SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, نیاز فاروقی
- عہدہ, بی بی سی اُردو ڈاٹ کام، دلی
-
ایک گھنٹہ قبل
’میں کسی کے خلاف نفرت نہیں چاہتی۔ ابھی جو ہو رہا ہے لوگ کشمیریوں اور مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، ہم یہ سب نہیں چاہتے۔ ہم امن چاہتے ہیں، صرف امن۔ ہم انصاف چاہتے ہیں، جنھوں نے میرے شوہر کے ساتھ یہ کیا، انھیں سزا ملنی چاہیے۔‘
یہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں مسلح افراد کے حملے میں ہلاک ہونے والے انڈین نیوی کے افسر لیفٹیننٹ ونے نروال کی بیوہ ہیمانشی کے الفاظ ہیں جنھوں نے یہ اپیل جمعرات کو میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کی۔
یاد رہے کہ ونے نروال اور ہیمانشی کی شادی 16 اپریل کو ہوئی تھی، یعنی پہلگام حملے سے محض چھ روز قبل۔ یہ جوڑا کشمیر میں اپنا ہنی مون منانے گیا ہوا تھا۔
ہیمانشی کی مسلمانوں اور کشمیروں کو نشانہ نہ بنانے سے متعلق اپیل ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پہلگام حملے کے تناظر میں انڈیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کے واقعات تواتر سے رپورٹ ہو رہے ہیں۔
خاص طور پر انڈیا کے مختلف حصوں میں آباد کشمیری طلبا اور کاروباری افراد نے انڈین شہریوں کی جانب سے دھمکیاں دیے جانے اور تشدد جیسی شکایات کی ہیں۔
بہت سے کشمیری طلبا اور کاروباری افراد کا دعویٰ ہے کہ اِن حالات کے پیشِ نظر وہ جموں و کشمیر واپس جانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
یاد رہے کہ پہلگام واقعے سے بہت پہلے ہی انسانی حقوق کی تنظیموں نے دعوے کیے تھے کہ حالیہ برسوں میں انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
واشنگٹن میں مقیم تنظیم ’سینٹر فار دی سٹڈی آف آرگنائزڈ ہیٹ‘ کا کہنا ہے کہ انھوں نے پہلگام حملے کے بعد پورے انڈیا میں دائیں بازو کے ہندو گروپس کی طرف سے نفرت انگیز تقاریر میں زبردست اضافہ ریکارڈ کیا ہے۔
تنظیم کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر رقیب حمید نائیک نے کہا کہ ’اب تک ہم نے گذشتہ آٹھ دنوں میں 35 سے زیادہ ایسے واقعات کو ریکارڈ کیا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’پہلگام حملے کو مسلم دشمنی کو فروغ دینے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔‘
پہلگام حملے کے بعد انڈین میڈیا میں ایسی بہت سی رپورٹس شائع اور نشر ہوئی ہیں جبکہ سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز وائرل ہیں جن میں مسلمانوں کو دھمکانے یا مشتعل افراد کی جانب سے اُن پر حملہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
ایسی ہی ایک وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اُتر پردیش کے شہر علی گڑھ میں سکول سے گھر لوٹنے ہوئے ایک 15 سالہ مسلمان لڑکے کو مبینہ طور پر دائیں بازو کی ایک تنظیم کے ارکان نے گریبان سے پکڑ کر گھسیٹا اور اسے سڑک پر چسپاں پاکستان کے جھنڈے پر پیشاب کرنے پر مجبور کیا۔
اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لڑکے نے ہجوم کے سامنے ہاتھ جوڑ کر رحم کی اپیل کی لیکن اسے مجبور کیا گیا کہ وہ ’ہندوستان زندہ باد‘ اور ’بھارت ماتا کی جے‘ کے نعرے لگائے۔
اگرچہ بی بی سی اس ویڈیو کی آزادانہ تصدیق نہیں کر سکا ہے تاہم علی گڑھ کی مقامی پولیس کے مطابق انھوں نے اس واقعے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
اسی طرح اتوار کے روز جنوبی ریاست کرناٹک میں مشتعل ہجوم نے ایک مسلمان شخص کو کرکٹ میچ کے دوران مبینہ طور پر ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ لگانے پر تشدد کر کے ہلاک کر دیا۔
پولیس نے اس واقعے میں مبینہ طور پر ملوث 15 ملزمان کی گرفتاری کا اعلان کیا ہے لیکن مسلمان شخص کے قتل کی وجہ کا تعیّن نہیں کیا ہے اور نہ ہی دیگر الزامات کی تصدیق ہو پائی ہے۔
’سینٹر فار دی سٹڈی آف آرگنائزڈ ہیٹ‘ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر رقیب حمید نائیک نے کہا کہ ’پہلگام حملے کو ایک وسیع تر فرقہ وارانہ فلیش پوائنٹ میں تبدیل کرنے کی واضح اور فعال کوششیں کی جا رہی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ اس طرح کے واقعات آن لائن پھیلائی جانے والی نفرت اور حقیقی زندگی میں کمزور گروہوں کو پہنچنے والے نقصان کے درمیان تعلق کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ’پہلگام حملوں کے بعد آن لائن نفرت انگیزی اور انسان مخالف بیانیہ تشدد کے اِن واقعات کے لیے چنگاری کا کام کر رہا ہے۔‘
تشدد کے مبینہ واقعات کے علاوہ اہم رہنماؤں کی جانب سے بھی اس نوعیت کے بیانات سامنے آ رہے ہیں جنھیں مقامی مسلمان ’نفرت پر مبنی‘ قرار دے رہے ہیں۔
حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تعلق رکھنے والے مشرقی ریاست آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرمانے کہا ہے کہ ان کی ریاست میں مقامی پولیس نے کم از کم 34 ’ملک دشمنوں‘ کو جیل بھیج دیا ہے۔
انھوں نے ملزمان پر لگائے گئے الزامات کی تفصیلات شیئر کیے بغیر اس کارروائی کو ’پاکستان کی حمایت کرنے والے غداروں کے خلاف کریک ڈاؤن‘ قرار دیا ہے۔
24 اپریل کو انھوں نے اعلان کیا تھا کہ پولیس نے امین الاسلام نامی ایک ریاستی اسمبلی کے رُکن کو غداری کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’میں دہرا رہا ہوں کہ کسی کو نہیں بخشا جائے گا۔‘
یاد رہے کہ ممبر ریاستی اسمبلی امین الاسلام نے مبینہ طور پر دعویٰ کیا تھا کہ سنہ 2019 کا پلوامہ حملہ اور پہلگام حملہ ‘حکومت کی سازشیں’ تھیں۔ امین الاسلام کی پارٹی نے ان کے بیانات سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔
اس کے علاوہ مرکزی انڈیا کی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر بھوپال میں پولیس نے عارف مسعود نامی کانگریس کے ایک مسلمان لیڈر اور ریاستی اسمبلی کے رُکن کو قتل کرنے کی دھمکی دینے والے ایک شخص کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔
ملزم نے مبینہ طور پر اپنے سوشل میڈیا پر لوگوں سے پوچھا تھا کہ اگر وہ مسعود کو قتل کر دیں تو کیا کوئی انھیں جیل سے نکالنے کی ذمہ داری لے گا؟
ملزم نے لکھا کہ ’میں کل عارف مسعود کو مار ڈالوں گا۔۔۔ مجھے ملک کے فائدے کے لیے قتل کرنے اور مرنے کا شوق ہے۔ پہلگام میں ہونے والے قتل عام کے بعد میں ایک غدار کو ماروں گا۔‘
سوشل میڈیا کے ذریعے یہ دھمکی سامنے آنے کے بعد ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ دگ وجے سنگھ نے پولیس سے مسعود کی سکیورٹی بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس دھمکی کے اگلے ہی دن عارف مسعود کو مزید ایک دھمکی ملی جس میں بی جے پی کے ایک مقامی رہنما کرشنہ گھارگے نے کہا کہ وہ ‘عارف مسعود کو چھوڑیں گے نہیں، یہیں پر ماریں گے۔’
ٹائمز آف انڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ بی جے پی نے فی الحال اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
پہلگام حملے کے بعد ہونے والے تشدد کے پہلے واقعے میں اُتر پردیش کے شہر آگرہ میں ایک نوجوان مسلمان شخص کو مبینہ طور پر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
ایک وائرل ویڈیو میں اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ایک شخص نے خود کو ’چھتریہ گؤ رکھشا دل‘ (گایوں کی حفاظت کے نام پر بنایا گیا ایک گروپ) کا رُکن بتایا تھا اور کہا تھا کہ یہ حملہ پہلگام حملے کے ردعمل میں تھا۔‘
مقامی پولیس کے مطابق وہ اس واقعے کی تحقیق کر رہے ہیں اور یہ کہ اِس نام سے کوئی تنظیم موجود نہیں ہے۔ پولیس نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ مبینہ طور پر یہ آپسی جھگڑے کا شاخسانہ ہو سکتا ہے۔
دوسری طرف ریاست راجستھان کے شہر جے پور میں بی جے پی کی ایک ریاستی اسمبلی کے رکن نے شہر کی ایک مسجد میں داخل ہو کر دروازے پر ’پاکستان مردہ باد‘ کا پوسٹر چسپاں کیا، مسجد کی دیوار کو لات ماری اور ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگایا۔
پولیس کے ذریعے اُن کے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست کے بعد مذکورہ لیڈر نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں وہ معافی مانگتے ہوئے کہتے ہیں کہ اُن کا مقصد کسی کمیونٹی یا مذہب کو تکلیف پہنچانا نہیں تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’اس وقت ہم سب کے درمیان اتحاد بہت ضروری ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
اسی طرح انڈیا کے مختلف حصوں میں کئی کشمیری طلبا پر بھی حملے ہوئے ہیں یا انھیں علاقہ چھوڑ کر جانے کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔
گذشتہ ہفتے پولیس نے ہمالیائی شہر دہرادون میں ایک دائیں بازو کے رہنما کے خلاف مقدمہ درج کیا جنھوں نے کشمیری طلبا کو فوری علاقہ چھوڑ کر چلے جانے کی دھمکی دی تھی۔
ان واقعات میں مبینہ طور پر اضافے کے بعد کشمیر اور ریاست کے باہر کے کئی طلبا گروپوں نے طلبا کی مدد کے لیے ہیلپ لائن قائم کی ہے تاہم کشمیری رہنماؤں نے دعویٰ کیا ہے کہ طلبا پر تشدد کے واقعات ابھی بھی جاری ہیں۔
اسی طرح گذشتہ ہفتے شمالی انڈیا کے پہاڑی شہر مسوری میں شال فروخت کرنے کے کاروبار سے منسلک افراد کو مارا پیٹا گیا۔ اس حوالے سے ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد پولیس نے تین افراد کو گرفتار کیا تھا۔
تبصرہ نگار اپورواناد کا کہنا ہے کہ پورے انڈیا میں کشمیری طلبا کو تشدد کی دھمکیوں کا سامنا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کشمیر میں انھوں [کشمیریوں] نے ہمارے لیے اپنے گھر کھولے، یہاں ہم اُن پر حملہ کر رہے ہیں اور انھیں بھگا رہے ہیں۔ کیا اب انڈین ہونے اور انسان ہونے میں فرق ہو سکتا ہے؟‘
یاد رہے کہ اس نوعیت کے معاملات میں حکمراں جماعت اور اس سے منسلک گروہوں کا نام لیا جا رہا ہے۔ بی بی سی نے اس طرح کے معاملات پر بی جے پی کے ترجمان سے تبصرے کی درخواست کی لیکن کوئی جواب نہیں موصول ہوا۔
تاہم بدھ کو انڈیا کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے انڈین ایکسپریس اخبار کو بتایا تھا کہ پہلگام حملے سے پورا ملک تکلیف میں ہے، ’لیکن ہم متحد ہیں، چاہے ہمارا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔‘
سنگھ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے دہلی میں مقیم مبصر پروفیسر اپوروانند نے سوشل میڈیا پر تبصرہ کیا تھا کہ ’انڈینز متحد تھے۔ لیکن ہندوتوا کے ماننے والوں نے کشمیریوں پر حملہ کرکے، مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلا کر، حملہ کرکے اور یہاں تک کہ انھیں قتل کر کے اس اتحاد کو توڑا۔‘
SOURCE : BBC