SOURCE :- BBC NEWS

پی آئی اے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, عماد خالق، حمیرا کنول
  • عہدہ, بی بی سی اردو
  • 30 نومبر 2024

    اپ ڈیٹ کی گئی ایک گھنٹہ قبل

لگ بھگ ساڑھے چار سال کی پابندی کے خاتمے کے بعد پاکستان کی قومی ائیر لائن ’پی آئی اے‘ کی پہلی پرواز آج دن بارہ بج کر دس منٹ پر یورپ (فرانس) کے لیے اڑان بھرے گی۔

فلائیٹ ’پی کے 749‘ 330 مسافروں اور عملے کے 14 اراکین کو لے کر آج اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے پیرس کے لیے روانہ ہو گی۔

تقریباً ساڑھے چار سال قبل یورپین یونین ایئر سیفٹی ایجنسی (ای اے ایس اے) نے پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے سمیت نجی فضائی کمپنیوں پر یورپ میں فلائٹ آپریشن پر پابندی عائد کر دی تھی۔

تاہم 29 نومبر 2024 کو یورپین یونین ایئر سیفٹی ایجنسی (ای اے ایس اے) نے اس پابندی کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔

اس فیصلے سے متعلق بات کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ ’یورپی کمیشن اور یورپی ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی نے پی آئی اے کی یورپ جانے والی پروازوں پر سے پابندی ہٹا دی ہے۔ یہی نہیں بلکہ دوسری پاکستانی ایئر لائن، ایئر بلیو لمیٹڈ کو بھی یورپ کے لیے فلائٹ آپریشن کی اجازت دے دی گئی ہے۔‘

وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ یہ سب موجودہ حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کی بدولت ممکن ہو پایا ہے۔

پی آئی اے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یاد رہے کہ جون 2020 میں اُس وقت کے وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے قومی اسمبلی میں انکشاف کیا تھا کہ کمرشل پائلٹس کی ایک بڑی تعداد نے ’مشکوک لائسنس‘ حاصل کر رکھے ہیں۔

اس بیان کے نتیجے میں جنم لینے والے تنازعے اور بحث و مباحثے کے بعد یکم جولائی 2020 کو یورپین یونین ایئر سیفٹی ایجنسی (ایاسا) نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے یورپی ممالک کے فضائی آپریشن کے اجازت نامے کو چھ ماہ کے لیے عارضی طور پر معطل کر دیا تھا، بعد ازاں آٹھ اپریل 2021 کو یورپین یونین کی ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی نے پی آئی اے پر سفری پابندیوں میں غیر معینہ مدت تک توسیع کر دی تھی۔

واضح رہے کہ یورپی یونین کی فضائی حدود میں پرواز کرنے والی تمام کمرشل اور چارٹرڈ پروازوں کو ٹی سی او کی اجازت حاصل کرنا لازمی ہوتی ہے۔ ٹی سی او کو 2016 میں نافذ کیا گیا تھا جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ یورپی ممالک میں چلنے والے تمام طیارے انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن (آئی سی اے او) کے حفاظتی معیارات کے مطابق ہوں۔

پابندی ہٹانے کا فیصلہ کتنا اہم؟

مگر پی آئی اے کے یورپ کے لیے فلائٹ آپریشن پر پابندی ہٹانا کتنا خوش آئند ہے؟

اس بارے میں بات کرتے ہوئے پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ نے بی بی سی کو بتایا کہ یکم جولائی 2020 سے لگنے والی پابندی ہٹائے جانے کے بعد اب امید ہے کہ اگے چل کر برطانیہ کے لیے بھی فلائٹ آپریشن کا آغاز کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستانیوں کو اب براہ راست ان ممالک میں جانے کا موقع ملے گا اور وہ مہنگے ٹکٹس اور متبادل فلائٹس کے جھنجھٹ سے بچ جائیں گے۔

پی آئی اے کو پابندی کے باعث کتنا نقصان ہوا؟

پی آئی اے

،تصویر کا ذریعہAFP

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

اس بارے میں بات کرتے ہوئے پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ نے کہا کہ یورپین یونین ایئر سیفٹی ایجنسی کی جانب سے پابندی کے اطلاق سے قبل پی آئی اے کی سالانہ آمدن میں یورپ اور امریکہ کا حصہ 37 فیصد بنتا تھا یعنی ’ہم پابندی عائد ہونے سے قبل اپنی آمدن کا 37 فیصد حصہ (تقریباً 42 ارب روپے سالانہ) یورپ اور امریکہ کے فلائیٹ آپریشنز سے حاصل کر رہے تھے۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ ’اگر اس حساب سے ہم چار، ساڑھے چار سال کا عرصہ لگائیں اور اس میں مہنگائی اور افراط زر اور مارکیٹ گروتھ کا تخمینہ شامل نہ بھی کریں تو یہ رقم لگ بھگ 200 ارب روپے کے قریب بنتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یعنی ان ساڑھے چار برسوں کے دوران پی آئی اے کو تقریباً 200 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

مسافروں کے اعتماد اور پی آئی اے کی ساکھ سے متعلق سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ پابندی کے فیصلے کے باعث پی آئی اے کی جو ساکھ مجروح ہوئی ہے اس کا تو کوئی حساب نہیں لگایا جا سکتا کیونکہ یہ ناقابل تلافی نقصان تھا۔

’تاہم جہاں تک مسافروں کے اعتماد کی بحالی کی بات ہے تو اس میں اچھی بات یہ ہے کہ پی آئی اے نے دنیا کے سب سے بہترین ریگولیٹرز کی سب سے سخت شرائط کو پورا کر کے یہ اجازت نامہ دوبارہ حاصل کیا ہے۔ اس سے پی آئی اے کی ساکھ اور مسافروں کا اعتماد بحال کرنے میں کافی مدد ملے گی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یقیناً اب پروازوں کی یورپی روٹس پر بحالی کے بعد آپ پہلے دن سے وہ آمدن حاصل نہیں کر سکتے لیکن پی آئی اے نے یہ ہدف مقرر کیا ہے کہ اگلے ایک سے ڈیڑھ سال کے عرصے میں ہم کم از کم اس سطح یا مقام پر پہنچ جائیں جہاں پابندی کے اطلاق سے پہلے تھے۔‘

پابندی ختم ہونا کیسے ممکن ہو پایا؟

پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ نے بی بی سی کو بتایا کہ یکم جولائی 2020 سے لگنے والی پابندی ختم ہونے کے بعد پاکستانیوں کو اب براہ راست فلائٹ کے ذریعے کئی ممالک میں جانے کا موقع ملے گا۔

انھوں نے مزید کہا کہ اب پاکستانی مسافر مہنگے ٹکٹ اور متبادل فلائٹس کے جھنجھٹ اور خواری سے بھی بچ جائیں گے۔

اس حوالے سے مزید بات کرتے ہوئے عبدااللہ حفیظ نے کہا کہ ’چار سال سے سیفٹی اقدامات اٹھائے جا رہے تھے اور یورپیں ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی نے پی آئی اے اور سول ایوی ایشن کا آڈٹ کیا۔ پی آئی اے اپنا آڈٹ کافی عرصہ پہلے ہی کلئیر کر چکا تھا تاہم سول ایوی ایشن پر جو خدشات تھے، انھیں ادارے نے گذشتہ ماہ دور کر دیا۔‘

انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ سول ایوی ایشن کے حوالے سے جو خدشات رہ گئے تھے وہ دراصل پائلٹس کے لائسنس کے حوالے سے تھے۔

سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ترجمان شاہد قدیر نے بی بی سی کو بتایا کہ یورپی یونین ایوی ایشن ایجنسی کو سیفٹی اور مینجمنٹ پر خدشات اور تحفظات تھے جن پر کام کر کے انھیں دور کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس تمام کام میں پی آئی اے کو بھی آن بورڈ لیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں ایک اور اہم کام پاکستان سول ایوی ایشن ایکٹ 2023 کا پاس ہونا تھا۔ شاہد قدیر کا کہنا تھا کہ پائلٹس کے لائسنز کا بھی ایک ایشو تھا جسے حل کر لیا گیا۔

شاہد قدیر کا کہنا تھا کہ ’پی آئی اے سے پابندی ہٹ گئی اور اصل کام ہو گیا تاہم ابھی ضابطے کی کچھ کارروائیاں باقی ہیں جن کے بعد پروازوں کا آغاز ہو جائے گا۔‘

ہوا بازی کے شعبے کے ماہر افسر ملک نے بی بی سی سے گفتگو میں کہا کہ سول ایوی ایشن کو چار سال کا طویل عرصہ کمزوریاں دور کرنے میں لگا لیکن پی آئی اے پر یورپ کے لیے جو پابندی لگی تھی، وہ درست تھی۔

’یہ پابندی غلط نہیں تھی، واقعی کمزوریاں تھیں۔ تربیت یافتہ عملے کی کمی تھی۔ اصل مسئلہ سول ایوی ایشن کے ریگولیٹری مسائل تھے۔ اگر ریگولیٹر کی چیزیں پوری نہیں تو ائیر لائنز میں خامیاں ہوتی ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں ان معاملات کو سیاسی رنگ بھی دیا جاتا رہا اور اس ادارے پر سیاسی اثرو رسوخ بھی رہا۔

افسر ملک کہتے ہیں کہ ’انگلی پی آئی اے پر اٹھتی رہی لیکن مسئلہ سول ایوی ایشن کا ہوتا تھا، جن کے پاس فلائٹ انسپکٹرز تک پوری تعداد میں نہیں ہیں۔‘

’پی آئی اے کی نجکاری میں بھی فائدہ ہو گا‘

واضح رہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے تحت پاکستان کو اپنے خسارے میں چلنے والے چند قومی اداروں کی نجکاری کرنا ہے۔ پی آئی اے گذشتہ کئی برسوں سے خسارے کا شکار ہے اور اس کا شمار حکومتی سرپرستی میں چلنے والے ان اداروں میں ہوتا ہے جو قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان پہنچاتے ہیں۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے گفتگو میں پی آئی اے سے پابندی ہٹنے کے معاملے پر بات کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ اس فیصلے کے بعد قومی ایئر لائنز کی نجکاری کے عمل میں بھی فائدہ ہو گا۔

اس بارے میں ترجمان عبداللہ حفیظ کا کہنا تھا کہ کسی بھی کمپنی کی ایویلیوایشن تین چیزوں پر ہوتی ہے، ایک اس کی بیلنس شیٹ، دوسرا اس کی آمدن حاصل کرنے کی صلاحیت اور تیسرا اس کے برانڈ پر۔

’اگر آج کی بات کریں تو اس وقت کے مقابلے میں جب حکومت نے نجکاری کا فیصلہ کیا تھا اب پی آئی اے کی بیلنس شیٹ بہت بہتر ہے۔ نیگیٹو ایکوٹی یعنی خسارہ پی آئی اے کی کتابوں سے ختم کر دیا گیا ہے۔ اور اب اس پابندی کے ختم ہونے کے بعد اگر یورپ اور برطانیہ کے سیکٹر کو لائیں تو یہ سالانہ 40 سے 50 ارب روپے آمدن حاصل کر سکتا ہے جو گذشتہ چار برسوں کے مقابلے میں اضافی ہوں گے، تو یقیناً اس سے حکومت کو پی آئی اے کو نجکاری میں بہت فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔‘

افسر ملک کے مطابق پی آئی اے پرعائد پابندی ہٹنے سے کوئی بڑا سرمایہ کار قومی ایئر لائنز خریدنے میں دلچسپی لے سکتا ہے۔

SOURCE : BBC