SOURCE :- BBC NEWS

ایران

،تصویر کا ذریعہEPA

  • مصنف, جوناتھن بیل
  • عہدہ, دفاعی نامہ نگار
  • ایک گھنٹہ قبل

اسرائیل کی آبادی صرف 90 لاکھ ہے لیکن یہ چھوٹا سا ملک اس وقت مشرق وسطی میں ایران جیسے ملک سے تنازع میں ہے جس کی آبادی تقریبا نو کروڑ ہے۔ رقبے کے اعتبار سے بھی اسرائیل ایران سے بہت چھوٹا ہے۔

لیکن اسرائیلی افواج طاقتور اور جدید ہیں جن کے پاس موجود امریکی اسلحہ سمیت دفاعی صلاحیتوں کا انبار انھیں اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنے سے بڑے دشمن پر حاوی ہو سکیں۔

بی بی سی نے اس تنازع کا جائزہ لیا ہے اور عسکری توازن کو جانچتے ہوئے یہ دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ اب تک اسرائیل نے کیا حاصل کیا ہے اور ایران کے پاس ردعمل میں کیا صلاحیت ہے؟ ساتھ ہی ساتھ یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا دیگر ممالک اس تنازع میں شامل ہو سکتے ہیں؟

فضا کا کنٹرول: اسرائیل نے اب تک کیا حاصل کیا؟

اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ تہران کی فضا پر ’مکمل کنٹرول‘ حاصل کر چکا ہے۔ اب تک اس تنازع میں فضائی اعتبار سے اسرائیل کو مکمل برتری حاصل رہی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایران کے پرانے لڑاکا طیارے لڑائی میں شریک ہی نہیں ہو پائے۔

اسرائیل کے پاس موجود جدید امریکی ساختہ لڑاکا طیاروں نے کم فاصلے سے گائیڈڈ بم داغنے میں مدد دی ہے اور انھیں بظاہر کسی قسم کا خطرہ بھی نہیں ہے۔

گزشتہ سال اکتوبر میں ہی ایک اسرائیلی حملے کے دوران ایران کے ایس 300 فضائی دفاعی نظام کو طویل فاصلے سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ حالیہ دنوں میں اسرائیلی فضائیہ نے زمینی ریڈار اور لانچرز کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ حملے سے قبل ہی اسرائیلی انٹیلیجنس کے اراکین ایران کے اندر موجود رہتے ہوئے اس کی جوابی کارروائی کی صلاحیت کو نشانہ بنانے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے ایجنٹ ملک کے اندر ڈرون سمگل کر چکے تھے جن کی مدد سے ایران کے بقیہ فضائی دفاعی نظام کو نشانہ بنایا گیا۔

دوسری جانب اسرائیلی حملوں میں ایرانی افواج کے سربراہان کو بھی ہلاک کیا گیا جس کی وجہ سے ایرانی ردعمل متاثر ہوا۔

ایران

ایران کی جوابی کارروائی

اسرائیلی حملے سے قبل ایران کے پاس امریکی اندازوں کے مطابق مشرق وسطی میں بیلسٹک میزائلوں کا سب سے بڑا ذخیرہ موجود تھا جن کی تعداد تخمینوں کے مطابق دو ہزار سے تین ہزار تک تھی۔

تاہم ان میں سے چند کو، بشمول ان کو تیار کرنے والے کارخانوں کے، اسرائیل نے آغاز میں ہی نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ زمین سے زمین پر مار کرنے والے ایک تہائی ایرانی لانچرز کو تباہ کر چکی ہے۔

اس کے باوجود ایران نے اسرائیل پر یکے بعد دیگرے میزائلوں کی لہریں داغی ہیں اور ان میں سے کئی نے جدید فضائی دفاعی نظام کو مات دی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگرچہ ایرانی میزائل پروگرام متاثر ہوا ہے تاہم مکمل طور پر ختم نہیں ہوا اور یہ اسرائیل کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔

ایران پر ہونے والے حملوں کے باوجود ایران کے پاس اب بھی مختصر فاصلے تک مار کرنے والے فضائی دفاعی میزائل بھی موجود ہیں۔

تھنک ٹینک روسی سے تعلق رکھنے والے جسٹن برونک کا کہنا ہے کہ اگرچہ اسرائیل فی الحال تہران پر فضائی کنٹرول کا دعوی کر سکتا ہے تاہم اسے مکمل فضائی برتری حاصل نہیں ہوئی ہے اور مختصر فاصلے والے میزائلوں کا خطرہ اب بھی برقرار ہے۔

ایران کے اتحادی کون ہیں اور وہ کیا کر سکتے ہیں؟

ایران

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایران نے کئی سال تک غزہ کی پٹی میں حماس جبکہ لبنان میں حزب اللہ کو اسلحہ اور ٹیکنالوجی فراہم کی۔ تاہم گزشتہ دو سال کے دوران ان دونوں کی اسرائیل کو مشکل میں ڈالنے کی صلاحیت کو بتدریج ختم کر دیا گیا۔ غزہ میں حماس تقریبا تباہ ہو چکی ہے جبکہ حزب اللہ کی طاقت اس حد تک متاثر ہوئی ہے کہ وہ ایران پر اسرائیلی حملے کا جواب دینے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔

دوسری جانب یمن میں موجود حوثی باغی اسرائیل پر میزائل داغنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور وہ ایسا کر بھی رہے ہیں۔ حوثیوں پر امریکی بمباری کے باوجود انھوں نے متعدد ریپر ڈرون مار گرائے جس کے لیے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل استعمال کیے گئے۔

کیا اس تنازع میں دیگر ممالک شامل ہو سکتے ہیں؟

ایران کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ خطے میں مغربی ممالک کی تنصیبات کو نشانہ بنا سکے۔ عراق میں موجود ایرانی حمایت یافتہ عسکری گروہ خطے میں موجود مغربی فوجی اڈوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں اور امریکہ اور برطانیہ اس صورت حال کے لیے تیاری کرتے رہے ہیں۔

عراق کے دارالحکومت بغداد میں 100 برطانوی فوجی بھی موجود ہیں اور ان کی حفاظت کے لیے برطانوی وزیر اعظم نے حال ہی میں برطانوی فضائیہ کے ٹائیفون لڑاکا طیارے قبرص بھجوائے ہیں۔

ایران

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اس کے علاوہ بحرین میں امریکی اور برطانوی بحری جہاز موجود ہیں اور یہ تنازع جتنا طویل ہو گا اتنا ہی مغربی افواج کے لیے خطرہ بڑھتا جائے گا۔

ایران کے پاس یہ صلاحیت بھی ہے کہ وہ آبنائے ہرمز کو بند کر دے۔ ایسا کرنا دانشمندانہ نہیں ہو گا تاہم اگر تہران یہ فیصلہ کر لیتا ہے تو ایسا کرنا اس کے لیے ممکن ہے۔

کیا اسرائیل اپنے مقاصد حاصل کر سکتا ہے؟

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

اس وقت اسرائیل کو اس تنازع میں برتری حاصل ہے لیکن اس کی مذید عسکری کارروائی کا انحصار امریکہ کی حمایت پر ہو گا۔

اسرائیل امریکہ سے سالانہ اربوں ڈالر کی عسکری امداد لیتا ہے اور امریکی ساختہ لڑاکا طیاروں سے داغا جانے والا اسلحہ بھی امریکہ سے ہی آیا ہے۔ اسرائیلی فضائی دفاعی نظام آئرن ڈوم سے داغے جانے والے چند میزائل بھی امریکی ساختہ ہیں۔

اس کے علاوہ اسرائیل نے زیرزمین ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے جو بنکر بسٹر بم استعمال کیے وہ بھی زیادہ تر امریکی ساختہ ہیں۔

اب تک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان کے استعمال کی حمایت کی ہے لیکن اسرائیل کو وہ ہتھیار فراہم نہیں کیا گیا جس کی مدد سے وہ فردو میں ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنا سکے۔ یہ بم ت30 ہزار پاونڈ وزنی ہے جسے صرف امریکی بی ٹو بمبار طیاروں کی مدد سے ہی پھینکا جا سکتا ہے۔

تاہم اگر اسرائیل کو امریکی مدد حاصل بھی رہے تو اسے اپنے مقاصد کے حصول میں مکمل کامیابی شاید نہ مل سکے۔ وہ اپنی فضائی طاقت سے ایرانی جوہری پروگرام کو متاثر تو کر سکتا ہے لیکن اسے مکمل طور پر تباہ نہیں کر سکتا۔ اسرائیل کی جانب سے ایرانی حکومت میں تبدیلی کی امید پوری ہونا بھی ناممکن ہے۔

ایسے میں اسرائیلی فضائی کارروائیاں خوف، تباہی اور ملبہ تو پیدا کر سکتی ہیں لیکن 2011 میں لیبیا اور حالیہ غزہ کی پٹی میں ہونے والی کارروائیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ مکمل کامیابی کی ضمانت نہیں دے سکتیں۔

SOURCE : BBC