SOURCE :- BBC NEWS

پاکستان سٹاک ایکسچینج

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, تنویر ملک
  • عہدہ, صحافی
  • 5 اپريل 2025

    اپ ڈیٹ کی گئی ایک گھنٹہ قبل

پاکستان سٹاک مارکیٹ میں پیر کو قریب چار ہزار پوائنٹس کی تاریخی مندی کی وجہ سے تقریباً تمام شعبوں کی کمپنیوں کے حصص کی قیمت میں گراوٹ ریکارڈ کی گئی ہے۔

سٹاک مارکیٹ میں کاروبار کے اختتام پر جاری کردہ مارکیٹ سمری کو دیکھا جائے تو اس میں سوائے چند کمپنیوں کے اکثر کے حصص کی قیمت گذشتہ کاروباری روز کے مقابلے میں کم سطح پر بند ہوئی۔

خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ بدھ کو عالمی سطح پر ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد سے امریکی، یورپی اور ایشیائی منڈیاں مندی کا شکار ہیں۔ ابتدائی طور پر جمعرات اور جمعے کو پاکستان سٹاک ایکسچینج میں تیزی دیکھی گئی تھی تاہم ماہرین نے متنبہ کیا تھا کہ ٹرمپ کے اعلان سے پاکستان کا ایکسپورٹ سیکٹر متاثر ہو سکتا ہے۔

پاکستان سٹاک مارکیٹ میں اس وقت 520 سے زیادہ کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں اور ان کی حصص کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں شدید مندی کی وجہ سے بیشتر کمپنیوں کے حصص کی قیمت میں بے پناہ کمی دیکھی گئی اور ان کی قیمت میں مزید کمی کو روکنے کے لیے لوئر لاک لگائے گئے جس کی وجہ سے سٹاک مارکیٹ میں مجموعی طور پر پانچ فیصد کمی کے بعد کاروبار کو معطل کرنا پڑا اور 45 منٹس کے وقفے کے بعد جب کاروبار کا دوبارہ آغاز ہوا تو ابتدائی طور پر مزید کمی دیکھی گئی۔

تاہم پھر سرمایہ کاروں کی جانب سےکچھ خریداری دیکھی گئی جس کی وجہ سے مارکیٹ میں ریکوری ہوئی اور سیشن کے اختتام تقریبا 4000 پوائنٹس کمی کے ساتھ ہوا۔

ٹرمپ کے اعلان سے پاکستان سٹاک ایکسچینج کے کون سے شعبے متاثر ہوئے؟

پاکستان سٹاک مارکیٹ میں شدید مندی میں مختلف شعبوں کی کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں ہونے والی کمی نے حصہ ڈالا۔

ٹاپ لائن سیکورٹیز کی مارکیٹ تجزیاتی رپورٹ کے مطابق اینگرو ہولڈنگ، آئل اینڈ گیس کمپنی لمیٹڈ، پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ اور پاکستان سٹیٹ آئل کی حصص کی قیمت میں ہونے والی کمی نے سٹاک مارکیٹ میں ہونے والی مجموعی کمی میں 1287 پوائنٹس کی کمی کی۔

تیل و گیس کی دریافت اور مارکیٹنگ کی تمام کمپنیوں کے حصص کی قیمت میں کمی ریکارڈ کی گئی۔ گاڑیاں بنانے والے شعبے کی تمام کمپنیوں کے حصص کی قیمت میں کمی ریکارڈ کی گئی۔ ٹیکالوجی شعبے کی تمام کمپنیوں کے حصص کی قیمت میں کمی ریکارڈ کی گئی۔ ٹیکسٹائل شعبے کی 33 لسٹڈ کمپنیوں میں سے سوائے چند کمپنیوں کے تمام کے حصص کی قیمت میں کمی ریکارڈ کی گئی۔

اسی طرح سوائے چند بینکوں کے تمام بینکوں کی حصص کی قیمت کم ہوئی۔

تیل و گیس شعبے نے 781 پوائنٹس، بینکوں نے 578 پوائنٹس، انوسٹمنٹ اور سیکورٹیز کے شبعوں نے 356 پوائنٹس، فرٹیلائزر شعبے نے 310 پوانٹس اور ٹیکنالوجی شعبے نے 300 پوائنٹس کھو دیے ہیں۔

PSX

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایک ہفتے سے سٹاک مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ کیوں جاری؟

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

ماہرین کے مطابق گذشتہ ہفتے پاکستان سٹاک مارکیٹ میں تیزی کے رجحان کی وجہ عالمی معاشی منظر نامہ نہیں بلکہ حکومت کی جانب سے بجلی کی قیمت میں کمی تھی۔

تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت کی جانب سے گھریلو اور صنعتی صارفین کے لیے بجلی کی قیمت میں کمی معیشت کے شعبے کے لیے اچھی خبر تھی جس کا اثر سٹاک ایکسچینج میں کاروبار پر مثبت انداز میں ہوا تھا۔

جبکہ حکومت کی جانب سے توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں کو پانچ سال میں ختم کرنے کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔

مالیاتی امور کے ماہر راشد مسعود عالم کا کہنا ہے کہ پاکستانی سٹاک ایکسچینج کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ معاشی اصولوں کی بجائے چند افراد اور گروپوں کے ذریعے چلائی جاتی ہے جو اس میں تیزی اور مندی لاتے ہیں۔

تاہم بڑے کاروباری ادارے اس میں براہ راست مداخلت نہیں کرتے تاہم ان ڈائریکٹ طریقے سے وہ اس میں ملوث ہوتے ہیں۔

عارف حبیب لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹو شاہد علی حبیب تاہم اس تاثر کی نفی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے پاکستان سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کی بیس بہت بڑی ہے اور یہ چند ہاتھوں کی بجائے بہت زیادہ پھیلی ہوئی ہے جس میں ایسٹ منیجمینٹ کمپنیاں، بینک، انشورنس کمپنیاں، ہائی نیٹ افراد اور غیر ملکی سرمایہ کار شامل ہیں۔

انھوں نے کہا کہ یہ ممکن نہیں کہ چند افراد یا گروپ اس کو کنٹرول کر سکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مارکیٹ میں موجودہ تیزی کی وجہ معاشی ہے۔

‘جب حکومت نے پاور ٹیرف کم کیا تو اس کا اثر انڈسٹری کی اچھی کمائی کی صورت میں ہوگا جبکہ دوسری جانب امریکی ٹیرف میں اضافہ صرف پاکستان کے لیے نہیں۔’

SOURCE : BBC