SOURCE :- BBC NEWS

اُتل سبھاش

  • مصنف, گیتا پانڈے
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، دہلی
  • ایک گھنٹہ قبل

نو دسمبر کی رات خودکشی کرنے والے 34 سالہ انڈین شہری اُتل سبھاش کی لاش کے پاس موجود پلے کارڈ پر تحریر تھا کہ ’انصاف ہونا باقی ہے۔‘

خودکشی سے قبل اتُل نے 24 صفحات پر مشتمل ایک تفصیلی نوٹ لکھا اور 81 منٹ دورانیے کی اپنی ایک طویل ویڈیو بھی ریکارڈ کی جس میں انھوں نے اپنی شادی شدہ زندگی میں درپیش مسائل اور طلاق کی وجہ سے ہونے والی پریشانی کو اپنی خودکشی کی بنیاد قرار دیا۔

یہ تفصیلی خط اور طویل ویڈیو، جس میں اُن کی زندگی سے متعلق بہت سی تکلیف دہ تفصیلات موجود ہیں، آج کل انڈیا میں سوشل میڈیا پر وائرل ہیں اور بہت سے صارفین اس پر اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔

اتُل کا تعلق انڈیا کے شہر بنگلور سے تھا اور پیشے کے لحاظ سے وہ سافٹ ویئر انجینیئر تھے۔

اپنی ویڈیو اور تفصیلی خط میں انھوں نے اپنی اہلیہ نکیتا سنگھانیہ، اپنی ساس اور اپنے برادر نسبتی پر انھیں مسلسل ہراساں کرنے اور اُن پر تشدد کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ تاہم اُتل کی اہلیہ اور اُن کے اہلخانہ نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

اتُل کی خودکشی کے بعد ان کی اہلیہ، ساس اور بردار نسبتی کو گرفتار کر لیا گیا تھا اور فی الحال عدالت نے ان کا 14 دن کا جسمانی ریمانڈ دے رکھا ہے۔

اتُل سبھاش کی المناک موت کی خبر نے مردوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد اور تنظیموں میں بھی نئی روح پھونکی ہے اور اس نے انڈیا کے جہیز سے متعلق سخت قوانین پر بھی ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ جہیز کے یہ قوانین خواتین کو ہراساں کرنے اور یہاں تک کہ جہیز کے معاملے پر خواتین کو قتل کیے جانے کے سدباب کے طور متعارف کروائے گئے تھے۔

تاہم اتُل کا کیس سامنے آنے کے بعد بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ انڈیا میں طلاق کی شرح میں اضافے کے ساتھ اب خواتین اپنے شوہروں کو ہراساں کرنے کے لیے انھی قوانین کا مبینہ طور پرغلط استعمال کر رہی ہیں، یہاں تک کہ مرد خودکشیوں پر مجبور ہو رہے ہیں۔

انڈیا کی سپریم کورٹ نے بھی اس پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے اور اعلیٰ عدلیہ کے ایک جج نے اسے ’قانونی دہشت گردی‘ قرار دیتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں ان قوانین کا مقصد انھیں ’(خواتین کے خلاف) ڈھال کے طور پر استعمال کرنا تھا نہ کہ ایک ہتھیار کے طور پر۔‘

تاہم خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور افراد نے نشاندہی کی ہے کہ شوہروں کے خاندانوں (سسرال) کی جانب سے لمبے چوڑے جہیز کی ادائیگی کے مطالبات اب بھی ہر سال انڈیا میں ہزاروں خواتین کی جان لے رہے ہیں۔

اتُل سبھاش

،تصویر کا ذریعہBengaluru police

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

اتُل اور نکیتا کی شادی تو 2019 میں ہوئی تھی لیکن پچھلے تین برسوں سے وہ دونوں الگ رہ رہے تھے۔ اتُل کا کہنا تھا کہ انھیں اپنے چار سالہ بیٹے سے ملنے تک کی اجازت نہیں تھی۔

اتُل کا الزام تھا کہ ان کی اہلیہ نکیتا نے ان کے خلاف ظلم کرنے، جہیز کے لیے ہراساں کرنے سمیت کئی الزامات کے تحت جھوٹے مقدمے دائر کر رکھے تھے۔

اتُل نے اپنی ویڈیو میں نکیتا کے گھر والوں پر ’بھتے‘ کا الزام لگاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انھوں نے مقدمات واپس لینے کے بدلے تین کروڑ روپے کا مطالبہ کیا تھا جبکہ بیٹے سے ملنے کے حق کے لیے اتُل سے 30 لاکھ روپے مانگے گئے تھے۔ اس کے علاوہ ماہانہ خرچہ 40 ہزار روپے سے بڑھا کر دو لاکھ کرنے کا کہا تھا۔

اس کے علاوہ اتُل نے ویڈیو میں گذشتہ کچھ سالوں کے دوران انھیں عدالتی کارروائی میں حاضری کے لیے جو طویل سفر کرنے پڑے اس کا بھی ذکر کیا۔ انھوں نے اپنی ویڈیو میں ایک جج پر ہراسانی اور رشوت مانگنے اور ان کا مذاق اڑانے کا الزام بھی لگایا۔ بظاہر جج کی جانب سے جاری کردہ ایک نوٹس میں ان الزامات کو ’بے بنیاد، غیر اخلاقی اور توہین آمیز‘ قرار دیا گیا ہے۔

اتُل کی خود کشی کی خبر کے بعد متعدد شہروں میں مظاہرے پھوٹ پڑے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ اُتل کی خودکشی کے معاملے کو قتل کے کیس کے طور پر لیا جانا چاہیے۔ لوگ ان کی اہلیہ نیکیتا سنگھانیہ کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مطالبہ کر رہے ہیں کہ انھیں گرفتار کر کے عمر بھر کے لیے جیل بھیج دینا چاہیے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ہزاروں افراد نے ایک ملٹی نیشنل امریکی فرم کو جہاں اتل کی اہلیحہ نیکیتا کام کرتی ہیں، ٹیگ کر کے انھیں نوکری سے برطرف کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

اس شدید ردعمل کو دیکھتے ہوئے بینگلورو کی پولیس نے ان تمام افراد کے خلاف انکوائری کا آغاز کیا جن کے نام اُتل نے خودکشی سے متعلق تحریر میں لکھے تھے۔ 14 دسمبر کو نیکیتا سنگھانیا ان کی والدہ اور بھائی کو ‘خودکشی پر مجبور’ کرنے کے الزامات میں گرفتار کیا گیا ہے۔

اخبار ٹائمز آف انڈیا نے پولیس کے حوالے سے لکھا ہے کہ تفتیش کے دوران سنگھانیا نے ان الزامات کی تردید کی کہ وہ اپنے شوہر اتل سبھاش کو پیسوں کے لیے ہراساں کر رہی تھیں۔

ماضی میں نیکیتا سنگھانیا نے بھی اپنے شوہر پر شدید الزامات عائد کیے تھے۔

سنہ 2022 میں اپنی طلاق کی درخواست میں انھوں نے اپنے شوہر، ان کے بھائی اور والدین پر جہیز کی وجہ سے ہراساں کرنے کے الزامات عائد کیے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے والدین نے شادی پر جو تحفے تحائف دیے تھے وہ اس سے خوش نہیں تھے اور اضافی دس لاکھ روپے مانگ رہے تھے۔

اتُل

خیال رہے کہ انڈیا میں سنہ 1961 سے جہیز پر پابندی عائد ہے مگر دولہے کا خاندان اب بھی دلہن کے گھر والوں سے تحفے میں نقد رقم، کپڑوں اور جیولری کی توقع رکھتا ہے۔

حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق 1950 سے 1999 کے دوران 90 فیصد انڈین شادیوں میں جہیز اور نقد کی مد میں ڈھائی کھرب امریکی ڈالر خرچ ہوئے۔

نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق سنہ 2017 سے سنہ 2022 کے دوران کل 35 ہزار 493 دلہنوں کا قتل ہوا اور یہ اوسطً روزانہ کی بنیاد پر 20 دلہنوں کی اموات بنتی ہے، جو جہیز کے مطالبے پر ہوئیں اور ان واقعات میں ہونے والی اموات میں ایسی خواتین بھی ماری گئیں جن کی شادی کو کئی برس گزر چکے تھے۔

صرف سنہ 2022 میں 6,450 دلہنوں کو جہیز کے معاملے پر قتل کیا گیا جو کہ روزانہ اوسط 18 اموات بنتی ہے۔

نیکیتا سنگھانیا کا دعویٰ ہے کہ ان کے والد ان کی شادی کے کچھ دیر بعد ہی ہارٹ اٹیک کی وجہ سے اس وقت وفات پا گئے جب سبھاش کے والدین ان کے پاس پیسوں کا مطالبہ لے کر گئے۔ انھوں نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ ان کے شوہر انھیں دھمکایا کرتے تھے۔ انھوں نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ وہ مجھے غیر فطری سیکس کا مطالبہ کرتا تھا اور ‘وہ مجھے شراب پی کر مارتا تھا اور ازدواجی تعلقات میں درندوں جیسا سلوک کرتا تھا۔’

لیکن اتل سبھاش نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی اس مقدمے میں الزامات اور جوابی الزامات کی تحقیقات کر رہی ہے لیکن اتل سبھاش کی خودکشی کے بعد انڈیا میں جہیز کے خلاف موجود سخت قانون ، سیکشن 498A آف انڈیا پینل کوڈ کو دوبارہ لکھنے بلکہ نئے سرے سے بنانے کے لیے آوازیں بلند کی جا رہی ہیں۔

یہ قانون سنہ 1983 میں دلی اور ملک کے دوسرے علاقوں میں جہیز کی وجہ سے ہونے والی اموات کے بعد متعارف کروایا گیا تھا۔ اس زمانے میں روزانہ کی بنیاد پر دلہنوں کی شوہر یا سسرال والوں کے ہاتھوں جل کر مرنے کی خبریں آتی تھیں جسے اکثر کچن میں آگ لگنے کے واقعے سے جوڑ دیا جاتا تھا۔

اس وقت ملکی پارلیمان میں موجود خواتین اراکین اور سماجی کارکنوں کی جانب سے غم و غصے میں کیے جانے ولے احتجاج کے بعد پارلیمنٹ قانون بنانے پر مجبور ہوئی تھی۔

جیسے کہ وکیل سکرتی چوہان کہتی ہیں کہ ‘یہ قانون طویل اور سخت جنگ کے بعد بنا ہے، اور یہ خواتین کو اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنے سسرال میں ہونے والے ظلم کی صورت میں انصاف لے سکیں۔

جہیز

،تصویر کا ذریعہGetty Images

لیکن گذشتہ کئی سالوں میں یہ قانون بار بار سرخیوں میں آیا ہے۔ اور مردوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ خواتین کی طرف سے اپنے شوہروں اور ان کے رشتہ داروں کو ہراساں کرنے کے لیے اس کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔

انڈیا کی اعلیٰ ترین عدالت نے بھی کئی مواقع پر قانون کے غلط استعمال کے خلاف خبردار کیا ہے۔ جس دن اتل سبھاش کی خودکشی کی اطلاع ملی، سپریم کورٹ نے ایک بار پھر اس متعلق ایک بیان جاری کیا۔ ایک اور مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ ‘شوہر اور اس کے خاندان کے خلاف ذاتی لڑائی یا عناد کے لیے اس قانون کا غلط استعمال کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

ممبئی میں مردوں کے حقوق کی تنظیم واستوو فاؤنڈیشن کے بانی امیت دیش پانڈے کا کہنا ہے کہ اس قانون کا استعمال ‘زیادہ تر مردوں کو لوٹنے کے لیے’ کیا جا رہا ہے اور یہ کہ ‘ایسے ہزاروں لوگ ہیں جو سبھاش کی طرح تکلیف میں ہیں۔’

ان کا کہنا ہے کہ ان کے ادارے کی ہیلپ لائن نمبر پر ہر سال تقریباً 86,000 کالیں آتی ہیں اور زیادہ تر مقدمات ازدواجی تنازعات کے ہوتے ہیں جن میں جہیز کے جھوٹے مقدمات اور بھتہ خوری کی کوششیں شامل ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘ یہ ایک دھندے کی شکل اختیار کر چکا ہے جہاں ہر مقدمے میں 18 سے 20 افراد کو ملزم نامزد کیا جاتا ہے اور ان سب کو وکلاء کی خدمات حاصل کرنی پڑتی ہیں اور ضمانت کے لیے عدالت جانا پڑتا ہے۔ ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جہاں دو ماہ کا بچہ یا ایک بیمار عمر رسیدہ کو بھی جہیز کے لیے ہراساں کرنے کی شکایات میں نامزد کیا گیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘مجھے پتا ہے کپہ یہ انتہائی مثالیں ہیں مگر پورا نظام پولیس، عدلیہ اور سیاستدان نے اس تو نہ صرف تقویت بخشی ہے بلکہ اس کی طرف آنکھیں بند کر لی ہیں۔’

دیش پانڈے کا کہنا ہے کہ 50 سال سے زیادہ کے جرائم کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، خودکشی کرنے والے افراد کی ایک بڑی اکثریت شادی شدہ مردوں کی تھی اور ان میں سے چار میں سے ایک خودکشی کی وجہ خاندانی اختلاف تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ پدرانہ نظام مردوں کے خلاف بھی کام کرتا ہے۔ ‘خواتین کے پاس قوانین کا سہارا ہوتا ہے اور انھیں ہمدردی ملتی ہے، لیکن لوگ ان مردوں پر ہنستے ہیں جنھیں ان کی بیویوں نے ہراساں کیا یا مارا پیٹا ہوتا ہے۔ اگر سبھاش ایک عورت ہوتی تو وہ کچھ قوانین کا سہارا لے سکتی تھی۔ تو آئیے قوانین کو صنفی غیر جانبدار بنائیں اور مردوں کے ساتھ بھی اسی طرح انصاف کریں تاکہ جانیں بچائی جا سکیں۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ قانون کا غلط استعمال کرنے والوں کے لیے بھی سخت سزا ہونی چاہیے، بصورت دیگر یہ کوئی رکاوٹ نہیں بنے گا۔

سکرتی چوہان اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ قانون کا غلط استعمال کرنے والی خواتین کو سزا ملنی چاہیے، لیکن ان کی دلیل ہے کہ کسی بھی قانون کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ بنگلورو کا مقدمہ عدالت میں ہے اور اگر یہ ثابت ہو جائے کہ یہ جھوٹا مقدمہ ہے، تو اسے سزا ملنی چاہیے۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ ‘لیکن میں صنفی بنیاد پر غیر جانبدار قانون کی حمایت نہیں کرتی۔ اُن کا مطالبہ رجعت پسند ہے کیونکہ یہ خاص اقدامات کی ضرورت کو نظر انداز کرتا ہے جو تسلیم کرتے ہیں کہ خواتین غیر متناسب طور پر تشدد سے متاثر ہوتی ہیں۔’

وہ کہتی ہیں کہ جو لوگ قانون کی دفعہ 498 اے کو جواز بناتے ہیں وہ ‘پدرانہ نظام کے حامی ہیں کیونکہ یہ خواتین کے لیے قانون ہے، اس لیے اسے ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔’

وہ کہتی ہیں کہ ‘یہ قانون برسوں کی سماجی پدرانہ ناانصافی کے بعد بنا ہے اور یہ پدرانہ نظام ہماری نسل کی حقیقت ہے اور آنے والی نسلوں تک جاری رہے گا۔’

وہ کہتی ہیں قانون کے باوجود معاشرے میں جہیز کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے اور اس پر ہزاروں دلہنوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وقت کی ضرورت ‘قانون کو بہتر اور مضبوط بنانا’ ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘اگر درج کیے گئے 10 مقدمات میں سے تین جھوٹے ہیں، تو عدالتوں کا کام ہے کہ وہ ان پر جرمانہ عائد کریں۔ لیکن خواتین اب بھی اس ملک میں بہت زیادہ مشکلات کا شکار ہیں اس لیے اس قانون کو منسوخ کرنے کا مطالبہ نہ کیا جائے۔’

SOURCE : BBC