SOURCE :- BBC NEWS

عمران خان، عاصم منیر، بیرسٹر گوہر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, ثنا آصف ڈار
  • عہدہ, بی بی سی اردو، اسلام آباد
  • ایک گھنٹہ قبل

اس وقت پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں ملک کے آرمی چیف سے ہونے والی ایک ’ملاقات‘ کا چرچہ ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی نے پاکستان کے آرمی چیف عاصم منیر سے چیئرمین بیرسٹر گوہر کی اس ملاقات کی تصدیق کی ہے۔

دوسری طرف سکیورٹی ذرائع سے چلنے والی خبروں میں اس ملاقات کی تردید تو نہیں کی گئی تاہم یہ وضاحت ضرور جاری کی گئی کہ یہ ملاقات صرف ’سکیورٹی معاملات‘ کے تناظر میں ہوئی۔

خیال رہے کہ اس ملاقات کی خبر ایک ایسے موقع پر سامنے آئی، جب حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور جمعرات کے روز مکمل ہوا، جس میں پی ٹی آئی نے تحریری طور پر حکومت سے نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات کے حوالے سے سات روز میں جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا۔ تحریری مطالبے میں یہ بھی کہا گیا کہ کمیشن عمران خان کی نو مئی سے متعلق گرفتاری کی انکوائری کرے۔

پی ٹی آئی کے تحریری مطالبات سامنے آنے کے بعد وزیرِ اعظم شہباز شریف کے مشیر برائے قانونی امور رانا ثنا اللہ اور سینیٹر عرفان صدیقی نے ایک پریس کانفرنس میں پاکستان تحریکِ انصاف کے چارٹر آف ڈیمانڈ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جو مقدمات عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں ’ان پر جوڈیشل کمیشن کے قیام کا کوئی جواز نہیں‘ تاہم سینیٹر عرفان صدیقی نے اس حوالے سے کہا کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے مذاکراتی عمل کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی بنائی ہے اور وہی پی ٹی آئی پی ٹی آئی کے مطالبات کا مؤثر تحریری جواب دے گی۔

لیکن جب پی ٹی آئی اور آرمی چیف کے درمیان بات چیت کے حوالے سے سوال کیا گیا تو سینیٹر عرفان صدیقی نے اس کی سخت الفاظ میں تردید کی۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ (پی ٹی آئی) کہہ رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات بہت خوش آئند بات ہے، نو مذاکرات۔ ان کے کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے۔ یہ دھوکہ دے رہے ہیں، قوم کو گمراہ کر رہے ہیں۔ وہی غلط بیانی کی جو عادت پڑی ہوئی ہے، اسے دوہرا رہے ہیں۔ میں اسے مسترد کرتا ہوں۔‘

ایسے متضاد دعووں کے بعد بہت سے سوال اٹھ رہے ہیں۔ کس کا دعوی درست ہے؟ پی ٹی آئی اور آرمی چیف کے درمیان ہونے والی یہ ملاقات سیاسی تھی یا غیر سیاسی اور کیا اس کا پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان جاری مذاکرات پر کوئی اثر پڑے گا؟ اور کیا آرمی چیف کی بیرسٹر گوہر سے ملاقات پی ٹی آئی کی جانب کسی لچک کو ظاہر کرتی ہے؟

لیکن سب سے پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر نے آرمی چیف سے ہونے والی اپنی ملاقات کے حوالے سے کیا کہا۔

رانا ثنا اللہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’خان صاحب نے کہا بات چیت ملکی استحکام کے لیے ضروری ہے‘

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

جمعرات کے روز پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے تصدیق کی کہ ان کی پاکستان کے آرمی چیف سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے اڈیالہ جیل کے باہر عمران خان سے ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے آرمی چیف سے ملاقات کے سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے یہ بتایا کہ ہاں میری (بیرسٹر گوہر) ملاقات ان سے (آرمی چیف سے) ہوئی۔‘

’میری جہاں بھی جس سلسلے میں بھی ملاقات ہوتی ہے، میں تب کہتا ہوں جب خان صاحب کی جانب سے مجھے ہدایات دی جاتی ہیں۔ میں جہاں بھی جاتا ہوں، جس طریقے سے بھی کرتا ہوں، خان صاحب کے لیے کرتا ہوں۔ خان صاحب کی ہدایات اور ان کی مرضی سے کرتا ہوں۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’خان صاحب نے کہا کہ بات چیت ملک کے استحکام کے لیے ضروری ہے اور ہمارے دروازے بات چیت کے لیے کھلے تھے، دوسروں کے دروازے بند تھے۔ اگر بات چیت آگے بڑھی تو ملک میں استحکام آئے گا۔‘

وزیرِ اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے یہ بتا چکے ہیں کہ آرمی چیف سے یہ ملاقات خیبرپختونخوا میں ہوئی تھی اور اس میں ان کی سکیورٹی امور پر بات ہوئی تھی۔

’ایک بات تو طے ہے کہ یہ ملاقات سیاسی ہی تھی‘

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے اس حالیہ پیشرفت پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان تو اکثر آرمی چیف کو ہدف بناتے رہے لیکن ’آج انھوں نے بھی اطمینان کا اظہار کیا۔‘

’عمران خان نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہم ان (آرمی چیف) سے بات چیت کریں اور ہمادے دروازے ہمیشہ ان کے لیے کھلے رہے ہیں۔‘

یاد رہے کہ عمران خان ماضی میں کئی بار پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر پر مختلف الزامات عائد کر چکے ہیں اور دوسری ہی جانب بات چیت کا دروازہ کھلا ہونے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔

عمران خان الزام عائد کرتے ہیں کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور نواز شریف کے درمیان ’لندن پلان طے ہوا جس کے تحت ججوں کو بھی ساتھ ملایا گیا اور آئی ایس آئی نے ججوں کی تقرریاں کروائیں۔‘

تاہم عاصمہ شیرازی کے مطابق سب سے اہم بات یہ ہے کہ سکیورٹی ذرائع کہتے ہیں کہ یہ سیاسی ملاقات نہیں تھی۔

عاصمہ شیرازی نے سوال کیا کہ بیرسٹر گوہر تو سیاسی آدمی ہیں اور صوبے کے چیف ایگزیکٹو نہیں۔

’ایک بات تو طے ہے کہ یہ ملاقات سیاسی ہی تھی۔ چاہے وہ بیرسٹر گوہر کی خواہش پر ہوئی ہو یا پھر آرمی چیف کی خواہش پر لیکن بہرحال ایک اعلیٰ سطحی رابطہ بحال ہوا۔‘

پی ٹی آئی، عمران خان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

تو پھر سکیورٹی ذرائع سے آنے والی خبروں میں اس ملاقات کے ’سیاسی‘ ہونے کی تردید کیوں کی جا رہی ہے؟

اس بارے میں عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ ’اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ سکیورٹی ذرائع نے اس ملاقات میں جو اپنی پوزیشن رکھی ہو گی، وہ اس سے پیچھے ہٹے یا اب وہ اپنی پوزیشن واضح کر رہے ہیں کہ یہ ملاقات اس نوعیت کی نہیں تھی کہ وہ کوئی کمٹمنٹ کر سکیں۔‘

’اب نہ حکومت اس پوزیشن میں ہے کہ وہ کوئی کمٹمنٹ کر سکے اور نہ سکیورٹی ذرائع سے آنے والی خبروں سے لگتا ہے کہ سکیورٹی ذرائع اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ حکومت کے بغیر چل سکیں۔‘

آرمی چیف کی بیرسٹر گوہر سے ملاقات کیا ظاہر کرتی ہے؟

اس حوالے سے لمز یونیورسٹی کے پروفیسر عمیر جاوید کہتے ہیں کہ ’ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں پہلے کہا جا رہا تھا کہ وہ پی ٹی آئی سے بات نہیں کرنا چاہتے تاہم اب کچھ لچک کا مظاہرہ کیا گیا اور یہ ہی نہیں بلکہ پی ٹی آئی کی جانب سے جو تحریری مطالبات پیش گیے گئے ہیں ان میں بھی نرمی دیکھی گئی۔‘

’پہلے پی ٹی آئی الیکشن کے حوالے سے انکوائری اور مینڈیٹ کی واپسی کی بات کر رہے تھے لیکن اب ان کی ڈیمانڈز میں ایسا کچھ نہیں۔‘

عمیر جاوید نے کہا کہ ’شاید اندرونی طور پر پی ٹی آئی اس بات پر رضا مند ہو گئی ہے کہ وہ سٹریٹ پاور کی بدولت کم بیک نہیں کر سکتے تو اب وہ مذاکرات کی حکمت عملی کی طرف آ گئے ہیں تاہم ہمیں یہ تو سمجھ آتی ہے کہ پی ٹی آئی کی طرف سے نرمی کیوں آئی لیکن اسٹیبلشمنٹ نرمی کا مظاہرہ کیوں کر رہی ہے، اس حوالے سے کئی قیاس آرائیاں گردش کر رہی ہیں۔‘

عمیر جاوید نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ’ایک تو یہ کہ امریکہ میں جو نئی انتظامیہ آئی ہے، پی ٹی آئی کا وہاں شاید تھوڑا اثر و رسوخ ہے۔ شاید ملٹری اسیٹبلشمنٹ یہ اشارہ دینا چاہتی ہے کہ مقامی سیاست کا درجہ حرارت تھوڑا کم کیا جائے۔‘

’دوسرا فائدہ یہ ہے کہ ملٹری موجودہ حکومت کے ذریعے کچھ بڑے ریفارمز کروانا چاہتی ہے۔ جس میں ایس آئی ایف سی اور کارپوریٹ فارمنگ شامل ہیں، جو ان کے ذاتی مفاد میں بھی ہے، تو وہ شاید چاہتے ہوں کہ اس کے لیے انھیں تھوڑی سپیس اور وقت مل جائے اگلے اور ایک ڈیڑھ سال میں یہ کام ہو جائے جبکہ پی ٹی آئی پارلیمان میں اپوزیشن کا کردار ادا کرے۔‘

تاہم عمیر جاوید کا ماننا ہے کہ پی ٹی آئی اور فوج میں بات چیت کا فائدہ دونوں فریق کو ہو گا لیکن اس کا نتیجہ آنے والے کچھ ہفتوں میں ہی نظر آئے گا۔

پی ٹی آئی اور حکومت کے مذاکرات

،تصویر کا ذریعہPTI

کیا اس ملاقات کا پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات پر کوئی اثر پڑے گا؟

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی فہد حسین نے کہا کہ ’اگر پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کوئی بات چیت ہو رہی ہے تو حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان ہونے والے مذاکرات جو توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے وہ تھوڑی کم ہو جائے۔‘

انھوں نے کہا کہ حالیہ پیشرفت سے ان مذاکرات کی افادیت شاید کم تو ہو جائے لیکن ’بیک چینل پر چلنے والے معاملات اور فرنٹ لائن (پی ٹی آئی اور حکومت) پر چلنے والے مذاکرات میں جو بھی فیصلہ ہو گا، اس میں اسٹیبلشمنٹ کا بہت بڑا کردار ہو گا۔‘

عاصمہ شیرازی نے اس حوالے سے جمعرات کے روز رانا ثنا اللہ اور سینیٹر عرفان صدیقی کی پریس کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت نے پی ٹی آئی کے مطالبات مسترد کر دیے ہیں۔

’ایسا لگ رہا ہے جیسے نون لیگ نے اپنی پریس کانفرنس میں پی ٹی آئی کو یہ کہہ دیا کہ اب اس سے آگے بات چیت نہیں ہو گی۔ حکومت کے ذہن میں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اب پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ سے بات کر رہی ہے تو اب یہ دونوں ہی جانیں۔‘

تاہم حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات میں مزید پیشرفت کے حوالے سے عاصمہ شیرازی کا ماننا ہے کہ جمعے کے روز عمران خان کے خلاف 190 ملین پاؤنڈز ریفرنس میں آنے والا فیصلہ خاصی اہمیت کا حامل ہو گا۔

انھوں نے کہا کہ ’اب عمران خان کے مقدمے (190 ملین پاؤنڈز ریفرنس) کا فیصلہ بھی آنا ہے اور حکومت کو امید ہے کہ عمران خان کو سزا ہو جائے گی۔ اب دیکھنا ہو گا کہ اس کے بعد معاملات کہاں بڑھتے ہیں۔‘

واضح رہے کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف 190 ملین پاؤنڈز ریفرنس کا فیصلہ آج راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں اسلام آباد کی احتساب عدالت سنائے گی۔

سابق وزیر اعظم عمران خان اور اُن کی اہلیہ بشری بی بی کے خلاف 190 ملین پاونڈ یا القادر ٹرسٹ کیس اس 450 کنال سے زیادہ زمین کے عطیے سے متعلق ہے جو نجی ہاؤسنگ سوسائٹی بحریہ ٹاؤن کی جانب سے القادر یونیورسٹی کے لیے دی گئی تھی۔ سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی القادر یونیورسٹی کے ٹرسٹیز میں شامل ہیں۔

یاد رہے کہ یہ وہی کیس ہے جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کو 9 مئی 2023 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا گیا تھا۔

SOURCE : BBC