SOURCE :- BBC NEWS

چین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

9 منٹ قبل

چین میں حالیہ دنوں میں ہیومن میٹا نمونیا وائرس (ایچ ایم پی وی) کے متعدد کیسز سامنے آنے کے بعد لوگوں میں پریشانی کی لہر دوڑ گئی ہے۔

یہ نیا وائرس کورونا وائرس کے لگ بھگ پانچ سال کے بعد نمودار ہوا ہے۔

یاد رہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا آغاز بھی چین سے ہوا تھا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے عالمی وبا کی صورت اختیار کر لی تھی اور اس سے دنیا بھر سے 70 لاکھ سے زیادہ اموات ریکارڈ ہوئی تھیں۔

چین میں وزارتِ صحت کے سینیئر حکام نے تصدیق کی ہے کہ 14 سال اور اس سے کم عمر کے نوجوانوں میں ایچ ایم پی وی کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے تاہم ساتھ ہی انھوں نے اس نوعیت کی خبروں کی تردید کی کہ اس وائرس سے بڑی تعداد میں لوگوں کے متاثر ہونے کے باعث چین کے ہسپتالوں میں جگہ کم پڑ رہی ہے۔

یاد رہے کہ ایچ ایم پی وی کے کیسز پاکستان کے پڑوسی ملک انڈیا میں بھی رپورٹ ہو رہے ہیں۔

کیا ایچ ایم پی وی نیا وائرس ہے؟

ہیومن میٹا نمونیا وائرس یا ایچ ایم پی وی سے بچنے کے لیے ماسک کا استعمال

،تصویر کا ذریعہEPA

امریکہ کے سینٹر فار ڈزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) کے مطابق یہ وائرس پہلی بار سنہ2001 میں دریافت ہوا تھا۔

عام طور پر اس کی علامات زکام یا فلو جیسی ہوتی ہیں۔ اس میں کھانسی، بخار، ناک بند ہونا اور سانس کا مشکل سے آنا شامل ہیں۔ کچھ متاثرہ افراد کے لیے علامات کی نوعیت زیادہ سنگین بھی ہو سکتی ہے۔

سی ڈی سی کا کہنا ہے کہ یہ وائرس ہر عمر کے لوگوں میں سانس کی بیماری جیسا کہ ’برونکائٹس‘ یا نمونیا کا سبب بن سکتا ہے تاہم چھوٹے بچوں، بوڑھوں اور کمزور مدافعتی نظام والے لوگ اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

ان کے مطابق یہ وائرس سانس کے دیگر انفیکشنز کی ہی طرح ہے۔

سی ڈی سی کا کہنا ہے کہ اس کے جائزے کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ یہ وائرس موسم سرما کے آخر اور معتدل آب و ہوا میں موسم بہار کے دوران سب سے زیادہ فعال ہوتا ہے۔

یہ وائرس کیسے پھیلتا ہے؟

انڈیا کے شہر بنگلور میں پیدل چلنے والے افراد فیس ماسک کے استعمال سے متعلق آگاہی کو فروغ دینے والی دیوار کے سامنے سے گزر رہے ہیں

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یہ وائرس متاثرہ شخص کی چھینکوں اور کھانسی سے دوسروں میں منتقل ہو سکتا ہے۔

اس کے علاوہ چھونے، ہاتھ ملانے اور قریبی رابطے بھی اس وائرس کی ایک سے دوسرے شخص میں منتقلی کا سبب بن سکتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق اس وائرس کا پھیلاؤ زیادہ تر ٹھنڈے موسم میں ہوتا ہے، جس دوران لوگ بیشتر وقت بند کمروں میں گزارتے ہیں۔

بچوں اور بزرگوں کو زیادہ خطرہ کیوں؟

ایچ ایم پی وی سے ایک ہی شخص کئی بار بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق پہلی بار جب یہ وائرس جسم میں داخل ہوتا ہے تو یہ سب سے زیادہ شدت سے اثر انداز ہوتا ہے تاہم اس کے بعد ایک حد تک اس کے خلاف جسم میں قوتِ مدافعت پیدا ہو جاتی ہے۔

ماہرین کے مطابق اس دوران اگر مدافعتی نظام مضبوط رہے اور دیگر بیماریوں جیسے ایچ آئی وی یا کینسر سے متاثرہ شخص نہ ہو تو اگلی بار متاثر ہونے پر یہ وائرس کم اثر ڈال سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پانچ سال سے کم عمر کے بچے اور 65 سال سے زائد عمر کے بزرگ جن کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے یا جنھیں سانس کی بیماری ہوتی ہے، وہ ایچ ایم پی وی سے شدید متاثر ہو سکتے ہیں۔

چونکہ یہ وائرس کئی دہائیوں سے موجود ہے تو ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا بھر میں اس کے خلاف قوتِ مدافعت کافی حد تک پیدا ہو چکی ہے۔

امریکہ کے سینٹرز فار ڈزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے مطابق یہ وائرس پہلی بار 2001 میں دریافت ہوا تھا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

چین میں وائرس کا خوف

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

چین کے ہسپتالوں میں ماسک پہنے لوگوں کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر موجود ہیں جن سے بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ اس وائرس سے متاثرہ افراد کے باعث ہسپتالوں میں بے پناہ رش ہے۔

کچھ مقامی رپورٹس کے مطابق یہ مناظر کووڈ 19 کے ابتدائی دنوں کی یاد دلا رہے ہیں۔

چین میں متعدی امراض کے ادارے (سی ڈی سی ) کے سربراہ کان بیاؤ نے کہا ہے کہ ملک میں سردیوں اور بہار کے دوران لوگ سانس کی مختلف بیماریوں سے متاثر ہو سکتے ہیں۔

انھوں نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ 14 سال سے کم عمر کے افراد میں ایچ ایم پی وی سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے تاہم ساتھ ہی انھوں نے واضح کیا کہ 2024 میں سانس کی بیماریوں کے مجموعی کیسز کی تعداد پچھلے سال کے مقابلے میں کم ہو سکتی ہے۔

پروفیسر تولیو ڈی اولیویرا سینٹر فار ایپی ڈیمک ریسپانس اینڈ انوویشن کے بانی ڈائریکٹر ہیں۔ انھوں نے اس وائرس کے حوالے سے واضح کیا کہ چین میں سردیوں کے دوران وبائی بیماریوں کے چار اہم وائرس میں سے ایک ایچ ایم پی وی ہے جبکہ دیگر تین وائرس ریسپریٹری سنسیشیل وائرس (آر ایس وی )، کووڈ اور فلو ہیں۔

انھوں نے کہا کہ موسم کے پیش نظر ان چار وائرس کے پھیلاؤ کے باعث چینی ہسپتالوں پر دباؤ آنا غیر متوقع یا انہونی بات نہیں۔

چین نے سردیوں میں سانس کی بیماریوں کے کیسز میں اضافے کے خدشات کے پیش نظر جمعے سے ایک نیا نظام متعارف کروانے کا اعلان کیا ہے جس کے تحت نامعلوم وجوہات کی بنا پر ہونے والے نمونیا کی مانیٹرنگ کی جائے گی۔

یاد رہے کہ یہ حفاظتی اقدامات پانچ سال پہلے کووڈ کے آغاز پر درپیش صورتحال سے مختلف نظر آ رہے ہیں۔

SOURCE : BBC