SOURCE :- BBC NEWS
- مصنف, ریاض سہیل
- عہدہ, بی بی سی اردو، کراچی
-
ایک گھنٹہ قبل
پاکستان کی قومی ایئرلائن (پی آئی اے) کی پہلی کمرشل پرواز نے پیر کو نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر کامیابی سے لینڈ کیا، جو حکام کے مطابق رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا ہوائی اڈہ ہے۔
پی آئی اے کا اے ٹی آر طیارہ پیر کی صبح نیو گوادر بین الاقوامی اڈے پر اُترا اور اس حوالے سے وہاں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔
حکام کے مطابق سالانہ چار لاکھ مسافروں کی گنجائش رکھنے والے گوادر ایئرپورٹ کے منصوبے کی منظوری سنہ 2009 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے دی تھی جبکہ اس کی تعمیر کی آغاز سنہ 2019 میں ہوا۔ یوں اس ایئرپورٹ کو کمرشل پروازوں کے لیے پوری طرح آپریشنل ہونے میں لگ بھگ 16 سال کا عرصہ لگا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ملک کی مجموعی سکیورٹی صورتحال خاص کر چینی انجینیئرز پر حملوں کے باعث ایئرپورٹ کی تعمیر میں تاخیر ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ چین نے بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں ایئرپورٹ کی تعمیر سمیت دیگر بڑے منصوبوں کے لیے بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔
چین نے دنیا بھر میں تجارتی انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے صدر شی جن پنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت ایئرپورٹ کے علاوہ گوادر میں بندرگاہ کی بھی تعمیر کی ہے۔
نیو گوادر ایئرپورٹ میں کیا خاص ہے؟
سول ایوی ایشن کے ترجمان کے مطابق پی کے 503 پرواز کراچی سے صبح 9:50 بجے روانہ ہوئی اور 11:15 بجے گوادر کے جدید سہولیات سے آراستہ ہوائی اڈے پر اُتری اور یوں 46 مسافروں کو لے کر آنے والی یہ پرواز نیو گوادر ایئرپورٹ کے باقاعدہ آپریشنز کے آغاز کی علامت بنی۔
پہلی پرواز کو دو فائر انجنز نے واٹر کینن سے سلامی دی۔
نیو گوادر ایئرپورٹ کے لاؤنج میں افتتاحی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ وزیر دفاع و ہوا بازی خواجہ آصف اس تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے۔ انھوں نے گورنر بلوچستان جعفر خان مندوخیل اور وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز احمد بگٹی کے ہمراہ اس پرواز اور اس کے مسافروں کا استقبال کیا۔
خواجہ آصف نے نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو بلوچستان کے لوگوں کے لیے ایک نئے دور کی خوشحالی کا نشان قرار دیا اور کہا کہ اس سے سرمایہ کاری بڑھے گی، روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور مقامی کاروبار کو فروغ ملے گا۔
خواجہ آصف نے اپنے خطاب کے دوران یہ بھی کہا کہ گوادر ائیرپورٹ کی تعمیر چین، پاکستان تعاون کا ایک قابل ذکر کارنامہ ہے اور یہ منصوبہ پاکستانی اور چینی ٹیموں کے بے پناہ کوششوں اور لگن سے زندہ ہوا۔
پاکستان ایئرپورٹس اتھارٹی کے مطابق نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پراجیکٹ چین پاکستان اقتصادی راہداری یعنی سی پیک کا ایک فلیگ شپ منصوبہ ہے جو گرانڈانی میں سٹریٹجک طور پر واقع ہے اور تقریباً 4,300 ایکڑ کے رقبے پر محیط ہے۔
سول ایوی ایشن کے ترجمان نے بتایا کہ یہ پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ایئرپورٹ ہے جس کی تعمیر کے لیے گرانٹ میں چین کا بڑا حصہ ہے اور کچھ حصہ عمان کا بھی ہے۔
اس کا رن وے 3.6 کلومیٹر طویل ہے جو بڑے طیاروں جیسے بوئنگ 747 اور ایئربس اے 380 کی لینڈنگ کے لیے بھی موزوں ہے۔ یہاں جدید ایئر ٹریفک کنٹرول سسٹم اور نیوی گیشنل ایڈز اور جدید سکیورٹی خصوصیات اور مسافروں کی سہولتیں دستیاب ہیں۔
ایئرپورٹ پر مسافروں کی رہنمائی کے لیے آویزاں ہدایتی بورڈز انگریزی اور اردو کے علاوہ چینی زبان میں بھی تحریر ہیں۔
ایئرپورٹس اتھارٹی کا دعویٰ ہے کہ جدید ترین انفراسٹرکچر سے حامل ایئرپورٹ پر سالانہ چار لاکھ مسافروں کی گنجائش موجود ہے یعنی ہر ماہ 33 ہزار مسافر آ جا سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ پرانے ایئرپورٹ پر ہر ہفتے تقریباً اے ٹی آر کی تین پروازیں آتی رہی ہیں۔ نئے ایئرپورٹ پر بھی پہلی پرواز اے ٹی آر کی ہی آئی ہے۔
لاگت میں کئی گنا اضافہ ہوا
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
نیو گوادر ایئرپورٹ چین پاکستان اقتصادی راہدری کے منصوبے سے پہلے سے پلاننگ میں موجود رہا۔ اس میں عملدرآمد میں تاخیر سے اس کی لاگت میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ستمبر 2009 میں اس وقت کی پلاننگ کمیشن کی سینٹرل ڈیویلپمنٹ ورکنگ پارٹی نے تقریباً 90.6 ملین ڈالرز کی لاگت سے اس کی تعمیر کی منظوری دی تھی۔
تاہم ایئرپورٹس اتھارٹی کے مطابق موجودہ منصوبہ تقریباً 246 ملین امریکی ڈالر کی لاگت سے تیار کیا گیا ہے جس کی فنڈنگ میں حکومتِ پاکستان، پاکستان ایئرپورٹس اتھارٹی کے علاوہ سلطنتِ عمان اور حکومتِ چین کے گرانٹ بھی شامل ہیں۔
پلاننگ کمیشن کی جانب سے جمع کرائی گئی سمری کے مطابق نظرثانی شدہ سکیم میں گوادر شہر سے 26 کلومیٹر مشرق میں گرانڈانی میں نئے ایئرپورٹ کی تعمیر کے لیے تقریباً 4,300 ایکڑ اراضی کے حصول کا پرپوزل پیش کیا گیا تھا۔
اس منصوبے کی تعمیر کا تخمینہ تقریباً 6.8 ارب روپے بتایا گیا تھا جس میں سے 4300 ایکڑ اراضی کے حصول کے لیے 1.5 ارب روپے رکھے گئے تھے۔
پلاننگ کمیشن نے 2009 میں کہا تھا کہ موجودہ گوادر ایئرپورٹ گوادر شہر سے 12 کلومیٹر شمال میں واقع ہے جو تقریباً 700 ایکڑ کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور صرف فوکر ایف 27 آپریشن ہینڈل کرنے کے قابل ہے۔
اس کے مطابق گوادر میں نئے گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی تعمیر بلوچستان کے جنوبی علاقے تک آسان اور موثر رسائی فراہم کرنے کے ٹرانسپورٹ سیکٹر کے مجموعی مقصد کا ایک لازمی حصہ ہو گا اور نئے گوادر بین الاقوامی ہوائی اڈے (این جی آئی اے) کو گرین فیلڈ ایئرپورٹ کے طور پر تیار کیا جائے گا۔
وفاقی وزیر خواجہ آصف نے پیر کو افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس ایئرپورٹ کی تعمیر کو اپنی پارٹی کے پچھلے دور سے منسلک کیا اور کہا کہ گوادر انٹرنیشنل ائیرپورٹ کی تعمیر 2014، 2015 میں شروع کی گئی۔ انھوں نے کہا کہ یہ سی پیک منصوبوں کا حصہ ہے اور سی پیک کے بانیوں نے گوادر کے علاقائی اور اقتصادی ترقی کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے اس جدید ائیررپورٹ کے قیام کو ترجیح دی تاکہ یہ پاکستان اور دنیا کے درمیان ایک رابطہ فراہم کر سکے۔
افتتاح میں تاخیر مگر ’کوئی خاص استعمال نظر نہیں آتا‘
بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال اور احتجاج گوادر کے اس نئے ایئرپورٹ کے افتتاح کی راہ میں کئی بار رکاوٹ بنے۔ ابتدا میں نئے ہوائی اڈے کا افتتاح 14 اگست 2024 کو مجوزہ تھا تاہم 28 جولائی کو بلوچ یکہجتی کمیٹی نے گوادر میں احتجاجی دھرنا دیا جس نے پُرتشدد شکل اختیار کر لی اور یہ احتجاج کئی روز تک جاری رہا جس کی وجہ سے افتتاح ممکن نہیں ہو سکا۔
25 اگست کو بیلہ میں ایف سی کے کیمپ پر خودکش حملے سمیت صوبے میں 13 مقامات پر کارروائی کی گئی جس کی ذمہ داری کالعدم جماعت بی ایل اے نے قبول کی۔ امن امان کی صورتحال کے باعث اکتوبر میں چینی وزیر اعظم لی چیانگ نے اسلام آباد سے گوادر ایئرپورٹ کا ورچوئل افتتاح کیا تھا۔
حکومت پاکستان نے جنوری کے پہلے ہفتے میں ایئرپورٹ کو فعال کرنے کا اعلان کیا تھا اور کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم کو بتایا گیا تھا کہ 10 جنوری کو ایئرپورٹ سے پہلی پرواز مسقط کے لیے روانہ ہو گی تاہم اس پر بھی عملدرآمد نہیں ہو سکا۔
بالاخر 20 جنوری کو پہلی اے ٹی آر پرواز نے لینڈ کیا جو عام طور پر پرانے ایئرپورٹ پر لینڈ کرتی تھی۔
اس حوالے سے بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ خطیر رقم سے تیار ہونے والے گوادر ایئرپورٹ کو فعال کرنے کا منصوبہ کس حد تک کامیاب ہو پائے گا۔
نیشنل پارٹی کے سینیٹر جان بلیدی کا کہنا ہے کہ اس وقت گوادر ضلع میں چار ایئرپورٹس ہیں جن میں سے اوڑماڑہ، جیونی اور پسنی غیر فعال ہیں جبکہ اسی طرح بلوچستان کے دیگر ایئرپورٹ پنجگور، تربت، خضدار اور دالبندین بھی فعال نہیں ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس صورتحال میں ‘ہمیں یہ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ کون سا کاروبار ہو گا یا ٹرانزٹ فلائٹس ہوں گی جن کے لیے لوگ گوادر آئیں گے اور پھر دنیا کے دوسرے ممالک کی طرف جائیں گے۔‘
ان کے مطابق اگر یہ ایئرپورٹ چین کے ساتھ سٹریجڈک مقصد کے لیے استعمال ہو گا تو یہ الگ بات ہے باقی اس کے کسی کمرشل اور معاشی فائدے کے امکانات نظر نہیں آتے۔
SOURCE : BBC