SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, فرحت جاوید اور روحان احمد
- عہدہ, بی بی سی اردو
-
ایک گھنٹہ قبل
انڈیا اور پاکستان کے درمیان گذشتہ چند روز سے ایک لفظی جنگ جاری ہے۔ پڑوسی ایٹمی طاقتوں کے بیچ بڑھتے تناؤ کا اندازہ اِن شہ سرخیوں سے لگایا جا سکتا ہے:
انڈیا نے پاکستان کا پانی بند کیا تو اقدام جنگ تصور کیا جائے گا: پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کا اعلامیہ۔
حملہ آوروں اور حملے کی سازش کرنے والوں کو ان کے تصور سے بھی بڑی سزا ملے گی: انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی۔
پاکستان اپنے ہر شہری کی موت کا بدلہ لے گا: وزیر دفاع پاکستان خواجہ آصف۔
پاکستان اور انڈیا زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کریں: اقوام متحدہ۔
یہ صورتحال ایک غیر یقینی کو جنم دے رہی ہے۔ تناؤ کا آغاز 22 اپریل کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں حملے اور 26 افراد کی ہلاکت کے بعد ہوا۔ سرحد کے ایک جانب سرجیکل سٹرائیک کے مطالبے اور دوسری جانب منھ توڑ جواب دینے کے عزم کے اظہار کے باوجود اس وقت سب سے بڑا اور اہم سوال یہی ہے کہ کیا تناؤ کا سب سے خطرناک مرحلہ گزر چکا یا نہیں؟
اس سوال کی وجہ ماضی میں پلوامہ اور اڑی حملوں کے بعد انڈیا کی جانب سے اپنائی جانے والی وہ حکمت عملی ہے جس کے تحت دونوں مرتبہ انڈیا کی سکیورٹی فورسز نے حکومت کے حکم پر سرحد پار کارروائی کی جس سے کشیدگی میں اضافہ ہوا۔
پلوامہ کے بعد بالاکوٹ حملے اور پاکستانی فضائیہ کی جوابی کارروائی نے ایک بڑے پیمانے کے تنازع کے خدشے کو جنم دیا تھا جب انڈین فضائیہ کا کم از کم ایک طیاری تباہ ہوا اور انڈین پائلٹ کو حراست میں لیا گیا۔
واضح رہے کہ ماضی کے برخلاف اب تک انڈیا کی حکومت نے پاکستان کی ریاست پر براہ راست پہلگام حملوں کے حوالے سے کوئی الزام عائد نہیں کیا۔ تاہم اس نے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا اقدام اٹھایا جو واضح اشارہ ہے کہ وہ اس حملے پر کس کو ذمہ دار سمجھتا ہے۔
اب تک صرف انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں اننت ناگ پولیس کی جانب سے حملہ آوروں کے مبینہ خاکے جاری کرتے ہوئے دو کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ وہ مبینہ طور پر پاکستانی شہری ہیں۔
تاہم شواہد کی غیر موجودگی میں روایتی اور سوشل میڈیا پر ممکنہ اقدامات کے بارے میں چہ مگوئیاں جاری ہیں جن کو سیاسی بیانات سے مزید تقویت مل رہی ہے۔
بی بی سی نے ماہرین سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ماضی میں انڈیا کی حکمت عملی کو دیکھتے ہوئے آنے والے دنوں میں یہ تنازع کیا رخ اختیار کر سکتا ہے؟ کیا انڈیا میں نریندر مودی حکومت ایک بار پھر سرحد پار کارروائی کرنے کی حکمت عملی کو اپنا سکتی ہے؟ دوسری جانب پاکستان کا ردعمل کیا ہو سکتا ہے؟
ان سوالات کے جواب جاننے سے پہلے دیکھتے ہیں کہ دونوں ممالک کی جانب سے اب تک کیا اقدمات اٹھائے گئے ہیں اور کیا یہ غیر معمولی ہیں؟

،تصویر کا ذریعہGetty Images
انڈیا اور پاکستان کے اقدامات

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
22 اپریل کو پہلگام، انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں ایک دہشتگرد حملے میں 26 سیاح ہلاک ہوئے۔ اس حملے کے بعد انڈیا نے پاکستان کے خلاف غیر معمولی نوعیت کے اقدامات کیے: انڈس واٹر ٹریٹی (سندھ طاس معاہدہ) کو معطل کر دیا، واہگہ اٹاری سرحد بند کی، ویزا سہولتیں واپس لیں اور سفارتی روابط محدود کیے۔
اس کے جواب میں پاکستان نے بھی کئی اقدامات کا اعلان کیا ہے جن میں دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والے تمام دو طرفہ معاہدے، جن میں شملہ معاہدہ بھی شامل ہے، معطل کر دیے گئے ہیں، اس کے علاوہ فضائی حدود اور سرحد بند کرنے کے علاوہ تجارت کا عمل معطل، انڈیا کے لیے پاکستان کی فضائی حدود استمعال کرنے پر پابندی اور سفارتی سطح پر انڈیا کو جواب دیتے ہوئے بھی متعدد پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ پاکستان نے بھی انڈیا کی طرح دفاعی اتاشیوں اور ان کے معاونین کو ملک چھوڑنے اور اور سفارتی عملہ محدود کرنے کو کہا ہے۔
پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے کے پانی کے بہاؤ کو روکنے یا اس کا رخ موڑنے کی کوئی بھی کوشش کو جنگی اقدام تصور کیا جائے گا جس کا پوری قوت سے جواب دیا جائے گا۔
1960 میں عالمی بینک کی ثالثی میں ہونے والا یہ معاہدہ کئی جنگوں، بحرانوں اور تناؤ کے باوجود قائم رہا لیکن اب پہلی بار انڈیا نے اسے جزوی طور پر معطل کر کے واضح پیغام دیا ہے کہ وہ پانی جیسے بنیادی وسیلے کو بطور دباؤ استعمال کرنے کو تیار ہے۔ اس کی معطلی کو ایک ’خطرناک پیشرفت‘ کہا جا رہا ہے۔
آج قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر دفاع نے بار بار یہ کہا کہ انڈیا کی جانب سے مزید ایسکیلیشن کیے جانے کے امکانات موجود ہیں مگر اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے پاس یہ ’معلومات‘ ہیں کہ انڈیا آنے والے دنوں میں بلوچستان اور خیبرپختونخواہ میں دہشت گردی کے واقعات بڑھانے میں کردار ادا کرے گا۔
وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو پاکستان بھرپور انداز میں جواب دے گا اور اپنے ہر شہری کی موت کا بدلہ لے گا۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
کیا امریکہ اس ’سنگین بحران‘ کو ختم کر سکتا ہے؟
بیانات کے بہاؤ میں چند ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ بحران ابھی بڑھے گا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بین الاقوامی جریدے فارن پالیسی کے سینیئر تجزیہ کار مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ انڈیا اور پاکستان ایک سنگین بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
’پہلگام حملہ، جس میں عام شہری مارے گئے، اور اس پر انڈیا کا غیرمعمولی ردعمل، خصوصاً سندھ طاس معاہدے کی معطلی، یہ سب ظاہر کرتے ہیں کہ حالات کسی معمولی تناؤ کی سطح پر نہیں رہے۔‘
سابق امریکی سفارتکار اور تھنک ٹینگ سٹمسن سینٹر سے منسلک خارجہ امور کی ماہر الزبتھ تھرلکڈ کہتی ہیں کہ ‘پہلگام حملے کے بعد کسی عسکری حملے کے امکانات بہت زیادہ ہیں، تاہم اس کا وقت کیا ہوگا اور اس کی شکل کیا ہو گی یہ واضح نہیں۔’
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘پاکستان یقینی طور پر کسی بھی انڈین حملے کا جواب ضرور دے گا اور جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں ممالک کے درمیان صورتحال مزید خطرناک ہوجائے گی جہاں آگے کا راستہ شاید کسی کو واضح نظر نہ آئے۔’
سابق امریکی سفارتکار الزبتھ تھرلکلڈ سمجھتی ہیں کہ شاید امریکہ اس مرتبہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کسی بھی قسم کی ‘کرائسز مینجمنٹ’ میں کوئی کردار ادا نہ کر پائے۔
’کیونکہ امریکہ کے تعلقات انڈیا سے گہرے ہو رہے ہیں اور پاکستان پر امریکی اثر و رسوخ کم ہو رہا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ کی نئی انتظامیہ کو اس وقت خارجہ پالیسی کے محاذ پر متعدد چیلنجز کا سامنا ہے اور ایسے میں وہ شاید ثالث کا موثر کردار ادا نہ کرپائے۔
حالیہ تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا جب انڈیا اور پاکستان کسی باقاعدہ جنگ کے انتہائی قریب پہنچے ہوں۔
خیال رہے کہ گذشتہ 25 سال میں دونوں ممالک کئی بار جنگ کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ 2001 میں انڈین پارلیمنٹ پر حملے کے بعد، انڈیا نے پاکستانی پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر دی تھی اور دونوں ممالک نے اہنی افواج سرحد پر منتقل کر دی تھیں۔ اسی طرح 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد بھی حالات شدید کشیدہ ہو گئے اور ایک بار پھر افواج سرحدوں پر کھڑی نظر آئیں۔
2019 میں پلوامہ حملے کے بعد انڈین فضائیہ نے بالاکوٹ میں کاروائی کی، جس کے جواب میں پاکستان نے انڈین طیارہ مار گرایا اور پائلٹ کو گرفتار کر لیا۔ ان سب واقعات کے باوجود روایتی جنگ کی نوبت نہیں آئی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس بار جو فرق ہے، وہ یہ ہے کہ سفارتی داؤ پیچ کے ساتھ ساتھ پانی جیسے بنیادی مسئلے کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔
اسی معاملے پر سینیئر صحافی عامر ضیا نے کہا کہ ’انڈیا ایسکلیشن کی سیڑھی پر بہت تیزی سے چڑھا اور میرے خیال میں اگلے 24 سے 48 گھنٹے نہایت اہم ہوں گے یہ دیکھنے کے لیے انڈیا کا اگلا اقدام کیا ہو گا۔ ایک فوجی ایکشن کی صورت میں اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان سخت جواب دے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’بدقسمتی ہے کہ ایک طرف انڈین قیادت پر دباؤ ہے کہ وہ کوئی بڑا ایکشن کریں جس کی ایک بہت بڑی وجہ وہاں کا میڈیا اور سیاست کا پاکستان کے گرد گھومنا ہے۔ تو دوسری جانب پاکستان کی قیادت پر بھی یہ دباؤ ہے کہ انڈیا کے اقدامات کا سخت جواب دے۔
’اگر پاکستان اگلے دو دن میں عالمی طاقتوں کی جانب سے سفارتی طور پر انڈیا پر دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ ہمارے پاس ایک بہترین آپشن ہے جو یہاں کشیدگی کو بڑھنے سے روکے گا۔‘

،تصویر کا ذریعہAFP
’انڈیا نے سبق سیکھ لیا‘
تاہم دوسری جانب چند تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہ تنازع اور تناؤ اب مزید نہیں بڑھے گا جس کی وجہ ماضی سے سیکھا جانے والا سبق ہے۔
مشاہد حسین سید، سابق سینیٹر اور سیاسی تجزیہ کار، اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’انڈیا نے ماضی سے سبق سیکھ لیا۔ پلوامہ کے بعد جب فوجی ایکشن کیا گیا تو پاکستان کا ردعمل نہایت سخت تھا، جس نے انڈیا کو سفارتی محاذ پر نقصان پہنچایا۔ میرے خیال میں انڈیا اب مزید عسکری کاروائی سے گریز کرے گا۔ وہ اپنے تمام اہم سفارتی کارڈ کھیل چکا ہے۔‘
جبکہ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عالمی قوانین کے ماہر احمر بلال صوفی نے امید ظاہر کی ہے کہ یہ معاملہ مزید نہیں بڑھے گا۔
ان کا ماننا ہے کہ ’امید ہے کہ انڈیا کے اعلانات صرف علامتی ہی رہیں گے اور وہ حقیقت میں آنے والے برسوں میں پانی کا رخ نہیں موڑے گا لیکن اگر ایسا کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ یقینا ایک باقاعدہ جنگ کی جانب بہت بڑا قدم ہو گا۔‘
کوئنسی انسٹٹیوٹ فار رسپانسبل سٹیٹکرافٹ سے منسلک تجزیہ کار ایڈم وائنسٹائن نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’انڈیا اور پاکستان کے درمیان کسی بھی باقاعدہ یا ایٹمی جنگ کا خطرہ ہمیشہ سے ہی وہ وجہ رہا ہے جس کے سبب امریکہ کشمیر میں دہشتگردی کی پرواہ کرتا ہے۔‘
تاہم ایڈم کہتے ہیں کہ ’کشمیر میں حملے کا منصوبہ وہیں تیار کیا گیا تھا یا نہیں۔ انڈیا کے ساتھ مغرب کی ہمدردی کے باوجود بھی مغربی حکومتیں انڈیا کی مکمل حمایت کرنے سے قبل (بیرونی عناصر کے ملوث ہونے کے) ثبوت مانگیں گی۔‘
’بھلے سے ہی اس سے پاکستان کے وجود کو خطرہ نہ ہو لیکن سندھ طاس معاہدے کو نقصان پہنچنے سے یہ تنازع مزید بڑھے گا۔‘
ایڈم کہتے ہیں کہ پاکستانی کے رہنماؤں کو بھی سوچنا ہوگا کہ ان کے انڈیا مخالف یا کشمیر پر بیانات نے ان کے قومی مفادات کو آگے بڑھایا ہے یا پاکستان کو مزید تنہا کیا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اور موجود صورتحال پر ایڈم وائنساٹن کہتے ہیں کہ ’اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ دونوں ممالک ایک ایسی سائیکل میں چلے جائیں جہاں ایک دوسرے کے خلاف اقدامات لیے جاتے رہیں گے اور پھر معاملات پہلے جیسے ہوجائیں گے۔‘
ان کے مطابق ان تمام معاملات سے سبب دونوں ہی ممالک موسمیاتی تبدیلی، تجارت اور خطے میں تعاون کو بڑھانے جیسے بڑے چیلنجز سے نبردآزما نہیں ہو سکیں گے۔
انڈیا اور پاکستان کی جانب سے آئندہ چند روز میں کشیدگی میں اضافہ کیا جائے گا یا نہیں، اس سوال کے جواب میں تمام ماہرین کم از کم ایک نکتے پر متفق ہیں کہ انڈس واٹر ٹریٹی کی معطلی ایک ایسے تاریخی معاہدے کو چیلنج کرتی ہے جو ماضی کے کئی تنازعات اور جنگوں کے باوجود قائم رہا۔
SOURCE : BBC