SOURCE :- BBC NEWS

ڈاکٹر شکور کی اہلیہ اور پانچ بچے

،تصویر کا ذریعہFamily Photo

35 منٹ قبل

15 اکتوبر 2012 کی صبح برطانیہ کے علاقے ایسیکس میں مقیم پاکستانی نژاد خاندان ایک دھماکے کی آواز سے بیدار ہوا۔ آنکھ کھلنے پر خاندان کے افراد نے اپنے گھر کے نچلے حصے کو گہرے دھوئیں میں لپٹا پایا۔

یہ وہ دن تھا جب پاکستانی نژاد ڈاکٹر عبدالشکور کے لیے سب کچھ بدل گیا۔

12 برس سے زیادہ عرصے قبل ہارلو میں ان کے گھر میں آگ لگ گئی تھی جس میں ان کی اہلیہ اور پانچوں بچے ہلاک ہو گئے تھے۔

ڈاکٹر عبدالشکور اور ان کی اہلیہ ڈاکٹر صباح عثمانی کا تعلق پاکستان سے تھا اور وہ اپنے پانچ بچوں کے ہمراہ سنہ 2011 میں برطانیہ کے علاقے ہارلو میں بارن میڈ کے ایک تین بیڈروم کے گھر میں منتقل ہوئے تھے۔

15 اکتوبر 2012 کو ان کے گھر میں لگنے والی آگ میں ان کی اہلیہ ڈاکٹر صباح عثمانی، ان کی 12 سالہ بیٹی حرا، 11 سالہ بیٹا صہیب، نو سالہ منیب، چھ سالہ ریان اور تین سالہ بیٹی ماہین ہلاک ہو گئے تھے۔

ڈاکٹر عبدالشکور اپنے خاندان کے واحد شخص تھے جو اس واقعے میں زندہ بچ گئے تھے۔ گھر میں آگ لگنے کے دوران انھوں نے خاندان کو بچانے کی کوشش میں مدد کے حصول کے لیے گھر کی بالائی منزل کے روشندان سے چھلانگ لگا دی تھی۔ لیکن وہ اپنے خاندان کو بچا نہیں پائے۔

دھوئیں میں سانس لینے کی وجہ سے اُن کی طبیعت کافی خراب ہو گئی تھی اور فائر فائٹرز نے بعدازاں انھیں گھر سے اندر جانے سے روک دیا تھا۔

اس رات سب سے پہلے گھر میں داخل ہونے والے فائر فائٹرز کا کہنا ہے کہ جب وہ گھر کے اندر داخل ہوئے تو وہاں ’ماں (ڈاکٹر صباح عثمانی) نے آگ کے دھوئیں سے بچانے کی کوشش میں اپنے بچے کو اپنی آغوش میں چھپایا ہوا تھا مگر وہ دونوں آگ میں جل چکے تھے۔‘

بارن میڈ میں واقع اس گھر کی نچلی منزل پر آگ اس وقت شروع ہوئی جب بالائی منزل پر خاندان کے افراد سو رہے تھے۔

مگر شاید یہ حادثہ نہیں تھا بلکہ ایک قتل کی واردات تھی کیونکہ اسی وقت جب ان کے گھر میں آگ لگی تھی تو ان کی گلی میں ہی ایک ہمسائے کی گاڑی کو بھی جلا دیا گیا تھا۔

Dr Shakoor

،تصویر کا ذریعہFamily Photo

’یہ سب کچھ میرے خاندان کے ساتھ ہی کیوں ہوا؟‘

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

بی بی سی پوڈ کاسٹ کرائم نیکسٹ ڈور‘ میں اس واقعے پر ’ہو کِلڈ شکورز‘ کے نام سے پانچ اقساط پر مشتمل سیریز میں ڈاکٹر عبدالشکور، پولیس افسران، تفتیشی اہلکاروں، فائر فائٹرز اور علاقہ مکینوں سے بات کی گئی ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس رات اصل میں کیا ہوا تھا اور آج تک اس قتل کی گتھی سلجھ کیوں نہ سکی۔

پولیس کو پہلے گھر میں آتش زنی کا شبہ تھا لیکن اس واقعے کے 11 دن بعد عبدالشکور کا لیپ ٹاپ بیگ جس میں ان کے خاندان کی تصاویر تھیں، ایک قریبی اراضی میں پھینکا ہوا پایا گیا۔

اس کے بعد پولیس کا خیال تھا کہ کسی نے گھر کو آگ لگانے سے پہلے یہاں چوری کی اور جاتے ہوئے ڈاکٹر عبدالشکور کا لیپ ٹاپ ساتھ لے گئے۔ پولیس نے اسے قتل کی واردات مانتے ہوئے تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔

ایسیکس پولیس کا خیال تھا کہ آگ جان بوجھ کر لگائی گئی۔ مگر 12 سال گزرنے کے باوجود ایسیکس پولیس اب تک کی اپنے سب سے بڑی تحقیقات جسے ’آپریشن شیکسپیئر‘ کا نام دیا گیا تھا، کسی مجرم کو پکڑ نہیں سکی اور نہ ہی کسی کو اس ہولناک واردات میں سزا دلوا سکی ہے۔

اس وارادت میں پولیس نے کئی گرفتاریاں کیں۔ مگر کہیں سے کچھ سراغ نہ ملا۔ یہاں تک کہ بی بی سی کے کرائم واچ پروگرام پر اس واردات میں ملوث افراد کے بارے میں اطلاع کرنے پر 20 ہزار پاؤنڈز کا انعام بھی رکھا گیا مگر سب بے سود ثابت ہوا اور اس واقعے کا آج تک کوئی سرا ہاتھ نہ آ سکا ہے۔

اس واردات میں متعدد گرفتاریاں کیے جانے کے باوجود ثبوت کی کمی کی وجہ سے کبھی کسی پر فرد جرم عائد نہیں کی گئی۔

ڈاکٹر عبدالشکور اس واقعے کے 12 سال بعد بھی ان سوالوں کے جوابات تلاش کر رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں انصاف کے لیے طویل عرصے سے انتظار کر رہا ہوں، یہ نہ صرف مجھ پر بلکہ پوری کمیونٹی پر اثر انداز ہوا ہے۔

’ہمیں واقعی اس معاملے پر کسی نہ کسی منطقی نتیجے پر پہنچے کی ضرورت ہے۔‘

ڈاکٹر شکور کا گھر

،تصویر کا ذریعہEssex Police

ڈاکٹر عبدالشکور کا برطانیہ کے صحت کے ادارہ نیشنل ہیلتھ سروسز (این ایچ ایس) کے لیے کام کرنے کا خواب تھا۔ پاکستان میں شادی اور سعودی عرب میں دس سال گزارنے کے بعد وہ اپنے خاندان کے ساتھ برطانیہ آئے تھے۔

انھوں نے بی بی سی پوڈ کاسٹ سے بات کرتے ہوئے کہا ’میرے خاندان کے ساتھ ہی یہ سب کچھ کیوں ہوا؟‘

ڈاکٹر عبدالشکور کہتے ہیں کہ ’میں نے کبھی نہیں سوچا کہ انھوں نے تفتیش یا اس معاملے کی تحقیق ٹھیک سے نہیں کی۔ مگر جب میں ان کی یہ سب باتیں سنتا ہو تو مجھے مایوس ہوتی ہے۔‘

انھوں نے اپنے بچوں کے متعلق بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں بچوں کے مستقبل کے بارے میں سوچتا تھا۔ میری تمام تر توجہ ان کی بہترین پڑھائی پر تھی۔‘

اپنی سب سی بڑی 12 سالہ بیٹی حرا کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ ان کی سکول ٹیچرز ہمیشہ کہتی تھیں کہ یہ ذہین ہے اور بہت بااعتماد ہے۔ ’وہ پڑھ کر سیاست میں آنا چاہتی تھی اور ملک کی وزیر اعظم بننا چاہتی تھی۔‘

وہ اپنے 11 سالہ بیٹے صہیب کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’وہ سب کا بہت زیادہ خیال رکھتا تھا۔‘ جبکہ نو سالہ منیب کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ’اس کی انوکھی مسکراہٹ تھی۔ وہ ایک ہنس مکھ بچہ تھا۔ جہاں بھی ہوتا سب کو ہنسا دیتا۔‘

چھ سالہ ریان کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ ’اسے ویڈیوز گیمز بہت پسند تھیں۔ کار ریسنگ والی ویڈیو گیمز اس کی سب سے پسندیدہ تھیں۔‘

جبکہ تین سالہ ماہین کو یاد کرتے ہیں ہوئے کہتے ہیں کہ ’ماہین میری آنکھوں کا تارا تھی، وہ بہت پیاری بیٹی تھی۔‘

ڈاکٹر عبدالشکور اب مانچسٹر میں رہتے ہیں۔ لیکن آج بھی وہ اپنے خاندان کو شدت کے یاد کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا ’بس مجھے ایک پچھتاوا ہے۔ میں کبھی اپنی اہلیہ کو یہ نہیں بتا سکا کہ وہ مجھے کتنی عزیز ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’میری بیوی صباح عثمانی نے میرے گھر اور بچوں کا بہت اچھے سے خیال رکھا ہوا تھا۔ صباح خود بھی ڈاکٹر تھی۔ مگر پھر بھی بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال میں کوئی کسر نہیں کرتی تھی۔‘

تفتیشی ٹیم

،تصویر کا ذریعہDavid Hadjicostas

’اہم شواہد تحقیقات کے آغاز میں ہی ضائع ہو گئے‘

15 اکتوبر 2012 کو ڈاکٹر عبدالشکور کے گھر لگنے والی آگ ایک اکیلا واقعہ نہیں تھا بلکہ اسی گلی میں ایک ہمسائے کی گاڑی کو بھی اسی وقت آگ لگائی گئی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ چند میٹر کے فاصلے پر علاقے کے مختلف گھروں کے تالے توڑے گئے تھے۔

اس سب میں ڈاکٹر عبدالشکور کا لیپ ٹاپ بھی غائب تھا جو آج تک نہیں مل سکا۔ تفیش کار کہتے ہیں کہ یہ سب اتفاقیہ نہیں تھا۔

بی بی سی پوڈ کاسٹ کے مطابق عینی شاہدین نے وہاں کچھ اور بھی دیکھا تھا۔ ایک نوجوان کو جو رات کے اس پہر اپنی موٹر سائیکل پر بیٹھا اطمینان سے جلتے گھر کو دیکھ رہا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد جب گاڑی میں آگ بھڑک اٹھی تو وہ وہیں سے پُرسکون انداز میں جلتی گاڑی کو دیکھنا شروع ہو گیا۔

بی بی سی پوڈ کاسٹ کے مطابق عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ وہ کوئی عام راہگیر نہیں تھا۔

ایک عینی شاہد نے بتایا کہ جس دوران یہ سب کچھ ہو رہا تھا وہ وہاں کھڑا مسکرتا رہا۔ ایک اور عینی شاہد نے بتایا کہ وہ وہاں ہنس رہا تھا۔

مگر یہ پراسرار شخص کون تھا، کیا اس کا ان تمام واقعات سے کچھ لینا دینا تھا؟ جنھوں نے اسے دیکھا ان کا کہنا ہے کہ اس کا رویہ کچھ ٹھیک نہیں تھا کیونکہ جب اس کے اردگرد افراتفری تھی تو وہ پرسکون انداز میں کھڑا تھا۔

بی بی سی پوڈ کاسٹ کے مطابق مارچ 2013 تک یعنی اس واقعے کے چند ماہ کے بعد کم از کم سات افراد کو اس واردات کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اور بی بی سی پوڈ کاسٹ کی ٹیم نے کیس سے متعلق جو دستاویزات دیکھیں ان کے مطابق دیگر تمام تفتیش اور تحقیقات میں ایک نام بار بار سامنے آ رہا تھا (یہاں قانونی ضابطوں کی وجہ سے کسی مشتبہ شخص کا نام نہیں دیا جا رہا)۔ یہ شخص ان سات افراد میں شامل تھا جنھیں گرفتار کیا گیا تھا۔ مگر اس کے خلاف شواہد ناکافی تھے۔

اس کیس پر کام کرنے والے ایک تفتیش کار کے مطابق 2012 میں گھر میں آگ لگنے اور خاندان کے چھ افراد کی ہلاکت کی تحقیقات کے آغاز میں ہی اہم شواہد کو نادانستہ طور پر ضائع یا خراب کر دیا گیا تھا۔

آگ لگنے کے واقعے کے ایک تفتیشی افسر نے بی بی سی کے پوڈ کاسٹ کو بتایا ہے کہ ایک فرانزک کرنے والے کنٹریکٹر نے اہم شواہد کو نظر انداز کرنے کی غلطی کی تھی جبکہ ایک اور تفتیش کار نے دعویٰ کیا کہ شواہد کے نمونے غلط طریقے سے حاصل اور پیک کیے گئے تھے۔

تاہم ایسیکس پولیس کا کہنا ہے کہ وہ ان دعوؤں پر تبصرہ نہیں کر سکتی کیونکہ تفتیش ابھی تک جاری ہے۔

ایسیکس فائر اینڈ ریسکیو سروس کے اس وقت کے فائر انویسٹی گیشن آفیسر ڈیوڈ ہڈجیکوسٹاس کا کہنا ہے کہ ’کی فرانزک سروسز‘ کے فرانزک سائنس ایڈوائزر گھر کے بیرونی دروازے پر لگے تالے کی صحیح جانچ کرنے میں ناکام رہے تھے کیونکہ اس کے بارے میں ڈاکٹر شکور اور ان کے پڑوسی نے اطلاع دی تھی کہ یہ اس واردات کے وقت کھلا تھا۔

ڈاکٹر شکور نے اس وقت تفتیشی افسران کو بتایا تھا کہ دروازے کے تالے میں ایک مسئلہ ہے، جس پر پولیس اس واردات میں پہلے ممکنہ چوری کے متعلق غور کرنے پر مجبور ہوئی تھی۔

ڈیوڈ ہیڈجیکوسٹاس نے بتایا کہ انھوں نے فرانزک سائنس ایڈوائزر کو دروازے کے اندر سے تالے کو چیک کرتے ہوئے دیکھا مگر انھوں نے باہر سے اس کا جائزہ نہیں لیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے ہمیشہ سوچا کہ یہ کچھ عجیب تھا کیونکہ وہ (فرانزک ایڈوائزر) اس بات پر اٹل تھے کہ دروازے کا لاک ٹھیک ہے اور اسے بند کیا جا سکتا ہے جبکہ انھوں نے باہر سے تالے کو بند کر کے نہیں دیکھا تھا، اور پچاس فیصد چیکنگ کر کے ہی اپنے رائے دے دی تھی۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ واقعے کی تفتیش کے دوران ’دروازے کو اس کے فریم سے ہٹا دیا گیا تھا اور فائر ٹیم کی طرف سے اس کا معائنہ کرنے سے پہلے اسے ایک طرف رکھ دیا گیا تھا۔‘

ڈاکٹر شکور

کی فرانزک سروسز کی جانب سے اس کیس میں کی جانے والی ناقص تفتیش سے متعلق شکایات موصول ہونے کے بعد ایسیکس پولیس نے اس کا جائزہ لینے کے لیے پرومیتھیس فرانزک سروسز کے ایک ماہر آگ کے تفتیش کار لین پیک کو اس کیس پر تعینات کیا۔

لین پیک کا کہنا ہے کہ ’وہ لاؤنج میں لیمینیٹ فرش کے ایک بڑے ٹکڑے، جہاں یہ خیال کیا گیا تھا کہ آگ لگی تھی، کے نمونے حاصل کر کے مایوس ہوئے تھے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں موجود شواہد کو نادانستہ طور پر خراب کر دیا گیا تھا۔ کیونکہ ’جو کوئی بھی ان شواہد کو اکٹھا کر رہا تھا اور ان کی پیکجنگ کر رہا تھا اس نے نائیلون کی تار سے ایک بیگ پر دوسرا بیگ رکھ کر باندھ دیے تھے اور پھر ان پر سیلو ٹیپ لگا دی تھی۔‘

ان تمام نمونوں کو انھوں نے مسترد کر دیا تھا کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ انھیں محفوظ بنانے کے لیے ایئر ٹائٹ یعنی بنا ہوا والے بیگ میں رکھنا ضروری تھا تاکہ اگر گھر میں آگ لگانے کے لیے کسی قسم کا کیمیکل استعمال کیا گیا ہے تو اس کے بخارات اور ذرات کو جانچ کے لیے محفوظ بنایا جا سکتا۔ مگر اس طرح شواہد اکٹھا کرنے سے وہ تمام ختم ہو چکے تھے۔

لین پیک کا کہنا تھا کہ ہمسائے کی سلور رنگ کی فورڈ فوکس گاڑی جسے آگ لگنے کی رات جلا دیا گیا تھا، کی مکمل جانچ نہیں کی گئی تھی اور 24 گھنٹوں کے اندر اس سے مناسب نمونے نہیں لیے گئے تھے۔

اس وقت پرومیتھیس فرانزک سروسز کمپنی نے کی فرانزک سروسز کمپنی کے کام کے متعلق محمکہ داخلہ میں فرانزک سائنس ریگولیٹر کو شکایت کی تھی۔ تاہم اس نگران ادارے کا کہنا تھا کہ سنہ 2011 کے ضابطہ کار اور طریقہ کار میں آگ لگنے کے واقعے کی تحقیقات سے متعلق تفتیش شامل نہیں ہے۔

واضح رہے کہ حکومتی سرپرستی میں چلنے والی فرانزک سائنس سروس (ایف ایس ایس) کو برطانیہ کے محکمہ داخلہ نے 2012 کے اوائل میں بند کر دیا تھا۔ جس کے بعد اس کا زیادہ تر کام نجی کمپنیوں نے لے لیا تھا جنھوں نے انگلینڈ اور ویلز میں پولیس فورسز کے ساتھ معاہدے کیے تھے۔

2011 میں ہرٹ فورڈ شائر پولیس اتھارٹی کے اس وقت کے چیف ایگزیکٹیو اینڈریو وائٹ نے دی گارڈین اخبار کو دیے گئے ایک انٹرویو میں متنبہ کیا تھا کہ سرکاری فرانزک ایجنسی ایف ایس ایس کو بند کرنے کا فیصلہ اتنی جلدی میں کیا گیا کہ فورسز کو مناسب جانچ پڑتال کے بغیر نجی فرانزک کپمنیوں کی طرف رجوع کرنا پڑا۔

ڈیوڈ ہیڈجیکوسٹاس کا خیال ہے کہ ایف ایس ایس کو بند کرنے سے ہونے والے نقصان نے اس تحقیقات کو متاثر کیا۔

انھوں نے مزید کہا کہ ‘اس کا اثر اس وقت ہوتا ہے جب ہم بہت مشکل حالات میں آگ لگنے کی اصل وجہ تلاش کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہوتے ہیں، آپ وہاں اپنے بہترین لوگ چاہتے ہیں۔’

کی فرانزک سروسز کا کہنا تھا کہ وہ اب بھی ایسسکس پولیس کے ساتھ اس کیس پر کام کر رہی ہے لہذا اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کر سکتی۔

جیسا کہ ایسیکس پولیس کو یہ بھی پتا چلا تھا کہ اس رات آگ لگنے کے ایک گھنٹے کے دوران اس علاقے میں تین مزید گھروں میں چوری کی وارداتیں ہوئی تھی۔ اور ان تمام واقعات کی تفتیش کے دوران سات افراد کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔

دوران تفتیش مئی 2013 میں گرفتار کیے جانے والے ایک ملزم کے کپڑوں پر سے شیشے کا ایک ٹکڑا بھی پایا گیا تھا جو پڑوسی کی جلائی گئی کار کے شیشوں سے مماثل تھا، لیکن تمام ٹکڑوں کی جانچ نہیں کی گئی۔

سنہ 2014 میں چیلمسفورڈ کورنر کی عدالت میں کورونر کیرولین بیسلی-مرے نے ہونے والی اموات کی تفتیش میں ایک کھلا فیصلہ لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ‘اس گتھی کے تمام حصے ابھی تک موجود نہیں ہیں۔‘

ایسیکس پولیس نے کہا ہے کہ وہ ڈاکٹر شکور کو انصاف دلانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ اس نے مزید کہا کہ اب بھی اس معاملے کی تفتیش جاری ہے اور اس لیے وہ بی بی سی سے اس بارے میں مزید بات نہیں کر سکتے۔

برطانیہ کے ہوم آفس نے کہا ہے کہ فرانزک تحقیقات حکومت کی طرف سے آزادانہ طور پر کی گئی ہیں اور وہ کیس کے مخصوص پہلوؤں پر تبصرہ نہیں کر سکتا اب اس معاملے کی تحقیقات جاری ہے۔

ہوم آفس کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ہوم آفس ایک قومی فرانزک سائنس لیڈ کا تقرر کرے گا جو ’فرانزک کے حوالے سے ہمارے نقطہ نظر کو تبدیل کرے گا، اس بات کو یقینی بنائے گا کہ یہ اہم سروس متاثرین کو انصاف فراہم کریں۔‘

پولیس، تفتیشی ادارے، محکمہ داخلہ جو بھی کہیں مگر ڈاکٹر شکور آج بھی اپنے اہلخانے کے قاتلوں کو سزا ملنے کا انتظار کر رہے ہیں اور ان کے متعدد سوال آج بھی جواب طلب ہے۔

ڈاکٹر شکور کا کہنا ہے کہ ’وہ مایوس ہیں کہ آج تک کسی کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا اور اب وہ امید کھو رہے ہیں۔‘

وہ تحقیقاتی اداروں اور تفتیشی ٹیموں کے کام کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ’میں واقعی حیران ہوں کیونکہ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ انھوں نے یہ کام ٹھیک طریقے سے نہیں کیا ہوگا۔

’ہم نے متعلقہ محکموں پر بھروسہ کیا تھا۔‘

SOURCE : BBC