SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہReuters
ایک گھنٹہ قبل
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورۂ مشرقِ وسطیٰ کے دوران جہاں ان کی جانب سے کیے گئے تاریخی معاہدے خبروں کی ذینت بن رہے ہیں وہیں اس دوران ان کے شاہانہ استقبال پر بھی بات ہو رہی ہے۔
سعودی عرب سے شروع ہونے والے ان کے دورے میں پہلے ان کا سفید عربی گھوڑوں سے استقبال کیا گیا اور مقبول جامنی قالین بچھایا گیا۔ قطر آمد پر گھوڑوں کے ساتھ ساتھ اونٹوں کا اضافہ بھی کیا گیا اور محل لے جانے والے ان کے قافلے میں سائبر ٹرکس بھی موجود تھے۔
تاہم جب وہ متحدہ عرب امارات پہنچے تو وہاں ان کے استقبال کے لیے موجود سفید کپڑوں میں ملبوس مقامی لڑکیوں نے ایک مخصوص رقص کیا جو اکثر افراد نے اس سے پہلے نہیں دیکھ رکھا تھا۔
اس رقص کے دوران وہ اپنی لمبی زلفیں لہرا رہی ہیں اور اس دوران ٹرمپ ان کے بیچ سے ہو کر گزرتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر جن صارفین نے یہ رقص پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، وہ یہ سوال پوچھتے دکھائی دیے کہ یہ آخر ہے کیا، تاہم پاکستان میں اس حوالے سے یہ تنقید سامنے آئی کہ ایک کسی اسلامی ملک میں اس طرح کی پرفارمنس کیوں دی جا رہی ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
العیالہ کیا ہے؟
ہم نے اس پرفارمنس کے بارے میں یونیسکو کی ویب سائٹ کے علاوہ، متحدہ عرب امارات کے محکمہ ثقافت و سیاحت سے بھی معلومات حاصل کی ہیں۔
دراصل العیالہ شمال مغربی عمان اور پورے متحدہ عرب امارات میں پیش کی جانے والی ایک مقبول ثقافتی پرفارمنس ہے۔ العیالہ میں گنگنانے، دف بجانے کے علاوہ رقص بھی شامل ہوتا ہے اور اس میں جنگ کا منظر دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یہ روایت عرب بدو قبائل کی ہے جو ایسا جنگ کے لیے اپنی تیاری یا کسی خوشی کے موقع پر کرتے تھے۔
تقریباً بیس آدمیوں پر مشتمل دو قطاریں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوتی ہیں اور ان کے پاس بانس کی پتلی سوٹیاں ہوتی ہیں جو نیزوں یا تلواروں کے متبادل کے طور پر پکڑی جاتی ہیں۔

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
قطاروں کے درمیان موسیقار بڑے اور چھوٹے ڈھول، دف اور پیتل کی تھالیاں بجاتے ہیں۔ مردوں کی قطاریں اپنے سروں اور سوٹیوں کو دف کی تال کے ساتھ ہم آہنگی سے ہلاتے ہیں اور ساتھ ہی گیت بھی گاتے ہیں، جبکہ دوسرے فنکار تلواریں یا بندوقیں تھامے قطاروں کے گرد گھومتے ہیں، جنھیں وہ کبھی کبھار آسمان کی طرف پھینکتے اور پکڑتے ہیں۔
متحدہ عرب امارات میں، روایتی لباس پہنے لڑکیاں اپنے لمبے بالوں کو ایک طرف سے دوسری طرف اچھالتی ہیں۔ اس مخصوص رقص کو ‘النشاعت’ کہا جاتا ہے جبکہ اس کی جدید طرز میں اسے خلیجی رقص بھی کہا جاتا ہے۔
بدو تہذیب میں یہ ان خواتین کی جانب سے مردوں کی جانب سے تحفظ فراہم کرنے کے عوض اعتماد کے اظہار کا طریقہ ہوتا ہے۔
العیالہ سلطنت عمان اور متحدہ عرب امارات دونوں میں شادیوں اور دیگر تہواروں کے موقعوں پر پرفارم کیا جاتا ہے۔ اسے پرفارم کرنے والے مختلف قومیتوں اور عمر کے لوگ ہوتے ہیں۔ سرکردہ پرفارمر کو یہ مقام وراثت میں ملتا ہے اور اس کے ذمے باقی پرفارمرز کی ٹریننگ کرنا ہوتا ہے۔ العیالہ پرفارم کرنے کے لیے عمر، جنس یا سماجی کلاس کی کوئی قید نہیں ہے۔

،تصویر کا ذریعہReuters
تنقید کی وجہ کیا ہے؟
خلیجی ممالک کے دوروں کے دوران ٹرمپ کو ملنے والے شاہانہ استقبال پر اس دوران تنقید بھی ہو رہی ہے۔
تاہم متحدہ عرب امارات میں ہونے والے استقبال پر تنقید کی وجوہات مختلف ہیں۔ صارف اشوک سوائن نامی نے لکھا کہ ’خلیجی ممالک ٹرمپ کو خوش کرنے کے لیے سب کچھ کر رہے ہیں۔ جب مغربی حکومتوں کی خواتین رہنما ان ملکوں کا دورہ کرتی ہیں تو انھیں سر پر دوپٹہ کرنا پڑتا ہے، اب متحدہ عرب امارات کی خواتین ایک مغربی رہنما کے لیے سر ڈھکے بغیر رقص کر رہی ہیں۔‘
چیلسی ہارٹ نامی صارف نے لکھا کہ ’ایک وقت تھا جب یہ رقص نجی محفلوں میں ہوتا تھا تاہم اب اسے متحدہ عرب امارات کی جانب سے اپنی ثقافت دنیا بھر میں اجاگر کرنے کے لیے اسے عام کیا جا رہا ہے۔‘
ایک صارف میاں عمر نے کہا کہ ’ایک اسلامی ملک میں یہ ہونا بدقسمتی ہے۔‘ ایک صارف نے انھیں جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ’آپ بہت کم علم ہیں اور نہیں جانتے کہ یہ تقریب پرانے دور کی روایت ہے جو عربی ثقافت کے بارے میں ہے۔‘
ایک اور صارف نے لکھا کہ ’جب میں عرب ملک میں کام کر رہی تھی تو وہاں مجھے کسی نے بتایا کہ عربی صرف ایک مضبوط رہنما کی عزت کرتے ہیں۔‘
SOURCE : BBC