SOURCE :- BBC NEWS

- مصنف, ایڈرین مرے
- عہدہ, بزنس رپورٹر
-
ایک گھنٹہ قبل
ڈنمارک اور جرمنی کے بیچ بحیرہ بالٹک کے نیچے ایک ایسی سرنگ بنائی جا رہی ہے جسے ’ریکارڈ ساز‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ سرنگ سکینڈینیوین ممالک کے باقی یورپ سے رابطے کو بہتر بناتے ہوئے سفر کا دورانیہ مختصر کر دے گی۔
18 کلومیٹر طویل ’فیمارن بیلٹ‘ نامی یہ سرنگ دنیا کی سب سے طویل ’پری فیبریکیٹڈ‘ سڑک اور ریلوے سرنگ ہو گی جسے ’انجینیئرنگ کا کارنامہ‘ بھی مانا جا رہا ہے کیوں کہ اس سرنگ کے چند حصے سمندر کی تہہ پر رکھے جانے کے بعد آپس میں جوڑیں جائیں گے۔
اس منصوبے کی تعمیر کا مرکزی حصہ سرنگ کے شمال میں جنوب مشرقی ڈنمارک میں ہے اور تقریبا 1200 ایکڑ پر پھیلی اس جگہ میں بندرگاہ بھی ہے اور ایک فیکٹری بھی جہاں سرنگ کے حصے تیار ہو رہے ہیں۔
ڈنمارک کی ریاستی کمپنی فیمرن کے چیف ایگزیکٹیو ہنرک ونسینٹسن کہتے ہیں کہ ’یہ جگہ بہت بڑی ہے۔‘ یاد رہے کہ سٹیل سے تیار کردہ سرنگ کا ہر حصہ تقریبا 217 میٹر لمبا اور 42 میٹر چوڑا ہے۔
واضح رہے کہ زیادہ تر زیرسمندر سرنگیں، بشمول برطانیہ اور فرانس کے بیچ 50 کلومیٹر طویل چینل سرنگ، سمندر کی تہہ کے نیچے پتھریلی سطح کے اندر سے گزرتی ہیں۔ لیکن ڈنمارک کی سرنگ 90 انفرادی حصوں یا ٹکڑوں پر مشتمل ہو گی جنھیں اینٹوں کی طرح ایک دوسرے سے جوڑا جائے گا۔
ہنرک ونسینٹسن کا کہنا ہے کہ ’یہ سرنگ ریکارڈ توڑ رہی ہیں کیوں کہ اس طرز پر زیرسمندر سرنگ آج تک نہیں بنائی گئی۔‘

،تصویر کا ذریعہFemern
آٹھ ارب ڈالر کے خطیر سرمائے کے ساتھ اس منصوبے کی لاگت ڈنمارک اٹھا رہا ہے تاہم یورپی کمیشن تقریبا ایک عشاریہ تین ارب پاونڈ فراہم کرے گا۔
حقیقت میں اس منصوبے کا مقصد ہوائی سفر پر انحصار کو کم کرنا اور یورپ میں سفری روابط کو بہتر بنانا ہے۔
جب یہ منصوبہ مکمل ہو جائے گا تو جنوبی ڈنمارک کے روڈبیہون سے شمالی جرمنی کے پٹگارٹن تک گاڑی صرف دس منٹ میں پہنچ سکے گی یا ٹرین سے سات منٹ کا سفر ہو گا جو اس سے پہلے کشتی پر 45 منٹ میں مکمل ہوتا تھا۔
مغربی ڈنمارک کو بائی پاس کرتے ہوئے اس ریل سرنگ کی مدد سے کوپنہیگن اور ہیمبرگ کے بیچ سفر بھی پانچ گھنٹے سے سمٹ کر صرف ڈھائی گھنٹے میں مکمل ہو سکے گا۔
ہنرک ونسینٹسن کہتے ہیں کہ ’یہ سرنگ ڈنمارک کو جرمنی سے ہی نہیں جوڑ رہی بلکہ سکینڈینیویا کو وسطی یورپ سے جوڑ رہی ہے۔ اس میں سب کی جیت ہو گی کیوں کہ 160 کلومیٹر کم سفر کرنے سے آپ کاربن میں کمی لا رہے ہیں اور ٹرانسپورٹ کے اثرات کو کم کر رہے ہیں۔‘

سینیئر مینیجر آندریز گرٹ نے ہمیں مستقبل کی اس ہائی وے کا کچھ حصہ دکھایا۔ یہاں ریلوے کے لیے دو لائنیں ہیں اور دو ہی سڑک کے لیے جبکہ ایمرجنسی اور دیکھ بھال کے لیے بھی راہداریاں رکھی گئی ہیں۔
دوسری جانب سٹیل کے بڑے بڑے دروازے سمندر کے پانی کو روکے ہوئے تھے۔ آندریز نے آہنی دروازے کو کھٹکھٹاتے ہوئے کہا ’جیسا کہ آپ سن سکتے ہیں یہ کافی موٹا ہے۔‘ انھوں نے بتایا کہ جب سرنگ کا ایک حصہ تیار ہو جاتا ہے تو اسے اس مقام پر لا کر سٹیل کے دروازوں کے پیچھے پانی میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔
یہ طویل حصے بہت بھاری بھی ہوتے ہیں کیوں کہ ہر ٹکڑے کا وزن 73 ہزار ٹن کے قریب ہے۔ تاہم ان کو باآسانی کشتی کے پیچھے باندھ کر سمندر کی تہہ میں کھودی گئی سرنگ میں 40 میٹر گہرائی میں کیمروں اور جی پی ایس آلات کی مدد سے لے جا کر رکھا جاتا ہے۔
لیکن یہ ایک پیچیدہ عمل ہے جس میں بہت احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے۔ آندریز کہتے ہیں کہ ’ہمیں بہت زیادہ محتاط ہونا پڑتا ہے کیوں کہ ہم اس حصے کو آہستہ آہستہ اس کی جگہ پر لے جاتے ہیں۔‘

،تصویر کا ذریعہFemern

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
ڈنمارک بحیرہ بالٹک کے آغاز میں ایسی جگہ موجود ہے جہاں بحری جہازوں کا بہت آنا جانا ہوتا ہے۔
ڈنمارک ٹیکنیکل یونیورسٹی کے پروفیسر پیئر گولٹرمین کہتے ہیں کہ ’سمندر کے اندر کی سطح نرم ہے اور سرنگ کے لیے ڈرلنگ کرنا ممکن نہیں۔‘
ایسے میں اس منصوبے کے لیے پہلے ایک پل بنانے پر غور کیا گیا لیکن سکیورٹی خدشات اور تیز ہوا کی وجہ سے سرنگ کو ترجیح دی گئی۔
پروفیسر پیئر گولٹرمین کے مطابق یہ خطرہ بھی اپنی جگہ موجود تھا کہ بحری جہاز پل سے ٹکرا سکتے تھے۔
اسی لیے ان کے مطابق سرنگ بنانے کا فیصلہ ہوا کیوں کہ ’یہ سب سے محفوظ بھی ہے اور سستی بھی۔‘
ڈنمارک اور جرمنی نے 2008 میں اس سرنگ کو بنانے کا معاہدہ کیا تھا لیکن چند گروہوں کی جانب سے ماحولیاتی خدشات کی بنا پر یہ تعطل کا شکار ہو گئی۔
دی نیچر اینڈ بائی ڈائیورسٹی یونیئن نامی گروپ کا کہنا ہے کہ سمندر کے اس حصے میں ایسے لاروا اور معدودیت کی شکار مچھلیاں رہتی ہیں جو شور برداشت نہیں کر سکتے۔
2020 میں اس گروہ کو قانونی شکست کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد اس منصوبے پر کام کا آغاز ہوا۔
ہنرک ونسینٹسن کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کا ماحول پر اثر کم سے کم کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔
یہ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ 2029 میں فعال ہونے پر روزانہ کی بنیاد پر 12 ہزار گاڑیاں اور 100 ٹرینیں یہاں سے گزریں گی۔
اور ٹول کی مدد سے تعمیر پر لگنے والا پیسہ، جو قرض لیا گیا ہے، واپس کیا جائے گا۔ اس کام میں ہنرک ونسینٹسن کے مطابق چار دہائیاں لگیں گی لیکن وہ کہتے ہیں کہ ’استعمال کرنے والوں کو ہی اس کا خرچ اٹھانا ہو گا۔‘
ساتھ ہی ساتھ ڈنمارک کے سب سے غریب سمجھے جانے والے علاقے میں روزگار، کاروباری اور سیاحتی مواقع پیدا ہونے کی توقع بھی کی جا رہی ہے۔ آندریز کا کہنا ہے کہ ’مقامی لوگ بہت سالوں سے اس منصوبے کا انتظار کر رہے ہیں۔‘
SOURCE : BBC