SOURCE :- BBC NEWS

نپولین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

9 منٹ قبل

110 برس قبل ہونے والی واٹرلو کی جنگ وہ معرکہ تھا جس نے فرانسیسی عسکری کمانڈر نپولین بوناپارٹ کے دورِ اقتدار کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا۔

بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر لڑی جانے والی اس جنگ میں برطانیہ کی سربراہی میں نپولین مخالف اتحاد نے فرانسیسی جرنیل کو شکست دی۔

اس شکست کے بعد نپولین کو لگا کہ یورپ میں اس کا کوئی مستقبل نہیں اس لیے اس نے امریکہ جانے کا فیصلہ کیا لیکن برطانوی بحری جہازوں نے بحرِ اوقیانوس کے فرانسیسی ساحل کو اس طرح گھیر لیا تھا کہ وہاں سے فرار تقریباً ناممکن تھا۔

اس صورتحال میں نپولین نے فیصلہ کیا کہ وہ برطانوی بحریہ کے سامنے ہتھیار ڈال دے گا اور برطانیہ میں سیاسی پناہ حاصل کرے گا، لیکن برطانیہ نپولین کو کوئی رعایت دینے کے موڈ میں نہیں تھا۔

اے ایم بریڈلی اپنی کتاب ’نپولین ان کیریکیچر 1795-1821‘ میں لکھتے ہیں ’برطانوی عوام کی نظر میں نپولین شکار سے زیادہ ایک مجرم تھا، وہاں کے کارٹونسٹ اسے پنجرے میں بند جانور کی طرح دکھا رہے تھے۔ عام رائے یہ تھی کہ اگر اسے انگلینڈ میں رکھا گیا تو وہ ایک بڑا چیلنج بن جائے گا اور وہ برطانیہ یا کسی اور ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔‘

نپولین کو سینٹ ہیلینا بھیجنے کا فیصلہ

نپولین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اس صورتحال میں برطانوی حکومت نے نپولین کو سینٹ ہیلینا میں رکھنے کا فیصلہ کیا جو دنیا سے مکمل طور پر کٹا ہوا مغربی افریقہ کا ایک ایسا جزیرہ تھا جس پر تاجِ برطانیہ کا قبضہ تھا۔ یہ مقام خشکی کے کسی اور ٹکڑے سے کم از کم 1200 کلومیٹر دور تھا۔

اس جزیرے کا رقبہ 122 مربع کلومیٹر تھا۔ یہ جزیرہ پرتگالیوں نے 1502 میں دریافت کیا تھا۔

برائن انون اس جزیرے پر نپولین کے آخری ایام کے بارے میں اپنی کتاب میں لکھتے ہیں، ’سینٹ ہیلینا ہندوستان پر حکمرانی کرنے والی ایسٹ انڈیا کمپنی کے جہازوں کے لیے ایک اہم آرام گاہ تھی۔

’یہ برطانوی چھاؤنی کی ایک قسم تھی جس میں تقریباً پانچ ہزار لوگ رہتے تھے جن میں مڈغاسکر کے غلام اور چینی مزدور بھی شامل تھے جو یہاں سے ہر برس گزرنے والے تقریباً ایک ہزار بحری جہازوں کی دیکھ بھال کرتے تھے۔‘

27 لوگ نپولین کے ساتھ سینٹ ہیلینا گئے

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

31 جولائی 1815 کو ایڈمرل لارڈ کیتھ نے نپولین کو مطلع کیا کہ انھیں سینٹ ہیلینا میں جنگی قیدی کے طور پر رکھا جائے گا۔

نپولین نے اس فیصلے پر سخت احتجاج کیا اور کہا کہ اسے بےوقوف بنایا گیا اور وہ سمجھ رہا تھا کہ اسے انگلینڈ میں ہی رہنے دیا جائے گا۔

سینٹ ہیلینا میں قید کیے جانے کی خبر سن کر نپولین اپنے جہاز کے کیبن میں چلے گئے اور تین دن تک باہر نہ نکلے۔ چوتھے دن انھوں نے برطانوی حکومت کو ایک رسمی خط لکھ کر احتجاج کا اظہار کیا۔

ایڈم زیمووسکی اپنی کتاب ’نپولین دی مین بیہائنڈ دی متھ‘ میں لکھتے ہیں ’مجموعی طور پر 27 افراد کو نپولین کے ساتھ سینٹ ہیلینا جانے کی اجازت دی گئی اور جب یہ لوگ بحری جہاز پر سوار ہوئے تو نپولین اور ان کے ساتھیوں کے سامان کی تلاشی لی گئی جس سے بہت ساری دولت برآمد ہوئی۔‘

تاہم ایڈم کے مطابق اس کے باوجود نپولین اور ان کے ساتھ کچھ دولت ساتھ لے جانے میں کامیاب رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’نپولین کو پہلے ہی اس بات کا شبہ تھا اس لیے انھوں نے اپنے ساتھیوں کی کمر کے گرد سونے کے سکے بیلٹ کی شکل میں باندھ دیے تھے۔‘

اس طویل سفر کے دوران انھوں نے سمندری سفر کی سختیوں کا بخوبی سامنا کیا۔ وہ زیادہ تر اپنے کیبن میں رہ کر کتب بینی میں مصروف رہتے تھے۔ اس سفر کے دوران انھوں نے ملاحوں سے بات چیت کے ذریعے اپنی انگریزی بہتر کرنے کی کوشش بھی کی۔

نپولین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

نپولین اور انگریزوں کے بگڑتے تعلقات

24 اکتوبر کو نپولین اور ان کے ساتھی سینٹ ہیلینا پہنچے۔ یہاں ایک فوجی گورنر کی حکومت تھی اور برطانوی فوج کا ایک چھوٹا دستہ یہاں تعینات تھا۔

نپولین کو سب سے پہلے دی بریئر نامی مقام پر رکھا گیا تھا لیکن کچھ دنوں کے بعد انھیں لانگ ووڈ ہاؤس شفٹ کر دیا گیا۔

برائن انون لکھتے ہیں ’نپولین کو وہاں کڑی نگرانی میں رکھا گیا تھا۔ اگر وہ باغ سے نکلتے تو ایک برطانوی فوجی ہمیشہ اس کے ساتھ رہتا۔ جب ہڈسن لو کو سینٹ ہیلینا کا گورنر بنایا گیا تو نپولین پر پابندیاں مزید بڑھ گئیں۔ 1816 تک اس کے برطانوی افسر شاہی کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے۔‘

مورخین کے مطابق جب انگریزوں نے نپولین کے لیے نئی رہائش گاہ بنانا شروع کی تو فرانسیسی جرنیل کو محسوس ہونے لگا کہ انھیں اپنی باقی زندگی سینٹ ہیلینا میں ہی گزارنی ہوگی۔

باغ میں چہل قدمی اور تاش کا کھیل

نپولین نے اپنا زیادہ تر وقت لانگ ووڈ ہاؤس میں کتب بینی میں گزارا۔ وہ یورپ سے آنے والے جہازوں کا انتظار کرتا تاکہ وہاں سے کتابیں حاصل کر سکے۔

نپولین کا دوسرا مشغلہ ملاقات کے لیے آنے والے لوگوں کی مہمان نوازی تھا۔

جین پال بارٹو نپولین کی سوانح عمری میں لکھتے ہیں، ’نپولین نے ہمیشہ مہمان نوازی پر بجٹ سے زیادہ رقم خرچ کی۔ اس نے بڑی مقدار میں شراب پی اور پیش کی، صرف 1816 میں اسے شراب کی 3700 بوتلیں بھیجی گئیں، جن میں باؤڈو وائن کی 830 بوتلیں بھی شامل تھیں۔‘

جین بارٹو کا کہنا ہے کہ ’نپولین نے گھڑسواری اور باغ میں باقاعدگی سے چہل قدمی کی مدد سے خود کو صحت مند رکھا۔ چہل قدمی کے دوران کیپٹن پوپلٹن ہمیشہ اس کے ساتھ رہتا تھا کیونکہ اسے نپولین پر نظر رکھنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ نپولین نے اپنی شامیں اپنے دوست بالکم کے ساتھ تاش کھیلتے ہوئے گزاریں۔‘

نپولین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

نپولین کو سینٹ ہیلینا کا موسم اور ماحول پسند نہیں آیا

اسی دوران نپولین کی قیام گاہ یعنی لانگ ووڈ ہاؤس میں بھی تعمیراتی کام جاری تھا۔

ایڈم زموسکی لکھتے ہیں، ’نپولین نے شکایت کی کہ رنگ کی بو کی وجہ سے وہ بیمار محسوس کرتے ہیں۔ نپولین کو سینٹ ہیلینا کا موسم اور ماحول پسند نہیں تھا۔ یہی صورتحال ان کے ساتھیوں کی تھی جو خشک آب و ہوا، اچھے کھانے اور عیش و آرام کے عادی تھے۔‘

انھوں نے لکھا، ’نپولین کے ساتھ آنے والے افسران نے ان کی موجودگی میں مکمل شاہی پروٹوکول کی پیروی کی۔ دن کے وقت نپولین عام طور پر سبز شکاری کوٹ یا سفید لینن کا کوٹ اور پتلون پہنتا تھا۔ رات کو وہ اپنی پوری فوجی وردی میں عشائیے میں شرکت کرتا تھا۔ اس کے ساتھ آنے والی خواتین دربار کے لیے مخصوص لباس اور زیورات پہن کر عشائیے میں موجود ہوتی تھیں اور کھانے کے بعد وہ لوگ یا تاش کھیلتے تھے، باتیں کرتے تھے یا پھر نپولین انھیں کتابوں سے کچھ پڑھ کر سناتا تھا۔‘

نپولین کی ہر حرکت پر کڑی نظر رکھی جاتی تھی

قید ہونے کے باوجود نپولین نے باغبانی کے اپنے شوق کو جاری رکھا۔ اس کام میں دو چینی مزدور ان کی مدد کرتے تھے۔ نپولین خود پودوں کو پانی دینا پسند کرتا تھا۔

نپولین صحیح معنوں میں جنگی قیدی تھے اور نہ ہی سزا یافتہ مجرم۔ انھیں ایک حد تک چہل قدمی یا گھڑسواری کی اجازت تھی تاہم اس وقت بھی ایک انگریز افسر ہمیشہ ان کے ساتھ ہوتا تھا جبکہ گھر کے اندر بھی سپاہی ان کی ہر سرگرمی پر نظر رکھتے تھے۔

دن میں دو بار ایک افسر نپولین کی وہاں موجودگی کی تصدیق کے لیے ان سے ملاقات کرتا تھا۔ سینٹ ہیلینا کے گورنر ریئر ایڈمرل سر جارج کاک برن نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ ’دو بحری جہاز مسلسل اس جزیرے کے گرد چکر لگاتے رہتے تھے۔ نپولین کو کوئی اخبار نہیں دیا گیا تھا۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ نپولین نے کبھی سینٹ ہیلینا سے فرار ہونے کا سوچا ہو۔‘

اس کے برعکس انھوں نے خود کو وہاں کے حالات کے مطابق اس طرح ڈھال لیا تھا کہ لگتا تھا کہ وہ اس سے لطف اندوز ہو رہا ہو۔ وہ تمام انگریز افسروں کے ساتھ شائستگی سے پیش آتا تھا جبکہ آتے جاتے نپولین کی صرف ایک جھلک دیکھنے میں انگریز فوجیوں کے لیے بڑی کشش تھی۔

نپولین بھی ان لوگوں کے ساتھ بہت اچھا برتاؤ کرتا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ برطانوی اخبارات میں ایسی خبریں شائع کروائی جانے لگیں کہ نپولین کو انتہائی مشکل حالات میں رکھا جا رہا ہے۔

نپولین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

نپولین اور گورنر لو کے درمیان تنازعہ

اپریل 1816 میں میجر جنرل سر ہڈسن لو کو ایڈمرل کاک برن کی جگہ سینٹ ہیلینا کا فوجی گورنر مقرر کیا گیا لیکن ان کے نپولین سے تعلقات ابتدا سے ہی خوشگوار نہ تھے۔

ایڈم زموسکی نے لکھا کہ ’جب نئے گورنر پیشگی اطلاع کے بغیر لانگ ووڈ ہاؤس پہنچے تو نپولین نے ان سے ملنے سے انکار کر دیا اور پیغام بھیجا کہ وہ ایک دن بعد ان سے ملیں گے۔ پھر ملاقات تو ہو گئی لیکن نپولین نے اسی لمحے سے اسے ناپسند کرنا شروع کر دیا اور لو نے بھی نپولین کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔‘

اور پھر جب نپولین کے ایک انگریز مداح نے انھیں کتابوں سے بھرے دو ڈبے بھیجے تو لو نے انھیں ضبط کر لیا۔ یہی نہیں بلکہ جب نپولین کی بہن پولین نے انھیں عام استعمال کے لیے کچھ چیزیں بھیجیں تو انھیں اس بنیاد پر روک لیا گیا کہ فرانسیسی جرنیل کو اتنی چیزوں کی ضرورت نہیں ہے۔

اس دوران لو اور نپولین کے درمیان دو ملاقاتیں ہوئیں۔ تھامس اوبری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ’ان تمام ملاقاتوں کے دوران نپولین کھڑا رہا۔ نتیجے کے طور پر لو کو بھی کھڑا ہونا پڑا کیونکہ شہنشاہ کے سامنے بیٹھنا پروٹوکول کے خلاف ہوتا۔ لو کو حکامِ بالا سے نپولین پر اخراجات کم کرنے کے احکامات موصول ہوئے۔ لو نے جب نپولین سے اس بارے میں بات کرنا چاہی تو نپولین نے انھیں اس بارے میں اپنے بٹلر سے بات کرنے کو کہا۔‘

جب لو 18 اگست 1816 کو دوبارہ نپولین سے ملنے گیا تو نپولین نے اسے طنزیہ انداز میں کہا کہ تم محض ایک کلرک سے زیادہ کچھ نہیں ہو۔

گلبرٹ مارٹنیو نپولین کی سوانح عمری میں لکھتے ہیں، ’نپولین نے لو سے کہا ’تم بالکل بھی غیرت مند آدمی نہیں ہو۔ تم وہ آدمی ہو جو دوسرے لوگوں کے خط چھپ کر پڑھتے ہو۔ تم محض ایک جیلر ہو، فوجی ہرگز نہیں۔ میرا جسم ہو سکتا ہے تمہارے ہاتھ میں ہو، لیکن میری روح آزاد ہے۔‘

یہ سن کر لو کا چہرہ سرخ ہو گیا اور انھوں نے نپولین سے کہا ’تم مضحکہ خیز ہو اور تمہاری بدتمیزی قابل رحم ہے۔‘

یہ کہہ کر گورنر وہاں سے چلے گئے اور اس کے بعد وہ نپولین کے زندہ رہتے ہوئے کبھی ان سے نہیں ملے۔

نپولین کی بگڑتی صحت

نپولین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اسی دوران نپولین کا حوصلہ بھی پست ہونے لگا۔ ایک جیسی زندگی، بوریت، خراب موسم، خراب کھانا، ہر دروازے اور کھڑکی پر محافظوں کی موجودگی، نقل و حرکت پر پابندیوں اور پھر بیماریوں نے نپولین کو بہت پریشان کیا۔

گورنر کی جانب سے نقل و حرکت پر پابندیاں عائد کیے جانے کے بعد، نپولین نے گھڑسواری اور چہل قدمی چھوڑ دی۔

1816 کے آخر تک نپولین کھانسی اور بخار میں مبتلا رہنے لگے اور کئی دن ایسے ہوتے تھے جب وہ کپڑے بھی نہیں بدلتا تھے اور کمرے سے باہر نہیں نکلتے تھے۔

تھامس اوبری لکھتے ہیں، ’جب نپولین بیمار ہوا تو گورنر لو نے پہلے تو یہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ بیمار ہے۔ بعد میں انھوں نے فوجی ڈاکٹر بھیجنے کی پیشکش کی، جسے نپولین نے قبول کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ اسے شبہ تھا کہ وہ گورنر کے لیے جاسوسی کرے گا لیکن بعد میں نپولین نے انگلش بحریہ کے ڈاکٹر جان سٹوکو کو ملاقات کی اجازت دے دی۔‘

52 سال کی عمر میں وفات

جنوری 1819 میں ڈاکٹر سٹوکو نے دریافت کیا کہ نپولین ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہے۔ اپریل میں نپولین نے برطانوی وزیر اعظم لارڈ لیورپول کو خط بھیجا جس میں اپنی خرابی صحت کی شکایت کی گئی لیکن لو نے وزیراعظم کو قائل کر لیا کہ نپولین کی صحت خراب نہیں ہے۔

موسم بہار کے آنے تک نپولین ایک سنگین بیماری میں مبتلا ہو چکا تھا۔ یہ یا تو کینسر تھا یا معدے میں السر جس کی وجہ سے اس کا خون بہہ رہا تھا۔

اپریل کے آخری ہفتے میں نپولین کو خون کی الٹیاں آنے لگیں۔ اس نے درخواست کی کہ اس کا بستر ڈرائنگ روم میں شفٹ کر دیا جائے جہاں زیادہ روشنی ہو۔

وہ دن بدن کمزور ہوتا جا رہا تھا اور کبھی کبھی بے ہوش بھی ہو جاتا تھا۔ پھر پانچ مئی 1821 کی شام آئی جب پانچ بج کر 50 منٹ پر فرانسیسی جرنیل نے آخری سانس لی۔ اس وقت اس کی عمر صرف 52 سال تھی۔

نپولین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پیرس میں دوبارہ تدفین

نپولین کی موت کے بعد اس کی وجوہات پر تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ ایلن فورسٹ نے نپولین کی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ ’اس کے بالوں میں سنکھیا کے آثار پائے گئے تھے۔ اس کے ایک ساتھی مارچن نے اس کے کچھ بالوں کو یادگار کے طور پر رکھا تھا۔ بعد میں جب اس کا سائنسی تجربہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ نپولین کو شاید زہر دیا گیا تھا۔‘

نپولین نے اپنے آخری ایام میں اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اسے پیرس میں دفن کیا جائے لیکن یہ بات اس وقت کی برطانوی اور فرانسیسی حکومتوں کو منظور نہ تھی۔

فیصلہ ہوا کہ اسے سینٹ ہیلینا میں ہی دفن کیا جائے۔ جب اس کی لاش کو 12ویں گرینیڈیئرز کے سپاہی تدفین کے لیے لے جا رہے تھے تو سینٹ ہیلینا کی پوری آبادی اس منظر کو دیکھنے کے لیے باہر نکل آئی۔

اس کا تابوت نیلے مخمل کے کپڑے میں ڈھکا ہوا تھا اور اس کے اوپر اس کی تلوار اور گھڑی رکھی ہوئی تھی۔

اس کی تدفین کے 18 سال بعد، فرانس کے بادشاہ لوئی فلپ کے حکم پر، نپولین کی لاش کو سینٹ ہیلینا میں مقبرے سے نکال کر پیرس لے جایا گیا، جہاں اسے پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ دوبارہ دفن کر دیا گیا۔

SOURCE : BBC