SOURCE :- BBC NEWS

صبین محمود

،تصویر کا ذریعہT2F/Facebook

ایک منٹ قبل

کراچی میں کورنگی کے علاقے کی طرف سے گزر ہو تو ایک سڑک پر ایک بورڈ لگا نظر آئے گا جس پر لکھا ہے ’صبین محمود روڈ‘۔

یہ کراچی میونسپل کارپوریشن کی جانب سے شہر کی بہادر بیٹی، طرح دار سماجی کارکن ، کمپیوٹر پروگرامر اور کراچی کی اُداس نسلوں کے لیے ’ٹی ٹو ایف‘ کے نام سے ایک بیٹھک چلانے والی صبین محمود کی یاد کو زندہ رکھنے کی ایک کاوش ہے۔

صبین اگر صبین محمود روڈ پر گاڑی چلاتی گزرتیں تو ضرور ہنستیں کہ ’ٹی ٹو ایف‘ سے گھر جاتے ہوئے ڈیفنس لائبریری کے ٹریفک سگنل پر میرے چہرے پر پانچ گولیاں مارو، (ایک میری ماں مہناز محمود کی ریڑھ کی ہڈی میں آج بھی موجود ہے)، کچھ دنوں بعد میرے قتل کے واحد عینی شاہد کو بھی قتل کر دو پھر میرے مبینہ قاتلوں کو سزائے موت سُنا کر اُن کی اپیل سُننا بھی بھول جاؤ لیکن ایک سڑک پر صبین محمود کا بورڈ لگا دو۔ یہ ہے میرا کراچی۔

صبین محمود کے بہت سے شوق تھے۔ اُن میں سے ایک تھا ایسے لوگوں کی باتیں سُننے کا جن کی بات نہ سرکار سننے کو تیار تھی نہ میڈیا۔

دس سال پہلے بھی بلوچستان سے مسنگ پرنسز کے خاندان پریس کلبوں کے سامنے، ٹریفک لائٹوں پر احتجاج کرتے پھرتے تھے۔ اس وقت اس چھوٹے سے گروہ کی قیادت ماما قدیر اور فرزانہ مجید کے ہاتھوں میں تھی۔

پھر ایک دن لاہور کی معروف پرائیوٹ یونیورسٹی نے انھیں ایک سیمینار کے لیے مدعو کیا۔

سیمینار سے ایک دن پہلے دو شخص سوٹ بوٹ پہنے وائس چانسلر کے پاس گئے۔ اُن کا تعلق کسی خفیہ ایجنسی سے تھا انھوں نے وائس چانسلر کو نجانے کیا سمجھایا اور کِس زبان میں سمجھایا کہ سیمینار کو کینسل کر دیا گیا۔

ایک ہزار کلومیٹر دور ہے کراچی میں بیٹھی صبین محمود بھنّا گئی۔ اس یونیورسٹی میں پاکستان کے سب سے قابل وکیل، تاریخ دان بیٹھے ہیں، بورڈ میں پاکستان کے طاقتور ترین لوگ موجود ہیں۔ ان کا سارا علم اور ساری طاقت مل کر دو نامعلوم افراد کو سمجھا نہیں سکتی کہ یونیورسٹی کے کسی کمرے میں بیٹھ کر لوگ اپنا دُکھ سکھ شیئر کر لیں گے تو قیامت نہیں آ جائے گی۔

صبین نے فیصلہ کیا کہ جو کام یونیورسٹی والے نہیں کر سکے وہ اپنے ’ٹی ٹو ایف‘ میں کریں گی۔

صبین نڈر تھی، شاید پاگل بھی تھیں لیکن بے وقوف نہیں تھیں۔ اُنھوں نے دوستوں سے مشورے کیے، زیادہ تر نے یہی مشورہ دیا کہ ہمارے عسکری ادارے باتیں دل پر لیتے ہیں جانے دو۔

دی سیکنڈ فلور

،تصویر کا ذریعہT2F/Facebook

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

صبین کی دلیل تھی ہم چھوٹے لوگ ہیں ہمارے خوف بھی چھوٹے ہیں۔ ’ٹی ٹو ایف‘ میں ہاؤس فُل بھی ہو تو اسّی یا نوّے سے زیادہ لوگ نہیں آ سکتے۔ حسّاس ادارے زیادہ سے زیادہ ایک بار پھر ٹیکس کی فائلیں کھول لیں گے، کوئی توڑ پھوڑ کریں گے، وطن دشمنی کہہ دیں گے تو وہ تو پہلے بھی کہتے رہتے ہیں۔

جو سیمینار یونیورسٹی میں نہ ہو سکا تھا ’ٹی ٹو ایف‘ میں ہوا۔ کوئی بدمزگی نہ ہوئی، سوال جواب دُکھ سُکھ۔

سیمینار ختم ہونے کے 20 منٹ بعد صبین محمود اپنی والدہ مہناز محمود کے ساتھ اپنی گاڑی میں گھر جا رہی تھی جب اُن کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

سب کے دلوں پر ایک سرد سناٹا چھا گیا۔ پیغام واضح تھا کہ طاقتور لوگوں سے کہا گیا اس موضوع پر بات نہیں کرو گے وہ سمجھ گئے۔ اگر نہ سمجھو گے، ضدّ کرو گے تو انجام یہ ہو گا اور 20 منٹ کے اندر اندر ہو گا۔

لیکن کچھ دن بعد ہی ہمیں بتایا گیا کہ تم غلط کہتے ہو صبین کے قتل کا بلوچستان والے سیمینار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم سے قاتل پکڑ لیا ہے اور وہ کہتا ہے کہ اس نے صبین کو اس لیے مارا کہ وہ ویلینٹائن ڈے مناتی تھی۔

صبین بھی سویلین تھی، اس کا قاتل بھی سویلین، لیکن مقدمہ فوجی عدالت میں چلا اور ملزم کو سزائے موت ہوئی۔ ملزم کی اپیل گذشتہ نو سال سے عدالت میں ہے۔ صبین محمود چونکہ سزائے موت کے خلاف تھیں تو شاید وہ خود بھی اس اپیل کے حق میں پٹیشن ڈال دیتیں۔

صبین کو جب ہم سے چھینا گیا تو اس کی عمر چالیس سال تھی۔ اس کو بے آواز لوگوں کی آواز بننے کے علاوہ اور بھی بہت سے شوق تھے۔

بلوچ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بچپن سے کمپیوٹر کی کیڑی تھی تو وہ دھندہ جاری رکھتی تھی۔ ساتھ ساتھ گلیوں میں کرکٹ کھیلتی تھی، کراچی کے برگر بچوں کو قوالی سننے کے آداب سکھاتی تھی، دیواروں پر لال رنگ کے دل اور پھول بناتی۔

پاس آنے دو، محبت ہونے دو، قسم کے نعرے پوسٹروں پر لکھتی تھی، سائنس کا اڈّہ چلاتی تھی۔

جون ایلیا پر مباحثے کرواتی تھی، ایسے ایسے مصنّفوں کے بُک لانچ کرواتی تھی جو اس کے ایکٹیوازم کا مذاق اڑاتے تھے، ایسے ایسے شاعروں کے لیے دروازے کُھلے رکھتی تھی جن کے شعر اس نے کبھی نہیں پڑھے تھے۔

میلوں ٹھیلوں کی شوقین تھی اور خود بھی میلے کرواتی ہیں۔ خواب دیکھتی تھیں اور خواب دیکھنے والوں کو پاس رکھتی تھی۔

ڈرامہ کرنا ہو ہال نہ مل رہا صبین کے پاس جاؤ، تصویریں بنا لی ہیں کراچی کی کوئی گیلری گھاس نہیں ڈال رہی تو صبین ہے ناں، لطیفے لکھ لیے پر کہاں سنائیں، اس کے ٹی ٹو ایف میں چلو، طبلہ سیکھنا ہے کہاں جائیں، اس نے استاد رکھا ہوا ہے۔ کچھ کرنے کو دل نہیں کر رہا اداسی ہے صبین کا دروازہ ہمیشہ کھلا ملے گا، چلے آؤ۔

اس سب سے تنگ کبھی وہ بھاگنے کا بھی سوچتی تھی کہ کہیں جا کر تعلیم حاصل کرے، کوئی نیا ہنر سیکھے۔

صبین کے بہت سے شوق تھے، کئی اس نے اپنی مختصر اور بھر پور زندگی میں پورے میں کیے لیکن اسے یہ شوق کبھی نہیں تھا کہ کراچی کی ایک سڑک پر اس کے نام کی تختی لگ جائے۔ لیکن ہم بھی وہ تختی لگا کر ہی رہے۔

SOURCE : BBC