SOURCE :- BBC NEWS
ایک گھنٹہ قبل
ابراہیم رئیسی کے محافظوں کے سربراہ مہدی موسوی کے بھائی مجتبیٰ موسوی نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ان کے بھائی آذربائیجان کی سرحد پر سفر کرنے کے ’مکمل خلاف‘ تھے لیکن صدر کے دفتر کے اصرار پر آخرکار انھیں اپنی ذمہ داری ادا کرنا پڑی۔
واضح رہے کہ گذشتہ برس ایرانی صدر ابراہیم رئیسی ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ ایرانی حکام کے مطابق یہ حادثہ مشرقی آذربائیجان کے علاقے جلفا میں اس وقت پیش آیا تھا جب صدر آذربائیجان اور ایران کی سرحد پر ایک ڈیم کا افتتاح کرنے کے بعد تبریز واپس جا رہے تھے۔
حادثے کا شکار ہونے والے ہیلی کاپٹر پر ایرانی صدر کے ہمراہ ملک کے وزیرِ خارجہ بھی سوار تھے۔
ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاک ہونے والے مہدی موسوی کے بھائی نے ایران 24 ویب سائٹ کو بتایا کہ ’مہدی موسوی اس دورے کو منسوخ کرنے کے لیے جو کر سکتے تھے، انھوں نے کیا لیکن یہ دورہ منسوخ نہ ہو سکا۔‘
انھوں نے وضاحت کی کہ مہدی موسوی کے اعتراضات کے جواب میں ’صدر کے دفتر کے سربراہ نے جواب دیا کہ صدر نے اس سفر پر اصرار کیا ہے۔‘
آذربائیجان کی سرحد پر ابراہیم رئیسی کے اس سفر کی مخالفت کی وجہ بتاتے ہوئے مجتبیٰ موسوی نے کہا کہ ’انھیں (مہدی موسوی) سیستان اور بلوچستان جانا تھا لیکن اچانک منصوبہ بدل گیا۔‘ وہ بہت پریشان تھا کیونکہ اس کے پاس جا کر جگہ چیک کرنے کا وقت نہیں تھا اور اس کے علاوہ یہ ایران اور آذربائیجان کی سرحد تھی۔‘
ہیلی کاپٹر حادثے کے پیچھے ’دہشت گردی‘ کے امکان کے جواب میں مجتبیٰ موسوی نے کہا کہ ’ہمارے لیے، شہدا کے خاندانوں کے لیے، حقیقت جاننے سے بہتر کوئی چیز نہیں لیکن ہم بھی نظام کے تابع ہیں اور جوائنٹ سٹاف نے اپنی تحقیقات کے نتائج کا اعلان کر دیا ہے۔‘
ایران کے بعض حکام اور سیاسی شخصیات پہلے ہی ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کو نشانہ بنائے جانے کے امکان پر بات کر چکے ہیں۔
ایرانی پارلیمنٹ کے رکن کامران غضنفری نے 22 دسمبر کو تہران میں منعقدہ اسرائیل مخالف کانفرنس میں ’ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کو دانستہ طور پر مار گرانے‘ کے دعوے کو دہرایا اور کہا کہ ’حکومت میں موجود افراد نے یہ ضروری نہیں سمجھا کہ وہ یہ اعلان کریں کہ امریکہ اور اسرائیل نے آذربائیجان میں علیف حکومت کے ساتھ مل کر صدر رئیسی کو شہید کیا اور اس ہیلی کاپٹر حادثے کی وجہ شدید دھند کو قرار دیا۔‘
اس سے قبل ایرانی حکومت کی متعدد شخصیات، جن میں پارلیمنٹ کی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیٹی کے رکن بخشیش اردستانی بھی شامل ہیں، نے یہ مفروضہ پیش کیا تھا کہ رئیسی کے ہیلی کاپٹر کو گرانے میں اسرائیل ملوث ہو سکتا ہے۔
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر حادثے کے بارے میں حکام کے مختلف بیانات تھے، جس نے مبصرین کے ایک گروپ کی توجہ مبذول کرائی۔
دوسری طرف غلام حسین اسماعیلی نے ایرانی ٹی وی کو بتایا تھا کہ وہ تیسرے ہیلی کاپٹر پر تھے اور رئیسی کا ہیلی کاپٹر ان کے سامنے تھا۔ ایران کے سابق نائب صدر مہرداد بازارپاش نے کہا کہ وہ پہلے ہیلی کاپٹر پر تھے اور تباہ ہونے والا ہیلی کاپٹر ان کے پیچھے تھا۔
لیکن پھر ایران کی مسلح افواج کے جنرل سٹاف کے سپریم بورڈ نے ایران کے صدر اور ان کے ساتھیوں کو لے جانے والے ہیلی کاپٹر کے حادثے کی وجوہات پر جو تفصیلات شائع کیں ان میں تکنیکی چیزوں کا ذکر کیا گیا۔
ہیلی کاپٹر کی حالت اور پائلٹ کے آئی پیڈ ملنے جیسے عوامل کے بعد اس کو نشانہ بنائے جانے کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس حادثے کی بنیادی وجہ علاقے کی پیچیدہ موسمی اور ماحولیاتی صورتحال تھی۔
لیکن تہران میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کا قتل، لبنان میں ہزاروں پیجرز اور وائرلیس فونز کا پھٹنا اور حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ کی اسرائیل کے مارٹر بموں سے ہلاکت نے اس قیاس آرائی اور تاثر کو مزید ہوا دی۔
آذربائیجان کی سرحد کا سفر، ہیلی کاپٹر کے ملبے کو تلاش کرنے کے لیے 14 گھنٹے کی تلاش، ان گھنٹوں کے دوران متضاد کوریج اور خبروں کو حذف کرنا، تبریز کے امام محمد علی الہاشم کی جائے وقوعہ سے فون کالز، جن کے بارے میں یہ خبریں تھیں کہ وہ ہیلی کاپٹر حادثے کے کچھ گھنٹے بعد تک زندہ تھے، ترکی کے ڈرون سے مدد حاصل کر کے جائے حادثہ تک پہنچنا، ایرانی صحافیوں سے پہلے ترکی کے صحافیوں کا وہاں پہنچنا، یہ تمام وہ عوامل تھے جنھوں نے اس حادثے کو متازعہ بنا دیا۔
اسرائیل عام طور پر اپنے حملوں اور فوجی کارروائیوں کے بارے میں خاموش رہتا ہے لیکن حالیہ واقعات کے بعد، ملک کے حکام نے پیجرز اور وائرلیس فونز کے دھماکے اور تہران میں اسماعیل ہنیہ کے قتل میں اپنے ملک کے کردار کا ذکر کیا ہے۔
SOURCE : BBC