SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, پال ایڈمز
- عہدہ, بی بی سی نیوز، یروشلم
-
28 منٹ قبل
’نکل جاؤ، نکل جاؤ، نکل جاؤ۔‘ ٹیلی گرام ویڈیو سے آتی آواز اس بات پر زور دے رہی ہے۔
کبھی بلند، کبھی ترنم میں لیکن پیغام واضح ہے کہ ’حماس، نکل جاؤ!‘
غزہ کی سڑکوں پر فلسطینیوں کی بڑی تعداد مسلح گروہ حماس کے خلاف کھلے عام مخالفت کا اظہار کر رہی ہے۔
بہت سے لوگ حماس کو اس چھوٹے اور غریب علاقے کو 70 سال سے زیادہ عرصے میں فلسطینیوں کو درپیش بدترین بحران میں دھکیلنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔
غزہ کی تباہ حال سڑکوں پر ایک اور ہجوم نعرے لگا رہا ہے کہ ’پیغام دے دو، حماس کچرا ہے۔‘
غزہ کے ایک وکیل اور سابق سیاسی قیدی مومن الناطور جو طویل عرصے سے حماس کے سخت ناقد رہے ہیں، کہتے ہیں کہ ’دنیا غزہ کی پٹی کی صورت حال کے حوالے سے دھوکے میں ہے۔‘
الناطور نے ہم سے اپنے شہر میں کھنڈرات بنے عمارتوں کے ڈھیر سے بات کی، ان کے پیچھے اس خیمے کا کمزور پردہ ہے جو اب ان کا گھر ہے۔
انھوں نے کہا کہ دنیا سمجھتی ہے کہ غزہ حماس ہے اور حماس غزہ ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم نے حماس کا انتخاب نہیں کیا اور اب حماس غزہ پر حکومت کرنا اور ہماری قسمت کو اپنے ساتھ باندھنا چاہتی ہے۔ حماس کو پیچھے ہٹنا ہو گا۔‘

،تصویر کا ذریعہSupplied

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
یہاں بولنا خطرناک ہے۔ حماس نے اختلاف رائے کو کبھی برداشت نہیں کیا۔
مارچ کے آخر میں جب الناطور نے واشنگٹن پوسٹ کے لیے ایک کالم لکھا تو وہ بے چین دکھائی دیے۔ انھوں نے لکھا کہ ’حماس کی حمایت کا مطلب فلسطینیوں کی آزادی نہیں بلکہ موت ہے۔‘
میں نے ان سے پوچھا کہ ’کیا اس طرح بولنا خطرناک نہیں تھا۔‘
انھوں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے جواب دیا کہ ’ہمیں خطرہ مول لینے اور بولنے کی ضرورت ہے۔ میری عمر 30 سال ہے۔ جب حماس نے کنٹرول سنبھالا تو میری عمر 11 سال تھی۔ میں نے اپنی زندگی کے ساتھ کیا کیا؟ میری زندگی جنگ اور بڑھتے تشدد میں بلاوجہ برباد ہو گئی۔‘
حماس نے 2007 میں سیاسی حریفوں کو پرتشدد طریقے سے بے دخل کر کے غزہ کا کنٹرول حاصل کیا تھا، قومی انتخابات جیتنے کے ایک سال بعد اسرائیل کے ساتھ تین بڑی جنگیں اور دو چھوٹے تنازعات ہو چکے ہیں۔
الناطور نے کہا کہ ’انسانیت کا تقاضہ ہے کہ حماس کی جانب سے دبائے جانے کے باوجود ہم اپنی آواز بلند کریں۔‘
حماس اگرچہ اسرائیل سے لڑنے میں مصروف ہے لیکن وہ اپنے ناقدین کو سزا دینے سے نہیں ڈرتا۔
مارچ کے اواخر میں 22 سالہ عدے الربائی کو مسلح افراد نے غزہ شہر میں پناہ گزینوں کی ایک پناہ گاہ سے اغوا کر لیا تھا۔ چند گھنٹے بعد ان کی لاش ملی جو خوفناک زخموں سے بھری تھی۔
فلسطین کے آزاد کمیشن برائے انسانی حقوق نے کہا ہے کہ عدے الربائی کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان کی موت کو ’زندگی کے حق کی سنگین خلاف ورزی اور ماورائے عدالت قتل‘ قرار دیا۔
الربائی نے حماس مخالف حالیہ مظاہروں میں حصہ لیا تھا۔ ان کے اہلخانہ نے حماس کو ان کی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا اور انصاف کا مطالبہ کیا۔
مرنے سے چند روز قبل الربائی نے سوشل میڈیا پر ایک تاریک ویڈیو پوسٹ کی تھی جس میں وہ سہمے ہوئے تھے اور انھوں نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ حماس کے عسکریت پسند انھیں پکڑنے کے لیے آ رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’غزہ بھوتوں کا شہر بن گیا ہے۔ میں ایک گلی میں پھنس گیا ہوں، مجھے نہیں معلوم کہ کہاں جانا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ وہ میرے پیچھے کیوں ہیں۔ انھوں نے ہمیں تباہ کیا اور ہمارے لیے تباہی لائی۔‘
ان کے جنازے کے موقع پر ایک چھوٹے سے مجمعے نے بدلہ لینے کا مطالبہ کیا اور حماس سے غزہ سے نکلنے کا مطالبہ کیا۔

،تصویر کا ذریعہSupplied
گذشتہ موسم گرما میں حماس کے خلاف آواز اٹھانے کے فیصلے کے بعد امین عابد کا بھی یہی حشر ہوا تھا۔
نقاب پوش عسکریت پسندوں نے انھیں جس طریقے سے پیٹا، ان کے پورے جسم کی ہڈیاں توڑ دیں اور ان کے گردوں کو نقصان پہنچایا۔
عابد زندہ بچ گئے لیکن انھیں بیرون ملک علاج کروانا پڑا۔ اب وہ دبئی میں مقیم ہیں اور اب بھی احتجاجی تحریک میں شامل ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ حماس کا اختیار کم ہو چکا ہے۔
انھوں نے مجھے بتایا کہ ’حماس کی طاقت ختم ہونا شروع ہو گئی ہے۔ یہ کارکنوں اور شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں، لوگوں کو ڈرانے کے لیے انھیں قتل اور تشدد کرتے ہیں لیکن صورتحال پہلے کی طرح نہیں رہی۔‘
گذشتہ ماہ جنگ بندی کے خاتمے سے قبل حماس کے جنگجو اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتے تھے لیکن اب جب اسرائیل ایک بار پھر مسلسل حملے کر رہا ہے تو یہی مسلح افراد چھپ کر پیچھے ہٹ گئے ہیں اور غزہ کے شہری دوبارہ جنگ کی دلدل میں ڈوب گئے ہیں۔
کچھ حالیہ مظاہروں سے پتہ چلتا ہے کہ ڈیڑھ سال کی اسرائیلی بمباری نے شہریوں کو غصے کی انتہا پر پہنچا دیا اور ان میں حماس کا خوف ختم ہو رہا ہے۔
غزہ کی پٹی کے شمالی سرے پر واقع بیت لاہیا میں سب سے زیادہ مخالفت دیکھنے میں آئی۔
ایک عینی شاہد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر متعدد حالیہ واقعات کا ذکر کیا جن میں مقامی رہائشیوں نے حماس کے عسکریت پسندوں کو ان کی کمیونٹی کے اندر سے فوجی کارروائیاں کرنے سے روکا۔
انھوں نے کہا کہ 13 اپریل کو حماس کے مسلح افراد نے ایک معمر شخص جمال المزنان کے گھر میں زبردستی گھسنے کی کوشش کی۔
عینی شاہدین نے ہمیں بتایا کہ ’وہ ان کے گھر کے اندر سے راکٹ اور پائپ (حماس کے کچھ گھریلو ساختہ میزائل) لانچ کرنا چاہتے تھے لیکن انھوں نے اس سے منع کر دیا۔‘
صورتحال جلد ہی شدت اختیار کر گئی اور رشتہ دار اور ہمسائے سب المزنان کے دفاع میں آ گئے۔
مسلح افراد نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہوئے تاہم بعد ازاں انھیں باہر نکال دیا گیا۔
عینی شاہدین نے مظاہرین کے بارے میں کہا ’وہ گولیوں سے خوفزدہ نہیں تھے۔ وہ آگے بڑھے اور کہا کہ وہ اپنا سامان اٹھا کر بھاگ جائیں۔ ہم آپ کو اس جگہ پر نہیں دیکھنا چاہتے۔ ہم آپ کے ہتھیار نہیں چاہتے جو ہمارے لیے تباہی اور موت لے کر آئے ہیں۔‘

،تصویر کا ذریعہUGC
غزہ کے دیگر علاقوں میں مظاہرین نے عسکریت پسندوں سے کہا ہے کہ وہ ہسپتالوں اور سکولوں سے دور رہیں تاکہ ایسے حالات سے بچا جا سکے جن میں شہری اسرائیلی فضائی حملوں کا شکار بنتے ہیں۔
لیکن اس طرح کی مخالفت اب بھی خطرناک ہے۔ غزہ شہر میں حماس نے مظاہرہ کرنے والے ایک ایسے ہی شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
غزہ کے باشندے جن کے پاس نہ تو کھونے کے لیے کچھ بچا ہے اور نہ ہی جنگ کے خاتمے کی امید۔۔۔ وہ اسرائیل اور حماس دونوں پر یکساں ناراض ہیں۔
یہ پوچھے جانے پر کہ وہ غزہ کی تباہی کا سب سے زیادہ ذمہ دار کس کو ٹھہراتے ہیں، امین عابد نے کہا کہ یہ ’ہیضہ اور طاعون میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے جیسا ہے۔‘
اگرچہ حالیہ ہفتوں کی احتجاجی تحریک ابھی تک بغاوت نہیں قرار دی جا سکتی لیکن تقریبا 20 سال کی حکمرانی کے بعد حماس کی غزہ پر آہنی گرفت آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہے۔
SOURCE : BBC