SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہAHMAD GHARABLI/AFP via Getty Images
2 گھنٹے قبل
ایران اور اسرائیل کے درمیان حملوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے جس کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب اسرائیل نے ایران کی متعدد جوہری تنصیبات پر فضائی حملے کیے تھے۔ ان کے جواب میں ایران نے بھی میزائل حملے کیے جن میں سے کچھ اسرائیل کے میزائل شکن دفاعی نظام، بشمول آئرن ڈوم، کو مات دیتے ہوئے رہائشی علاقوں تک پہنچ گئے۔
ایران کی وزارت صحت کے مطابق جمعے سے اب تک اسرائیلی حملوں میں 224 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ دوسری جانب اسرائیل میں ہلاکتوں کی تعداد 24 تک پہنچ چکی ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ ایران کے حملوں میں ہلاک ہونے والوں میں تل ابیب، حیفہ اور دیگر شہروں کے رہائشی شامل ہیں۔ واضح رہے کہ ایران کے حملوں میں اسرائیل کے دو بڑے شہروں تل ابیب اور حیفہ کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔ اس سے قبل ایران کے سرکاری ٹی وی نے اطلاع دی تھی کہ تل ابیب، حیفہ اور دیگر اسرائیلی شہروں پر درجنوں ایرانی میزائلوں اور ڈرونز سے حملہ کیا گیا ہے۔
حیفہ اسرائیل کا شمالی ساحلی شہر ہے جہاں ایک بڑی بندرگاہ اور تیل صاف کرنے کا کارخانہ بھی واقع ہیں۔ آئیے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسرائیلی شہر حیفہ کو نشانہ بنانے کے پیچھے کیا وجوہات ہیں اور اس شہر کا انڈیا سے کیا خاص تعلق ہے۔
حیفہ اسرائیل کے لیے اتنا اہم کیوں ہے؟
اسرائیل کے امور کے ماہر سینئر صحافی ہریندر مشرا اس وقت یروشلم میں ہیں۔
بی بی سی کے نامہ نگار ابھے کمار سنگھ سے بات کرتے ہوئے وہ اسرائیل کے لیے حیفہ کی اہمیت اس طرح بتاتے ہیں کہ ’حیفہ اسرائیل کا تیسرا بڑا شہر ہے اور اسرائیل کے شمالی حصے میں واقع یہ شہر نہ صرف آبادی کے لحاظ سے بلکہ اقتصادی نقطہ نظر سے بھی بہت اہم ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اس شہر میں ہائی ٹیک کمپنیاں بھی موجود ہیں۔ مائیکروسافٹ ہو، گوگل ہو یا انٹیل، تمام ہائی ٹیک کمپنیوں کے دفاتر حیفہ میں ہیں۔‘
’حیفہ میں اسرائیل کی سب سے بڑی آئل ریفائنری بھی ہے، جو اس شہر کے معاشی کردار کو اور بھی اہم بناتی ہے۔‘
حیفہ آئل ریفائنری پر ایرانی حملے کی تصدیق

،تصویر کا ذریعہAHMAD GHARABLI/AFP via Getty Images
سوموار کو بی بی سی نے ایک ویڈیو کی تصدیق کی جس میں حیفہ آئل ریفائنری سے دھواں اٹھتے دیکھا جا سکتا ہے۔
ویڈیو میں اس علاقے سے دھوئیں کے بادل اٹھتے ہوئے نظر آ رہے ہیں جہاں اسرائیل کی سب سے بڑی آئل ریفائنری واقع ہے۔ یہ ویڈیو ایران کے حملوں کے بعد کی ہے۔
بی بی سی نے ویڈیو سے حاصل ہونے والے کئی فریمز کی ریورس امیج سرچ کی اور انھیں دیگر تصاویر سے بھی ملا کر دیکھا، جس سے تصدیق کی گئی کہ ریفائنری پر واقعی حملہ کیا گیا تھا۔
اس کے بعد بی بی سی نے ویڈیو میں نظر آنے والی اہم خصوصیات اور ایجنسی کی تصاویر کا گوگل ارتھ اور علاقے کی پرانی فوٹیج سے موازنہ بھی کیا۔
اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق ریفائنری کو چلانے والے بازان گروپ نے کہا ہے کہ اسے رات کے وقت ایرانی میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا جس سے پائپ لائنوں اور ٹرانسمیشن لائنوں کو نقصان پہنچا۔
بازان گروپ کا یہ بھی کہنا تھا کے آئل ریفائنری کا کام جاری ہے تاہم سائٹ کے دیگر حصوں کو بند کر دیا گیا ہے۔
آئل ریفائنری کے علاوہ حیفہ میں اسرائیل کی اہم بندرگاہ بھی ہے جو اس شہر کو کئی لحاظ سے اہم بناتی ہے۔
ہریندر مشرا کہتے ہیں کہ ’حیفہ کی بندرگاہ بہت اہم ہے۔ وہاں سے بہت سا سامان آتا اور جاتا ہے۔ اور اگر ہم تاریخی نقطہ نظر سے دیکھیں تو اسرائیل کا بیرونی دنیا سے پہلا رابطہ اسی شہر سے قائم ہوا تھا۔‘

،تصویر کا ذریعہUniversal Images Group via Getty Images
حیفہ میں ایک بندرگاہ انڈیا سے تعلق رکھنے والے اڈانی گروپ نے 2023 میں حاصل کی تھی جس کے مالک گوتم اڈانی انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی سے قریبی تعلقات رکھتے ہیں اور انھیں ایشیا کے امیر ترین افراد میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس بندرگاہ کا 70 فیصد حصہ اڈانی گروپ کے پاس ہے، جب کہ 30 فیصد اسرائیل کے ایک کاروباری گروپ کے پاس ہے۔
ہریندر مشرا کہتے ہیں کہ ’تقریباً چار لاکھ کی آبادی والے اس شہر کو بقائے باہمی کا نمونہ بھی سمجھا جاتا ہے۔‘
’یہاں عربوں کی کافی آبادی ہے، جن میں مسلمان اور عیسائی دونوں شامل ہیں۔ یہاں بہائی برادری کے لیے ایک مذہبی مقام بھی ہے۔ جس طرح دہلی میں لوٹس ٹیمپل ہے، اسی طرح یہاں ایک بہائی گارڈن بھی ہے۔‘
حیفہ میں بہائی ورلڈ سینٹر بھی ہے، جو یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے۔
صرف تل ابیب اور حیفہ ہی کیوں ہدف ہیں؟
کیا یہ ممکن ہے کہ ایران حیفہ کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے نشانہ بنا رہا ہو؟
اس پر ہریندر مشرا کہتے ہیں کہ ’میرا ماننا ہے کہ ایران ان شہروں کو نشانہ بنا رہا ہے جو سب سے زیادہ سٹریٹجک اور اقتصادی اہمیت کے حامل ہیں۔ یروشلم کو آج تک چھوا نہیں گیا کیونکہ یہ بہت سے مذاہب کا مقدس مقام ہے۔‘
ان کا دعوی ہے کہ ایران کے میزائل زیادہ تر رہائشی علاقوں پر گرے ہیں۔ ’اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اب تک زیادہ تر میزائلوں کو روکا جا چکا ہے، لیکن 10-12 میزائل رہائشی علاقوں میں گرے جس سے بھاری نقصان ہوا۔‘
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ حیفہ اور تل ابیب جیسے شہر گنجان آباد ہیں اور ’انھیں اسرائیلی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے۔‘
’یروشلم بھی گنجان آباد ہے، لیکن وہاں مذہبی مقامات ہیں، اس لیے شاید ایران نے اسے ابھی تک نشانہ نہیں بنایا ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہAnadolu via Getty Images
حیفہ کے ساتھ انڈیا کا تاریخی تعلق
انڈیا اور حیفہ کے تعلقات کی بات کریں تو اس کی جڑیں سال 1918 کی ایک تاریخی کہانی سے جڑی ہوئی ہیں۔
پہلی جنگ عظیم کے دوران، برطانیہ کی جانب سے لڑنے والے ہندوستانی گھڑسوار دستوں نے حیفہ شہر میں ترکی، جرمنی اور آسٹریا ہنگری کی مشترکہ افواج کو شکست دینے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
ہریندر مشرا کا کہنا ہے کہ اس تاریخ کو اسرائیل میں شہرت ملی ہے۔ ’یہ تاریخ حیفہ کے سکولوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ اگر آپ بچوں سے پوچھیں کہ ’حیفہ کا ہیرو‘ کون ہے تو وہ میجر دلپت سنگھ کا نام لیں گے۔‘

،تصویر کا ذریعہTHE IMPERIAL WAR MUSEUM
اس جنگ میں جودھ پور لانسرز کے کمانڈر میجر دلپت سنگھ ہلاک ہوئے تھے اور بعد میں انھیں برطانیہ کے عسکری اعزاز ملٹری کراس سے نوازا گیا۔
اس جنگ میں 44 ہندوستانی فوجی برطانوی حکومت کی جانب سے لڑتے ہوئے ہلاک ہو گئے تھے جسے تاریخ میں گھڑسوار فوج کی آخری بڑی لڑائی کی مثال کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔
ہریندر کا کہنا ہے کہ ’انڈین سفارت خانہ اور حیفہ میونسپلٹی ہر سال ایک ساتھ یوم حیفہ مناتے ہیں۔ جب وزیر اعظم نریندر مودی یہاں آئے تھے تو وہ بھی وہاں گئے تھے اور ہندوستانی فوجیوں کو خراج تحسین پیش کیا تھا۔‘
دلی میں واقع تین مورتی چوک کا نام بدل کر کچھ عرصہ قبل تین مورتی حیفہ چوک کر دیا گیا تھا۔ سال 2018 میں اس سلسلے میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے بھی شرکت کی تھی۔
SOURCE : BBC