SOURCE :- BBC NEWS

youtube channels

،تصویر کا ذریعہYoutube

  • مصنف, اعظم خان
  • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
  • ایک گھنٹہ قبل

انڈین حکومت نے یوٹیوب سے سفارش کر کے تقریباً 16 پاکستانی یو ٹیوبرز اور نجی ٹیلی ویژن چینلز کے یوٹیوب چینلز کو ’نیشنل سکیورٹی کے خطرے‘ کو وجہ بتا کر اپنے ملک میں بلاک کر دیا ہے۔

پہلگام میں سیاحوں پر حملے کے بعد سے انڈین حکومت نے متعدد اقدامات اٹھائے ہیں اور ان چینلز پر پابندی اس سلسلے کی ہی کڑی دکھائی دیتی ہے۔

یہ پابندی انڈیا کی وزارتِ اطلاعات و نشریات کی سفارش پر یوٹیوب کی جانب سے عائد کی گئی ہے اور یوٹیوب نے مذکورہ چینلز کے مالکان کو اس پابندی سے متعلق ایک ای میل کے ذریعے مطلع کیا ہے۔

اس ای میل میں یہ واضح طور پر درج ہے کہ ’ہمیں حکومت کی جانب سے آپ کے چینل کے مواد سے قومی سلامتی اور پبلک آرڈر‘ سے متعلق احکامات ملے جس کے بعد آپ کے چینل کے مواد پر انڈیا میں پابندی عائد کی جا رہی ہے اور آئندہ شائع ہونے والے کسی بھی مواد کو انڈیا میں بلاک کیا جائے گا۔‘

یوٹیوب نے مذکورہ چینلز کو اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا حق دیا ہے۔

‎جن ٹی وی چینلز پر پابندی عائد کی گئی ہے ان میں نیوز چینلز ڈان نیوز، سما ٹی وی، اے آر وائی نیوز، بول نیوز، جیو نیوز، جی این این ٹی وی شامل ہیں۔

اسی طرح جن انفرادی یوٹیوب چینلز پر پابندی عائد کی گئی ہے ان میں صحافیوں اور تجزیہ کاروں کے چینلز شامل ہیں۔ ان چینلز میں میں عاصمہ شیرازی، عمر چیمہ، ارشاد بھٹی، منیب فاروق اور رضی دادا کے چینلز شامل ہیں۔

سپورٹس چینلز میں سما سپورٹس اور عزیر کرکٹ شامل ہیں، جبکہ ڈیجیٹل پلیٹ فارم رفتار اور پوڈکاسٹر شہزاد غیاث کا ’دی پاکستان ایکسپیریئنس‘ بھی بلاک کیے گئے ہیں۔

INDIA

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’بیانیے کی بجائے صحافت کی کوشش کی تو پابندی لگ گئی‘

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

جن صحافیوں کے چینلز پر پابندی عائد کی گئی ہے ان میں سے چند سے ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ وہ کیا سمجھتے ہیں کہ ان پر یہ پابندی کیوں عائد کی گئی ہے اور کہیں انھوں نے یوٹیوب کی پالیسی کی خلاف ورزی تو نہیں کی۔

سینیئر صحافی اور اینکر پرسن عاصمہ شیرازی نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ انڈیا مخالف بالکل بھی نہیں ہیں۔

ان کے مطابق ان پر دو برس پہلے تک انڈین نواز اور را کی ایجنٹ جیسے الزامات لگتے رہے ہیں کیونکہ وہ ایسے واقعات کے بعد حکومت اور فیصلہ سازوں سے چند سوالات ضرور کرتی ہیں کہ ان واقعات کی روک تھام کے لیے انھوں نے کیا اقدامات کیے تھے۔

عاصمہ کے مطابق ’پہلگام واقعے پر بھی انھوں نے چند سوالات اٹھائے کہ کیسے یہ مودی حکومت کی سکیورٹی کی خامی تھی اور یہ کہ کہیں یہ سب بہار الیکشن کی وجہ سے تو نہیں کیا جا رہا ہے۔‘

ان کے مطابق ’میں اسے فالس فلیگ آپریشن نہیں کہتی مگر یہ ضرور پوچھ رہی ہوں کہ یہ کیسے اور کیوں ہوا؟‘

عاصمہ کے مطابق ’میں اپنے دھیمے مزاج کے عین مطابق اپنے یوٹیوب چینل پر یہ سوالات اٹھا رہی تھی مگر شاید انڈیا کی سرکار ہوش اور عقل والی آوازوں کو دبانا چاہتی ہے اور وہ عوام تک حقائق پہنچانا ہی نہیں چاہتی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہم نے بلوچستان میں ہونے والے جعفر ایکسپریس کے واقعے پر بھی سوالات اٹھائے تھے اور اپنی حکومت سے وجوہات پوچھی تھیں۔‘

ASMA SHIRAZI

،تصویر کا ذریعہASMA SHIRAZI

عاصمہ کے مطابق ان پر پابندی یہ ظاہر کرتی ہے کہ شاید ’مودی سرکار صرف ایک ہی طرف کا بیانیہ سننا چاہتی ہے اور وہ غیرجانبدارانہ اطلاعات تک رسائی کو ناممکن بنا رہی ہے۔‘

دی پاکستان ایکسپیریئنس چینل کے شہزاد غیاث سے جب بی بی سی نے یہی سوال کیا تو انھوں نے کہا کہ شاید انڈین حکومت یہ سیاسی رائے بنانا چاہتی ہے کہ پاکستان میں سب جہادی ہیں اور وہ بس سب کو مارنا چاہتے ہیں۔

ان کے مطابق ’جب ہم توازن سے بات کرتے ہیں تو اس سے انڈیا میں یہ تاثر جاتا ہے کہ پاکستانی صحافی تو بہت سلجھے ہوئے ہیں اور وہ جنگ کے حامی نہیں ہیں۔‘

ان کے مطابق ’اب مودی سرکار کلچرل رابطے توڑنا چاہتی ہے اور اس وجہ سے انھوں نے کھیلوں کی ویب سائٹ تک کو بھی نہیں معاف کیا۔‘

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’ہاں میں نے پہلگام پر ویڈیو ضرور بنائی مگر اس میں کہیں بھی میں نے جنگ کی اور مار دینے کی بات نہیں کی۔‘

Umar Cheema

،تصویر کا ذریعہUmar Cheema

ان کے مطابق ’انڈیا کے چینلز پر زید حامد جیسے لوگوں کو تو جگہ مل جاتی ہے مگر جو لوگ حقائق پر بات کرتے ہیں ان کی گنجائش نہیں ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’انڈیا ایسے پاکستانی لوگوں کو سامنے لا کر اپنے بیانیے کو مضبوط بنا رہا ہے جو دھمکیاں دیتے ہیں اور جنگ کی باتیں کرتے ہیں۔‘

شہزاد نے کہا کہ ’انھیں جو یوٹیوب کی طرف سے نوٹس موصول ہوا ہے اس میں اپیل کا حق بھی دیا گیا ہے۔ ان کے مطابق وہ اپیل تو ضرور کریں گے مگر انھیں انڈین حکومت کے خلاف مقدمہ جیتنے کی امید نہ ہونے کے برابر ہے۔‘

صحافی عمر چیمہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب سے پاکستان انڈیا تنازع چل رہا ہے تو میں اس موضوع پر روزانہ پروگرام کر رہا ہوں۔‘

ان کے مطابق وہ ایسے الفاظ بھی ان ویڈیوز میں استعمال کرتے ہیں ’جیسے ’انڈیا ایکسپوزڈ‘ تو شاید غصے اور پابندی کی یہ وجہ ہو سکتی ہے۔ ‘

تاہم ان کے مطابق انھوں نے ’جو آخری پروگرام کیا اس میں قائد اعظم یونیورسٹی کے ایک پروفیسر ڈاکٹر راجہ قیصر احمد کا انٹرویو تھا جنھوں نے سنہ 2019 میں مودی حکومت کی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد یہ تجزیہ دیا تھا کہ اب انڈیا کا اگلا ہدف سندھ طاس معاہدہ سے باہر نکلنا ہو گا۔‘

’حقائق تک رسائی محدود کرنا مقصد ہے‘

اس پابندی کے تناظر اور اہمیت کو سمجھنے کے لیے ہم نے چند ماہرین سے بات کی ہے اس طرح کے تنازع کے دوران میڈیا پر ایسی پابندیوں کا مقصد کیا ہوتا ہے اور کیا یہ ’انفارمیشن وارفیئر‘ کا حصہ ہے۔

ڈیجٹل حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ‘ڈیجٹیل رائٹس فاونڈیشن’ کی ایگزيکٹِو ڈائریکٹر نگہت داد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’غلط معلومات سے نمٹنے کے بہانے یوٹیوب سے پاکستانی صحافیوں اور میڈیا آؤٹ لیٹس پر پابندی لگانے کا انڈیا کا فیصلہ آزادی اظہار اور آزادی صحافت پر ایک سنگین اور پریشان کن حملہ ہے۔‘

نگہت داد کے مطابق ’انڈیا اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے وقت سینسرشپ کے بجائے شفاف اور حقائق پر مبنی صحافت ضروری ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ایسے اقدام سے تنازع کے حل کے بجائے ’پولرائزیشن‘ کی صورت میں مزید بحرانی کیفیت کو ہوا دینے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

ان کے مطابق ’یہ اقدام یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز کے کردار کے بارے میں بھی سنگین خدشات پیدا کرتا ہے، جو مناسب شفافیت کے بغیر ریاست کے مبہم مطالبات کی تعمیل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’اگر انڈیا ایک جمہوریت کے طور پر اس طرح سے بنیادی حقوق کو مجروح کرتا ہے تو یہ عالمی سطح پر ایک خطرناک پیغام دیا جا رہا ہے۔

ان کے مطابق ’سرحدوں کے پار آزادی اظہار کے تحفظ کے لیے پلیٹ فارمز کو جوابدہی کے اعلیٰ معیارات پر رکھنا چاہیے۔‘

گورنسس اینڈ پبلک پالیسی کے پروفیسر عامر ضیا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انسانی تاریخ میں انسان کی سب سے بڑی تخلیق ’انفارمیشن‘ کی ہی مختلف قسمیں ہیں۔‘

ان کے مطابق ’جس دور میں اب ہم پہنچ گئے ہیں۔ اب انسانوں کو اطلاعات کی رسائی کے متعدد ذرائع میسر آ گئے ہیں۔ اب تیز ترین ذرائع موجود ہیں۔‘

انڈیا پاکستان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ڈاکٹر عامر ضیا کے مطابق ‘یوٹیوب انفارمیشن کی رسائی دنیا بھر تک یقینی بناتا ہے، جہاں کا یہ مسئلہ ہوتا ہے وہاں ایسی ‘انفارمیشن’ کا پہنچنا شاید وہاں کے حکمرانوں کی ‘کریڈیبلٹی’ پر سوالات اٹھاتی ہے اور پھر وہ اس کی روک تھام کے لیے ایسے اقدامات اٹھاتے ہیں۔

ان کی رائے میں حقائق شاید تلخ ہوتے ہیں اور وہ جو لوگ ایک خاص بیانیہ بنا رہے ہوتے ہیں اس کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں تو ایسے میں اپنے بیان کے تحفظ کے دوڑ میں وہ انفارمیشن کا گلا ہی گھونٹ دیتے ہیں۔ ان کی رائے میں انڈیا نے کچھ ایسا ہی اقدام اٹھایا ہے اور اگر آگے چل کر پاکستان نے بھی کوئی ایسا جوابی ردعمل دیا تو وہ بھی حیرانگی کی بات نہیں ہوگی۔‘

میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کی صدف خان نے بی بی سی کو بتایا یہ سب ان کے لیے حیران کن نہیں ہے کیونکہ کشمیر کے معاملے پر انڈین سرکار نے ہمیشہ ہی بہت کنٹرول رکھا ہے۔

ان کے مطابق انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ٹیکنالوجی کا متنازع استعمال ہو یا طویل بلیک آؤٹ یا شہریوں کی نگرانی کے لیے ٹیکنالوجی کا غلط استعمال ہو، یہ سب کچھ ہم دیکھتے آ رہے ہیں۔

ان کے مطابق ’انڈیا کی یہ پالیسی رہی ہے کہ کشمیریوں کو کسی نہ کسی طرح ہراساں بھی کیا جائے اور کسی نہ کسی طرح انڈین حکومت کی پالیسی سے متضاد آرا اور خبروں کو بھی محدود کیا جائے۔‘

صدف خان کے مطابق انڈیا نے یہ بھی کوشش کی ہے کہ بالخصوص کشمیری عوام کا عالمی برادری سے کم سے کم رابطہ رہے۔

ان کی رائے میں ’ایک ایسے وقت پر اور ایک ایسے کشیدہ ماحول میں جہاں امید اور امن یقینی بنانے کے لیے پولیٹکل ایکٹوازم (سیاسی جدوجہد) کی ضرورت ہے ایسے موقع پر انڈین حکومت کا یہ اقدام خوف اور عدم اعتماد جیسے ماحول کو تقویت دے گا جو کسی کے لیے بھی اچھا نہیں ہے۔‘

SOURCE : BBC