SOURCE :- BBC NEWS

بغیر مٹی کے زراعت

  • مصنف, بسمہ فاروق
  • عہدہ, بی بی سی اردو، نئی دہلی
  • 24 دسمبر 2024

انڈیا کے دارالحکومت دہلی کے رہائشی پیٹر سنگھ اور ان کی اہلیہ نینو کور نے اپنے گھر میں ہی 11 سال قبل سسٹنیبل فارمنگ کا ایک طریقہ اپنایا تھا۔

وہ ایک پانی والے ٹینک میں مچھلیاں پالتے ہیں اور پھر مٹی کے بغیر ان مچھلیوں کے فضلے سے پھل، پھول اور سبزیاں اگاتے ہیں۔ اس تکنیک کو ایکواپونیکس کہتے ہے اور یہ دونوں خود کو اربن فارمرز کہتے ہیں۔

اس کی وجہ سے جہاں ان کا گھر ہرا بھرا اور معتدل رہتا ہے وہیں انھیں اچھی خاصی آمدن بھی ہو جاتی ہے۔

پیٹر سنگھ اور نینو کور گذشتہ 11 سال سے بغیر مٹی کے کاشتکاری کر رہے ہیں

ایکواپونیکس کیا ہے؟

ایکواپونکس کاشتکاری کا ایک ایسا طریقہ ہے جس میں مچھلیوں کو پالنے کے تکنیک میں بغیر مٹی کے استعمال کے پودے اگائے جاتے ہیں۔

ایکواپونکس ایک ایسا نظام ہے جس میں مچھلیوں کے جمع کردہ فضلوں پر پھل پھول اور دیگر پودے اگائے جاتے ہیں۔ اس میں پودے اور مچھلیاں ایک دوسرے کی موجودگی سے باہمی طور پر فائدہ حاصل کرتے ہیں۔

مچھلی امونیا پیدا کرتی ہے، جسے فائدہ مند بیکٹیریا غذائی اجزا میں تبدیل کر دیتے ہیں جنھیں پودے جذب کر سکتے ہیں۔ بدلے میں، پودے پانی کو فلٹر اور صاف کرتے ہیں، جس سے مچھلی کے لیے صحت مند ماحول پیدا ہوتا ہے۔

پیٹر سنگھ اور نینو کور کے گھر میں بھی مچھلی کے بڑے بڑے ٹینک نظر آتے ہیں، جو ان کے ایکواپونیکس نظام کی لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے 10,000 سے 15,000 کے درمیان پودے اگا رکھے ہیں اور ہم اس کے لیے مٹی کا بالکل بھی استعمال نہیں کرتے ہیں۔‘

پیٹر اور نینو مچھلیوں کے فضلے سے ورٹیکل فارمنگ کے ذریعے ساگ سبزیاں اور پھل اگاتے ہیں۔ اس تکنیک سے کم جگہ میں زیادہ پودے لگائے جا سکتے ہیں۔

وہ اپنے گھر کے باورچی خانے کے کوڑے کچڑے یا ضائع سامان کو بھی کھاد بنانے میں استعمال کرتے ہیں۔

انھوں نے بارش کے پانی کو دوبارہ استعمال کرنے کے لیے بھی ایک منفرد نظام تیار کیا ہے۔ ان کا گھر نہ صرف سانس لینے کے لیے صاف ہوا فراہم کرتا ہے بلکہ جب شدید گرمیوں میں دلی میں درجۂ حرارت 50 کو چھو رہا ہوتا ہے تو ان کے گھر میں 25 ڈگری درجۂ حرارت کا ہی احساس ہوتا ہے۔

ورٹیکل فارمنگ کا رواج بڑھ رہا ہے

پیٹر اور نینو نے ایکواپونیکس کو کیوں اپنایا؟

پائیدار مستقبل کی طرف ان کا سفر اس وقت شروع ہوا جب نینو کور کو سنہ 1998 میں کرونک لیمفوسیٹک لیوکیمیا (خون کے کینسر کی ایک قسم) کی تشخیص ہوئی۔

70 سالہ نینو کور کہتی ہیں کہ ’2010 میں گوا سے دلی واپس آنے پر میرے پھیپھڑے متاثر ہوئے، حالانکہ اس وقت دہلی کی ہوا اتنی خراب نہیں تھی۔‘

بیماری کو شکست دینے کے لیے ان کی ہمت اور ان کے شوہر کی محنت آج تک ان کی مدد کر رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’جو کھانا ہم کھاتے ہیں اسے اگانے کا ہم جذبہ بھی رکھتے ہیں۔‘

اس سے ان کی اچھی خاصی آمدنی بھی ہو جاتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اپنی کاشت کا کچھ حصہ فروخت بھی کرتے ہیں جس سے انھیں مہینے میں اوسطا 30 ہزار روپے کی آمدن ہوتی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ان کا ایک واٹس ایپ گروپ ہے اور اسی کے ذریعے انھیں خریدار مل جاتے ہیں۔ وہ ہر ہفتے سنیچر کے روز لوگوں کی مانگ پر دستیاب سبزیاں ان کے گھروں تک پہنچاتے ہیں۔

اگر ان کی طرح کوئی اپنے گھروں میں بھی اس نظام کے تحت سبزیاں اگانا چاہے تو اسے کیا کرنا ہوگا۔

اس سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ اس نظام کو نصب کرنے میں تقریباً چھ لاکھ انڈین روپے درکار ہوں گے۔ اس کے لیے آپ کو ٹینک بنوانے اور خریدنے ہوں گے، اگزاسٹ فینز لگانے ہوں گے۔ ایک ایسا ماحول تیار کرنا ہوگا جہاں مچھلیاں پالی جا سکیں اور پھر ان کے فضلہ جمع کرکے ان میں پودے لگائے جا سکتے ہیں۔

پیٹر نے بات چیت کے دوران بتایا کہ اس کے لیے ’ایک ایگزاسٹ فین ہوا کو کھینچتا ہے، جو ہوا سے آلودگیوں کو ہٹا کر فلٹر کرتا ہے اور اسے ٹھنڈا بھی کرتا ہے۔ یہ ہوا گرین ہاؤس کے ذریعے گردش کرتی ہوئی وہاں جاتی ہے جہاں پودے اسے آکسیجن دیتے ہیں، اور اس طرح صاف آکسیجن والی ہوا گھر میں رہتی ہیں۔‘

زراعت

کیا ایکواپونیکس قابل عمل طریقہ ہے؟

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

ڈاکٹر رینو پانڈے انڈین ایگریکلچر رسیرچ انسٹی ٹیوٹ میں سائنسدان ہیں اور شعبۂ فیزیولوجی کی سربراہ ہیں۔ وہ اسے ’واٹر اکانومی‘ سے تعبیر کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ایکواپونیکس ایک ایسا طریقہ ہے جس میں ہم پانی کا دوبارہ استعمال کرتے ہے اور پودوں کو دیتے ہیں۔ غذائی اجزاء براہ راست پودوں کی جڑوں کو ملتے ہیں اور یہ مٹی میں جذب ہوکر ان تک نہیں پہنچتے۔ اس طرح مٹی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا خطرہ کم رہتا ہے اور اس نظام کے تحت اگنے والی سبزی یا پھل کا معیار بھی اچھا ہوتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہمیں ایکواپونیکس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کیونکہ زرعی اور کاشتکاری کے لائق زمینیں دنیا بھر میں ہر جگہ کم ہو رہی ہیں۔ اور آبادی ہر جگہ بڑھ رہی ہے، مستقبل میں زمین نہیں بچے گی تو لوگ زمین پر کھیتی نہیں کر پائیں گے۔‘

وہ مشورہ دیتی ہیں کہ ’گھروں کی بالکنیوں، یا کسی کمرے میں یا کسی بھی چھوٹی سی جگہ میں اپنے لیے سبزی اگا سکتے ہے، بس اس کے لیے تکنیکی علم ہونا چاہیے۔‘

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’اگر عالمی سطح پر اس تکنیک کو اپنایا جاتا ہے تو اس سے شہری علاقوں پر ایک مثبت اثر پڑے گا۔ لیکن اس تکنیک سے بغیر موسم کی سبزیاں اگا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے آپ کو درجۂ حرارت کو برقرار رکھنا پڑے گا۔‘

مچھلی کے ٹینک کے ساتھ سبزی کو آپ دیکھ سکتے ہیں

ماحول دوست طریقہ

صنعت و تجارت کی تنظیم ایسوچیم اور ارنسٹ اینڈ ینگ کی سنہ2019 ایک رپورٹ کے مطابق انڈیا میں نامیاتی مصنوعات کی مارکیٹ 25 فیصد کی سالانہ شرح سے بڑھ رہی ہے۔ چونکہ ایکواپونیکس نامیاتی مارکیٹ کا ایک حصہ ہے، اس لیے زراعت کے اس نئے دور کا مستقبل روشن نظر آتا ہے۔

پیٹر سنگھ اور نینو کور آن لائن کورسز بھی کراتے ہیں تاکہ دوسروں کے ساتھ مستحکم مستقبل کے طریقے کے بارے میں معلومات شیئر کر سکیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’ہماری کالونی میں کوڑا اکٹھا کرنے والا ایک بار حیران ہو کر کہنے لگا کہ ’آپ کے گھر سے تو کوڑا ہی نہیں نکلتا، پھر میں نے اسے دکھایا کہ ہم کوڑے کا کیا کرتے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اگر ہر کوئی ایسا کرے تو ہماری زندگی بہتر ہو جائے گی۔‘ وہ بتاتے ہیں کہ اب وہ کوڑے والا کالونی سے پتے جمع کرتا ہے اور جلانے کے بجائے ہمیں دیتا ہے، تاکہ ہماری بنائی ہوئی کھاد میں انھیں ڈالا جاسکے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم جنگلات کاٹتے ہیں اور کنکریٹ کے مکانوں میں اے سی کا استعمال کرتے ہیں جو اندر کی ہوا کو ٹھنڈا تو کرتی ہے لیکن باہر گرم ہوا پھینکتی ہے۔ ہم اس معاملے میں حکومت کی طرف نہ دیکھیں۔ اگر یہ ہمارا ویسٹ ہے تو ہمیں خود اس کا انتظام کرنا چاہیے! ہم دونوں شہری کسان ہیں۔ ہم صحت مند ہیں، خوش ہیں اور ہمیں کسی دوا کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ اگر ہم ماحول کو نقصان پہنچائے بغیر زندگی گزار سکتے ہیں تو دوسرے بھی ایسا کر سکتے ہیں۔ ہمیں وہ تبدیلی خود میں لانی چاہیے جو ہم ماحول میں دیکھنا چاہتے ہیں۔‘

SOURCE : BBC