SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہEPA
2 گھنٹے قبل
ویٹیکن نے اعلان کیا ہے کہ کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس 88 سال کی عمر میں وفات پا گئے ہیں۔ وہ مارچ 2013 میں اس عہدے پر منتخب ہوئے تھے۔
بطور پوپ فرانسس نے کیتھولک چرچ میں کئی اصلاحات متعارف کروائیں لیکن اس کے باوجود وہ روایت پسندوں میں کافی مقبول رہے۔
فرانسس امریکہ سے تعلق رکھنے والے پہلے پوپ تھے۔ 741 عیسوی میں شام میں پیدا ہونے والے گریگوری سوئم کے بعد وہ روم کے پہلے غیر یورپی بشپ تھے۔
وہ سینٹ پیٹرز کے تخت پر بیٹھنے والے پہلے جے سیوٹ تھے – روایتی طور پر جے سیوٹس کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔
جے سیوٹس رومن کیتھولک پادریوں کا ایک گروہ ہے جنھیں ’سوسائٹی آف جیسس‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
فرانسس کے پیشرو، بینیڈکٹ XVI، تقریباً 600 سالوں میں پہلے پوپ تھے جو رضاکارانہ طور پر ریٹائر ہوئے تھے اور تقریباً ایک دہائی تک دونوں پوپ ویٹیکن میں رہے۔
جب 2013 میں ارجنٹینا کے کارڈینل برگوگلیو پوپ بنائے گئے تو وہ اس وقت اپنی عمر کی ساتویں دہائی میں تھے۔
کئی کیتھولک افراد کو امید تھی کہ نئے پوپ کافی کم عمر ہوں گے۔
برگوگلیو نے خود کو ایک ایسے امیدوار کے طور پر پیش کیا جو کنزرویٹیو اور لبرل دونوں دھڑوں کو قابل قبول ہوں۔ سیکس کے معاملات کو لے کر ان کا روایتی نقطہ نظر کنزرویٹیو دھڑے کو پسند تھا جب کہ معاشی انصاف کے ان کے نظریے کی وجہ سے وہ لبرلز کو بھی قابل قبول تھے۔
امید کی جا رہی تھی کہ ان کا غیر روایتی پس منظر ویٹیکن اور اس کے مقدس مشن کو دوبارہ زندہ کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔
تاہم ویٹیکن بیوروکریسی میں اصلاحات کی ان کی کچھ کوششوں کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جبکہ 2022 میں وفات پانے والے ان کے پیشرو پوپ بینیڈکٹ روایت پسندوں میں زیادہ مقبول رہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
دوسروں سے مختلف ہونے کا خواب
اپنے انتخاب کے فوراً بعد ہی فرانسس نے ظاہر کر دیا تھا کہ وہ چیزیں مختلف طریقے سے کریں گے۔ انھوں نے کارڈینلز کا استقبال غیر رسمی طور پر کھڑے ہو کر کیا۔ عمومی طور پر پوپ اپنے تخت پر بیٹھ کر کارڈینلز کا استقبال کرتے ہیں۔
13 مارچ 2013 کو پوپ فرانسس سینٹ پیٹرز سکوائر کو دیکھنے والی بالکونی میں نمدوار ہوئے۔
سفید رنگ کے سادہ کپڑوں میں ملبوس انھوں نے اپنے لیے ایک نیا نام چنا جو 13ویں صدی کے مبلغ اور جانوروں سے محبت کرنے والے اسیسی کے سینٹ فرانسیس کو خراجِ تحسین تھا۔
وہ شان و شوکت کے بجائے عاجزی کو ترجیح دینے کے لیے پرعزم تھے۔ انھوں نے پوپ کی لیموزین کے بجائے دیگر کارڈینلز کو لے جانے والی بس میں سفر کرنے پر اصرار کیا۔
انھوں نے ایک ارب 20 کروڑ افراد کے لیے ایک اخلاقی معیار مقرر کر دیا۔ انھوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ، ’اوہ، میں کیسے ایک غریب چرچ چاہوں گا، اور غریبوں کے لیے۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
جارج ماریو برگوگلیو 17 دسمبر 1936 میں ارجنٹینا کے شہر بیونس آئرس میں پیدا ہوئے۔ وہ پانچ بچوں میں سب سے بڑے تھے۔ ان کے والدین اپنے آبائی ملک اٹلی میں فاشزم سے بھاگ کر آئے تھے۔
انھیں ٹینگو رقص پسند تھا اور وہ مقامی فٹبال کلب سین لورینزو کے سپورٹر تھے۔
نمونیا کے حملے کی وجہ سے انھیں آپریشن کروانا پڑا جس میں انکے پھیُپھڑوں کا ایک حصہ نکالنا پڑا۔ نمونیا کے اس حملے کے بعد انھیں زندگی بھر انفیکشن کا خطرہ رہا۔
انھیں اپنے دائیں گھٹنے میں بھی درد رہتا تھا، جسے ’جسمانی شرمندگی‘ کہتے تھے۔

،تصویر کا ذریعہFamily. In Elvis. Family handout. No fee.
بطور کیمسٹ گریجویشن مکمل کرنے سے قبل نوجوان برگوگلیو نے نائٹ کلب میں باؤنسر اور فرش صاف کرنے کا کام کیا۔
انھوں نے ایک مقامی فیکٹری میں ایستھر بیلسٹرینو کے ساتھ مل کر کام کیا جنھوں نے ارجنٹائن کی فوجی آمریت کے خلاف مہم چلائی تھی۔ انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان کی لاش کبھی نہیں ملی۔
بعد ازاں وہ جے سیوٹ بن گئے۔ انھوں نے فلسفے کی تعلیم حاصل کی اور لٹریچر اور سائیکالوجی پڑھاتے تھے۔
ایک دہائی کے بعد ان کی تقرری ہوئی جس کے بعد انھوں نے تیزی سے ترقی حاصل کی اور 1973 میں وہ ارجنٹینا کے صوبائی سربراہ بن گئے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
جارج موریو برگیگلیو پر لگے الزامات

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
کچھ افراد کے خیال میں انھوں نے ارجنٹینا کی سفاک فوجی حکومت کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔
ان پر ارجنٹینا کی ’ڈرٹی وار‘ کے دوران فوج کی جانب سے دو پادریوں کے اغوا میں ملوث ہونے کا الزام لگا۔ 1976 سے 1983 کے دوران ارجنٹینا میں ہزاروں افرد کو اغوا، قتل یا تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
دو پادریوں کو تشدد بنایا گیا لیکن وہ زندہ واپس مل گئے۔ انھیں بہت زیادہ نشہ دیا گیا تھا اور دونوں نیم عریاں حالت میں تھے۔
ان پر الزام تھا کہ وہ حکام کو مطلع کرنے میں ناکام رہے کہ ان دونوں کی جانب سے جاری پسماندہ علاقوں میں کام چرچ سے توثیق شدہ تھا۔
اگر یہ سچ تھا تو یہ ان دونوں کو ڈیتھ سکواڈ کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے مترادف تھا۔ وہ اس الزام کی صاف تردید کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے پسِ پردہ دونوں پادریوں کی رہائی کے لیے اقدامات کیے تھے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ انھوں نے آواز کیوں نہیں اٹھائی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت مشکل تھا۔
سچ یہ تھا کہ 36 سال کی عمر میں انھیں ایسی مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا جو بڑے سے بڑے رہنماؤں کے لیے آزمائش ہوتی۔ یہ حقیقت ہے کہ انھوں نے بہت سے لوگوں کی ملک سے فرار ہونے میں مدد کی تھی۔
ان کے اپنے ساتھی جےسوئٹس کے ساتھ بھی اختلافات تھے جن کا ماننا تھا کہ برگوگلیو آزادی کے الہیات میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ آزادی کی الہیات سے مراد عیسائی فکر اور مارکسی سماجیات کا ایسا مرکب تھا جس کے ذریعے ناانصافی ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس کے برعکس وہ پادریوں کی جانب سے نرم انداز میں دخل اندازی میں کو ترجیح دیتے تھے۔
کئی مواقعوں پر ان کے تعلقات میں کافی سرد مہری رہی۔ جب انھوں نے 2005 میں ابتدائی طور پر پوپ بننے کی کوشش کی تو کئی جےسیوٹس نے سکھ کا سانس لیا۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
ایک سادہ مزاج شخص
1992 میں انھیں بیونس آئرس کا معاون بشپ مقرر کیا گیا اور بعد ازاں وہ آرچ بشپ بنا دیے گئے۔
سنہ 2001 میں پوپ جان پال دوئم نے انھیں کارڈینل مقرر کیا اور انھوں نے چرچ کی سول سروس کیوریا میں متعدد عہدے سنبھالے۔
وہ ایک سادہ مزاج شخص کی حیثیت سے مشہور ہوئے اور سینیئر پادریوں کو ملنے والی مراعات لینے سے اجتناب کیا۔ وہ اکانومی کلاس میں سفر کرتے اور وہ اپنے مرتبے کے مطابق سرخ اور جامنی لباس پہننے کے بجائے عام پادریوں والا کالے رنگ کا چوغہ پہنتے۔
وہ اپنے خطابات میں سماجی شمولیت کے لیے آوز اٹھاتے اور ایسی حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے جو پسماندہ طبقے کا خیال رکھنے میں ناکام رہتے۔
ان کا کہنا تھا، ’ہم دنیا کے سب سے غیر مساوی حصے میں رہتے ہیں۔۔۔ جس نے بہت ترقی کی ہے لیکن اس کے باوجود پھر بھی مشکلات میں کمی نہیں آئی۔‘
بطور پوپ انھوں ہزار سال سے مشرقی آرتھوڈوکس چرچ کے ساتھ جاری اختلافات کو کم کرنے کی بہت کوشش کی۔سنہ 1054 میں رومن آرتھوڈوکس اور مشرقی آرتھوڈوکس گرجا گھروں میں تقسیم کے بعد پہلی مرتبہ قسطنطنیہ کے سرپرست نے روم کے ایک نئے بشپ کی تقرری کی تقریب میں شرکت کی۔

،تصویر کا ذریعہReuters
فرانسس نے انجلیکن، لوتھرن اور میتھوڈسٹ کے ساتھ مل کر کام کیا اور اسرائیلی اور فلسطینی صدور کو امن کی دعا کے لیے اپنے ساتھ شامل ہونے پر آمادہ کرنے میں کامیاب رہے۔
مسلم شدت پسندوں کی جانب سے حملے کے بعد ان کا کہنا تھا کہ اسلام کو شدت پسندی جوڑنا درست نہیں۔ انھوں نے کہا، ’اگر میں اسلامی شدت پسندی کی بات کروں گا تو مجھے کیتھولک شدت پسندی کی بھی بات کرنی پڑے گی۔‘
وہ سیاسی طور پر ارجنٹینا کی حکومت کے فاک لینڈز پر دعوے کے حامی تھے، انھوں ایک دعائیہ تقریب کے دوران کہا ’ہم ان لوگوں کے لیے دعا کرنے آئے ہیں جو مارے گئے، وطن کے بیٹے جو اپنی ماں، اپنے وطن کے دفاع کے لیے نکلے، اس ملک کا دعویٰ کرنے کے لیے جو ان کا ہے۔‘
ایک ہسپانوی زبان بولنے والے لاطینی امریکی کے طور پر انھوں نے امریکی حکومت کی جانب سے کیوبا سے تعلقات بحال کرنے کی کوششوں میں ایک ثالث کا کردار ادا کیا۔ کسی یورپی پوپ کا اس قدر اہم سفارتی کردار ادا کرنے کا تصور مشکل ہے۔

،تصویر کا ذریعہReuters
روایت پسند
چرچ کی کئی تعلیمات پر وہ روایتی نقطہ نظر رکھتے تھے۔
مونسگنور اوسوالڈو مستو جنھوں نے فرانسس کے ساتھ ایک مذہبی تعلیم گاہ میں وقت گزارا ہے کہتے ہیں، وہ بھی ’پوپ جان پال دوئم کی طرح یوتھنیزیا، موت کی سزا، اسقاط حمل، زندگی کا حق، انسانی حقوق اور پادریوں کے شادی نہ کرنے کی شرط‘ جیسے معاملات پر کسی سمجھوتے کے حق میں نہیں تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ چرچ کو چاہیے کہ لوگوں کی جنسی رجحانات سے قطعہ نظر سب کو خوش آمدید کہے۔ تاہم وہ ہم جنس پرستوں کی جانب سے گود لیے جانے کو بچوں کے خلاف امتیازی سلوک مانتے تھے۔
ہم جنس پرست جوڑوں کے لیے ایک طرز کے ملاپ کے لیے انھوں نے حوصلہ افزا الفاظ ادا کیے لیکن فرانسس اسے شادی کہنے کے حق میں نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ خدا کے منصوبے کو تباہ کرنے کی کوشش کے مترادف ہوگا۔
2013 میں پوپ بننے کے کچھ ہی عرصے بعد انھوں نے روم میں اسقاط حمل کے خلاف ہونے والے ایک مظاہرے میں حصہ لیا۔ جس میں ’حمل کے لمحے سے‘ ہی غیر پیدائشی بچے کے حقوق کا مطالبہ کیا۔
انھوں نے ماہرِ امراضِ نسواں سے درخواست کی کہ وہ ضمیر کی آواز سنیں۔ انھوں نے آئرلینڈ کو کمزورں کو تحفظ دینے کا پیغام بھیجا جہاں اس وقت اس معاملے پر ایک ریفرنڈم کیا جا رہا تھا۔
انھوں نے خواتین کی تقرری کی مخالفت کی۔ ان کے مطابق پوپ جان پال پہلے ہی اس کا امکان حتمی طور پر رد کر چکے ہیں۔
اور، اگرچہ وہ شروع میں بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مانع حمل کے طریقوں کے استعمال کی اجازت دیتے نظر آئے لیکن اس موضوع پر انھوں پال VI کی تعلیمات کی تعریف کی جنھوں نے متنبہ کیا تھا کہ ایسا کرنے سے خواتین محض مردوں کی تسکین کا ذریعہ بن کر رہ جائیں گی۔
2015 میں فلپائن میں پوپ فرانسس نے ایک اجتماع کو بتایا کہ مانع حمل طریقوں کے ذریعے بچوں نہ پیدا کرنے کا فیصلہ خاندان کی تباہی کا سبب ہے۔ وہ بچوں کی غیر موجودگی سے زیادہ انھیں جان بوجھ کر دنیا میں نا لانے کے فیصلہ کو نقصان دہ سمجھتے تھے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
پوپ نے بچوں کے ساتھ استحصال کے مسائل سے کیسے نمٹا؟
ان کے دور کے دوران انھیں دو محاذوں پر چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، ایک جانب ان پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ وہ بچوں کے ساتھ استحصال کے معاملے پر اقدامات اٹھانے میں ناکام ہوئے اور قدامت پرست ناقدین کی جانب سے یہ الزام عائد کیا گیا کہ وہ عقیدے کو کمزور کر رہے ہیں۔
قدامت پسند افراد خاص طور پر ان کی جانب سے طلاق یافتہ اور دوبارہ شادی شدہ افراد کو کمیونین میں شرکت کرنے کی اجازت دینے پر تنقید کرتے ہیں۔
قدامت پسند ناقدین کی جانب سے بھی بچوں کے استحصال کے مسئلے کو پوپ کے خلاف استعمال کیا گیا ہے۔
اگست 2018 میں آرچبشپ کارلو ماریا ویگانو نے 11 صفحات پر مشتمل ایک دستاویز میں اعلانِ جنگ چھاپا۔ انھوں نے ایک خط میں ویٹیکن کے سابق کارڈینل تھامس میکیرک کے رویے کے خلاف انتباہ جاری کیا۔
اس خط میں یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ میکیرک نے متعدد بچوں اور بڑوں پر حملے کیے اور ان کا استحصال کرتے رہے۔ آرچبشپ ویگانو کا کہنا تھا کہ پوپ نے میکیرک کو کو اپنا ’معتمدِ خاص‘ بنایا تھا یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ بہت کرپٹ ہیں۔ انھوں نے اپنے خط میں لکھا کہ اس کا حل بالکل سادہ ہے اور وہ یہ کہ پوپ فرانسس کو استعفیٰ دے دینا چاہیے۔
آرچ بشپ نے دعویٰ کیا تھا کہ ’یہ ہم جنس پرستوں کے نیٹ ورکس رازداری میں اور اس کی جڑیں پورے چرچ کو اپنے قابو میں لیے ہوئے ہیں۔‘
اس تنازع کے باعث چرچ کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔ میکیرک کو فروری 2019 میں ویٹیکن کی جانب سے تحقیقات کے بعد عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
کووڈ کی عالمی وبا کے دوران پوپ فرانسس نے سینٹ پیٹرز سکوائر میں باقاعدگی سے ہونے والی اپنی عوامی تقریبات کو منسوخ کیا تاکہ وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
یہی نہیں بلکہ انھوں نے اصولوں پر مبنی بہترین قیادت کا ثبوت دیتے ہوئے اعلان کیا کہ ویکسین لگوانا ہر فرد کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔
وہ ایک صدی سے زائد عرصے کے بعد 2002 میں وہ پہلے پوپ بنے جنھوں نے اپنے 95 برس کے پیشرو پوپ بینیڈکٹ کی وفات کے بعد ان کی آخری رسومات ادا کیں۔
اس دوران پوپ فرانسس کے خود بھی صحت کے مسائل شروع ہو چکے تھے جس کے باعث انھیں کئی بارہسپتال میں داخل ہونا پڑا تاہم اس کے باوجود انھوں نے دنیا بھر میں امن کے فروغ اور بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے اپنی کوششوں کا سلسلہ جاری رکھا۔
اسی سال انھوں نے یوکرین میں جاری ’بے مقصد اور ظالمانہ جنگ‘ کو ختم کرنے کی بھی درخواست کی تاہم اس وقت یوکرینی عوام میں ان کی جانب سے مایوسی آتی دیکھی گئی جب ان پر روس کے اس مؤقف کو تسلیم کرنے کا پروپیگنڈا کیا گیا کہ انھیں اس جنگ میں اشتعال دلایا گیا تھا۔
ایک سال بعد انھوں نے چار ممالک اور دو براعظموں پر مشتمل ایک طویل سفر کا آغاز کیا۔ ان میں انڈونیشیا، پاپوا نیو گنی اور سنگاپور جیسے ممالک شامل تھے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
جورج ماریو برگولیو جب سینٹ پیٹر کے منصب پر فائز ہوئے تو وہ اسے بدلنے کا پختہ عزم رکھتے تھے۔
ممکن ہے کہ کچھ لوگ شاید اس سے بھی زیادہ آزاد خیال رہنما کو ترجیح دیتے اور ان کے ناقدین یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ چرچ میں موجود جنسی استحصال کے گھناؤنے ماضی سے نمٹنے میں مؤثر ثابت نہیں ہوئے لیکن اس کے باوجود وہ کچھ نہ کچھ بدلنے میں کامیاب ضرور رہے۔
انھوں نے 140 سے زائد کارڈینلز مقرر کیے جن کا تعلق یورپی ممالک سے نہیں تھا۔ جبکہ اپنے جانشین کو انھوں نے ایک ایسا چرچ سونپا جو خود ان کو وراثت میں ملنے والے چرچ کے برعکس کہیں بڑھ کر عالمی نقطہ نظر رکھتا ہے۔
انھوں نے کفایت شعاری کی بہترین مثال قائم کرتے ہوئے شاہی محل میں قیام کی جگہ اس کے بالکل ساتھ بنائے گئے مہمان خانے (گیسٹ روم) میں ٹھہرنے کو ترجیح دی ۔ یہ گیسٹ ہاؤس پوپ جون دوم کا تعمیر کردہ تھا
ان کا ایمان تھا کہ شاہانہ زندگی اپنانا محض دکھاوا ہے۔
ایک بار انھوں نے کہا تھا کہ ’مور کو سامنے سے دیکھیں تو وہ کتنا خوبصورت لگتا ہے، لیکن اگر اسے عقب سے دیکھیں تو حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔‘
وہ پرامید تھے کہ چرچ میں داخلی کشمکش کو کم کرنے، غربا پر توجہ مرکوز کرنے اور عوام کو چرچ سے دوبارہ جوڑ کر اس کے تاریخی مشن کو بحال کر سکیں گے۔
اپنے منتخب ہونے کے فوراً بعد خطاب میں انھوں نے کہا کہ ’ہمیں چرچ کے ایسے روحانی زوال سے بچنا ہوگا جو صرف اپنے ہی خول میں بند رہنے سے ہو جاتا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اگر مجھے انتخاب کا موقع دیا جائے کہ یا تو میں ایک زخم خوردہ چرچ کو دیکھوں جس میں عوام موجود ہو یا ایک بیمار چرچ جو خود میں ہی سمٹا ہوا ہو، تو میرا انتخاب پہلا ہو گا۔‘
SOURCE : BBC