SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, عماد خالق
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
-
17 منٹ قبل
’اتنے پیسوں میں گزارہ ناممکن ہے، ایک وقت کا کھانا بھی پیٹ بھر میسر نہیں، کبھی سوکھی روٹی اور چائے تو کبھی کسی لنگر سے لے کر کھاتے ہیں۔‘
محمد رحمان اسلام آباد میں ایک کمپنی میں بطور سکیورٹی گارڈ نوکری کر رہے ہیں۔ میں نے جب ان سے پوچھا کہ 32 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ میں گزارہ کیسے کرتے ہیں تو اس کے جواب میں انھوں نے یہ الفاظ ادا کیے۔
محمد رحمان اکیلے نہیں جنھیں حکومت کی جانب سے مقرر کردہ کم از کم اجرت سے بھی کم ماہانہ تنخواہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان میں لاکھوں ایسے مزدور، غیر ہنرمند، نیم ہنرمند اور ہنرمند افراد ہیں جو مختلف شعبوں اور اداروں میں حکومت کی جانب سے مقررہ اجرت سے کم پر کام کر رہے ہیں۔
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے مالاکنڈ سے تعلق رکھنے والے محمد رحمان جو کم و بیش 15 سال سے اسلام آباد میں بطور سکیورٹی گارڈ مختلف سرکاری، نیم سرکاری اور نجی اداروں میں خدمات انجام دیتے آئے ہیں 32 ہزار روپے میں مہینہ گزارنے کے متعلق کہتے ہیں کہ ’ہم زندگی تھوڑی جی رہے ہیں، بس سسک سسک کر گزار رہے ہیں۔‘
32 ہزار میں سے 15 ہزار صرف بنیادی راشن پر خرچ ہو جاتا ہے۔ پانچ سے چھ ہزار بچوں کی تعلیمی اخراجات پر، اگرچہ ان کے بچے سرکاری سکول میں پڑھتے ہیں۔ وہاں یونیفارم اور کتابیں تو مفت ہیں مگر کاپیاں خریدنی پڑتی ہیں۔
محمد رحمان کے تین بچے ہیں اور ان کی ایک بیٹی بیمار ہے جس کے علاج پر ان کا ماہانہ آٹھ ہزار روپے خرچ ہوتا ہے۔
وہ اپنے حالات کے متعلق مزید بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میں اپنی تنخواہ میں سے صرف 2500 روپے اپنے پاس رکھتا ہوں باقی گھر بھیج دیتا ہوں، پھر بھی دس دن بعد گھر سے پیسوں کے لیے فون آ جاتا ہے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ مالاکنّڈ میں گھر ان کا اپنا ہے وگرنہ گھر کرائے پر ہوتا تو 32 ہزار میں تو گزارہ ناممکن ہے۔ دو کمروں کے گھر میں ان کا بجلی کا ماہانہ بل 3500 سے 4500 آتا ہے۔
محمد رحمان نے بتایا کہ ’گھر میں مہینے میں ایک سے دو بار کوئی سبزی پکتی ہے ورنہ صرف آلو، یا دال میں پانی ڈال کر پکا کر کر کھا لیتے ہیں۔‘
محمد رحمان کے مطابق اتنی معمولی تنخواہ میں ہمارے گھروں میں بیماری، خوشی غمی سب ساتھ چلتا ہے۔ ’میں یہاں خود خرید کر کھانا نہیں کھاتا، بلکہ کسی لنگر سے لے آتا ہوں، کبھی دن میں ایک بار کھا لیا تو کبھی دوسری مرتبہ مل گیا تو کھا لیا۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
’میں گھر چھ سے آٹھ ماہ بعد چند دن کے لیے جاتا ہوں‘

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
محمد رحمان کہتے ہیں کہ ان کو کبھی بھی حکومت کی جانب سے مقررہ کردہ کم سے کم اجرت نہیں ملی۔ ’میں گھر چھ سے آٹھ ماہ بعد چند دن کے لیے جاتا ہوں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ آج بھی جب حکومت کی جانب سے کم از کم اجرت 37 ہزار روپے ماہانہ ہے ان کو 32 ہزار روپے ماہانہ اجرت مل رہی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ جس نجی سکیورٹی کمپنی سے منسلک ہیں وہ کمپنی تو اس ادارے سے جہاں وہ اب بطور سکیورٹی گارڈ ڈیوٹی دے رہے ہیں 37 ہزار ہی وصول کرتی ہے لیکن انھیں ماہانہ 32 ہزار ادا کرتی ہے۔
محمد رحمان جو میٹرک پاس ہیں بتاتے ہیں کہ ان کو حکومت کی جانب سے مقررہ کردہ کم از کم اجرت کا علم ہے مگر جب بھی وہ اپنی سیکورٹی کمپنی سے اس بارے میں بات کرتے ہیں تو انھیں یہ کہا جاتا کہ ہے کہ متعلقہ ادارہ سکیورٹی کمپنی کو 37 ہزار سے زائد ادا کرنے کو تیار نہیں اور کمپنی نے خود بھی تو کچھ کمانا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے آٹھ گھنٹے یومیہ ڈیوٹی اور غیر ہنرمند افراد کے لیے 37 ہزار روپے کم از کم اجرت مقرر ہے، میں نیم ہنر مند افراد میں آتا ہو اور میری ڈیوٹی کا دورانیہ بھی 12 گھنٹے ہے تو مجھے 42 سے 45 ہزار روپے مقرر کردہ اجرت ملنی چاہیے مگر یہاں غریب کا کوئی نہیں سوچتا۔‘
پاکستان میں حکومت کی جانب سے مقررہ کم از کم اجرت، لیبر قوانین اور ان کی کمزور عملداری کے بارے میں جانتے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
پاکستان میں حکومت کی مقررہ کم از کم اجرت کیا ہے؟
پاکستان کی حکومت کی جانب رواں مالی سال کے دوران کم سے کم اجرت 37 ہزار سے 45 ہزار کے درمیان ہے۔ میڈیا میں اکثر کم از کم اجرت 37 ہزار کا تذکرہ ہی کیا جاتا ہے دراصل یہ اجرت غیر ہنرمند افراد کے لیے ہے۔
حکومت نے ملک میں لیبر قوانین کے تحت ایسے افراد کو تین مختلف کیٹیگریز میں رکھا ہے جن میں غیر ہنر مند افراد، نیم ہنر مند افراد اور ہنرمند افراد ہیں۔
37 ہزار روپے ماہانہ غیر ہنرمند افراد کے لیے تعمیراتی شعبے سے لے کر کسی بھی صنعت یا ادارے میں کام کرتے ہیں۔
ان میں عام مزدور، خاکروب، مالی، غیر مسلح چوکیدار، چپڑاسی وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔
حکومتی نوٹیفکیشن کے مطابق مہینے کے 26 دن آٹھ گھنٹے یومیہ کام کرنے والے ایسے افراد کی کم از کم اجرت 37 ہزار روپے ہے۔
اس کے بعد نیم ہنرمند افراد آتے ہیں۔
ان میں ایسے افراد جو تعلیم یافتہ یا ڈپلومہ ہولڈر نہیں اور کسی ہنر کو سیکھنے کے ساتھ ساتھ اس کا کام کرتے ہیں جیسا کہ مستری، پلمبر، سائیکل مکینک، مسلح سیکورٹی گارڈ وغیرہ شامل ہیں۔
حکومت کی جانب سے ایسے افراد کو کم از کم اجرت 40 سے 42 ہزار روپے دینے کا کہا گیا ہے۔
ان کے بعد ہنرمند افراد آتے ہیں جنھوں نے بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے کام میں کوئی ڈپلومہ حاصل کر رکھا ہے، جیسا کہ موٹر سائیکل مکینک، ڈپلومہ ہولڈر پلمبر، الیکٹریشن، کار مکینک، ویلڈر، موبائل مکینک وغیرہ۔
حکومت کی جانب سے ان کی کم از کم اجرت 45 ہزار روپے ماہانہ ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
حکومت کم از کم اجرت کا تعین کیسے کرتی ہے؟
پاکستان میں مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم سینٹر فار لیبر ریسرچ کے سربراہ اور لیبر قوانین و حقوق کے ماہر افتخار احمد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بارے میں بتایا کہ اس حوالے سے پاکستان میں مختلف قوانین ہیں اور سنہ 2010 میں آئینی ترمیم کے بعد ویج بورڈ کا قیام عمل میں آیا اور تمام صوبوں میں کم از کم اجرت کے حوالے سے ویچ بورڈ موجود ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ قانون کے مطابق پاکستان انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن اور اقوام متحدہ کی کنونشن کے تحت ویج بورڈ اور دیگر قوانین کی پاسداری کرنے کا پابند ہے۔
افتخار احمد کے مطابق ویج بورڈ ایک ایسی باڈی ہے جس میں مزدوروں، آجروں اور حکومتی حکام کی نمائندگی لازمی ہے۔ اور لیبر قوانین کے مطابق حکومت خود سے کوئی ایک ہندسہ سوچ کر کم سے کم اجرت کا تعین نہیں کرتی اور قانون کے مطابق اسے ویج بورڈ میں اسے تمام فریقین کے ساتھ مل کر طے کرنا ہوتا ہے۔
افتخار احمد کا کہنا ہے کہ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر سال جون میں بجٹ کے دوران مقرر کردہ کم از کم اجرت کا ہندسہ ویج بورڈ سے منظوری کے بعد نہیں آتا بلکہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کی بیوروکریسی طے کرتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیبر قوانین میں یہ کہا گیا ہے کہ کم از کم اجرت کا تعین اس بنیاد پر کیا جائے گا کہ چار افراد پر مشتمل کسی بھی کنبے کی بنیادی ضروریات پوری ہو سکیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ویج بورڈ کم از کم اجرت کے لیے کوئی ایک ہندسہ نہیں دیتا مگر مختلف کیٹگریز کے لیے مختلف اعداد دیتا ہے۔ 37 ہزار ملک میں غیر ہنرمند افراد کے لیے مقرر اجرت ہے۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے محکمہ لیبر ویلفیئر کی ڈائریکٹر جنرل سیدہ کلثوم حیئ نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کا ایک طریقہ کار ہے جس میں صوبے کے ویج بورڈ سمیت تمام فریقین سے مشاورت کے بعد اس کا تعین کرنا، اس کے بعد ان کے تجویز کردہ اعداد کو کنزیومر پرائس انڈیکس اور ملک میں مہنگائی کی شرح کے ساتھ موازانہ کر کے تجویز دی جاتی ہے کہ ملک میں کم از کم اجرت کیا ہونی چاہیے۔
انھوں نے بتایا کہ نگراں حکومت کے دور میں کم از کم اجرت میں آٹھ فیصد بڑھایا گیا تھا اور کم از کم اجرت 25 ہزار ماہانہ سے 32 ہزار روپے کر دی گئی تھی۔ جبکہ گذشتہ برس اسے بڑھا کر 37 ہزار کیا گیا۔
ڈی جی لیبر ویلفیئر اس طریقہ کار میں سقم اور کمزوریوں کو تسلیم کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ اس میں مشاورت پہلے ہونی چاہیے اور کم سے کم اجرت کا اعلان بعد میں مگر یہاں اعلان پہلے اور مشاورت بعد میں کی جاتی رہی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ اب ہم اگلے مالی سال سے کم سے کم اجرت کے تعین کے لیے مشاورت پہلے اور اعلان بعد میں کرنے کے طریقہ کار کی پابندی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
کم از کم اجرت کے قانون پر عملدرآمد کمزور کیوں؟
اس بارے میں افتخار احمد کا کہنا ہے کہ اس کی ایک بڑی وجہ ملک میں لیبر قوانین کے متعلق کم آگاہی ہے اور میڈیا میں بھی کم از کم اجرت کی سب سے کم سطح کا تذکرہ کیا جاتا ہے اور ادارے اس ہی کو معیار سمجھ لیتے ہیں۔
کیا کم اجرت کے متعلق شکایات کرنے کے لیے کوئی فورم موجود ہے کے متعلق بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ہر صوبے میں محکمہ لیبر کا ایک افسر جیسے لیبر انسپکٹر کہا جاتا ہےموجود ہوتا ہے۔
اس افسر کا بنیاد کام لیبر قوانین پر عمل کروانا اور ایسی شکایات کا ازالہ کرنا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اس حوالے سے کوئی آگاہی نہیں اور شکایات درج کروانے کا طریقہ کار بھی پیچیدہ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی مزدور کو دن کے اوقات میں شکایات درج کروانی ہے تو اسے اپنی نوکری کے متعلق چند ضروری دستاویزات کے ساتھ دفتر جانا ہے اور ایسے میں وہ کام کرے یا شکایت درج کروانے جائے۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ اس ضمن میں ہیلپ لائن فراہم کرے جہاں کوئی بھی مزدور اپنی شکایت درج کروا سکے۔
انھوں نے بتایا کہ اس ضمن میں حال ہی میں پنجاب حکومت نے ایک ہیلپ لائن متعارف کروائی ہے۔
ان کے مطابق سب سے زیادہ اصلاحات کی ضرورت وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ہے۔ یہاں لیبر قوانین پر عملدری سب سے کمزور ہے اور حکومت اس پر زیادہ توجہ نہیں دے رہی۔
لیبر قوانین اور مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے عاصم سجاد اختر اس بارے میں کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں عام مزدور کا استحصال ہو رہا ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مزدور برادری غیر منظم ہے۔ ملک میں صرف دو فیصد ہنرمند افراد کسی تنظیم، یونین یا فورم سے منسلک ہیں۔ اس لیے حکومت اور ادارے ان کے حقوق کے متعلق زیادہ دباؤ کا سامنا نہیں کرتے۔
عاصم سجاد کہتے ہیں دوسرا ان افراد میں تعلیم اور آگاہی کی کمی بھی آڑے آتی ہے۔ حکومت نے نیشنل انڈسٹریل ریلی کمیشن ( این آئی آر سی) بھی بنایا ہوا ہے جہاں مزدور خود کو یونین یا انجمن میں رجسٹر کروا کر حقوق اور تحفظ حاصل کر سکتے ہیں مگر اس بارے میں آگاہی نہیں اور ادارے اپنے مفادات کی وجہ سے بتاتے بھی نہیں ہیں۔
اس کے علاوہ محکمہ لیبر جس کا کام مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے مگر وہ بھی اپنا کام درست نہیں کر رہے ورنہ آج ملک سے کچھ اور نہیں تو کم از کم جبری مشقت ہی ختم ہو جاتی۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے محکمہ لیبر ویلفیئر کی ڈائریکٹر جنرل سیدہ کلثوم حیئ نے بی بی سی سے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے کسی ملک میں بھی کم از کم اجرت کی سو فیصد عملداری نہیں ملتی۔
وہ کہتی ہیں کہ اس قانون کی عملداری میں کمزوری کی کئی وجوہات ہیں۔ جہاں ایک جانب محکمہ کے پاس افرادی قوت کی کمی ہے وہیں محکمہ اختیارات اور ملک کے عدالتی نظام میں سقم بھی اس کو کمزور بناتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر محکمہ کسی آجر کے خلاف کارروائی کرتا ہے تو پھر چالان لیبر کورٹ میں پیش کرتا ہے۔ آجر ان عدالتوں سے ریلیف حاصل کر لیتے ہیں یا پھر معاملہ لیبر ٹریبیونل اور بعض معاملات میں ہائی کورٹ تک لے جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالتوں کا نظام سست روی کا شکار ہے جس سے قانون کے عملدرآمد میں کمزور محسوس ہوتی ہے اور ہم گراؤنڈ پر جو ڈیٹرینس چاہتے ہیں وہ نہیں مل پاتی۔
سیدہ کلثوم کہتی ہیں کہ محکمہ کسی بھی معاملے میں کسی آجر کو خود سزا نہیں دے سکتا بلکہ اس کا مقدمہ چلایا جاتا ہے ایسے میں عدالت ان مقدمات کا فیصلہ سنانے میں کافی تاخیر کر دیتی ہے جس سے یہ تاثر جاتا ہے کہ ملک میں لیبر قوانین کی عملداری میں کمزور ہے۔
ڈی جی محکمہ لیبر ویلفئیر پنجاب کلثوم حئی نے بتایا کہ اگر کوئی آجر کسی بھی مزدور کو کسی بھی طرح سے تنگ کرتا ہے تو اس کی شکایت درج کروانے کا ایک طریقہ کار ہے۔ جس میں محکمہ لیبر میں شکایت کا اندراج کروانا، وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم پورٹل پر شکایت درج کروانے کے ساتھ ساتھ محکمہ لیبر پنجاب نے سنہ 2023 سے ایک ہیلپ لائن متعارف کروا رکھی ہے۔ اس کا نمبر ہے 1314 یہ صبح نو سے پانچ کام کر رہی جسے 24 گھنٹے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہاں کسی بھی شکایت کو حل کرنے کا دورانیہ سات دن ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
لیونگ ویج کا نظریہ
دنیا بھر میں بڑھتی مہنگائی کے باعث اب کم از کم اجرت کے بجائے لیونگ ویج یعنی وہ اجرت جس سے ایک کنبے کی بنیادی ضروریات پوری ہو سکیں کو طے کرنے کے بارے میں سوچ پروان چڑھ رہی ہے۔
اس بارے میں افتخار احمد کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسے ممالک میں اس بارے میں نہ کوئی اقدام اٹھایا گیا ہے نہ ہی کوئی ادراک ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر 2025 کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو پنجاب اور سندھ میں لیونگ ویج تقریباً 60 ہزار روپے تک ہے مگر بلوچستان میں یہ ہندسہ اس سے بھی زیادہ ہے۔
جبکہ 160 ممالک کے مختلف شہروں سے اعداد و شمار اکٹھا کر کے وہاں لیونگ ویج کے متعلق تحقیق کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ویج انڈیکیٹر فاؤنڈیشن کی سالانہ رپورٹ 24-25 میں پاکستان میں لیونگ ویج 52 ہزار ماہانہ قرار دی گئی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ سندھ اور پنجاب ایک اچھا اقدام جو کیا ہے وہ یہ ہے کہ لیبر قوانین میں اصلاحات میں یہ ڈالا ہے کہ حکومت کم از کم اجرت کا تعین کرتے وقت ایک کنبے کی بنیادی ضروریات کو مد نظر رکھے گی۔ لہذا ایک چار افراد پر مشتمل کنبے کی بنیادی ضروریات 37 ہزار میں پوری نہیں ہوتی۔
وہ کہتے ہیں کہ ہمارے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان افراد کے کنبہ کا سائز چار افراد سے اکثر زیادہ ہوتا ہے اور کمانا صرف ایک ہوتا ہے۔
دنیا میں کسی بھی حکومت کے لیے ایک چار افراد سے بڑے کنبے جہاں صرف کمانے والا ایک ہو، کی بنیادی ضروریات کے مطابق اجرت مقرر کرنا ممکن نہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس حوالے سے بہتر ہے کہ یہاں سنہ 2010 سے متواتر کم از کم اجرت میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ جبکہ بنگلہ دیش میں سالہا سال سے اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ اگر ہم جنوبی ایشیائی ممالک کا جائزہ لیں تو تقریباً سری لنکا، انڈیا، بنگلہ دیش اور پاکستان کے عمومی معاشی حالات ایک سے ہیں اور ان کے مقابلے میں پاکستان میں کم از کم اجرت کافی بہتر ہے۔
ڈی جی لیبر ویلفئیر سیدہ کلثوم حیئ کا کہنا ہے کہ ہم اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ 37000 لیونگ ویج نہیں بلکہ وہ بنیادی تنخواہ ہے جس میں بمشکل گزارہ کیا جا سکتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ پنجاب میں اس پر عملدرآمد کروانے میں مشکل ضرور ہے تاہم محکمہ کوشش کر رہا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو سکے اس پر عملدرآمد کروایا جائے اور اب تک محکمہ لیبر ویلفیئر پنجاب میں ساڑھے آٹھ لاکھ افراد کو کم از کم اجرت دلوانے میں کامیاب ہوا ہے۔
SOURCE : BBC