SOURCE :- BBC NEWS

بلاول، ششی تھرور

،تصویر کا ذریعہFacebook: BilawalBhuttoZardariPk & ShashiTharoor

  • مصنف, شکیل اختر، روحان احمد
  • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام
  • 57 منٹ قبل

پاکستان اور انڈیا کے درمیان چار روزہ تنازع اور ایک دوسرے کے خلاف عسکری کارروائیوں کے بعد دونوں ممالک کی حکومتوں نے اعلیٰ سطح کے وفود کو عالمی سفارتی مہم پر روانہ کرنے کا اعلان کیا ہے اور دونوں ہی ملکوں کی جانب سے تشکیل دیے گئے اِن وفود میں اہم سیاسی رہنماؤں کو شامل کیا گیا ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب دونوں ممالک میں اگرچہ سیز فائر تو ہو چکا لیکن سرحد کے دونوں جانب لگ بھگ 88 گھنٹوں میں پیش آئے واقعات پر متضاد دعوؤں کے بیچ یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ اِن سفارتی مہمات کا مقصد کیا ہے اور دونوں ممالک ان کے ذریعے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

یاد رہے کہ اس نوعیت کی سفارتی مہم کا اعلان پہلے انڈیا کی جانب سے ہوا جس کے بعد پاکستان کی حکومت نے بھی اسی طرح کی سفارتی مہم کا اعلان کیا۔

پاکستانی حکومت نے سابق وزیرِ خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں ایک وفد لندن، واشنگٹن اور برسلز بھیجنے کا عندیہ دیا ہے اور وزیرِ اعظم کے دفتر کے مطابق یہ وفد ’عالمی سطح پر انڈیا کے پراپیگنڈے اور مذموم سازشوں کو بے نقاب کرے گا۔‘

وزیرِ اعظم شہباز شریف کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اس وفد میں ڈاکٹر مصدق ملک، انجینیئر خرم دستگیر، سینیٹر شیری رحمان، حنا ربانی کھر، فیصل سبزواری، تحمینہ جنجوعہ اور جلیل عباس جیلانی بھی شامل ہوں گے۔

دوسری جانب اںڈیا کی حکومت اس ضمن میں بین الاقوامی سطح پر انتہائی بڑے پیمانے پر سفارتی مہم چلانے کے لیے امریکہ، یورپ، افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک میں پارلیمانی ارکان پر مشتمل سات مختلف وفود بھیج رہا ہے۔

انڈین حکومت کے یہ سات پارلیمانی وفود 21 مئی سے پانچ جون تک مجموعی طور پر 32 ممالک کا دورہ کریں گے۔ ان وفود کی روانگی سے قبل انڈین سیکریٹری خارجہ وکرم مصری نے پہلگام حملے اور اس کے بعد ہونے والے فوجی ٹکراؤ کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں ان پارلیمانی رہنماؤں کو بریف کیا۔

یہ سفارتی مہم ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب انڈیا کے اندر حکومت کو کئی سوالات کا سامنا بھی ہے۔ ایسے میں یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ آیا انڈیا کی اس سفارتی مہم کا مقصد اپنے خلاف تنقید کو دبانا ہے یا پھر واقعی یہ عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف کسی قسم کی کامیابی حاصل کر سکتی ہے؟

اور یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ پاکستان کی جوابی سفارتی مہم کس حد تک انڈین مہم کا مقابلہ کر سکے گی؟

ان سوالات کے جواب جاننے سے قبل یہ دیکھتے ہیں کہ انڈیا کہاں کہاں وفود بھیج رہا ہے۔

انڈیا کہاں کہاں وفود بھیج رہا ہے؟

انڈیا کا پہلا آل پارٹی وفد جو جے ڈی (یو) کے رکنِ پارلیمنٹ سنجے کمار جھا کی قیادت میں روانہ ہوا۔ یہ وفد انڈونیشیا، ملائیشیا، جنوبی کوریا، جاپان اور سنگاپور کا دورہ کرے گا۔

،تصویر کا ذریعہANI

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

انڈین پارلیمانی ارکان کا پہلا وفد شیوسینا کے رکن پارلیمان شریکانت ایکناتھ شندے کی قیادت میں متحدہ عرب امارات، لائبیریا، کانگو اور سیرہ لیون کے لیے روانہ ہو رہا ہے۔

کانگریس کے رہنما ششی تھرور جس وفد کی قیادت کر رہے ہیں وہ امریکہ، پانامہ، گیانا، برازیل اور کولمبیا کا دورہ کرے گا۔ یہ وفد 25 مئی کو گیانا سے دورے کا آغاز کرنے والا ہے۔

بی جے پی کے سینیئر رہنما روی شنکر پرساد کی قیادت میں ایک اور وفد برطانیہ، فرانس، جرمنی، یورپی یونین، اٹلی اور ڈنمارک کی سیاسی قیادت کے سامنے ’انڈیا کا موقف پیش کرنے کے لیے‘ 25 مئی کو فرانس سے دورہ شروع کر رہا ہے۔

جنتا دل یونائیٹڈ کے رہنما سنجے جھا کی قیادت میں ایک پارلیمانی وفد انڈونیشیا، ملائیشیا، جنوبی کوریا، جاپان اور سنگا پور میں جبکہ بی جے پی کے رہنما بجینت پانڈا کی قیادت میں ایک وفد سعودی عرب، کویت، بحرین اور الجیریا کا دورہ کرے گا۔

انڈین وزارت خارجہ کے مطابق ڈی ایم کے کی رکن پارلیمان کانی موزی سین یونان، سلووینیا، لیٹویا اور روس جانے والے وفد کی قیات کریں گی۔ این سی پی کی رہنما سپریہ سولے کی قیادت میں ایک انڈین پارلیمانی وفد مصر، قطر، ایتھیوپیا اور جنوبی افریقہ کا دورہ کرے گا۔

انڈیا نے تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل وفود کیوں چُنے؟

@KirenRijiju

،تصویر کا ذریعہ@KirenRijiju

انڈیا نے یہ سفارتی مہم ایسے وقت میں شروع کی ہے جب اپوزیشن جماعتیں پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہونے والی جنگ بندی اور لڑائی میں ہونے والے ممکنہ نقصانات کے بارے میں بی جے پی حکومت سے سوالات کر رہی ہیں۔

کانگریس کے رہنما راہل گاندھی کئی بار یہ پوچھ چکے ہیں کہ اس لڑائی میں انڈین فضائیہ کا کتنا نقصان ہوا اور آیا کوئی جہاز گرا تھا یا نہیں۔ انھوں نے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے اس بیان پر تنقید کی تھی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’آپریشن سندور‘ شروع ہونے سے پہلے پاکستان کو اس کے بارے میں بتا دیا گیا تھا۔

کانگریس کے طلبا ونگ نے اسی دوران وزیر خارجہ ایس جے شنکر کی رہائش گاہ کے باہر ایک مظاہرہ بھی کیا جہاں وہ اپنے ہاتھوں میں پوسٹر لیے ہوئے تھے جن پر لکھا تھا کہ ’آپ نے آپریشن سے پہلے پاکستان کو اطلاع کیوں دی؟‘

کاںگریس نے اس پر بھی اعتراض کیا تھا کہ سفارتی مہم کے لیے حکومت نے سیاسی جماعتوں سے پوچھنے کے بجائے خود ہی پارلیمانی ارکان کا انتخاب کر لیا۔

واضح رہے کہ کانگریس کی جانب سے چنے جانے والے ششی تھرور نے پہلگام حملے کے بعد اپنی پارٹی سے الگ موقف اختیار کر رکھا ہے اور انھوں نے بیشتر مواقع پر حکومت کی حمایت کی ہے اور ایک مرحلے پر یہ قیاس آرائیاں بھی کی جانے لگی تھیں کہ کیا وہ حکمراں جماعت بی جے پی میں شامل ہونے والے ہیں؟

لیکن ان کا کہنا تھا کہ انڈیا ایک جمہوری ملک ہے اور وہ اپنے ذاتی خیالات کا اظہار کر رہے تھے جو بقول ان کے ضروری نہیں کہ پارٹی کے موقف سے مطابقت رکھتے ہوں۔

یاد رہے کہ ششی تھرور خارجہ امور سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں۔

تاہم پارلیمانی وفود کے دورے کی تاریخوں کے اعلان اور خارجہ سیکریٹری کی بریفنگ کے بعد انڈیا میں سیاسی جماعتوں نے وقتی طور پر اپنے اختلافات التوا میں ڈال دیے ہیں اور اب وہ ایک زبان میں بات کر رہی ہیں۔

سیاسی تجزیہ کار نروپما سبرامنین کہتی ہیں کہ آل پارٹی وفود بھیجنے کا ایک اہم مقصد اپوزیشن جماعتوں کو بے اثر کرنا ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ان وفود کو بھیجنے سے کوئی بنیادی فرق نہیں پڑے گا۔ پہگام حملے تک عالمی برادری کی توجہ دہشت گردی پر تھی لیکن آپریشن سندور کے بعد جس طرح صورتحال ایک مکمل جنگ کی شکل لے رہی تھی اس سے عالمی برادری اب دونوں ملکوں کے درمیان جوہری جنگ کے خطرے کے بارے میں سوچنے لگی ہے۔‘

نروپما کہتی ہیں کہ پارلیمانی وفود جو پیغام لے کر دنیا بھر کے ممالک میں جا رہے ہیں اس موقف کے بارے میں عالمی برادری کو پہلے سے علم ہے، اس سے کوئی بنیادی فرق نہیں پڑے گا۔

تاہم جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں سفارت کاری کے سابق پروفیسر ڈاکٹر پشپیش پنت کہتے ہیں کہ جوہری ٹکراؤ کے اندیشے کو مغربی ممالک دانستہ طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔

پروفیسر پشپیش پنت نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں بھی حکومتوں نے اپنا موقف اجاگر کرنے کے لیے اپوزیشن رہنماؤں کو باہر بھیجا لیکن وہ اقوام متحدہ تک محدود تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ مودی حکومت کو اتنی بڑی سفارتی مہم چلانے کی ضرورت اس لیے پڑی کیونکہ آپریشن سندور میں وزیر اعظم اور حکومت کی ساکھ کو بُری طرح سے نقصان پہنچا تھا۔

ان کے مطابق ’نریندر مودی کی گھن گرج امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ کہہ کر چھین لی کہ جنگ بندی میں نے کروائی، میں نے لڑائی رکوائی۔ اس کے بعد جو یہاں جیت کا جلسہ ہونے والا تھا وہ تو ہو نہ سکا۔‘

پروفیسر پشپیش پنت کہتے ہیں کہ آپریشن سندور کے بعد بھی وزیر اعظم مودی نے جب قوم سے خطاب کیا تو لوگ مایوس ہوئے کیونکہ انھوں نے کسی بات کا جواب نہیں دیا۔

’انھوں نے وہی باتیں دہرائیں جو پہلے سے ہی لوگوں کو معلوم تھیں، لوگوں کو بھلے ہی نہ بتایا گیا ہو، اب پوری دنیا کو بتانا ہے کہ ہم نے کیا کیا۔ میرا خیال ہے کہ اس سفارتی مہم کا بنیادی مقصد ملک کے عوام کو مطمئن کرنا ہے۔‘

انڈین سفارتی مہم کا مقصد: پاکستانی کی سفارتی تنہائی؟

@ForeignOfficePk

،تصویر کا ذریعہ@ForeignOfficePk

انڈین ذرائع ابلاغ میں پارلیمانی وفود کا ایک بنیادی مقصد پاکستان کو عالمی برادری کی صفوں میں تنہا کر دینا بتایا جا رہا ہے۔

اس بارے میں جب ہم نے پروفیسر پنت سے سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’مودی ہیں تو ممکن ہے‘ کا نعرہ ہم بڑے عرصے سے سُن رہے تھے لیکن پاکستان کو عالمی برادری میں الگ تھلگ کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہو گی۔

ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کی پیٹھ پر جب تک چین کا ہاتھ ہے، امریکہ کے لیے پاکستان جب تک کارآمد ہے، اسے عالمی بینک سے قرض مل رہا ہے، سعودی عرب، بحرین اور قطر جیسے ممالک معاشی بحران سے نکلنے میں مدد کر رہے ہیں، مجھے نہیں لگتا کہ پاکستان کو علیحدہ کیا جا سکتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ پاکستان اکیلا نہیں۔ جب تک امریکہ اور چین اور ایک حد تک روس اس کے ساتھ ہیں اسے اکیلا کرنا انڈیا کے لیے بہت مشکل ہو گا۔‘

پروفیسر پنت کہتے ہیں کہ سفارت کاری کی حقیقتیں ملک کی اندرونی سیاست سے بہت مختلف اور پیچیدہ ہوتی ہیں۔

’ہمیں اس بات پر بہت غرور نہیں کرنا چاہیے کہ ہم دنیا کی چوتھی یا پانچویں بڑی معیشت ہیں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ ملک میں 80 کروڑ لوگ مفت کے راشن پر زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم چین اور امریکہ سے بہت پیچھے ہیں۔ ہم اُس تنی ہوئی رسی پر چل رہے ہیں جس میں ہم کو روس سے بھی بنا کر رکھنی ہے، امریکہ سے بھی تعلقات بہتر رکھنے ہیں، اسرائیل اور مشرق وسطی کے مسلم ممالک سے بھی تعلقات صحیح رکھنے ہیں۔‘

’چین کے ساتھ تو ہمارا پرانا تنازع ہے لیکن اس کے ساتھ ہماری تجارت کا پیمانہ بھی پھیلا ہوا ہے۔ سفارت کاری میں ان سب حقیقتوں کو سامنے رکھنا ہوتا ہے۔‘

پاکستان کی سفارتی مہم

@ForeignOfficePk

،تصویر کا ذریعہ@ForeignOfficePk

تجزیہ کاروں اور ماہرینِ خارجہ امور کا کہنا ہے کہ انڈیا کے جواب میں مغربی دارالحکومتوں میں حکومت کا پاکستانی سفارتی وفد بھیجنے کا اقدام اچھا فیصلہ ہے۔

سابق سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’حکومت کا ایجنڈہ بہت واضح ہے کہ پاکستان کو دہشتگردی، پانی اور کشمیر پر اپنا نظریہ دنیا کے سامنے رکھنا ہے۔‘

’پاکستان کے اندر انڈیا کے دہشتگردی میں ملوث ہونے کے واضح ثبوت موجود ہیں اور یہ درست وقت ہے کہ حکومت پاکستان اپنے مؤقف پوری دنیا تک پہنچائے اور یہ بھی بتائے کہ پاکستان کا پہلگام حملے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔‘

سابق سیکریٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستانی وفد مغربی دارالحکومتوں کو یہ بھی بتائے گا کہ پانی روکنا 24 کروڑ لوگوں کے خلاف ایک جرم ہے۔

’مسئلہ کشمیر بھی جب تک حل نہیں ہو گا تب تک دونوں ممالک کے درمیان معاملات ٹھیک نہیں ہوں گے۔ اگر ہم (پاکستان اور انڈیا) باہمی مسائل حل نہیں کر سکتے تو کسی تیسرے فریق کو ثالث بننا ہو گا اور اب تو امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ بھی اس بات چیت میں کردار ادا کرنے کی پیشکش کر چکی ہے۔‘

تاہم کچھ تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ انڈیا اور پاکستان کی جانب سے اپنے اپنے وفود مغربی دارالحکومتوں میں بھیجنا ’ایک پی آر مہم‘ معلوم ہوتی ہے۔

اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر محمد شعیب کہتے ہیں کہ ’اس تنازع کے دوران پاکستان اور انڈیا غیر ملکی سفارت کاروں کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے اور انھیں تمام پیشرفت سے آگاہ کر رہے تھے۔ حالیہ اقدامات اس ہی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔‘

’تمام میزبان ممالک پہلی ہی سے تمام تر صورتحال سے آگاہ ہیں اور ان کا زیادہ انحصار اپنے سفارت خانوں سے بھیجی جانے والی معلومات پر ہوتا ہے۔‘

پروفیسر محمد شعیب کے مطابق یہ سفارتی مشن پاکستان کے لیے زیادہ اہم ہے کیونکہ ’دہشتگردی اور عسکریت پسندی کے معاملے پر پاکستان کو زیادہ ہدف (تنقید) بنایا جاتا ہے۔ پاکستان کے نمائندوں کو بیرونِ ملک لوگوں کی بڑی تعداد کے سامنے اپنے موقف کو رکھنے، حالیہ برسوں میں کیے گئے اقدامات، مستقبل کے منصوبوں اور بین الاقوامی برادری سے وابستہ امیدوں اور پڑوسی ملک انڈیا کے حوالے سے اپنا موقف رکھنے کا موقع ملے گا۔‘

SOURCE : BBC