SOURCE :- BBC NEWS
ایک گھنٹہ قبل
اس قتل میں سردمہری اور پیشہ وارانہ مہارت کی تمام نشانیاں تھیں۔
بینکاک کی ایک مشہور عبادت گاہ کے قریب اور تاریخی حیثیت رکھنے والے علاقے میں ایک شخص کو سکیورٹی کیمرا کی ویڈیو میں اپنا بائیک پارک کرتے اور اپنا ہیلمٹ اتارتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے تاکہ اس کا چہرہ واضح طور پر دکھائی دے اور پھر وہ انتہائی اطمینان سے سڑک پار کرتا ہے۔
کچھ ہی لمحوں بعد گولیاں چلنے کی آواز آتی ہے۔
ایک شخص زمین پر گِر جاتا ہے۔ قتل کرنے والا تیزی سے چلتے ہوئے اپنی موٹر بائیک کی جانب بڑھتا ہے اور اس دوران بظاہر زمین پر کچھ پھینکتا ہے اور موٹر سائیکل چلا کر وہاں سے چلا جاتا ہے۔
ہلاک ہونے والے شخص کوئی اور نہیں بلکہ 73 سالہ سابق پارلیمانی لیڈر لم کمیا تھے جن کا تعلق مرکزی کمبوڈین اپوزیشن جماعت سی این آر پی سے تھا۔ اس جماعت پر سنہ 2017 میں پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
تھائی لینڈ کی پولیس کے مطابق انھیں سینے پر دو گولیاں لگی تھیں۔ وہ کچھ ہی دیر پہلے اپنی اہلیہ کے ہمراہ کمبوڈیا سے ایک بس پر بینکاک آئے تھے۔
ایک پولیس افسر نے ان کے قریب جا کر ان کی سانسیں بحال کرنے کی کوشش کی لیکن وہ موقع پر ہی مردہ قرار دے دیے گئے۔
سی این آر پی کے رہنما کیم سوکھا کی بیٹی مونووتھیا کیم نے بی بی س کو بتایا کہ ’وہ ایک بہادر اور آزاد ذہن کے مالک شخص تھے۔ کمبوڈین ریاست کے علاوہ انھیں کوئی اور ہلاک نہیں کرنا چاہتا ہو گا۔’
لم کمیا کے پاس فرانس اور کمبوڈیا کی دہری شہریت تھی لیکن انھوں نے کمبوڈیا میں رہنے کا فیصلہ کیا، حالانکہ ان کی جماعت نے ان سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔
کمبوڈیا نیشنل ریسکیو پارٹی (سی این آر پی) دو سابقہ اپوزیشن جماعتوں سے مل کر بنی تھی اور سنہ 2013 میں یہ طاقتور رہنما ہن سین کی جماعت کو شکست دینے کے قریب تھی جنھوں نے 40 برس تک کمبوڈیا پر حکومت کی اور پھر سنہ 2023 میں اپنے بیٹے ہن مانیٹ کو جماعت باگ ڈور تھما دی۔
سنہ 2013 کے انتخابات میں بہت کم مارجن سے جیتنے کے بعد سے ہن سین نے سی این آر پی پر غداری کا الزام عائد کیا اور اس پر پابندی عائد کرتے ہوئے اس کے اراکین کو مختلف طریقوں سے ہراساں کیا گیا۔
سنہ 2023 میں کیم سوکھا، جنھوں نے پہلے ہی چھ برس نظربندی میں گزارے تھے، کو 27 سالہ قید کی سزا سنا دی گئی۔
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
یوں تو مقبول شخصیات کے قتل کی مثالیں ماضی میں کم ملتی ہیں لیکن ایسے واقعات گذشتہ دہائی کے دوران بھی ہو چکے ہیں۔
سنہ 2016 میں ہن سین کے مقبول ناقد کیم لے کو پنوم پن میں ہلاک کیا گیا تھا جبکہ سنہ 2012 ماحولیاتی کارکن چٹ وٹی کو بھی قتل کیا گیا تھا۔
سکیورٹی کیمرا کی ویڈیو سے تھائی لینڈ کی پولیس نے لم کمیا کے قاتل کی شناخت کر لی جو ایک سابق تھائی نیوی افسر تھے جو اب ایک موٹر بائیک ٹیکسی ڈرائیور کے طور پر کام کرتے ہیں۔
ان کو ڈھونڈنا اتنا مشکل نہیں ہو گا۔
تاہم اس قتل کی مکمل تحقیقات کی جاتی ہیں یا نہیں یہ ایک مختلف معاملہ ہے۔
حالیہ سالوں میں درجنوں سماجی کارکن جنھیں کمبوڈیا، ویتنام، لاؤس اور تھائی لینڈ میں جبر سے بچنے کے لیے پناہ حاصل کرنے کے لیے دیگر ممالک میں جاتے رہے ہیں اور کئی مرتبہ انھیں وہاں ہلاک کیا گیا ہے یا اغوا کر دیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا ماننا ہے کہ چاروں ممالک کے درمیان ایک خاموش معاہدہ ہے جو سکیورٹی فورسز کو اپنی سرحدوں سے باہر بھی تنقید کرنے والوں کا پیچھا کرنے کی اجازت دیتی ہے۔
گذشتہ نومبر کو تھائی لینڈ نے چھ کمبوڈین ناقدین کو واپس کمپوڈیا بھیج دیا تھا جہاں انھیں فوری طور پر قید ہو گئی تھی۔
ان سب کو اقوامِ متحدہ نے پناہ گزینوں کا درجہ دیا ہے۔ سال کے آغاز میں تھائی لینڈ نے ایک ویتنامی سماجی کارکن کو واپس ویتنام بھیج دیا تھا۔
ماضی میں تھائی لینڈ سے تعلق رکھنے والے شاہی خاندان کے مخالف سماجی کارکنوں کو لاؤس میں اغوا کیا گیا اور اس حوالے سے بظاہر تھائی سکیورٹی فوسرز پر ذمہ داری عائد کی جاتی رہی ہے۔
سنہ 2020 میں ایک نوجوان تھائی سماجی کارکن جو کمبوڈیا سے فرار ہو گئے تھے کو اغوا اور لاپتہ کر دیا گیا، اس مرتبہ بھی اس کی ذمہ داری بظاہر تھائی سکیورٹی فورسز پر ہی عائد کی گئی۔
کمبوڈیا کے حکام نے اس حوالے سے تحقیقات کرنے کی کوشش نہیں کی اور گذشتہ سال اعلان کیا کہ انھوں نے مقدمے پر تحقیقات ختم کر دی ہیں۔
یہ ممکن ہے کہ لم کمیا کے کیس میں بھی ایسا ہی کیا جائے۔ ایشیا ہیومن رائٹس اینڈ لیبر ایڈووکیٹس تھائی لینڈ کے ڈائریکٹر فل رابرٹسن کہتے ہیں کہ ‘تھائی لینڈ کی جانب سے قیدیوں کے تبادلے کے نظام رائج کیا گیا ہے۔
‘ناقدین اور پناہ گزینوں کے تبادلے ہمسایہ ممالک سے سیاسی اور معاشی فائدوں کے لیے کیے جاتے ہیں۔ اس پریکٹس کو جلد روکنے کی ضرورت ہے۔’
جب برطانیہ اور امریکہ سے پڑھ کر آنے والے ہن مانیٹ نے کمبوڈیا کے وزیرِاعظم کے طور پر اپنے والد کی جگہ لی تو یہ امید ظاہر کی جا رہی تھی کہ وہ نرمی کا مظاہرہ کریں گے، تاہم اب حذبِ اختلاف کے لوگوں کو جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے اور ان کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے اور پہلے اب سیاسی مخالفین کے لیے پہلے سے بھی کم جگہ باقی رہ گئی ہے۔
تھائی لینڈ جس نے اس سال اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی نشست کے لیے لابنگ کی اور جیت لیا، اب یہ ظاہر کرنے کے لیے دباؤ میں آئے گا کہ وہ اپنے دارالحکومت کی سڑکوں پر اس طرح کے ڈھٹائی کے قتل کے پیچھے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لا سکتا ہے۔
SOURCE : BBC