SOURCE :- BBC NEWS

اولے

،تصویر کا ذریعہSocial Media

5 منٹ قبل

کہتے ہیں سانپ کا ڈسا رسّی سے بھی ڈرتا ہے۔ یہی کچھ حال جمعے کے دن اور پھر رات کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے اور اس کے نواح میں رہنے والوں کا تھا۔ اس کی وجہ تھی علاقے میں آندھی اور ژالہ باری کی پیش گوئی۔ کیونکہ دو دن پہلے ہی یہاں موسم نے شہریوں کو حالیہ تاریخ کا سب سے بڑا مالی نقصان پہنچایا۔

ٹینس بال تک جتنے بڑے اولوں نے شہر بھر میں گاڑیوں اور املاک کو شدید نقصان پہنچایا۔ یہی وجہ ہے کہ جمعے کو پھر سے موسم کی خرابی سے متعلق الرٹ نے لوگوں کو اتنا محتاط کر دیا کہ دن بھر سڑکوں پر ٹریفک کی روانی محدود رہی اور رات بھر لوگ چوکنے رہے۔

’ملک کے جنوبی علاقوں میں آئندہ 24 گھنٹوں کے دوران گرمی کی لہر (ہیٹ ویو) برقرار رہنے كا امکان ہے جبکہ ملک کےبالائی علاقوں میں وقفے وقفے سے آندھی/جھکڑ اور گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے۔‘

یہ موسم کی صورتحال سے متعلق وہ روایتی پیش گوئی ہے جو سال ہا سال سے پاکستان کا سرکاری محکمہ موسمیات جاری کرتا آ رہا ہے۔

ان پیش گوئیوں میں عموماً محکمہ موسمیات ملک کے مختلف علاقائی ڈویژن یا بڑے شہروں میں موسم کی مجموعی صورتحال کا ذکر تو کرتا ہے لیکن کسی شہر کے کس حصے میں موسم کیا صورت اختیار کر سکتا ہے۔

16 اپریل کو بھی کچھ ایسی ہی روایتی انداز میں موسم کی صورتحال کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ لیکن کس کو پتا تھا کہ اسلام آباد کے شہریوں کے لیے اس روز آنے والی تیز بارش اور ژالہ باری نقصان کا سبب بنے گی۔

ابھی اسلام آباد کے شہری 16 اپریل کو ہونے والے شدید ژالہ باری کے اثرات سے نکلے نہیں کہ سرکاری محکمہ موسمیات کی جانب سے 18 اپریل سے 20 اپریل کے دوران اسلام آباد سمیت صوبہ خیبر پختونخوا اور بالائی علاقوں میں آندھی، تیز بارش اور ژالہ باری کی پیش گوئی کی گئی۔

یقیناً 16 اپریل کو ہونے والی شدید ژالہ باری کے بعد نہ صرف اسلام آباد کے باسی بلکہ ملک کے دیگر شہروں میں رہنے والے بھی موسم کی صورتحال کے متعلق آگاہ رہنے کی کوشش میں ہیں۔

کوئی محکمہ موسمیات کی ویب سائٹ یا ٹی وی پر موسم کی صورتحال سے متعلق خبر دیکھ کر موسم کے متعلق معلومات حاصل کر رہا ہے تو کہیں موبائل پر مختلف ویدر ایپس کے ذریعے موسم کی صورتحال پر نظر رکھی جا رہی ہے۔

ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت (آرٹیفشل انٹیلیجنس) کی ترقی کے ساتھ موسم کی ایپس مزید تفصیلی اور اہم ضرورت بنتی جا رہی ہیں۔ اس کا مطلب ہے مزید ریئل ٹائم اپ ڈیٹس اور ذاتی نوعیت کی تجاویز وہ صارفین تک پہنچا رہی ہیں۔

ایسے ہی کچھ دعوے پاکستان کے سوشل میڈیا پر ایک ’ویدر والے‘ نامی ایپ کی جانب سے بھی کیا جا رہا ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ اس پاکستانی ایپ نے اپنے صارفین کو 16 اپریل کو ژالہ باری سے قبل ہی بتا دیا تھا کہ موسم شدید ہونے کا امکان ہے لہذا اسلام آباد کے شہری غیر ضروری طور پر گھر سے باہر نکلنے سے گریز کریں۔

انتباہی پیغام

،تصویر کا ذریعہhttps://www.linkedin.com/posts/junaidyamin

’ویدر والے‘ نامی ایپ کے اس دعوے کی حمایت میں پاکستان کے صحافی طلعت حسین کی بھی ایک ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ وہ یہ ایپ استعمال کرتے ہیں اور 16 اپریل کو موسم خراب ہونے سے کچھ دیر پہلے انھیں ایپ کے ذریعے ایک پیغام موصول ہوا جس میں ژالہ باری اور شدید موسم سے متعلق انتباہ کیا گیا تھا۔

اس دعوے کی کیا حقیقت ہے، یہ ایپ کیا ہے، کیسے کام کرتی ہے اور کسی ایک مخصوص علاقے کے موسم تک کی پیش گوئی کیسے ممکن ہے۔

ان سوالات کا جواب جاننے کے لیے ہم نے ’ویدر والے‘ ایپ کے شریک بانی اور سی ای او جنید یامین اور محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر ظہیر احمد بابر سے بات کی ہے۔

’ویدر والے‘ ایپ کیا ہے اور اس نے یہ پیش گوئی کیسے کی؟

ویدر ایپ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

ویدر والے نامی ایپ کے شریک بانی اور سی ای او جنید یامین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ویدر والے ایک نجی پاکستانی موسمیاتی کمپنی ہے جو سال 2021 سے ملک میں موسم کی صورتحال سے متعلق معلومات فراہم کرنے کا کام کر رہی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’ویدر والے‘ ملک کی پہلی نجی میٹرولوجیکل سروس کمپنی ہے جو زراعت سمیت مختلف سیکٹرز کو خدمات فراہم کر رہی ہے۔

جنید یامین نے بتایا کہ ان کی کمپنی نہ صرف ایپ بلکہ دیگر طریقوں سے بھی صارفین کو موسمی صورتحال کے ساتھ ساتھ دیگر سروسز فراہم کر رہی ہے جن میں کسی بھی شہر میں ائیر کوالٹی انڈیکس، پولن کی تعداد، آلودگی، درجہ حرارت وغیرہ شامل ہیں۔

ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی موبائل ایپ آپ کو اتنی درست پیش گوئی فراہم کرے اور ‘ویدر والے’ نامی ایپ نے یہ کیسے ممکن کیا۔

اس سوال کے جواب میں اس جنید یامین کا کہنا تھا کہ ان کی کمپنی اس کے لیے مختلف طریقوں اور ذرائع سے موسم سے متعلق ڈیٹا رئیل ٹائم میں اکٹھا کرتی ہے اور آرٹیفشل انٹیلی جنس کا استعمال کرتے ہوئے ہر علاقے سے موصول ہونے والے ڈیٹا کو تمام ذرائع سے چھان بین کرنے کے بعد بہترین اور قریب ترین پیش گوئی کو صارف تک پہنچایا جاتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ڈیٹا حاصل کرنے کے ان طریقوں اور ذرائع میں سب سے پہلے ان کی کمپنی کے ملک بھر میں تین سو سے زائد مقامات پر جدید ویدر سٹیشن اور آلات نصب ہے جو نہ صرف 24 گھنٹوں کے موسم بلکہ آئندہ آنے والے دنوں کے موسم کے متعلق بھی ڈیٹا اکٹھا کرتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ دوسرا ان کی کمپنی دنیا کے مختف عالمی موسمیاتی اداروں اور ماڈلز سے ڈیٹا حاصل کرتی ہے اور یہ ڈیٹا بھی رئیل ٹائم پر آ رہا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ پاکستان کے محکمہ موسمیات کے ساتھ بھی ڈیٹا شیئرنگ کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ پاکستان کے سوشل میڈیا پر موسم کے متعلق علم اور معلومات رکھنے والی ایک بہت بڑی کمیونٹی ہے اور ان کی کمپنی نے ان سے بھی معلومات حاصل کرنے کا ایک نظام مرتب کیا ہے۔

جنید یامین کا کہنا تھا کہ اس طرح سے مختلف طریقوں اور ذرائع سے حاصل ہونے والے رئیل ٹائم ڈیٹا کا آرٹیفشل انٹیلجنس کی مدد سے تجزیہ کیا جاتا ہے اور موسم کے حوالے سے بہترین اور قریب ترین ڈیٹا کو صارف تک بذریعہ الرٹ یا پیغام پہنچایا جاتا ہے۔

Weather Forcasting

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ان کے ویدر سٹیشن کہاں نصب ہے کے جواب میں جنید یامین نے بتایا کہ سب سے زیادہ ویدر سٹیشن خیبر پختونخوا اور پنجاب کے شہروں میں نصب ہیں مگر سندھ اور بلوچستان کے شہروں میں بھی ان کی موجودگی ہے۔

ان آلات کی تنصیب اور سکیورٹی سے متعلق پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ یہ سسٹم امریکہ سے درآمد کیا گیا ہے اور ایک ویدر سٹیشن کی مالیت تقریباً دس سے 12 لاکھ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے زیادہ تر ایسے افراد کے گھروں یا املاک پر نصب کیے گئے ہیں جو پاکستان کی ویدر کمیونٹی کا حصہ ہیں۔ اس لیے وہ اس کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور اس کا خیال بھی رکھتے ہیں۔

جنید یامین نے بتایا کہ ابتدائی طور پر ان کی کمپنی نے کسانوں اور زراعت سے منسلک افراد کے لیے سروس شروع کی تھی تاکہ فصل کی بجائی، کاشت، کھاد اور فصل کی متوقع پیدوار دیگر امور کے متعلق وقت پر درست معلومات حاصل کی جا سکیں لیکن اب کنسٹریکشن کے شعبے سے لے کر سرکاری ادارے یہاں تک کے انشورنس کمپنیاں بھی ان سے موسمیاتی تبدیلی کے باعث ممکنہ خطرات سے متعلق معلومات اور ڈیٹا حاصل کر رہی ہیں۔

جنید یامین کہتے ہیں کہ ٹیکنالوجی میں ترقی نے اب اگلے تین ماہ تک کے موسم کی پیش گوئی کو ممکن بنا دیا ہے اور پاکستان جیسا ملک جو موسمیاتی تبدیلی سے بہت حد تک متاثر ہے وہاں اب ایسے نظام کی اشّد ضرورت ہے۔

اگر ایک نجی کمپنی یہ سب کچھ کر سکتی ہے تو سرکاری محکمہ موسمیات زیادہ وسائل کے ساتھ ایسی پیش گوئی کرنے یا سروس دینے سے محروم کیوں ہے؟

کیا پاکستان کا سرکاری محکمہ موسمیات ٹیکنالوجی میں پیچھے ہے؟

محکمہ موسمیات

،تصویر کا ذریعہhttps://nwfc.pmd.gov.pk

پاکستان کے محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر ظہیر احمد بابر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کہنا درست نہیں کہ پاکستان کا محکمہ موسمیات موسم کی پیش گوئی کرنے کی ٹیکنالوجی میں کسی سے پیچھے ہے۔

انھوں نے دعوی کیا کہ محکمہ موسمیات کی جانب سے جاری کردہ موسمیاتی پیش گوئی کافی حد تک درست ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ محکمہ موسمیات میں مختلف ماڈلز کے ساتھ کلاماٹولیکل ڈیٹا بھی استعمال ہو رہا ہوتا ہے اور مقامی موسم کی انفارمیشن بھی استعمال ہو رہی ہوتی ہے لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ موسم کی ایپس کچھ اور دے رہی ہوتی ہیں جبکہ موسم ویسا نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر مقامی موسم کے نظام کی معلومات نہیں ہوتیں۔

انھوں نے ایک مثال میں یہ کہا کہ اپنے فون پر اگر دو سے تین موسم کی ایپ ڈّاؤن لوڈ کریں تو ایک ہی وقت میں سب ایپ میں کچھ نہ کچھ فرق آئے گا اور وجہ ہے کہ ان ایپس میں مقامی ڈیٹا شامل نہیں ہوتا اس لیے ان میں فرق ہوتا ہے۔

2022 کے سیلاب میں ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن نے پاکستان کے محکمہ موسمیات کی پیش گوئیوں کو سراہتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے سبب نقصان کم ہوئے تھے۔ تو یہ کہنا مناسب نہیں کہ ایپس ٹھیک ہوتی ہیں اور محکمہ موسمیات کی پیش گوئی غلط ہوتی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ پاکستان کے محکمہ موسمیات کے پاس 100 سے زیادہ آٹومیٹک ویدر سٹیشنز ہیں جبکہ 100 سے زیادہ مین آبزر ویٹریز ہیں جن سے مراد ہے کہ وہاں بندے موجود ہوتے ہیں جو ہر گھنٹے بعد معلومات ریجنل سینٹر پہنچاتے ہیں جہاں سے پھر یہ نیشنل سسٹم میں آتی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں تین جدید ویدر ریڈار ہیں جو کراچی، اسلام آباد اور مردان میں نصب ہیں جبکہ سیالکوٹ میں ایک ریڈار موجود ہے جبکہ دو عدد جاپانی ادارے جائیکا کی مدد سے سکھر اور ملتان میں عنقریب لگائے جائیں گے۔ جبکہ لاہور میں پرانا ریڈار پرانی ٹیکنالوجی کے حساب سے متروک ہو چکا ہے۔

ظہیر احمد بابر کا کہنا تھا کہ محکمہ موسمیات کی کسان ایپ پر بھی وہ ساری پیش گوئیاں فوری کی جاتی ہیں جہاں موسم میں تبدیلی رونما ہو رہی ہوتی ہے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ کسان ایپ میں ہر دو گھنٹے بعد اپ اپ ڈیٹ کر رہے ہوتے ہیں جس سے شہری آگاہ رہتے ہیں۔

کیا سمارٹ فون پر موسم کے حوالے سے موجود مختلف ایپس موسم کی پیش گوئی محکمہ موسمیات سے بہتر اور درست اور بروقت کرتی ہیں اس سوال کے جواب میں محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر ظہیر احمد بابر نے بی بی سی کو بتایا کہ موسم کی پیش گوئی کے لیے نمیریکل ویدر پریڈیکشن ماڈلز (ڈیٹا اور نمبرز کے ذریعے کمپیوٹر نظام سے) کے ذریعے موسم کی پیشن گوئی کی جاتی ہے۔

ان ماڈلز میں موسم کی پیش گوئی کا طریقہ کار یہ ہے کہ مثال کے طور پر صبح چھ بجے کی پیش گوئی صبح پانچ بجے کے ڈیٹا پر منحصر ہوتی ہے۔

پوری دنیا میں ویدر ایپس تقریبا ایک ہی طرح کے ماڈل استعمال کر رہی ہیں۔

پوری دنیا میں تین سے چار بڑے ویدر فورکاسٹنگ سینٹرز ہیں جس میں یورپیئن سینٹر فار میڈیم رینج ویدر فورکاسٹس، گلوبل فورکاسٹ سسٹم اس کے علاوہ کچھ چائینیز اور جاپانی سینٹرز ہیں جو موسم سے متعلق ڈیٹا حاصل کر رہے ہوتے ہیں اور موسم کی پیش گوئی کر رہے ہوتے ہیں۔

جو مختلف ایپس ہیں وہ تمام انہی ماڈلز یا سینٹر سے ڈیٹا لے رہی ہوتی ہیں۔

SOURCE : BBC