SOURCE :- BBC NEWS

انڈیا

،تصویر کا ذریعہNCERT

  • مصنف, دلنواز پاشا
  • عہدہ, بی بی سی ہندی
  • ایک گھنٹہ قبل

انڈیا کی نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (این سی ای آر ٹی) کی طرف سے جاری کردہ ساتویں جماعت کے لیے سوشل سائنس کی نئی کتاب میں مغلوں اور دہلی سلطنت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

اب تک اس کتاب میں مغلیہ سلطنت اور دہلی سلطنت پر مختصر اسباق موجود تھے لیکن سیشن 2025/26 کے لیے سوشل سائنس کی نئی کتاب سے ان اسباق کو مکمل طور پر ہٹا دیا گیا ہے۔

این سی ای آر ٹی نے سکول کی تعلیم کے لیے قومی تعلیمی پالیسی، این ای پی اور نیشنل کریکولم فریم ورک، این ایس ایف، کے تحت نئی کتابیں تیار کی ہیں۔ تاہم کئی کلاسوں کی کتابیں ابھی تک نہیں پہنچی ہیں۔

انڈیا میں ہندو تنظیمیں تاریخ کی کتابوں میں ہندو بادشاہوں کو مناسب جگہ نہ دینے کا سوال اٹھاتی رہی ہیں۔

وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان نے ایک پرانے بیان میں کہا تھا کہ تاریخ کی کتابوں سے کچھ ہٹانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ ہندوستانی تاریخ کا مطالعہ صرف مغل حملہ آوروں کی فتوحات تک محدود نہیں رہ سکتا۔

حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم چھوا میں مراٹھا حکمران چھترپتی سنبھاجی مہاراج کی کہانی دکھائی گئی تھی۔ اس فلم کے بعد بی جے پی کے کئی لیڈروں نے مغل بادشاہ اورنگزیب کے مقبرے کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔

مرکزی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بھی اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ ’ہماری تاریخ کی کتابوں میں اورنگزیب جیسے ظالم اور بے رحم حکمران کی بھی تعریف بیان کی گئی ہے۔ اس مسخ شدہ تاریخ کی وجہ سے کچھ لوگ اورنگزیب کو ہیرو کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

India

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مغلوں اور سلاطین کا دور کتابوں سے نکال دیا گیا

ساتویں جماعت کے سوشل سائنس کے لیے اس نئی کتاب میں کل پانچ موضوعات ہیں اور ان پر 12 ابواب ہیں۔

اس کتاب کا پہلا موضوع ہے ’ہندوستان اور دنیا: زمین اور لوگ‘۔ اس کے تین اسباق ہیں: ’ہندوستان کے جغرافیائی تنوع کو سمجھنا، ہندوستان کا موسم اور آب و ہوا‘۔

اس کا دوسرا موضوع ’ماضی کے جھروکے‘ ہے۔ تاریخ کی تفصیلات کتاب کے اس حصے میں دی گئی ہیں۔

اس کے اسباق ہیں: نئی شروعات: شہر اور ریاستیں، سلطنتوں کا عروج، تنظیم نو کا دور‘، گپتا دور: تخلیقی صلاحیتوں کا دور۔

سماجی سائنس کی اس کتاب کے اگلے عنوانات ہیں۔ ’ہمارا ثقافتی ورثہ اور علمی روایات‘، ’گورننس اور جمہوریت‘ اور ’ہمارے ارد گرد معاشی علم‘۔

این سی ای آر ٹی کی اس کتاب سے مغل اور سلطنتی دور کو ہٹا کر اس میں جنوبی ہند کے حکمرانوں کو شامل کیا گیا ہے۔

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

یہی نہیں بلکہ اس نصابی کتاب میں موریہ سلطنت کے قیام کی تفصیلات بھی دی گئی ہیں۔ اس میں چندرگپت موریہ اور اشوک کے عروج کا ذکر ہے اور اس دور کے طرز زندگی کی تفصیل بھی دی گئی ہے۔

اگلا باب، جس کا عنوان ’تنظیم نو کا دور‘ ہے، شونگا، ساتواہن، یادی، چول، چیرا، پانڈیا اور کشان جیسی خاندانوں کا ذکر ہے۔ اس درسی کتاب میں گپتا خاندان کا ایک باب بھی ہے۔

اس کتاب کا تیسرا موضوع ہے ہمارا ثقافتی ورثہ اور علمی روایات۔ اس میں ایک باب ہے کہ زمین کیسے مقدس ہو گئی۔

کتاب کے اس باب میں مذہبی مقامات، زیارت گاہوں اور مقدس مقامات کی اہمیت کا مطالعہ کیا گیا ہے۔

اس سبق کا ایک حصہ کمبھ میلہ پر بھی ہے۔ اس سبق میں بتایا گیا ہے کہ اس سال یعنی 2025 میں ہونے والے کمبھ میلے میں 66 کروڑ لوگوں نے شرکت کی تھی۔

گذشتہ سیشن کی ساتویں جماعت کی این سی ای آر ٹی، سوشل سائنس کی کتاب میں دہلی کے حکمرانوں پر ایک تفصیلی سبق تھا۔

اس میں خلجی اور تغلق خاندانوں کے نظام حکومت کا ذکر تھا۔ مغلوں کے نظم و نسق پر بھی ایک سبق تھا۔

مغلوں کے سبق میں خاندان کی تاریخ اور مغلوں کی فوجی مہمات کا تفصیلی بیان تھا۔

تاہم، یہ اسباق اس درسی کتاب کے دوسرے حصے میں تھے۔ ابھی تک اس سماجی سائنس کی کتاب کا صرف پہلا حصہ ہی جاری ہوا ہے۔ این سی ای آر ٹی نے کہا ہے کہ دیگر ادوار پر مواد آنے والا ہے۔

تاریخ داں پروفیسر مردولا مکھرجی کا کہنا ہے کہ ’اگر اس کتاب کا دوسرا حصہ بھی آجائے اور اس میں مغلوں اور سلطانوں کو جگہ دی جائے، تب بھی یہ دیکھنا پڑے گا کہ انھیں کتنی جگہ دی جاتی ہے۔ قرون وسطیٰ کا دور انڈیا کی تاریخ کا ایک اہم دور ہے اور اسے تاریخ سے بالکل اسی طرح مٹا نہیں سکتا۔‘

حکومت کا ان تبدیلیوں سے متعلق کیا مؤقف ہے؟

syllabus

،تصویر کا ذریعہANI

کچھ رپورٹس میں حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس کتاب کا دوسرا حصہ آئندہ چند ماہ میں سامنے آئے گا۔ تاہم این سی ای آر ٹی کی طرف سے یہ نہیں کہا گیا ہے کہ آیا دوسرا حصہ جو سامنے آئے گا اس میں مغلوں اور دہلی کے سلطانوں کے بارے میں کوئی سبق ہوگا یا نہیں۔

ماہر تعلیم اور اتکل یونیورسٹی کے سابق پروفیسر سنجے اچاریہ کا کہنا ہے کہ ’تمام کتابیں ابھی تک ریلیز نہیں ہوئی ہیں۔ کون سے اسباق کو ہٹایا گیا ہے اور کیا نہیں ہے اس پر تب ہی بات ہو سکتی ہے جب تمام کتابیں ریلیز ہو جائیں گی۔‘

مرکزی حکومت کے ریاستی وزیر تعلیم سکانتا مجمدار سے جب این سی ای آر ٹی کی کتابوں میں تبدیلیوں اور مغل دور کو ہٹانے کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ کتاب سے مغل دور کو نہیں ہٹایا گیا ہے بلکہ جو مواد دہرایا گیا تھا اسے ہٹا دیا گیا ہے۔

این ڈی ٹی وی کے مطابق سکانت مجمدار نے کہا کہ ’مغل دور ہندوستانی تاریخ کا اہم حصہ ہے۔ لیکن دوسرے ادوار کو بھی اتنی ہی اہمیت دی جانی چاہیے۔‘

سکانتا مجمدار نے کہا کہ ’مغل دور کو ہندوستانی تاریخ کا سیاہ ترین حصہ سمجھا جاتا ہے۔ اسے پڑھایا جانا چاہیے لیکن اسے غیر ضروری طور پر نہیں دہرایا جانا چاہیے۔ متوازن نقطہ نظر کے لیے دیگر خاندانوں اور سلطنتوں کی تاریخ کو بھی مناسب اہمیت دی جانی چاہیے۔‘

NCERT

،تصویر کا ذریعہNCERT

تاریخ کی کتابوں میں مغل حکمرانوں کو زیادہ جگہ دینے اور دوسری سلطنتوں کو نظر انداز کرنے کا سوال انڈیا میں اٹھایا جاتا رہا ہے۔

اس سے پہلے سال 2023 میں بارہویں جماعت کی تاریخ کی کتاب سے مغلوں سے متعلق ابواب کو ہٹا دیا گیا تھا۔

’تھیمز آف انڈین ہسٹری‘ ​​کے عنوان سے تین حصوں میں شائع ہونے والی کتاب کے دوسرے حصے کا باب 9 بادشاہوں اور تاریخ، مغل دربار کو کتاب سے ہٹا دیا گیا۔

اس وقت جب نصابی کتابوں سے مغلیہ دور کو ہٹانے پر سوالات اٹھائے گئے تھے مگر سرکار کی طرف سے یہ جواب دیا گیا تھا کہ طلبا پر نصاب کا بوجھ کم کرنے کے لیے ایسا کیا گیا ہے۔

2002-2003 کے سیشن کی کلاس سات اور آٹھ کی نصابی کتابوں میں مغل سلطنت پر مواد کو کم کر دیا گیا۔ قرون وسطیٰ کے انڈیا سے متعلق ابواب کو تبدیل کر کے ہندو بادشاہوں کو نصابی کتب میں جگہ دی گئی۔

اس وقت گیارہویں اور بارہویں جماعت کی کتابوں سے مغلوں سے متعلق اسباق کو نہیں ہٹایا گیا تھا مگر تبدیلیاں کچھ اس طرح کی گئیں کہ جس سے مغل غاصب نظر آنے لگے۔

مغل بادشاہ اورنگزیب کو ایک ایسے حکمران کے طور پر دکھایا گیا تھا جس نے مندروں پر حملہ کیا۔ تاہم نصاب میں اورنگ زیب کے دور حکومت کے انتظامی نظام کا بھی ذکر ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ مسلم حکمرانوں کو نصابی کتب سے ہٹانے سے ہندوستانی تاریخ کا ایک اہم حصہ ختم ہو رہا ہے جس کا ہندوستانی فن، ثقافت اور طرز زندگی پر خاصا اثر تھا۔

SOURCE : BBC