SOURCE :- BBC NEWS

sajid

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, سمیع چوہدری
  • عہدہ, کرکٹ تجزیہ کار
  • ایک گھنٹہ قبل

تیون املاچ کو اتنی مہلت ہی میسر نہ تھی کہ ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں وہ سارا داؤ سُجھا پاتے جو ابرار احمد کی اس گیند نے رچایا۔ یہ ایک لیگ بریک تھی جو مڈل سٹمپ پہ پچ ہوئی اور پھر اتنی تیزی سے، اتنا زیادہ مڑ گئی کہ زبردستی املاچ کے بلے کا باہری کنارہ چھوتے ہوئے رضوان کے ہاتھوں میں محفوظ ہو گئی۔

اگر املاچ اپنے تمام تر عزم اور صلاحیت کو اس ایک لمحے میں مرتکز بھی کر لیتے تو بھی اس گیند سے بچ نہ پاتے جو براڈکاسٹ ڈیٹا کے مطابق 6 ڈگری سے بھی زیادہ ٹرن ہوئی۔ اس ٹرن نے املاچ کے ساتھ ساتھ ویسٹ انڈین امیدوں کو بھی آؤٹ کر دیا۔

دو روز تک میچ میں محکوم رہنے کے بعد، ملتان کی تیسری صبح ویسٹ انڈیز کے لئے خوش بخت بن کر اتری جب انہیں پہلی ہی گیند پہ اس بلے باز کی وکٹ حاصل ہو گئی جو حالیہ برسوں میں سپن کے خلاف پاکستان کا موثر ترین ہتھیار رہا ہے۔

یہاں سعود شکیل کی تکنیک یا حسنِ انتخاب کا دوش نہیں تھا جو وہ صبح کی پہلی ہی گیند پہ جومیل واریکن کے دام میں آ گئے۔ یہ اس پچ کا غیر متوقع باؤنس اور بے تحاشہ ٹرن تھا جو اپنی دو رنگی کے سبب کسی بھی بلے باز کے لئے سہل نہ ہو پایا۔

جن کنڈیشنز میں پچھلے تین روز کی کرکٹ کھیلی گئی، وہ بنیادی طبعی قوانین سے اس قدر مختلف رویے کی حامل تھیں کہ کسی بھی کھلاڑی کی صحیح قابلیت کا اندازہ کرنے کو بنیاد نہیں بنائی جا سکتیں۔

چار اننگز کے اطراف فقط چار ہی بلے باز پچاس کا انفرادی ہندسہ عبور کر پائے۔ اگرچہ تکنیکی درستی ہمیشہ کسی بھی ٹیسٹ بلے باز کی مدافعت میں کلیدی رہتی ہے مگر یہاں بیشتر گیندوں کا رویہ ایسا ‘غیر سائنسی’ تھا کہ تمام تر تکنیکی درستی بھی بالآخر قسمت کے رحم و کرم پر ہی تھی۔

جہاں میچ کا فیصلہ کرنے کو چالیس وکٹیں دستیاب تھیں، وہاں صرف پہلی اننگز سے سعود شکیل اور محمد رضوان ہی دو ایسی قیمتی وکٹیں ثابت ہوئیں جنھوں نے حتمی نتیجے میں میچ کو فیصلہ کن رخ دیا۔

sajid

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

پاکستان کی آخری سات وکٹیں صرف 51 رنز کے بدلے حاصل کر کے ویسٹ انڈین ڈریسنگ روم کا اعتماد اس قدر بحال تو ہوا کہ وہ میچ میں مدافعت سے مزاحمت اور مسابقت کی طرف بڑھے لیکن ایک بار پھر ساجد خان کے ابتدائی وار جومیل واریکن کی پہلی یلغار پہ بھاری پڑ گئے۔

پہلے سیشن کے اوائل میں اگر ویسٹ انڈین ٹیم دھاڑتے ہوئے میچ میں واپس لوٹی تھی تو اسی سیشن کے آخری نصف میں، ساجد خان کی بدولت وہ پھر دیوار سے لگائی جا چکی تھی۔

مگر ایلک ایتھانیز نے جم کر مزاحمت کرنے کا فیصلہ کیا۔ دور اندیشی دکھاتے ہوئے انہوں نے کریز پہ رکنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جوں جوں گیند کی سیم ماند پڑے گی، بلے بازی کی دقت کچھ نہ کچھ کم ضرور ہو گی۔

تیون املاچ کے ہمراہ انہوں نے ایک مضبوط ساجھے داری جوڑی۔ نہ صرف قدموں کا استعمال کرتے ہوئے انہوں نے ساجد خان و نعمان علی کی لینتھ کو چیلنج کیا بلکہ ریورس سویپ کو کام میں لاتے ہوئے سپنرز کی لائن بھی الجھائی۔

وہ ساجھے داری ویسٹ انڈیز کے لئے بقا کی واحد امید تھی۔ مگر پھر ابرار احمد کی اس ایک گیند نے وہ دروازہ کھولا کہ آخری پانچ کیریبیئن وکٹیں صرف 28 رنز کے عوض گر گئیں اور بھاری برتری سے فتح پاکستان کے نام ہوئی۔

یہ خاصی ناقابلِ یقین سی کرکٹ تھی جو پچھلے اڑھائی روز ملتان کی ایک ناقابلِ یقین سی پچ پہ کھیلی گئی، جہاں چار اننگز کی چالیس وکٹیں صرف 176 اوورز میں حاصل ہوئیں اور اوسطاً، ہر پانچویں اوور میں ایک وکٹ گری۔

ملتان سٹیڈیم کی دیرینہ شہرت بلے بازوں کی جنت سی رہی ہے مگر یہاں بلے بازوں کی بیٹنگ اوسط صرف 16 رنز رہی۔

پچاس کا ہندسہ عبور کرنے والے چار بلے بازوں کے سوا سبھی کے لئے کریز پہ قیام کا وقت نہایت مختصر رہا۔ ملتان کے باؤنس اور ٹرن کا تغیر ان کی آنکھوں سے جھلکتی حیرت اور بے یقینی کی صورت پویلین واپس لوٹا۔

جبکہ ویسٹ انڈین ناکامی کی توجیہہ کو بے شمار تکنیکی و نفسیاتی زاویے کھوجے جا سکتے ہیں اور تزویراتی سقم بھی بحث میں لائے جا سکتے ہیں، مگر ملتان کے پہلے ٹیسٹ کی حتمی حقیقت یہی تھی کہ پاکستان کا ’ٹرن‘ دراصل ویسٹ انڈیز کی ساری امیدوں کو ’آؤٹ‘ کر گیا۔

SOURCE : BBC