SOURCE :- BBC NEWS

ہیکنگ

،تصویر کا ذریعہGettyImages

  • مصنف, احتشام احمد شامی
  • عہدہ, صحافی، ملتان
  • ایک گھنٹہ قبل

یہ 15 اور16 مئی کی درمیانی رات ساڑھے بارہ بجے کا وقت تھا۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع ملتان میں سکیورٹی اداروں کے اہلکار ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میں موجود تھے۔

اُن کا ہدف اور مقصد ایک بین الاقوامی ہیکنگ نیٹ ورک کے لیے کام کرنے والے کارندوں کو گرفتار کرنا تھا۔ اس سے قبل جنوری 2025 میں امریکی تحقیقاتی ادارے فیڈرل بیورو آف انویسٹگیشن (ایف بی آئی) اور نیدرلینڈز کی پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے اس نیٹ ورک کی 39 ویب سائٹس اور ان سے منسلک ویب سرورز بند کر دیے تھے۔

امریکی محکمہ انصاف اور ایف بی آئی کے مطابق اس پاکستانی نیٹ ورک کو صائم رضا عرف ’ہارٹ سینڈر‘ نامی شخص چلا رہا تھا۔

اُس رات نیشنل سائبر کرائم انوسٹیگیشن ایجنسی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار اسی نیٹ ورک کے اراکین کو گرفتار کرنے کی غرض سے ملتان کی ہاوسنگ سوسائٹی میں موجود تھے۔ حکام کو اطلاع ملی تھی کہ اس گروہ کے اراکین دو مکانوں میں موجود ہیں، جو ساتھ ساتھ واقع ہیں۔

یہ خصوصی طور پر تشکیل کی گئی ٹیم لوکیٹر کے ساتھ ساتھ ایسے ڈیجیٹل آلات بھی لائی تھی جن کی مدد سے ملزمان کی گرفتاری کو ممکن بنایا جا سکتا تھا۔ اس ٹیم کا بنیادی ہدف اس نیٹ ورک کے مقامی سرغنہ کو گرفتار کرنا تھا۔

اس ٹیم میں شامل ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مقامی سرغنہ کے زیراستعمال موبائل فون کا پتہ چلا کر اس نمبر کو لوکیٹر میں فیڈ کیا گیا جس کے بعد انھیں اس نمبر کے موجودہ مقام کا علم ہوا۔

کارروائی کا آغاز ہوا اور جلد ہی اس ٹیم کے مطابق گروہ میں شامل تمام افراد پکڑے گئے۔ لیکن جس سرغنہ کے نمبر کی مدد سے وہ اس جگہ تک پہنچے تھے، وہ نہیں پکڑا گیا۔ ٹیم کے لیے حیرانی کی بات یہ تھی کہ لوکیشن کے مطابق وہ نمبر اب بھی اسی جگہ پر تھا۔

ٹیم کے افراد نے گرفتار افراد سے بارہا سختی سے پوچھا کہ ’ہارٹ سینڈر‘ کہاں چھپا ہوا ہے لیکن وہ لاعلمی کا اظہار کرتے رہے۔ چھاپہ مار ٹیم کو یقین تھا کہ ان ہی دونوں گھروں میں کوئی ایک ایسا خفیہ کمرہ یا تہہ خانہ موجود ہے جہاں گروہ کا سرغنہ چھپا ہوا ہے۔

چھاپہ مار ٹیم میں شامل ایک اہلکار نے بی بی سی اُردو کو بتایا کہ ’ان کی موجودگی میں لوکیٹر سرغنہ کی موجودگی کو ظاہر کر رہا تھا لیکن پھر کچھ دیر بعد اچانک لوکیٹر سے وہ نمبر غائب ہو گیا جس کا مطلب تھا کہ اس نے اپنا موبائل فون بند کر دیا اور وہ کہیں دور چلا گیا ہے۔‘

امریکی تحقیقاتی بیورو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ہارٹ سینڈر اور بین الاقوامی گروہ پر کیا الزام ہے؟

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

اس ہاؤسنگ سوسائٹی میں موجود دونوں مکانوں سے گرفتار ہونے والے 14 ملزمان پر مبینہ طور پر امریکی شہریوں اور مالیاتی اداروں کو لوٹنے کا الزام ہے۔ ان ملزمان کو عدالت میں پیش کر کے اب اُن کا سات روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کر لیا گیا ہے۔

نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی کے تفتیشی حکام نے عدالت میں دعویٰ کیا کہ امریکہ اور دیگر ممالک کے شہریوں اور مالیاتی اداروں کو لوٹنے میں استعمال ہونے والی تمام فشنگ ویب سائٹس کو ٹریک کر لیا گیا ہے اور اس گروہ سے منسلک 21 افراد کے خلاف مقدمات کا اندراج کر لیا گیا ہے۔

نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی کے تفتیشی حکام نے عدالت کو بتایا کہ اس ہائی پروفائل کیس کی تحقیقات کے لیے آٹھ رکنی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی گئی ہے جو ملزمان سے پوچھ گچھ کر رہی ہے۔

حکام کے مطابق ملزمان کے زیراستعمال متعدد کمپیوٹرز، لیپ ٹاپ، موبائل فون، الیکٹرانک آلات اور کچھ مشینیں قبضے میں لے لی گئی ہیں جبکہ اس کے علاوہ گروہ سے چند لگژری گاڑیاں بھی قبضے میں لے لی گئی ہیں۔ حکام کے مطابق جو گھر اس گروہ کے زیراستعمال تھے انھیں سیل کر دیا گیا ہے۔

تفتیشی حکام نے عدالت کو بتایا کہ گروہ کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے جبکہ اینٹی منی لانڈرنگ سمیت دیگر الزامات کے تحت مزید مقدمات درج کیے جا سکتے ہیں۔ 15 ملزمان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں بھی شامل کر دیے گئے ہیں۔

امریکہ محمکمہ انصاف

،تصویر کا ذریعہwww.justice.gov

گروہ کا سرغنہ کون ہے اور وہ کیسے بچ نکلا؟

حکام کے مطابق ملزمان سے تفتیش میں انکشاف ہوا کہ گروہ کے سرغنہ نے دونوں گھروں کے بالکل عقب میں بھی دو مکان کسی اور شخص کے نام پر کرائے پر لے رکھے تھے۔

نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی کے ایڈیشنل ڈائریکٹر عبدالغفار نے بتایا کہ ’دو مکانات میں گروہ کے اراکین کام کرتے تھے اور سرغنہ نے ان تک رسائی کے لیے ایک چھوٹا سا راستہ رکھا ہوا تھا۔‘

ان کے مطابق ’جب چھاپہ مارا گیا تو سرغنہ پیچھے والے مکان کی طرف اسی راستے سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا اور جب اسے اندازہ ہوا کہ اس کی لوکیشن ٹریس کی جا رہی ہے تو اس نے فون بند کیا اور فرار ہو گیا۔‘

عبدالغفار کے مطابق ’سرغنہ کی گرفتاری کے لیے بڑے پیمانے پر کوششیں کی جا رہی ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ملک کے تمام ائیرپورٹس پر اس کا ڈیٹا موجود ہے اور گرفتاری کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘

ایڈیشنل ڈائریکٹر عبدالغفار کا مزید کہنا تھا کہ ’زیرحراست ملزمان سے دوران تفتیش اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ اس گروہ نے 2011 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی ویب سائٹ بھی ہیک کی تھی۔‘

ان کا دعویٰ ہے کہ ’ہارٹ سینڈر‘ نامی گروہ نے ڈریم کلراور پاک ہیک ڈاٹ کام کے نام سے ویب سائٹ بنائی ہوئی تھی اور انھوں نے مبینہ طور پر 780 ویب سائٹس ہیک کیں۔‘

ان کے مطابق یہ گروہ ’شفا گارڈن‘ نامی ایک کمپنی چلا رہا تھا جس کی آڑ میں اپنا اصل کام یعنی مالیاتی فراڈ اور سائبر کرائم کرتے تھے۔

عبدالغفار کا کہنا ہے کہ ’اس گروہ کو دو لوگ چلاتے تھے جن میں سے ایک کی گرفتاری کے لیے چھاپہ مارا گیا جبکہ دوسرا، جس کا نام امریکی محکمہ انصاف کی طرف سے پہلی بار 30 جنوری کو جاری کیا گیا، کا اصلی نام کچھ اور ہے لیکن وہ اپنے ایک دوست کا نام استعمال کرتا تھا۔‘

ان کا دعویٰ ہے کہ ’صائم رضا اس کی سرگرمیوں سے لاعلم تھا۔‘ ان کے مطابق یہ سرغنہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے جعل سازی اور سپام آپریشنز میں ملوث ہے۔

ان کے مطابق ’اسی گروہ کے خلاف ماضی میں بھی کارروائی کی گئی جس کے دوران چھ ملزمان کو لاہور جبکہ آٹھ ملزمان کو ملتان سے گرفتار کیا گیا۔‘

پولیس

،تصویر کا ذریعہgettyimages

امریکی محکمہ انصاف کی پاکستانی گروہ کے خلاف کارروائی

پاکستان میں اس گروہ کے خلاف حال ہی میں کارروائی کی گئی ہے لیکن امریکی محکمہ انصاف 30 جنوری کو سائٹس ہیکنگ ٹولز بیچنے اور مالی فراڈ کرنے والے پاکستانی گروہ کے خلاف کریک ڈاؤن کا باقاعدہ اعلان کر چکا ہے۔ امریکی محمکہ انصاف کے مطابق یہ کارروائی ہالینڈ کے حکام کے تعاون سے کی گئی ہے، جس میں سائبر کرائم نیٹ ورک کو مکمل طور پر ختم کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔

اس بارے میں پاکستان کی نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی کے ایڈیشنل ڈائریکٹر نے بتایا کہ ’جب امریکی ادارے نے 30 جنوری کو اس گروہ کو بے نقاب کیا تو ہم نے گروہ کے گرد خفیہ طریقے سے گھیرا تنگ کرنے کے لیے کام شروع کیا، ملزمان کے بارے میں تفصیلات حاصل کی گئیں، اس کی سرگرمیوں کو مانیٹر کرنا شروع کیا جس سے ملزمان کو لگا کہ ہم پاکستانی قانون کی پکڑ میں نہیں آئیں گے، ہم نے ملزمان کے خلاف جب تمام ثبوت حاصل کر لیے تب اس گروہ پر ہاتھ ڈالا۔‘

اس نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کیسے شروع ہوئی؟

نیدرلینڈز کی پولیس کی جانب سے جنوری میں جاری بیان کے مطابق ’سنہ 2022 میں ایک علیحدہ تحقیقات کے دوران ایک ملزم کے کمپیوٹر سے جعلسازی میں استعمال ہونے والا ایک سوفٹ وئیر برآمد ہوا تھا جس کے بعد سائبر کرائم ٹیم نے تحقیقات شروع کی تھیں۔‘

بیان میں کہا گیا ہے کہ اس سے قبل اس نیٹ ورک کے خلاف امریکہ میں پہلے سے ہی تحقیقات چل رہی تھیں۔

نیدرلینڈز پولیس کے مطابق اس گروہ نے ’کریمنل ویب شاپس‘ کھولی ہوئی تھیں اور اس کے اشتہارات یوٹیوب پر بھی چلائے جا رہے تھے تاکہ ڈیجیٹل فراڈ میں استعمال ہونے والے ٹولز بیچے جا سکیں۔

ان ویب سائٹس پر ’سکیمپینز‘، ’سینڈرز‘ اور ’کوکی گریبرز‘ نامی ٹولز فروخت کیے جا رہے تھے۔

نیدرلینڈر کی پولیس کا کہنا ہے کہ ’کوئی سائبر مجرم ان ٹولز کا استعمال کرتے ہوئے بڑی تعداد میں جعلسازی پر مبنی ای میلز ارسال کر سکتا ہے یا پھر ان کا استعمال کرتے ہوئے لوگوں کے آئی ڈی اور پاسورڈ حاصل کر سکتا ہے۔‘

دوسری جانب امریکی محکمہ انصاف کا کہنا ہے کہ صائم رضا نیٹ ورک نے نہ صرف جعلسازی کے لیے استعمال کیے جانے والے ٹولز فروخت کیے بلکہ ان کے استعمال کو آسان بنانے کے لیے یوٹیوب پر ویڈیوز بھی اپلوڈ کیں۔

نیدرلینڈز کی پولیس کا کہنا ہے کہ جعلسازی کے لیے استعمال ہونے والے ٹولز کے خریداروں میں ان کے ملک کے شہری بھی شامل ہیں اور ان تمام افراد کے خلاف بھی تحقیقات جاری ہیں۔

جعلسازی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جرائم پیشہ گروہوں نے ان ٹولز کا استعمال کیسے کیا؟

امریکی محکمہ انصاف کا اپنے بیان میں کہنا ہے کہ ’منظم بین الاقوامی جرائم پیشہ گروہوں نے ان ٹولز کا استعمال کاروباری ای میلز کو نشانہ بنانے کے لیے کیا، جہاں سائبر مجرم جھانسہ دے کر متاثرہ کمپنیوں کو کسی تیسرے فریق کو پیسے ارسال کرنے پر مجبور کرتے تھے۔‘

یہ پیسے دراصل مجرموں کے اکاؤنٹس میں ہی جا رہے ہوتے تھے اور اس کے نتیجے میں متاثرہ افراد کو مالی نقصانات اٹھانا پڑتے تھے۔

امریکی محکمہ انصاف کی پریس ریلیز کے مطابق ’تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ یہ نیٹ ورک 2020 سے سرگرم تھا اور امریکی شہریوں کو نشانہ بنا کر 30 لاکھ ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچا چکا تھا۔‘

’یہ ویب سائٹس فشنگ کٹس، سکیمنگ پیجز اور ای میل ایکسٹریکٹرز جیسے ہیکنگ ٹولز فروخت کر رہی تھیں جو کاروباری ای میل کمپرومائز فراڈ میں استعمال کیے جاتے تھے، ان ٹولز کے ذریعے کمپنیوں کو جعلی ادائیگیوں کے لیے دھوکا دیا جاتا تھا اور پیسے ہیکرز کے کنٹرول میں موجود اکاؤنٹس میں منتقل ہو جاتے تھے۔‘

امریکی محکمہ انصاف کے مطابق ’اس گروہ پر دنیا بھر میں جرائم پیشہ افراد کو ہیکنگ ٹولز اور فراڈ کو ممکن بنانے والی خدمات فروخت کرنے کا الزام ہے اور اس نیٹ ورک نے ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک آن لائن بازار چلائے، جس میں جعل سازی، میلویئر کی تقسیم اور بڑے پیمانے پر مالی فراڈ کو سہولت فراہم کی گئی۔‘

امریکی محکمہ انصاف کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ’اس گروہ نے نا صرف ہیکنگ ٹولز فروخت کیے بلکہ ان کے استعمال کے لیے جرائم پیشہ افراد کو تربیت بھی دی اور گروپ نے یوٹیوب پر ہدایات فراہم کیں جس میں جعل سازی کی تکنیک اور شناخت سے بچنے کے طریقوں کا مظاہرہ کیا گیا تھا، ان کے ٹولز کو اینٹی سپام اور سکیورٹی سافٹ ویئر کے ذریعے مکمل طور پر ناقابل شناخت کے طور پر مارکیٹ کیا گیا تھا۔‘

SOURCE : BBC