کے بعد یہاں کی صورتحال بالکل بدل گئی ہے۔‘
ٹورونٹو سے بی بی سی کی نامہ نگار ندین یوسف لکھتی ہیں کہ کینیڈا کے شہری پیر کو ایک ایسے انتخاب میں ووٹ ڈالنے کے لیے تیار ہیں جسے سالوں میں سب سے زیادہ معنی خیز سمجھا جا رہا ہے کیونکہ اس وقت یہ ملک امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ کے درمیان اپنے مستقبل کی طرف دیکھ رہا ہے۔
انتخابات گھروں کی کمی، بیروزگاری اور مہنگائی جیسے مسائل کے گرد گھوم رہے ہیں۔ بعض ماہرین کے مطابق اس کی بڑی وجہ گذشتہ چند سالوں میں کینیڈا کی قدرے نرم امیگریشن پالیسی ہے جس کی وجہ سے آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
حالات کب اور کیسے بدلے؟

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
رمندیپ سنگھ کنسٹرکشن کے شعبے میں کام کرتے ہیں، اس شعبے کو اچھی آمدنی والا ایک اچھا کاروبار سمجھا جاتا ہے۔
وہ موجودہ حالات کے بارے میں اپنا ذاتی تجربہ بتاتے ہیں: ’ان دنوں یہاں زندگی گزارنا مشکل ہو گیا ہے۔ ملازمت کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں۔ مہنگائی بڑھ رہی ہے اور گھر کی قسطیں بھی بڑھ رہی ہیں۔ انھی وجوہات کے باعث کینیڈا میں مقیم تارکین وطن پریشان ہیں۔‘
رمندیپ کہتے ہیں: ’میں اور میری بیوی نے دن رات محنت کی۔ پہلے ہم نے ایک گھر خریدا اور زندگی آرام سے گزرنے لگی۔ کچھ سالوں کے بعد ہمیں لگا کہ ہمیں اپنا پرانا گھر بیچ کر ایک بڑا گھر خرید لینا چاہیے اور ہم نے دگنی قیمت پر ایک بڑا گھر خرید لیا۔‘
لیکن ان کا کہنا ہے کہ اچانک کووڈ کے بعد ہاؤسنگ مارکیٹ میں کمی آنا شروع ہو گئی اور یہیں سے ان کے لیے مسائل کھڑے ہونے لگے جو تاحال جاری ہیں۔
انھوں نے کہا کہ گھروں کی قیمتیں دن بدن کم ہو رہی ہیں۔ لیکن قرض کی قسط میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور انھیں یہ سمجھ نہیں آرہی کہ اب کیا کریں۔ اس کے علاوہ کینیڈا میں دیگر اخراجات میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
رمندیپ سنگھ نے کہا: ‘دس سال کے تجربے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ کینیڈا آنے کا فیصلہ درست نہیں تھا۔ زندگی ایک طرح سے معلق ہے۔
‘کینیڈا میں رہنا مشکل ہو گیا ہے اور ہم نے واپسی کے بھی اپنے آپشنز ختم کر دیے ہیں۔ ہم نے وہاں (انڈیا میں اپنا) سب کچھ بیچ دیا اور یہاں آ گئے۔’
رمندیپ کا کہنا ہے کہ ‘یہ ملک بہت خوبصورت ہے اور یہاں ہر کسی کے لیے بلا تفریق ترقی کے مواقع ہیں لیکن موجودہ حالات کی وجہ سے یہاں رہنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔’
کینیڈا میں یہ حالات تارکین وطن کے لیے ذہنی تناؤ کا باعث بن رہے ہیں جس سے ان کی صحت بھی متاثر ہو رہی ہے۔
ان کے مطابق نئے تارکین وطن کے لیے صورتحال اور بھی مشکل ہے۔

ہاؤسنگ کا بحران
کینیڈا میں نئے تارکین وطن کو اس وقت اور بھی سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ وہ یہاں مہنگائی، سستی رہائش کی کمی اور ملازمتوں کی کمی جیسے مسائل کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
ہاؤسنگ کا بحران سب سے بڑا چیلنج ہے، خاص طور پر نئے تارکین وطن پر یہ بات زیادہ صادق نظر آتی ہے۔
رمندیپ کی طرح گجرات کے میتُل دیسائی بھی کچھ سال پہلے اپنے خاندان کے ساتھ کینیڈا آ بسے تھے۔
دیسائی فی الحال انٹاریو کے برامپٹن میں رہتے ہیں اور ایک کیفے میں کام کرتے ہیں۔
مسٹر دیسائی کہتے ہیں: ‘پہلے یہاں سب کچھ ٹھیک تھا لیکن اب یہاں سب سے بڑی پریشانی مکان کی ہے۔ جن کے پاس مکان ہے وہ ان کی قسطوں کی ادائیگی کے لیے پریشان ہیں اور نئے لوگ گھر نہیں خرید پا رہے ہیں۔ اس الیکشن میں ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ مکان اور ٹیکس کا ہے۔’
دیسائی کے مطابق: ‘کینیڈا میں بین الاقوامی طلباء کی آمد نے یہاں کے کرائے کے بازار میں ریکارڈ اضافہ کیا تھا۔ یہاں تک کہ بیسمنٹ کا کرایہ جو کبھی 300 کینیڈین ڈالر تھا وہ بڑھ کر 1500 سے 2000 ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔
لوگوں نے کرائے کو اپنی آمدنی کا مستقل حصہ سمجھ کر نئے مکانات میں سرمایہ کاری کی لیکن اب بین الاقوامی طلباء کی کمی کی وجہ سے گھر خالی پڑے ہیں اور مکان مالکان قسطوں کی ادائيگی کے لیے پریشان ہیں۔
اس سے قبل جسٹن ٹروڈو حکومت نے سنہ 2023-2024 کے دوران کینیڈا کے سٹوڈنٹ ویزا پروگرام میں بڑی تبدیلیاں کیں جس کی وجہ سے کینیڈا میں طلباء کی آمد میں پہلے کی نسبت نمایاں کمی آئی ہے۔
اس کا براہ راست اثر یہاں کے کرائے کے بازار پر پڑا ہے اور اب رہائش اور کام دونوں ہی لوگوں کے لیے پریشانی کا سبب بن گئے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
بین الاقوامی طلبا کی توقعات
پچھلے کچھ سالوں سے کینیڈا، انڈیا سمیت بہت سے دیگر ممالک کے طلباء کے لیے پسندیدہ ملک رہا ہے۔
کینیڈین سٹوڈنٹ پروگرام کے تحت پنجاب، گجرات، ہریانہ، تمل ناڈو، اتر پردیش، بہار، کیرالہ سمیت انڈیا کی بہت سی دوسری ریاستوں سے طلبا کینیڈا پہنچے ہیں۔
ان میں زیادہ تر پنجابی اور گجراتی ہیں جنھوں نے بہتر مستقبل کی امید لے کر اس ملک کا رخ کیا۔
نوجوت سلاریہ ان میں سے ایک ہیں۔ وہ سنہ 2022 میں ایک بین الاقوامی طالب علم کے طور پر کینیڈا پہنچے۔ نوجوت کا تعلق پنجاب کے ضلع گورداسپور سے ہے۔ نوجوت اس وقت ورک پرمٹ پر ہیں، جو رواں سال اگست میں ختم ہو رہا ہے اور اس وقت ان کی سب سے بڑی پریشانی وہی پرمٹ ہے۔
نوجوت سلاریہ نے کہا کہ ’میری نوکری ہے، لیکن مجھے کینیڈین پی آر (پرماننٹ ریزیڈنٹ) حاصل کرنے کی فکر ہے اور اس حوالے سے فی الحال کچھ نہیں ہو رہا۔‘
کینیڈا کی حکومت نے حال ہی میں پی آر قوانین میں بڑی تبدیلیاں کی ہیں۔ جس سے یہاں رہنے والے بین الاقوامی طلبا کا مستقبل متاثر ہونا شروع ہو گیا ہے۔
بہت سے بین الاقوامی طلبا کے ورک پرمٹ کی میعاد ختم ہو چکی ہے جس کی وجہ سے ان کا کینیڈا میں آباد ہونے کا خواب التوا کا شکار ہے۔ ایسے ہی ایک طالب علم پنجاب کے ترن تارن سے تعلق رکھنے والے سِمرپریت سنگھ ہیں۔
سِمرپریت سنگھ نے کہا کہ ’میرے ورک پرمٹ کی میعاد ختم ہونے کے بعد میں کینیڈا میں مزید کام نہیں کر سکتا اور میرے لیے اپنے اخراجات کا انتظام کرنا مشکل ہو گیا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اب میری نظریں انتخابات پر ہیں اور یہاں جو بھی پارٹی برسراقتدار آئے گی وہ ہمارے مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔‘

گجراتی نژاد سونل گپتا بھی بین الاقوامی طالب علم کے طور پر کینیڈا آئی تھیں۔ وہ بھی اپنے پی آر کی منتظر ہیں۔ سونل کے مطابق کینیڈا میں حالات پہلے کے مقابلے میں بہت بدل چکے ہیں۔
سونل گپتا کا کہنا ہے کہ ’کینیڈین شہری بین الاقوامی طلباء کو ملک کی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار سمجھتے ہیں، تاہم ایسا بالکل نہیں ہے، طلبا لاکھوں روپے خرچ کر کے یہاں آتے ہیں اور مقامی لوگوں کو سہولیات فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔‘
بین الاقوامی طلباء کینیڈا کے انتخابات کو کیسے دیکھ رہے ہیں؟ اس کے جواب میں سونل کہتی ہیں کہ حالات بہتر ہوں یا نہ ہوں، وہ صرف اس امید پر دن گزار رہی ہیں کہ کچھ اچھا ہو گا۔
گریٹر ٹورنٹو ایریا میں بی بی سی کی ٹیم نے بریمپٹن میں شیریڈن کالج کے آس پاس کے محلے کا دورہ کیا۔
کینیڈا میں مقیم کچھ بین الاقوامی طلبا کی جدوجہد کا پہلا مظہر شیریڈن کالج تھا جو کسی زمانے میں بڑی تعداد میں انڈین اور خصوصاً پنجابی طلبا کا ٹھکانہ تھا لیکن اب نہیں ہے۔

کینیڈا میں ہاؤسنگ کی کمی کے اعدادوشمار
کینیڈا کو اس وقت رہائش کے بحران کا سامنا ہے۔ کینیڈین حکومت کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں تقریباً چار لاکھ مکانات کی کمی ہے۔
کینیڈا کے سکوٹیا بینک کی سنہ 2021 کی رپورٹ کے مطابق، کینیڈا میں دوسرے جی-7 ممالک کے مقابلے میں فی ایک ہزار رہائشیوں کی تعداد سب سے کم ہے۔
اعداد و شمار سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سنہ 2016 کے بعد سے آبادی کے مقابلے میں مکانات کی تعمیر کی رفتار میں کمی آئی ہے۔ سنہ 2016 میں ہر ایک ہزار کینیڈین کے لیے 427 گھروں کی تعمیر ہو رہی تھی، جو سنہ 2020 تک کم ہو کر 424 رہ گئی ہے۔
بریمپٹن کی ریئل سٹیٹ مارکیٹ سے وابستہ مِنکل بترا نے کہا: ’یہاں پر اس شرح سے مکانات نہیں بنائے گئے جس شرح سے کینیڈا کی آبادی بڑھی ہے جس کا براہ راست اثر مکانوں کی قیمتوں پر پڑ رہا ہے۔‘
منکل کہتے ہیں کہ ’کینیڈا میں گھر کا مالک ہونا اب ایک خواب بن گیا ہے اور پچھلے چند مہینوں میں گھروں کی قیمتوں میں 15سے 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔‘
اس کا کرائے کی مارکیٹ پر بھی گہرا اثر پڑا ہے، مکان کے کرائے پہلے کے مقابلے میں کم ہو گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے سرمایہ کاری کی امید سے گھر خریدنے والے لوگ اب قسطیں ادا کرنے سے قاصر ہیں۔

مہاجرین کی تعداد
کینیڈا کی امیگریشن، ریفیوجیز اینڈ سٹیزن شپ کی وزارت کی 2024 کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ پی آر حاصل کرنے کے ہدف میں 2019 کے مقابلے میں 41 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
غیرمستقل بنیادوں پر، یعنی پڑھائی یا کام کے لیے کینیڈا آنے والے لوگوں کا کوٹہ بھی بڑھ گیا ہے۔ اس کے ساتھ کینیڈا میں سیاسی پناہ حاصل کرنے والوں کی تعداد میں 126 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
کینیڈین حکومت کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو اس کے مطابق سنہ 2023 میں 6 لاکھ 82 ہزار 889 سٹڈی پرمٹ جاری کیے گئے۔ اور پھر سنہ 2023 میں 25 ہزار 605 بین الاقوامی طلبہ کو تعلیم مکمل کرنے کے بعد کینیڈین پی آر فراہم کیے گئے، جو کہ سنہ 2022 کے مقابلے میں 30 فیصد زیادہ ہے۔
سنہ 2023 میں 4,71,808 تارکین وطن کینیڈا پہنچے جو 2022 کے مقابلے میں 7.8 فیصد زیادہ تھے لیکن انتخابات کے پیش نظر کینیڈا کی حکومت نے حال ہی میں امیگریشن اور سٹوڈنٹ پرمٹ سے متعلق پالیسیوں میں بڑی تبدیلیاں کی ہیں، جس کی وجہ سے اب اعداد و شمار کم ہو گئے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
انتخابات میں مہنگائی، امیگریشن اور ٹیرف کے مسائل
کینیڈا میں 28 اپریل کو عام انتخابات کے لیے ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔ ان انتخابات میں امیگریشن اور ہاؤسنگ کا مسئلہ سب سے اہم ہے۔ مکانات کے علاوہ بڑھتی ہوئی مہنگائی، کم ہوتی ملازمتیں اور امریکہ کی طرف سے عائد ٹیرف کے اثرات بھی اہم مسائل ہیں۔
لبرل پارٹی سنہ 2015 سے کینیڈا میں برسراقتدار ہے اور اس لیے موجودہ حالات کے پیش نظر یہاں کی اہم اپوزیشن سیاسی جماعتیں کنزرویٹو، این ڈی پی، گرین پارٹی اور بلاک کیوبکوئس اس معاملے پر لبرل پارٹی کو نشانہ بنا رہی ہیں۔
خاص طور پر کنزرویٹو پارٹی کے لیڈر پیئر پوئیلیور اور این ڈی پی لیڈر جگمیت سنگھ اس معاملے پر کینیڈا کے موجودہ وزیر اعظم مارک کارنی سے وضاحت طلب کر رہے ہیں۔
لبرل پارٹی کے رہنما اور کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی کا بھی ماننا ہے کہ ’ملک میں ہاؤسنگ کا بحران ہے اور اگر وہ اقتدار میں آئے تو پانچ لاکھ نئے گھر بنوائیں گے۔‘
خیال کیا جاتا ہے کہ جسٹن ٹروڈو کو کینیڈا کی بگڑتی ہوئی معاشی حالت اور نرم امیگریشن پالیسیوں کی وجہ سے وزارت عظمیٰ کا عہدہ کھونا پڑا۔

مسی ساگا-مالٹن سیٹ سے موجودہ ایم پی اکویندر گہیر بھی اس سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’گذشتہ چند سالوں میں یہاں رہنے والوں کے لیے بہت سی وجوہات کی بنا پر زندگی مشکل ہو گئی ہے، خاص طور پر رہائش اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے۔ لیکن ان کی پارٹی کینیڈا کو بہتر بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔‘
ایڈووکیٹ ہرمندر سنگھ ڈھلوں گذشتہ 30 سالوں سے کینیڈا میں مقیم ہیں اور وہ ایک سماجی کارکن ہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ ’کینیڈا میں ہاؤسنگ کا بحران بہت بڑا ہے، خاص طور پر جب کہ گھروں کی قیمتیں سنہ 2018 سے سنہ 2022 تک دگنی ہو گئی ہیں جس سے 2025 کے وفاقی انتخابات میں ہاؤسنگ ایک نمایاں مسئلہ بن گیا ہے۔‘
انڈیا نژاد کچھ طالبعلموں نے بی بی سی پنجابی کو بتایا کہ امریکی ٹیرف کی وجہ سے بہت سے کاروبار متاثر ہوئے ہیں۔ جس کی وجہ سے نوکریوں میں کٹوتی ہو رہی ہے۔
یہ ان نوجوانوں کے لیے اور بھی بڑا بحران بنتا جا رہا ہے جو پہلے ہی بے روزگاری سے نبرد آزما ہیں۔
پنجابی بین الاقوامی طلبا کی ایک بڑی تعداد ٹرک چلانے کے شعبے میں کام کرتی ہے، کیونکہ پنجابیوں کا اس کاروبار پر غلبہ ہے۔
تاہم اب امریکی ٹیرف کا سب سے زیادہ اثر ٹرک کے کاروبار پر پڑ رہا ہے، جس کی وجہ سے بین الاقوامی طلبا جو ٹرک کے کاروبار میں تھے ان کے کام کے اوقات میں زبردست کمی کی جا رہی ہے جس سے آمدنی میں کمی آئی ہے اور مہنگائی کے اثرات مزید شدید ہو گئے ہیں۔
SOURCE : BBC