SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہGetty Images
ایک گھنٹہ قبل
پہلگام میں سیاحوں پر ہونے والے حملے کے نو دن بعد پاکستان اور انڈیا کے مابین شدت اختیار کرنے والی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے امریکی وزیرِ خارجہ نے جب دونوں ممالک کے رہنماؤں سے رابطہ کیا تو اس میں انڈیا سے اظہارِ یکجہتی اور پاکستان سے اس حملے کی تحقیقات میں تعاون کا مطالبہ نظر آیا۔
امریکی وزارتِ خارجہ کے مطابق بدھ کو مارکو روبیو نے اپنے انڈین ہم منصب سبرامنیم جے شنکر اور پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف سے فون پر بات کی۔
وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ جہاں امریکی وزیرِ خارجہ نے دونوں ممالک سے کشیدگی میں کمی اور جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی برقرار رکھنے کے لیے مل کر کام کرنے کو کہا وہیں پاکستان سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ وہ اس حملے کی مذمت کرے اور اس کی تحقیقات میں تعاون کرے۔
پہلگام میں مسلح افراد کے انڈین سیاحوں پر حملے میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے اور اس واقعے کے فوراً بعد انڈیا کی جانب سے اس کے ذمہ داران کا زمین کے آخری کونے تک پیچھا کرنے کے اعلانات سامنے آئے اور پھر پاکستان کو بالواسطہ طور پر اس کا ذمہ دار ٹھہرا کر معاہدوں کی معطلی، سرحد کی بندش، ویزوں کی منسوخی اور سفارتی عملے کی بے دخلی جیسے اقدامات کیے گئے۔
پاکستان کی جانب سے بھی انڈین اقدامات کے جواب میں ویسے ہی اقدامات سامنے آئے اور ساتھ ہی ساتھ پاکستان نے پہلگام حملے کو ایک ’فالس فلیگ‘ آپریشن قرار دے دیا۔ اس موقع پر پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ اس حملے کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کروائی جائیں اور یہ کہ پاکستان اس سلسلے میں تعاون کے لیے تیار ہے۔
پاکستان کی اس پیشکش پر انڈیا کی جانب سے تاحال کوئی سرکاری ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن گذشتہ ایک ہفتے میں دونوں ممالک کے مابین کشیدگی اتنی بڑھ چکی ہے کہ پاکستانی وزرا چند دن میں انڈیا کی جانب سے فوجی کارروائی کے خدشات ظاہر کر رہے ہیں جبکہ سرحد پار انڈین وزیراعظم نے بھی مسلح افواج کو پہلگام کے ردعمل میں کارروائی کے لیے مکمل ’آپریشنل آزادی‘ دینے کا اعلان کیا ہے۔
اس صورتحال میں امریکی وزیرِ خارجہ کی جانب سے پاکستان پر تحقیقات میں تعاون پر زور دینے کی بات نے ایک بار پھر اس بحث کو جنم دیا ہے کہ انڈیا میں اس معاملے کی تحقیقات کہاں تک پہنچی ہیں اور پاکستان اس واقعے کی کس قسم کی تحقیقات چاہتا ہے۔

،تصویر کا ذریعہPTI
تحقیقات کہاں تک پہنچی ہیں؟

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
ماضی میں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہونے والے حملوں کی ذمہ داری عسکریت اور شدت پسند تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں لیکن پہلگام کے حملے کے دس دن بعد بھی کسی تنظیم کی جانب سے اس کی ذمہ داری نہیں لی گئی۔
چند دن بعد ریزسٹنس فرنٹ کی جانب سے اس سے لاتعلقی کا بیان جاری کر دیا گیا۔ خیال رہے کہ انڈیا اس تنظیم کو کالعدم شدت پسند تنظیم لشکرِ طیبہ کا گماشتہ یا بازو قرار دیتا ہے۔
اس حملے کے اگلے ہی دن انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع اننت ناگ کی پولیس کی جانب سے تین افراد کے خاکے جاری کیے گئے اور دعویٰ کیا گیا کہ ان میں سے دو ہاشم موسیٰ عرف سلیمان، علی بھائی عرف طلحہ بھائی مبینہ طور پر پاکستانی شہری ہیں جبکہ تیسرے فرد عادل حسین ٹھوکر کا تعلق اننت ناگ سے ہی بتایا گیا۔
پولیس نے اپنے بیان میں ان تینوں افراد کو لشکرِ طیبہ سے منسلک قرار دیا اور ان کے بارے میں اطلاع دینے پر 20 لاکھ روپے انعام کا اعلان بھی کیا۔
پولیس کی جانب سے اس معاملے کی جو ایف آئی آر درج کی گئی اس میں کہا گیا کہ ’نامعلوم دہشت گردوں نے سرحد پار بیٹھے اپنے آقاؤں کی ایما پر غیرقانونی اسلحے سے ان سیاحوں کو بلاامتیاز نشانہ بنایا جو سیاحت کی غرض سے پہلگام آئے تھے۔‘
اننت ناگ پولیس کی جانب سے اے ایس پی غلام حسین کی سربراہی میں اس واقعے کی تحقیقات کا آغاز کیا گیا لیکن حملے کے دوسرے روز ہی انڈیا کے وفاقی تحقیقاتی ادارے نیشنل انویسٹیگیشن ایجنسی کے حکام فارینزک ماہرین کے ہمراہ بھی کشمیر پہنچے اور 24 اپریل کو این آئی اے نے اس حملے کی باقاعدہ تحقیقات سنبھال لیں۔
انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں بی بی سی اردو کے نامہ نگار ریاض مسرور کے مطابق پہلگام حملے کی تحقیقات سے منسلک حکام نے بتایا ہے کہ ابتدائی طور پر تو این آئی اے نے جائے واردات بائیسرن کے اردگرد 12 کلومیٹر علاقے کو تحقیقات کا مرکز بنایا تھا لیکن جمعرات کو یہ دائرہ مزید بڑھا دیا گیا۔
ان کے مطابق این آئی اے نے ابھی تک دو ہزار سے زیادہ ایسے کشمیری نوجوانوں سے پوچھ گچھ کی ہے، جن کے بارے میں پولیس کا دعویٰ ہے کہ وہ ماضی میں عسکریت پسندوں کے ’اوور گراؤنڈ‘ ورکرز رہ چکے ہیں۔
نامہ نگار کے مطابق حکام کا دعویٰ ہے کہ اب تک کی تحقیقات میں ان تین ملزمان کے علاوہ، جن کے خاکے جاری کیے گئے تھے، چوتھا نام پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں مقیم فاروق احمد عرف فاروق ٹیڑوا کا سامنے آیا ہے اور ان پر الزام ہے کہ وہ اس حملے کی نگرانی لائن آف کنٹرول کی دوسری جانب سے کر رہے تھے۔

،تصویر کا ذریعہANI
این آئی اے کے ذرائع نے بی بی سی کو یہ بھی بتایا کہ حملے میں زخمی ہونے والے سیاحوں سے پوچھ گچھ کے بعد پتا چلا ہے کہ حملہ آوروں کے پاس جدید ساخت کے ایسے فون تھے، جن کے ذریعے انھوں نے حملے کے بعد اپنے ہینڈلرز سے رابطے کیے جو کہ حکام کے دعوؤں کے مطابق پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں موجود تھے۔
حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ حملے کے بعض عینی شاہدین نے تحقیقات کے دوران یہ بھی کہا ہے کہ حملہ آوروں نے باڈی کیمرے لگا رکھے تھے اور وہ واقعے کی ریکارڈنگ بھی کر رہے تھے تاہم حکام کا کہنا ہے کہ ان دعوؤں کی مزید چھان بین کی جا رہی ہے جبکہ ایجنسی نے حملے کے وقت بائی سرن اور پہلگام میں موجود تمام سیاحوں کے فونز میں موجود فوٹیج کا بھی معائنہ شروع کر دیا ہے۔
اس واقعے کے بعد کشمیر میں انڈین سکیورٹی فورسز کی جانب سے کریک ڈاؤن بھی کیا گیا جو تاحال جاری ہے۔ اس دوران کشمیر کے کئی اضلاع میں دس رہائشی مکانوں کو بھی بارود سے اُڑا دیا گیا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ مکانات اُن نوجوانوں کے ہیں جو طویل عرصے سے روپوش ہیں اور مسلح سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔
بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق جن مبینہ عسکریت پسندوں کے مکان مسمار کیے گئے ان میں عادل حسین ٹھوکر اور فاروق ٹیڑوا کے مکانات بھی شامل ہیں۔
این آئی اے کی تحقیقات تو جاری ہیں لیکن انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے تین شہریوں فتح کمار شاہُو، محمد جُنید اور وِکی کمار نے اس سلسلے میں انڈین سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا اور مطالبہ کیا تھا کہ مودی حکومت کو ہدایت دی جائے کہ وہ اس سلسلے میں ایک اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے۔
سپریم کورٹ نے جمعرات کو مفاد عامہ کی اس درخواست کی سماعت کی اور اسے مسترد کردیا۔
درخواست میں پہلگام ہلاکتوں کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا تاہم عدالت نے اسے یہ کہتے ہوئے رد کر دیا کہ ’جج کب سے ایسے معاملوں کے ماہر ہو گئے ہیں۔ آپ اس طرح افواج کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں اس لیے درخواست مسترد کی جاتی ہے۔‘
پاکستان کو انڈین تحقیقات پر شک کیوں؟
پاکستان کی جانب سے پہلگام کے حملے کو فالس فلیگ آپریشن قرار دیا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ اس کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کروائی جائیں۔
پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے 26 اپریل کو ایک خطاب میں کہا کہ ’پاکستان کسی بھی غیر جانبدار، شفاف اور قابل اعتماد تحقیقات میں حصہ لینے کے لیے تیار ہے۔‘
اسی حوالے سے بدھ کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نائب وزیراعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ ’ہم نے آزادانہ اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا اور اس حوالے سے ٹی اور آرز کو معتبر ہونا چاہیے اور متفقہ طور پر طے کیا جانا چاہیے۔‘
اسی پریس کانفرنس میں بات کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ ’واقعے کے چند منٹ بعد ہی انڈین ایجنسیوں سے منسلک سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اس واقعے کا الزام پاکستان پر لگانا شروع کر دیا گیا اور پھر کچھ ہی دیر میں الیکٹرونک میڈیا نے بھی پاکستان کو اس واقعے کے لیے مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیا لیکن اب تک اس الزام کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم اس واقعے کے حقائق پر جائیں گے۔ الزامات پر نہیں، اگر الزام یہ ہے کہ پاکستانی سرزمین سے نام نہاد دہشت گردوں نے یہ واقعہ انجام دیا تو آپ کو یہ مدنظر رکھنا چاہیے کہ پہلگام کسی بھی پاکستانی قصبے سے 200 کلومیٹر سے بھی زیادہ فاصلے پر ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
فوج کے ترجمان نے اس واقعے کی ایف آئی آر کے اندراج کے حوالے سے بھی الزامات عائد کیے اور کہا کہ جس دوردراز مقام پر یہ حملہ ہوا وہاں سے ’کسی کو بھی پولیس سٹیشن تک پہنچنے کے لیے آدھا گھنٹہ درکار ہو گا، تو ایف آئی آر کے مطابق یہ کیسے ممکن ہے کہ 10 منٹ میں پولیس وہاں پہنچ بھی گئی اور پھر واپس جا کر ایف آئی آر بھی درج کر لی گئی، اس سے ظاہر ہوتا ہے وہ پہلے ہی اس کی تیاری کر چکے تھے۔‘
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے یہ بھی کہا کہ ’انڈین انٹیلیجنس اس واقعے سے باخبر نہیں تھی لیکن جب واقعہ ہو گیا تو دس منٹ کے اندر ہی انھیں اتنی انٹیلیجنس مل گئی کہ انھوں نے کہہ دیا کہ ہینڈلر سرحد پار سے آئے تھے۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’مستقل یہ بیانیہ بنایا جا رہا ہے کہ دہشت گردی کی یہ کارروائی مذہب کی بنیاد پر کی گئی اور مسلمانوں کو چھوڑ کر ہندوؤں کو نشانہ بنایا گیا جبکہ ہمارا موقف ہے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، نہ تو مسلمان دہشت گرد ہوتے ہیں، نہ عیسائی اور نہ ہی ہندو کیونکہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔‘
اس سوال پر کہ پاکستان پہلگام حملے کی انڈین تحقیقات پر شک کیوں کر رہا ہے، انڈیا میں پاکستان کے سابق سفیر ضمیر اکرم نے بی بی سی کے عماد خالق کو بتایا کہ پہلگام واقعے کے تقریباً دس روز گزرنے کے بعد بھی انڈیا نے پاکستان پر لگائے الزامات کے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونی دنیا کو بھی کوئی شواہد پیش نہیں کیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں انڈیا کی اپنی تحقیقات پر اس لیے اعتبار نہیں کیونکہ ان کا پاکستان کو لے کر ایک خاص ذہنیت اور ایجنڈا ہے اور وہ پاکستان کو دنیا بھر میں دہشت گردی کے حوالے سے بدنام کرنا چاہتا ہے۔‘
ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک بھی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن انڈیا یہ مطالبہ تسلیم نہیں کرے گا کیونکہ اس کے پاس اس حوالے سے کوئی شواہد نہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان کی جانب سے آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ سامنے آنے کے بعد چین نے بھی اس کی حمایت کی۔
ضمیر اکرم کا کہنا تھا کہ’اب بیرونی دنیا بھی پہلگام واقعے کی تحقیقات کروانے کا کہہ رہی ہے مگر انڈیا اب تک بنا کسی شواہد کے پاکستان پر الزام لگا کر نہ صرف اسے بدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے بلکہ وزیراعظم مودی اپنی داخلی سیاست کے مقاصد بھی حاصل کر رہے ہیں۔‘

،تصویر کا ذریعہReuters
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کشمیری موٴرخ اور تجزیہ نگار پیر غلام رسول کا کہنا تھا کہ ’غیرجانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ پاکستان کا قدرتی ردعمل ہے اور اس مطالبے نے عالمی سطح پر انڈیا کے فوجی ردعمل کے جواز کو کمزور کر دیا۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’دو ملکوں کے بیچ بٹے ہوئے دنیا کے کسی بھی خطے میں کوئی ایسا واقعہ ہو جائے تو یہ قدرتی بات ہے کہ متاثرہ ملک اپنے پڑوسی ملک پر الزام عائد کرتا ہے جبکہ پڑوسی اس میں کسی کردار سے انکار کرتا ہے۔ انڈیا نے الزام پاکستان پر لگایا اور جنگ کی تیاری شروع کر دی۔ ظاہر ہے محض الزام کو لے کر جنگ نہیں ہو سکتی اور وہ بھی ایسے وقت جب ملزم خود تحقیقات میں تعاون کے لیے تیار ہے۔‘
پیر غلام رسول کے مطابق پاکستان بظاہرغیر جانبدار تحقیقات کے مطالبے کے تحت چاہتا ہے کہ دنیا کی کوئی بڑی طاقت اس معاملے میں ثالث بنے، جس کے سامنے انڈیا اپنے ثبوت رکھے اور پاکستان اپنا موٴقف۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اگر واقعی انڈیا اس مطالبے پر آمادہ ہوتا ہے تو کئی مسئلے حل ہو جائیں گے۔ ’اگر عالمی سطح پر کوئی غیر جانبدار تحقیقات ہوگی تو دو یا تین لوگوں کے قصور کی سزا پوری کشمیری قوم کو نہیں ملے گی اور انڈیا اور پاکستان کے درمیان فوجی کشیدگی بھی ختم ہو جائے گی۔‘
کوئنسی انسٹیٹیوٹ سے منسلک ایڈم وائنسٹائن نے بی بی سی اردو کے روحان احمد کو بتایا کہ انڈیا کے پاس پاکستان کے مطالبے کو ماننے کی کوئی وجہ نہیں۔
’انڈیا کا نظریہ یہی ہے کہ وہ اپنے بیانیے کی حمایت میں تاریخ کا سہارا لے سکتا ہے‘۔ تاہم ایڈم وائنسٹائن کہتے ہیں کہ ’اصل سوال یہ ہے کہ بند دروازوں کے پیچھے انڈیا کے شراکت دار اس سے ثبوت طلب کرتے ہیں یا نہیں۔‘
یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سڈنی سے منسلک خارجہ اور عسکری امور کے ماہر محمد فیصل نے بھی پاکستان اور انڈیا کے درمیان اعتماد کے فقدان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں انڈیا تیسرے فریق کے ذریعے پہلگام حملے کی انکوائری کے لیے حامی نہیں بھرے گا۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’پاکستان کی آزادانہ تحقیقات کی پیشکش بظاہر دونوں ممالک کی خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ بات چیت کا نتیجہ لگتا ہے‘۔ تاہم محمد فیصل کہتے ہیں کہ انھیں نہیں لگتا کہ پہلگام حملے کی کوئی مشترکہ یا کثیر الاقوامی تحقیقات ممکن ہو پائیں گی۔
تحقیقات پر انڈیا سے اٹھتے سوال
پہلگام حملے اور اس کی تحقیقات کے حوالے سے پاکستان کی جانب سے تو سوال کیے جا ہی رہے ہیں لیکن اس پر انڈیا کے اندر سے بھی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔
صحافی اور کشمیر کے امور کی ماہر انورادھا بھسین نے اس بارے میں جب بی بی سی سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ واقعہ دنیا کے سب سے زیادہ ملٹرائزڈ زون (وہ علاقہ جہاں فوج کی بڑی موجودگی رہتی ہے) میں پیش آیا، اس لیے بڑے سوالات اٹھتے ہیں۔‘
انھوں نے سوال کیا کہ حملے کے چند گھنٹے بعد ہی مبینہ حملہ آوروں کے نام کیسے منظرِ عام پر آئے؟
انورادھا بھسین کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ سکیورٹی فورسز کو جائے وقوعہ تک پہنچنے میں وقت لگا مگر دوسری جانب چند ہی گھنٹوں میں اُن کے پاس حملہ آوروں کی تصاویر موجود تھیں۔ وہ اس نتیجے پر کیسے پہنچے؟ یہ تحقیقات زیادہ قابل اعتبار نہیں لگتیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ایسے واقعات کی ایک تاریخ رہی ہے جن کی تحقیقات پر سوالیہ نشان لگے ہیں۔‘
SOURCE : BBC