SOURCE :- BBC NEWS
- مصنف, وژیول جرنلزم ٹیم
- عہدہ, بی بی سی نیوز
-
19 منٹ قبل
غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے لیکن 15 ماہ سے جاری لڑائی اور جنگ کے ساحلی فلسطینی علاقے پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
اسرائیل کی جانب سے اس علاقے پر فضائی حملے اور زمینی کارروائی 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے غیر معمولی سرحد پار حملے کے جواب میں شروع ہوئے، حماس کے اس حملے میں تقریباً 1200 افراد ہلاک اور 251 کو یرغمال بنا لیا گیا۔
حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق جنگ کے دوران 46 ہزار 600 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ حماس کی فوجی اور حکومتی صلاحیتوں کو تباہ کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔
غزہ کے باسیوں کو اس بات کی امید ہے کہ تازہ ترین جنگ بندی بالآخر امن کا پیش خیمہ ثابت ہوگی تاہم اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اس جنگ میں ہونے والی تباہ کاری کے بعد بحالی میں کئی سال یا دہائیاں لگ سکتی ہیں۔
بی بی سی کی ان تصاویر کی مدد سے یہ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے کہ یہاں (غزہ) میں جنگ کے دوران زندگی کس تیزی سے تبدیل ہوئی۔
تباہی کیسے پھیلی
اسرائیلی انتظامیہ کی توجہ ابتدا میں شمالی غزہ پر مرکوز تھی، اسی مقام اور علاقے کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ حماس کے جنگجو انھیں گنجان آباد شہری آبادی کے درمیان چھپے ہوئے ہیں۔
سرحد سے صرف 2 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شمالی قصبہ بیت حنون اسرائیلی حملوں کا پہلا نشانہ بننے والے علاقوں میں سے ایک تھا۔ اس علاقے کو اسرائیلی فوج کی کارروائیوں سے بھاری نقصان پہنچا۔
اسرائیل نے غزہ شہر اور شمال میں دیگر شہری مراکز پر بمباری جاری رکھی اور اکتوبر کے آخر میں زمینی حملہ شروع کرنے سے پہلے شہریوں کو اپنی حفاظت کو مدِنظر رکھنے کی خاطر اس علاقے کو خالی کرنے اور ‘وادی غزہ’ کے جنوب میں منتقل ہونے کا حکم دیا۔
لیکن اس انتباہ کے باوجود اسرائیلی فوج نے جنوبی شہروں پر بھی فضائی حملے جاری رکھے جن کی طرف شمال سے لاکھوں غزہ کے باشندے منتقل ہو رہے تھے۔ نومبر کے آخر تک علاقے کے جنوب کے کچھ حصے کھنڈرات میں بدل چُکے تھے جیسا کہ اس سے قبل شمال کا زیادہ تر حصہ دکھائی دے رہا تھا۔
اسرائیل نے دسمبر کے اوائل میں غزہ کے ایک اور اہم اور گنجان آباد علاقے خان یونس پر زمینی کارروائی کے آغاز سے قبل جنوبی اور وسطی غزہ پر اپنی بمباری کی رفتار اور شدت میں اضافہ کر دیا تھا اور جنوری تک غزہ کی نصف سے زیادہ عمارتوں کو تباہ کردیا گیا تھا۔
سیٹلائٹ ڈیٹا کا تجزیہ کرنے والے سی یو این وائی گریجویٹ سینٹر اور اوریگون سٹیٹ یونیورسٹی کے ماہرین کے مطابق 15 ماہ سے جاری تنازع نے ممکنہ طور پر غزہ کی پٹی میں تقریبا 60 فیصد عمارتوں کو نقصان پہنچایا ہے جس میں غزہ شہر کو سب سے زیادہ تباہی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق تباہ ہونے والی عمارتوں میں غزہ میں 90 فیصد سے زیادہ رہائشی یونٹ شامل ہیں، جن میں سے 160،000 تباہ ہوئے اور مزید 276،000 کو جزوی طور پر نقصان پہنچا۔
جنگ کے دوران حماس، جسے اسرائیل، برطانیہ اور بہت سے دیگر ممالک نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے کی جانب سے اسرائیل پر ہزاروں راکٹ داغے جاتے رہے ہیں اور اس سب کے دوران حماس کے اتحادی اسرائیلی افواج کے خلاف زمینی کارروائیوں میں مصروف رہے ہیں۔
ایک وسیع خیمہ بستی کو آباد کیا گیا
غزہ میں اس حالیہ جنگ سے قبل بھی حالات اچھے نہیں تھے اور یہاں زندگی گُزارنا انتہائی مُشکل تھا، برسوں سے خطے میں کسی داخل ہونا ہے اور کسے نہیں اس بات کا فیصلہ اسرائیلی اور مصری انتظامیہ نے کیا۔ تاہم اس بارے میں دونوں ممالک کا کہنا تھا کہ ایسا سکیورٹی اور اپنی سلامتی کی غرض سے کیا جاتا رہا ہے۔
عالمی بینک کے مطابق اگرچہ تقریباً دو تہائی آبادی غربت میں تھی اور ہزاروں افراد اقوام متحدہ کے زیر انتظام پناہ گزین کیمپوں میں رہتے تھے لیکن وہاں ہسپتال، سکول اور دکانیں بھی موجود تھیں۔
لیکن غزہ صرف 41 کلومیٹر (25 میل) لمبا اور 10 کلومیٹر چوڑا اور بحیرہ روم سے گھرا ہوا ہے اور اسرائیل اور مصر کے ساتھ بند سرحدیں ہیں، تاہم اب یہاں کا بڑا حصہ رہائش کے قابل نہیں ہے۔
پورے ضلع کو زمین بوس کر دیا گیا۔ زرعی زمین جہاں کبھی گرین ہاؤس ہوا کرتے تھے، اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے علاقے میں چھاپوں اور بھاری فوجی گاڑیوں اور ٹینکوں کی وجہ سے ریت اور ملبے میں تبدیل ہو گئی ہے۔
جنگ سے پہلے غزہ کی 22 لاکھ آبادی میں سے زیادہ تر اس کے چار اہم شہروں جنوب میں رفح اور خان یونس، مرکز میں دیر البلاح اور غزہ شہر میں رہتے تھے جو 775000 افراد کا گھر تھا لیکن اب تقریباً پوری آبادی بے گھر ہوچکی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے غزہ میں اپنی حکمتِ عملی کی مسلسل تبدیلی کی وجہ سے متعدد فلسطینی خاندانوں کو کئی بار اپنا ٹھکانہ بتبدیل کرنا پڑا، ابتدائی طور پر شمال کے لوگوں کو وادی غزہ کے جنوب میں منتقل ہونے کے لیے کہا گیا اور بعد میں جنوب میں انخلا کا اعلان کیا گیا۔
سیٹلائٹ کی مدد سے لی گئی تصاویر میں مصر کی سرحد کے قریب بحیرہ روم کے ساحل کے ساتھ زرعی زمین کی ایک پتلی پٹی المواسی میں بے گھر افراد کی جانب سے لگائے گئے خیموں کا وسیع پھیلاؤ دیکھا جا سکتا ہے جسے اسرائیل نے اکتوبر 2023 میں ‘ہیومینٹیرین زون’ قرار دیا تھا۔
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
اسرائیل نے مئی میں رفح میں اپنی زمینی کارروائی شروع کرنے کے بعد خان یونس اور دیر البلاح کے کچھ حصوں کو شامل کرنے کے لیے اس زون میں توسیع کی تھی جہاں دس لاکھ سے زیادہ افراد پناہ لیے ہوئے تھے۔
لیکن اس کے بعد سے اس کے حجم میں بار بار کمی آتی رہی کیونکہ اسرائیل نے ان علاقوں کو نشانہ بنایا۔ اسرائیل کی جانب سے اس علاقے کو صرف اس وجہ سے نشانہ بنایا گیا کیونکہ انھیں اس بات کا شق تھا کہ حماس کے عسکریت پسند بے گھر ہونے والے افراد کے درمیان چھپے ہوئے ہیں۔
اگست میں اقوام متحدہ نے تخمینہ لگایا تھا کہ 12 لاکھ سے زیادہ افراد المواسی میں پناہ لیے ہوئے ہیں جس میں اہم بنیادی ڈھانچے اور بنیادی سہولیات کا شدید فقدان ہے اور اس علاقے کا حجم تقریباً 7 کلومیٹر مربع (2.7 مربع میل) کے قریب ہے تاہم اس سے قبل اس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ یہ علاقہ 72 کلومیٹر مربع (27.8 مربع میل) پر مشتمل ہے۔
وسطی اور جنوبی غزہ میں اقوام متحدہ کی ہنگامی پناہ گاہوں میں بھیڑ ایک تشویش ناک حد تک بڑھ گئی ہے جن میں سے کچھ میں اپنی گنجائش سے کہیں زیادہ لوگ آباد ہیں۔ دیگر خاندان خیموں یا عارضی پناہ گاہوں میں یا زمین اور ساحلوں کے کھلے علاقوں میں زندگی گُزارنے پر مجبور ہیں۔
خوراک کے لیے جدوجہد
قحط کا اعلان کرنے کے ذمہ دار عالمی ادارے انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفکیشن (آئی پی سی) کے مطابق تقریباً 18 لاکھ افراد شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کر رہے ہیں جن میں تقریباً 133000 افراد تباہ کن غذائی عدم تحفظ کا سامنا کر رہے ہیں۔
قحط کا اعلان کرنے کے ذمہ دار عالمی ادارے انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفکیشن کی جانب سے ستمبر 2024 سے اگست 2025 تک کے حالات اور تجزیے میں خبردار کیا گیا ہے کہ شدید غذائی قلت کی سطح جنگ شروع ہونے سے پہلے کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ ہوگی۔
موجودہ جنگ سے پہلے بھی غزہ کی تقریباً 80 فیصد آبادی کو انسانی امداد کی ضرورت تھی۔
اقوام متحدہ کے مطابق 7 اکتوبر کے بعد اسرائیل اور مصر کی جانب سے اپنی گزرگاہیں بند کیے جانے کے بعد تقریباً 10 روز تک امدادی سامان کی فراہمی مکمل طور پر رک گئی تھی اور جنوری میں اب تک روزانہ تقریباً 50 امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہو رہے ہیں۔
اسرائیل اقوام متحدہ کے اعداد و شمار سے اختلاف کرتا ہے۔
مارچ میں ورلڈ فوڈ پروگرام نے کہا تھا کہ خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے غزہ میں داخل ہونے اور خوراک کی تقسیم کے لیے روزانہ کم از کم 300 ٹرکوں کی ضرورت ہوگی۔
اقوام متحدہ کے عہدے داروں نے اس صورتحال کا ذمہ دار امداد کی ترسیل پر اسرائیلی فوج کی پابندیوں، جاری کشیدگی اور امن و امان کی خراب صورتحال کو قرار دیا ہے۔
اسرائیل کا اصرار ہے کہ غزہ اور اس کے ارد گرد فراہم کی جانے والی امداد کی مقدار کی کوئی حد نہیں ہے اور وہ رسد کی تقسیم میں ناکامی پر اقوام متحدہ کے اداروں کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ اس میں حماس پر امداد چوری کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے جس کی حماس کی جانب سے تردید کی گئی ہے۔
غربت بڑھتی جا رہی ہے
اس تنازعے نے غزہ کی معیشت پر بھی تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں جس کے بارے میں عالمی مالیاتی ادارے یعنی ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ 2024 کی پہلی سہ ماہی میں اس میں 86 فیصد کمی آئی ہے جو ‘ریکارڈ پر سب سے بڑا معاشی تنزلی’ ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تقریباً 100 فیصد آبادی جنگ سے پہلے کے 64 فیصد کے مقابلے میں اب غربت میں زندگی گزار رہی ہے اور بنیادی سامان کی قیمت میں تقریباً 250 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کے تجارتی اور ترقیاتی ادارے یو این سی ٹی اے ڈی کا کہنا ہے کہ جنگ کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 18.5 ارب ڈالر ہے جو 2022 میں غزہ کی مجموعی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی سے تقریباً سات گنا زیادہ ہے۔
ادارے نے اکتوبر میں متنبہ کیا تھا کہ جنگ بندی کے بعد بھی غزہ کی معیشت کو 2022 کی سطح پر بحال کرنے میں 350 سال لگیں گے اگر یہ 2007 سے نافذ معاشی اور نقل و حرکت کی پابندیوں کے تحت زیادہ تیزی سے ترقی کرنے کے قابل نہیں ہوا۔
بہت سے طبی مراکز نقصان یا رسد اور ایندھن کی کمی کے نتیجے میں کام کرنے سے قاصر ہیں۔
اسرائیلی فورسز نے کئی ہسپتالوں پر بھی چھاپے مارے ہیں اور فوج نے الزام عائد کیا ہے کہ حماس نے انھیں فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ حماس اور ہسپتال کے حکام نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔
غزہ شہر کا الشفا ہسپتال جو کبھی غزہ کا سب سے بڑا طبی مرکز ہوا کرتا تھا، اب تباہ ہو گیا ہے تاہم اب اس نے اپنے شعبہ حادثات کو ایک مرتبہ پھر سے فعال کیا ہے۔ اسرائیلی دفاعی افواج آئی ڈی ایف کا کہنا ہے کہ اس نے سینکڑوں ‘دہشت گردوں’ کو ہلاک یا گرفتار کیا ہے اور انھیں اپنے دو بڑے آپریشنز میں ‘پورے ہسپتال میں’ ہتھیار اور اہم خفیہ معلومات ملی ہیں۔
اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ غزہ کے 36 ہسپتالوں میں سے صرف 18 اب بھی جزوی طور پر کام کر رہے ہیں۔
بحالی کا طویل عمل
بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کے علاوہ، اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) نے متنبہ کیا ہے کہ غزہ میں ہونے والے نقصانات کی تلافی میں کافی وقت لگے گا۔
رپورٹ میں پانی اور صفائی ستھرائی کے نظام کو ‘تقریباً مکمل طور پر ناکارہ’ قرار دیا گیا ہے، کیمپوں اور پناہ گاہوں کے ارد گرد بڑھتے ہوئے کچرے اور تباہ شدہ سولر پینلز اور استعمال کیے جانے والے گولہ بارود کے کیمیکلز مٹی اور پانی کی فراہمی کو آلودہ کر سکتے ہیں۔
ادارے کا اس بارے میں مزید کہنا ہے کہ تباہی سے 50 ملین ٹن سے زیادہ ملبہ جمع ہوا ہے۔
یو این ای پی کا کہنا ہے کہ جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والے ملبے اور دھماکہ خیز مواد کو صاف کرنے میں 21 سال کا طویل وقت لگ سکتا ہے۔
ایگزیکٹیو ڈائریکٹر انگر اینڈرسن نے کہا کہ ‘غزہ میں ماحولیاتی نقصانات میں اضافے سے اس کے لوگوں کو تکلیف دہ حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور ان کی بحالی میں طویل وقت لگ سکتا ہے۔‘
SOURCE : BBC