SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہX: @MEAIndia
- مصنف, محمد حنیف
- عہدہ, صحافی و تجزیہ کار
-
11 منٹ قبل
سنہ 2008 میں ممبئی حملوں کے بعد انڈیا اور پاکستان کی فوجیں آمنے سامنے تھیں۔ جب انڈیا نے پاکستان پر حملے کا ماحول بنایا تو افغان طالبان کی قیادت نے اعلان کیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنے سارے اختلافات بھول کر پاکستانی فوج کے ساتھ شانہ بشانہ لڑیں گے۔
جنگ ٹل گئی، اِس کے چند سال بعد جب ممبئی حملوں کے ملزم اجمل قصاب کو پھانسی دی گئی تو طالبان نے ایک بار پھر انڈیا سے بدلہ لینے کی دھمکی دی۔ پھر طالبان اپنی آزادی کی جنگ میں مصروف ہو گئے۔ جبکہ اُن کے پاکستانی طالبان بھائی پاکستان کو جمہوریت اور امریکہ کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے ہماری چھاؤنیوں، مسجدوں پر حملے کرتے رہے۔
اس جنگ میں ہمارے دل بٹے ہوئے تھے۔ ایک طرف ہمارا ایمان تھا جس کے مطابق طالبان حق پر تھے، غاروں سے اُتر کر آنے والے پاکباز مجاہد جو ہمیں اصلی اسلام سکھانے آئے تھے اور دوسری طرف ہماری ریاست اور اس کی فوج جو ہماری اور ہمارے بچوں کی حفاظت کی واحد ضمانت تھی۔ ہمارے فوجی طالبان کے ٹھکانوں پر اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر حملہ کرتے تھے تو جوابی حملوں میں طالبان بھی اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے تھے۔
ہمارا کنفیوژ ہونا فطری بات تھی۔ پھر ہم نے اپنے دلوں کی تسلی کے لیے اچھے اور بُرے طالبان میں تفریق شروع کی۔ مذاکرات کیے، امن معاہدے ہوئے۔ ہم نے سوات وادی اُن کے حوالے کر دی کہ چلو یہاں پر چھوٹی سے خلافت قائم کر لو۔ موجودہ وزیراعظم شہبار شریف نے طالبان سے اپیل کی کہ بس پنجاب پر حملے نہ کرو۔ طالبان نے سکول جاتی بچیوں کے منھ پر فائر کھولے، جب ملالہ بچ گئی تو بھی ہم نے کہا کہ یہ طالبان کر ہی نہیں سکتے کیونکہ اگر وہ کرتے تو پھر زندہ کیسے بچتی۔
پر جب اے پی ایس پشاور میں ہمارے بچوں کا قتل عام ہوا، ہم نے 150 سے زائد ننھے تابوت اٹھائے تو طالبان کا خوف ہماری ہڈیوں میں سرایت کر گیا، ہم نے بدلے کی ٹھانی، نیشنل ایکشن پلان بنایا، برسوں سے بند پھانسی گھاٹ کھولے، لیکن دل کے کسی گوشے میں، ریاست کی سکیورٹی پالیسی کی کسی شق میں اتنی گنجائش باقی تھی کہ طالبان رہنما احسان اللہ احسان کو اپنی حراست سے آزاد کروا کر بیرون ملک پہنچا دیا۔
پھر آخر دو دہائیوں کے بعد جب طالبان نے امریکہ کو افغانستان سے مار بھگایا اور کابل پر قابض ہوئے تو ایک دفعہ پھر ہمارے دلوں سے فتح مبین پر مبارکباد کی آوازیں نکلیں۔ ہمارے موجودہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے فرمایا تھا ’طاقتیں تمھاری ہیں اور خدا ہمارا ہے، اللہ اکبر۔‘
عمران خان نے غلامی کی زنجیریں ٹوٹنے کا مژدہ سنایا، آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید ایک فاتح کی طرح کابل پہنچے اور دنیا کے میڈیا کے سامنے کھڑے ہو کر کہا کہ اب سب ٹھیک ہو جائے گا۔

،تصویر کا ذریعہLindsey Hilsum
آج عمران خان جیل میں ہیں اور فیض حمید کورٹ مارشل کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ ہمارے وزیر دفاع آئے دن افغانستان کو سبق سکھانے کی دھمکی دیتے ہیں۔
اور اب حالیہ کشیدگی کے پس منظر میں انڈیا اور طالبان بانہوں میں بانہیں ڈال کر الفت کی ایک نئی منزل کی طرف گامزن ہیں۔ طالبان نے گُر سیکھ لیے ہیں اور اب وہ غاروں میں نہیں محلوں اور سرکاری دفتروں میں بیٹھتے ہیں۔ ابھی بچیوں کو سکول نہیں جانے دیتے لیکن غیرملکی خاتون اہلکاروں سے ملتے ہیں، مسکراتے بھی ہیں، فوٹو بھی کھنچوا لیتے ہیں۔ انڈیا سے دوستی ہو گئی تو جے شری رام کے نعروں پر بھی ہاتھ ہلا دیں گے۔
انڈیا کے ہمدرد دوست کبھی پوچھا کرتے تھے کہ پاکستان میں طالبانئیزیشن کو کیسے روکو گے۔ پاکستان کی کوشش ابھی جاری ہے۔ طالبان نے اپنی آزادی اپنے زورِ بازو پر حاصل کی ہے لیکن انڈیا میں اُن کے نئے دوستوں کو خیال رکھنا چاہیے کہ کل وہ آپ کو ہی آزاد کروانے نہ چل پڑیں۔
SOURCE : BBC