SOURCE :- BBC NEWS
- مصنف, منار حافظ
- عہدہ, بی بی سی عربی
-
29 منٹ قبل
فلسطینی سیاست دان اور فتح تحریک کے رہنما مروان البرغوثی 22 سال سے اسرائیلی جیل میں قید ہونے کے باوجود غزہ میں جنگ بندی کے ممکنہ معاہدے کے ایک مرکزی کردار ہیں۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان اس معاہدے، جس کی تصدیق امریکی صدر اور قطر کی جانب سے کی گئی، کی تصدیق اب تک اسرائیلی کابینہ نے نہیں کی تاہم اس کا ایک مرکزی نکتہ اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی ہے جن میں مروان البرغوثی بھی شامل ہیں۔
تو مروان البرغوثی کون ہیں اور ان کی رہائی اتنی اہم اور متنازع کیوں ہو سکتی ہے؟
15 سال کی عمر میں فتح تحریک میں شمولیت
مروان 1958 میں رملہ کے قریب کبر گاوں میں پیدا ہوئے تھے۔ ابھی ان کی عمر نو سال تھی جب اسرائیل نے 1967 کی جنگ میں غرب اردن اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا تھا۔
مروان البرغوثی نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز 15 سال کی عمر میں فتح تحریک میں شامل ہو کر کیا۔ اُس وقت فتح تحریک کے سربراہ یاسر عرفات تھے۔
جیسے جیسے اُن کا سیاسی کیریئر بڑھتا گیا انھوں نے فلسطینی جدودجہد کے لیے آواز بلند کرنا مزید تیز کر دیا۔
1978 میں انھیں پہلی بار ایک مسلح تنظیم کا رکن ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور وہ چار سال قید میں رہے۔
مروان نے قید کے دوران عبرانی زبان سیکھی اور 1983 میں رہائی کے بعد یونیورسٹی میں داخلہ لیا لیکن ڈگری حاصل کرنے میں انھیں 11 سال لگے۔
اس دوران وہ سیاسی طور پر متحرک رہے اور فتح کی ’ینگ گارڈ‘ نامی تنظیم کے سرکردہ رکن بنے جو یاسر عرفات اور محمود عباس کی جلا وطنی کے دوران ابھری تھی۔
انتفادہ
1987 میں جب پہلے انتفادہ کا آغاز ہوا تو مروان غرب اردن کے رہنما کے طور پر ابھرے۔
مروان کو بعد میں اردن جلاوطن کر دیا گیا تھا لیکن 1994 کے اوسلو معاہدے کے بعد وہ واپس لوٹے۔
انھوں نے امن معاہدے کی حمایت کی لیکن اسرائیل کے حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار رہے۔ جب ستمبر 2000 میں انتفادہ کی دوسری لہر کا آغاز ہوا تو وہ غرب اردن میں فتح کے رہنما اور عسکری عنگ تنظیم کے سربراہ تھے۔
2001 میں وہ ایک قاتلانہ حملے میں اس وقت بال بال بچے تھے جب ان کے محافظ کی گاڑی کو میزائل سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ مروان کی ایک بیٹی اور تین بیٹے ہیں۔
فتح پارٹی کی قیادت کے لیے غرب اردن کے ضلع میں ہونے والے پرائمری انتخابات میں مروان کو 40 ہزار میں سے 34 ہزار ووٹ ملے تھے۔
یاسر عرفات کے انتقال کے بعد مروان نے محمود عباس کی حمایت کی تھی لیکن پھر اپنے حامیوں کے اصرار پر اپنی امیدواری کا اعلان کر دیا تھا۔
’كتائب شہدا الاقصىٰ‘ اور گرفتاری
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
مروان البرغوثی کو سنہ 2002 میں اسرائیل نے ’آپریشن ڈیفینسو شیلڈ‘ کے دوران گرفتار کیا تھا۔ اسرائیل نے اُن پر الزام لگایا تھا کہ انھوں نے عسکری گروہ ’کتائب شہدا الاقصیٰ‘ کی بنیاد رکھی لیکن مروان البرغوثی نے اس الزام کی تردید کی۔
اس تنظیم نے فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی سپاہیوں اور آباد کاروں کے خلاف مہلک حملے کیے تھے۔
مروان البرغوثی کو انھی الزامات کے تحت 2004 میں پانچ بار عمر قید کے ساتھ ساتھ مزید 40 سال قید سخت کی سزا سنائی گئی تھی۔ تاہم انھوں نے اسرائیلی عدالت کے اختیار اور اس کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا۔
بی بی سی عربی سے بات کرتے ہوئے اُن کی اہلیہ فدویٰ نے گزشتہ سال کہا تھا کہ ‘ان کے خلاف فرد جرم اس لیے نہیں لائی گئی کیونکہ انھوں نے یہ عمل اپنے ہاتھوں سے کیے بلکہ اس لیے کیونکہ وہ ایک رہنما تھے۔’
فدویٰ خود بھی ایک وکیل ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ تفتیش کے دوران مروان نے اپنے خلاف عائد کیے گئے تمام الزامات کو مسترد کیا اور ‘انھوں نے اس الزام کی بھی تردید کی کہ انھوں نے کتائب شہدا الاقصیٰ کی بنیاد رکھی۔’
مروان کو ملنے والی سزا نے انھیں فلسطین میں اتنا مشہور کر دیا کہ بہت سے لوگ اب انھیں فلسطینی نیلسن منڈیلا سمجھتے ہیں۔ انھیں محمود عباس کے بعد فلسطینی اتھارٹی کا اگلا صدر بننے کے لیے بہترین امیدوار بھی سمجھا جاتا ہے۔ تاہم ایسا تب ہی ممکن ہو گا اگر انھیں قید سے رہائی مل جائے۔
فلسطین کے ’جلا وطن‘ صدر؟
اسرائیلی اخبارات کے مطابق یہ عندیہ موجود ہے کہ اسرائیل انھیں رہا کر سکتا ہے لیکن یہ رہائی مشروط ہو گی اور شرط یہ ہو گی کہ انھیں فلسطینی علاقوں سے باہر رکھا جائے۔
انیس القاسم، جو ماہر بین الاقوامی قانون ییں، نے بی بی سی عربی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر ایسا ہوتا ہے تب بھی بیرون ملک سے مروان فلسطینی صدر بن سکتے ہیں۔‘
ماضی میں ایسی روایات موجود ہیں جب جلا وطن رہنما بیرون ملک موجود ہوتے ہوئے سربراہ مملکت رہے، جیسا کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران بھی ہوا۔ فلسطینی آئین میں بھی ایسی کوئی قدغن موجود نہیں جو مروان یا کسی اور کو جلاوطنی میں صدارت چلانے سے روکے۔
انیس کا کہنا ہے کہ اسرائیل مروان کو ان کی بڑے پیمانے پر حمایت کی وجہ سے انھیں رہا لیکن جلاوطن کرنا چاہے گا۔
یورپی یونین کی فنڈنگ سے چلنے والا فلسطینی سینٹر برائے پالیسی اور سروے ریسرچ نے 13 دسمبر 2023 کو ایک پول رپورٹ شائع کی تھی جس کے مطابق مروان صدارت کے لیے معروف انتخاب ہوں گے۔
اس وقت کی رپورٹ کے مطابق اگر صدارتی انتخابات میں محمود عباس، سابق حماس رہنما اسماعیل ہنیہ (جن کی ہلاکت ہو چکی ہے) اور مروان امیدوار ہوتے تو البرغوثی 47 فیصد، اسماعیل ہنیہ 43 فیصد اور محمود عباس صرف سات فیصد ووٹ لیتے۔
2021 کے صدارتی انتخابات میں مروان کی جانب سے حصہ لینے کا قوی امکان تھا تاہم محمود عباس نے یہ الیکشن منسوخ کر دیا تھا۔ انھوں نے اسرائیل کی جانب سے مشرقی یروشلم کو الیکشن میں شریک ہونے کی اجازت نہ دینے کو وجہ بیان کیا تھا۔
متفقہ امیدوار
مروان کا موقف ہے کہ وہ اسرائیل سے امن اور 1967 سے قبل کی سرحد پر مبنی دو ریاستی حل کے حق میں ہیں۔
سنہ 2002 میں انھوں نے امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں لکھا تھا کہ ’میں اور فتح تحریک، اسرائیل کے اندر سویلینز (عام عوام) کو نشانہ بنانے کے سخت خلاف ہوں۔ لیکن مجھے یہ حق حاصل ہے کہ میں اپنے آپ کا دفاع کروں، اپنے وطن پر اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت کروں اور اپنی آزادی کے لیے لڑوں۔‘
’میں ابھی بھی 1967 میں قبضہ کیے گئے فلسطینی علاقوں سے اسرائیل کے مکمل انخلا کی بنیاد پُرامن بقائے باہمی کا خواہاں ہوں۔۔۔۔‘
’سچ کہوں تو ہم ہمیشہ اسرائیلی مداخلت کا الزام لگاتے ہوئے تھک چکے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم صرف بین الاقوامی قانون کے نفاذ کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
2002 سے اسرائیلی جیل میں قید مروان فسلطین کے نئے صدر کے عہدے کے لیے ایک متفقہ امیدوار ہو سکتے ہیں۔
اگرچہ بہت سے اسرائیلی انھیں قتل کے جرم میں دی جانے والی سزا کی وجہ سے ان کی رہائی کے مخالف ہیں، دیگر کا ماننا ہے کہ فلسطینیوں کے درمیان اتفاق رائے قائم کرنے اور مخالف دھڑوں کو متحد کرنے کے لیے وہ بہترین امیدوار ہیں جو امن قائم کر سکتے ہیں۔
جنوری 2024 میں اسرائیلی مصنف گریشون باسکن نے ہاریٹز اخبار میں لکھا تھا کہ ’غزہ کی جنگ کے بعد ایک ایسا فلسطینی رہنما ضروری ہو گا جو فلسطینی اتحاد کو مضبوط کر سکے اور خطے کو غیر مسلح رکھنے کا عزم رکھتا ہو۔ یہ رہنما مروان ہو سکتے ہیں۔‘
SOURCE : BBC