SOURCE :- BBC NEWS

ایران

،تصویر کا ذریعہABEDIN TAHERKENAREH/EPA-EFE/Shutterstock

56 منٹ قبل

اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملوں کے بعد تہران کی جانب سے جوابی کارروائی کی گئی جس کے بعد سے اب تک دونوں ممالک ایک دوسرے پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسرائیلی حکام کے مطابق اب تک ایرانی حملوں میں کم از کم 10 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ ایرانی میڈیا کی خبروں کے مطابق اسرائیلی حملوں میں 128 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

تہران میں بی بی سی فارسی سے بات کرتے ہوئے مقامی شہریوں نے بتایا کہ وہ نہیں جانتے کہ اس وقت کیا کریں اور کیسے ردعمل دیں۔

ایک خاتون نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ دو راتوں سے سو نہیں پائی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حالیہ صورت حال نے ان کو 1980 کی دہائی میں ہونے والی ایران عراق جنگ کی یاد دلائی ہے جب وہ بہت چھوٹی تھیں۔ انھیں یاد ہے کہ اس وقت بھی انھیں بمباری سے بچنے کے لیے پناہ گاہوں میں جانا پڑتا تھا۔

’فرق یہ ہے کہ اس وقت جب حملہ ہوتا تھا تو سائرن بجتا تھا یا کم از کم پیشگی خبردار کر دیا جاتا تھا۔ لیکن اس بار ہونے والی بمباری سے پہلے کوئی سائرن نہیں بجتا، پیشگی خبردار نہیں کیا جاتا۔‘

’ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے حکام کو ہماری جانوں کی پرواہ نہیں ہے۔‘ لیکن وہ لوگ جو ایران عراق جنگ کے بعد پیدا ہوئے، ان کے لیے یہ ایک ایسی صورت حال جس کا تجربہ وہ پہلی بار کر رہے ہیں۔

تہران کے ایک اور رہائشی نے بتایا کہ ’مجھے پیٹرول کی تلاش میں بہت دور جانا پڑتا ہے کیوں کہ ہر جگہ طویل قطاریں ہیں۔‘ شہر میں رہنے والے کچھ رہائشی نقل مکانی بھی کر رہے ہیں۔

تہران

،تصویر کا ذریعہABEDIN TAHERKENAREH/EPA-EFE/Shutterstock

تہران میں انٹرنیٹ کی فراہمی بھی متاثر ہوئی ہے اور بی بی سی فارسی کے نامہ نگار کے مطابق ملک میں لوگوں کے لیے ایک دوسرے سے رابطہ قائم رکھنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

تہران کی ایک رہائشی خاتون نے بتایا کہ انھوں نے حملوں سے بچنے کے لیے شہر سے باہر جانے پر غور کیا۔ ’ہم چاہتے تھے کہ کسی چھوٹے شہر یا کسی دیہاتی علاقے میں چلے جائیں لیکن ہر کسی کے ایسے عزیز ہیں جنھیں چھوڑ کر نہیں جایا جا سکتا۔ ہمارے ساتھ یہ ناانصافی ہے، ایران کے لوگوں کے ساتھ۔‘

انھوں نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ایرانی لوگ ’منجمند‘ ہو چکے ہیں۔ ایک اور شہری نے کہا کہ ’میں تہران کو نہیں چھوڑ سکتا۔ میں اپنے بوڑھے والدین کو نہیں چھوڑ سکتا جو زیادہ طویل سفر نہیں کر سکتے۔ اور مجھے کام پر بھی جانا ہوتا ہے۔ اب میں کیا کروں؟‘

ایران میں بہت سے لوگوں کو اسرائیلی فوج کی جانب سے بھی انتباہی پیغامات موصول ہو رہے ہیں جن میں ان سے کہا جا رہا ہے کہ وہ عسکری تنصیبات کے قریبی علاقوں کو خالی کر دیں۔ تہران میں رہنے والوں کے لیے یہ ایک پریشان کن صورت حال ہے۔

ایک شہری نے کہا کہ ’ہاں، میں نے ایسا پیغام دیکھا ہے لیکن ہمیں کیسے معلوم ہو گا کہ عسکری تنصیبات کہاں ہیں اور کہاں نہیں؟‘

واضح رہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے ایک بیان میں ایرانی عوام سے کہا تھا کہ وہ حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ تاہم اس وقت ایران میں لوگوں کے لیے اپنی حفاظت پہلی ترجیح ہے اور بی بی سی فارسی نامہ نگار کے مطابق ایسے شواہد نہیں دکھائی دیے کہ نتن یاہو کے پیغام کا لوگوں پر کسی قسم کا کوئی اثر ہوا ہے۔

ایران

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایرانی حکومت کا بیانیہ

تاہم ایران میں جس پیش رفت نے لوگوں کو چونکا دیا وہ رہائشی عمارات کی تباہی تھی۔ بی بی سی نامہ نگار کے مطابق عوام اور حکومت دونوں کو ہی اس کی توقع نہیں تھی۔

بہت سے ایرانیوں نے ملبے تلے دبے بچے کی ہلاکت یا گلی میں مٹی سے اٹے کھلونوں کے مناظر ایران اور عراق کی جنگ کے بعد نہیں دیکھے تھے، خصوصا ایران کے دارالحکومت میں۔

تہران میں ہونے والے حملے کے بعد بہت سے لوگوں نے یہ سوال کیا کہ اصل میں کیا ہوا ہے اور کتنے بڑے پیمانے پر؟ یہ سوال بھی سب کے ذہنوں میں گردش کر رہا تھا کہ وہ خود کو اور اپنے خاندانوں کو کیسے بچا سکتے ہیں۔

ایرانی حکام یہ وضاحت دینے میں ناکام رہے ہیں کہ ملک کا فضائی دفاعی نظام اتنا غیر موثر کیوں تھا کہ چند گھنٹوں میں اسرائیل اہم اہداف کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوا۔

جمعہ اور ہفتے کے دن تک کسی ایرانی اعلی عہدیدار کی جانب سے معلومات یا وضاحت فراہم نہیں کی گئیں جس سے لوگوں کو یہ بات سمجھ آ سکتی کہ وہ کیا کریں۔ بہت سے لوگ یہ سوال کر رہے تھے کہ کیا ان کا ملک اب جنگی صورت حال میں ہے۔

ایرانی ٹی وی پر نظر آنے والے تقریبا تمام حکام نے یہ تاثر دیا کہ جیسے ’کچھ بڑا‘ نہیں ہوا اور ان کا اصرار تھا کہ حالات کنٹرول میں ہیں اور تمام شہر محفوظ ہیں۔ حکام نے یہ وضاحت نہیں دی کہ اسرائیلی طیارے کیسے آزادانہ طور پر تہران اور دیگر شہروں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔

دوسری جانب ایران کے رہبر اعلی کی جانب سے دو بیانات جاری ہونے کے بعد سرکاری پروگرامز میں ایک ’سخت انتقام‘ کی بات ہونے لگی تھی۔ اپنے ویڈیو پیغام میں آیت اللہ خامنہ ای نے اعلان کیا تھا کہ ’ایرانی افواج قوت سے صیہونی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں گی۔‘

ایران

،تصویر کا ذریعہWANA/Reuters

جمعے کے دن ہی ایرانی بیلسٹک میزائل تل ابیب کی جانب داغے گئے اور ایرانی میڈیا نے یہ مناظر دکھانا شروع کر دیے تھے۔ ان مناظر کے ساتھ ساتھ ماہرین نے ٹی وی پر انٹرویوز میں دعوی کیا کہ کیسے ایرانی میزائلوں نے اسرائیلی فضائی دفاع کو ناکام بنایا اور ایک ’سبق آمیز ردعمل‘ دیا۔

اس طرح سے ’فتح کا بیانیہ‘ بنایا گیا اور تل ابیب میں بجنے والے سائرن کو ’خوف کی علامت‘ کے طور پر دکھایا گیا۔ دوسری جانب ایران میں نتنز، اصفحان اور فردو میں موجود فضائی اڈے اور جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملے بھی جاری تھے اور تہران پر ڈرون اڑ رہے تھے۔

کچھ لوگ پیٹرول کی تلاش میں نکلے جو شاید شہر سے نکلنا چاہتے تھے جبکہ دیگر تیل اور دیگر ضروریات زندگی کی اشیا خریدنے کی کوشش کر رہے تھے۔

چند ہی گھنٹوں بعد ایرانی وزیر داخلہ نے سرکاری میڈیا پر اعلان کیا کہ ’لوگ پرسکون رہیں، صرف سرکاری ذرائع پر اعتماد کریں، غیر ضروری سفر سے گریز کریں اور ایمرجنسی سروسز سے تعاون کریں۔‘ لیکن ان بیانات کو ایک مطالبے کے طور پر دیکھا گیا۔

یاد رہے کہ ایران میں پاسداران انقلاب کے متعدد سینئر کمانڈروں اور جوہری سائنسدانوں کی ہلاکت کے اعلانات کے علاوہ محدود معلومات ہی سامنے آ سکی ہیں جن میں عسکری اور جوہری تنصیبات پر حملوں کے ساتھ ساتھ مقامی گورنرز کی جانب سے عام شہریوں کی ہلاکت کی اطلاعات شامل ہیں۔

مقامی خبر رساں اداروں میں حکام کے ایسے بیانات کی بھرمار تھی جن میں اس بیانیے کی جھلک موجود تھی کہ ایران اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر جوابی کارروائی کرے گا۔

لیکن ان خبروں اور بیانات کے بیچ یہ اہم سوال اب بھی موجود ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر اسرائیلی حملے کیسے ممکن ہوئے اور اب تک حقیقت میں کتنے اعلی عہدیداران اور سائنسدان ہلاک ہو چکے ہیں؟ کتنے عام شہریوں کی جانیں جا چکی ہیں اور نقصانات کیا ہیں؟

SOURCE : BBC