SOURCE :- BBC NEWS

انڈیا بنگلہ دیش سرحد پر گزشتہ چند ماہ سے کشیدہ صورتحال

،تصویر کا ذریعہGetty Images

11 منٹ قبل

بنگلہ دیش نے انڈیا پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انڈیا میں پکڑے جانے والے مبینہ غیر قانونی بنگلہ دیشی شہریوں کو ان کے ملک کی سرحد کی جانب زبردستی بھیجا جا رہا ہے۔

یہ دعویٰ بنگلہ دیش کی سرحد کی نگرانی کے لیے وقف بارڈر گارڈ بنگلہ دیش (بی جی بی) کے کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل جبار احمد کی جانب سے سامنے آیا ہے۔

بارڈر سکیورٹی کے عہدیدار کے الزام کے بعد اب بنگلہ دیش کے امور داخلہ کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) محمد جہانگیر عالم چودھری بھی ان کی تائید کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

ڈھاکہ ٹریبیون اخبار کے مطابق سنیچر کی صبح جہانگیر عالم چودھری نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جمعے کو انڈیا کی جانب سے لوگوں کو برہمن بیڑیا بارڈر کی طرف زبردستی دھکیلنے کی کوشش کی گئی جسے سرحدی محافظوں اور مقامی باشندوں کی مدد سے ناکام بنا دیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم نے انڈیا سے درخواست کی ہے کہ وہ اس طرح کے بے دخل کرنے والے اقدامات کا سہارا نہ لے بلکہ اس کے لیے طے شدہ طریقہ کار کے مطابق عمل کرے۔‘

بنگلہ دیش کے اخبار ڈیلی سٹار کے مطابق رواں ہفتے بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ نے انڈیا کو ایک خط لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ کوئی بھی دباؤ بڑھانے کی کوشش موجودہ دو طرفہ فریم ورک کی خلاف ورزی ہے۔

ڈیلی سٹار کے مطابق وزارت خارجہ نے متنبہ کیا ہے کہ ’انڈیا کے اس اقدام سے نہ صرف سکیورٹی کو خطرات درپیش آ سکتے ہیں بلکہ بڑے پیمانے پر منفی عوامی رد عمل سامنے آنے کا بھی خدشہ ہے۔‘

بنگلہ دیش کے ان الزامات پر انڈیا کی جانب سے تاحال کسی قسم کا سرکاری ردعمل سامنے نہیں آیا ہے تاہم شمال مشرقی انڈیا کی دو ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ، آسام کے وزیر اعلیٰ ہمانتا بسوا سرما اور تری پورہ کے وزیر اعلیٰ مانک ساہا کے بیانات نے ’پش بیک‘ پالیسی پر عمل درآمد کا اشارہ دیا ہے۔

بنگلہ دیش کے امور داخلہ کے مشیر نے کیا کہا؟

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

بنگلہ دیش کے امور داخلہ کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) محمد جہانگیر عالم چودھری نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ بنگلہ دیش سفارتی اقدامات کے ذریعے اپنی سرحدوں پر پش ان واقعات کو روکنے کے لیے پرعزم ہے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’بنگلہ دیش نے ہمیشہ بین الاقوامی قوانین اور پروٹوکول کی پیروی کی ہے۔‘

جہانگیر عالم چودھری کے مطابق ’ہم نے اس معاملے میں انھیں (بھارت) آگاہ کر دیا ہے کہ اگر کوئی بنگلہ دیشی انڈیا میں غیر قانونی طور پر رہ رہا ہے تو اسے قواعد کے مطابق واپس بھیجا جائے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اسی طرح، اگر کوئی انڈین شہری بنگلہ دیش میں نامکمل یا غلط دستاویزات کے رہتا پایا جاتا تو اسے قانونی طریقہ کار کے بعد واپس بھیج دیا جائے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ خارجہ اور قومی سلامتی امور کے حکام اور روہنگیا امور کے بارے میں ملک کے چیف ایڈوائزر سفارتی سطح پر انڈیا کے ساتھ رابطے میں ہیں۔

اس سے قبل بی جی بی کی 25ویں بٹالین کے کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل جبار احمد نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ ’انھیں کچھ لوگوں کو سرحد پار بھیجنے کے منصوبے کی اطلاع ملی تھی۔‘

8 مئی کو بی جی بی نے 116 افراد کو گرفتار کیا اور دعویٰ کیا کہ انھیں انڈیا کی جانب سے کھگراچاری اور بنگلہ دیش کے شمالی ضلع کوریگرام کے قریب سرحد میں داخل ہونے پر مجبور کیا گیا۔

بنگلہ دیش کے ضلع کھگرا چاری کی ایڈیشنل کمشنر نظم الآرا سلطانہ نے بی بی سی کو بتایا کہ سات مئی کو انڈیا نے مٹیرنگا، شانتی پور اور پنچھاری سرحدوں پر کل 72 افراد کو بنگلہ دیش میں واپس دھکیل دیا تھا۔

بی جی بی نے الزام لگایا ہے کہ انڈیا بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) برہمن بیڑیا میں بیجے نگر سرحد سے لوگوں کو واپس بھیجنے کی کوشش کر رہی تھی۔

بی جی بی نے کہا کہ ایسی ہی ایک کوشش کو دو روز قبل مقامی لوگوں کی مدد سے ناکام بنایا گیا تھا۔

انڈیا کی بے دخلی کی پالیسی کیا ہے؟

سرحد پر خاردار تاریں

بنگلہ دیش کے ان الزامات کے بعد اب یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا انڈیا کی طرف سے کسی قسم کی ’پش بیک‘ (بے دخلی) کی پالیسی اپنائی جا رہی ہے؟

غیر قانونی طور پر انڈیا میں مقیم بنگلہ دیشی شہریوں کا مسئلہ دونوں ملکوں کے درمیان گزشتہ چند سالوں سے ایک حساس مسئلہ رہا ہے۔

انڈیا کی بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) انسانی سمگلنگ کا شکار ہونے والی نابالغ خواتین یا انسانی ہمدردی کی بنیاد پر شہریوں کو بنگلہ دیش واپس بھیجتی تھی لیکن ’پش بیک‘ کے لیے کوئی سرکاری پالیسی نہیں رہی ہے۔

تاہم گزشتہ ہفتے 11 مئی کو انڈیا کی ریاست آسام کے وزیر اعلیٰ ہمانتا بسوا سرما نے کہا تھا کہ انڈین حکومت بنگلہ دیشی دراندازوں سے نمٹنے کے لیے زبردستی بے دخلی کی حکمت عملی پر کام کر رہی ہے۔

ہمنتا بسوا سرما کے آفیشل سوشل میڈیا ہینڈل پر پوسٹ اس ویڈیو میں وہ کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ ’دراندازی ایک بڑا مسئلہ ہے، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اب ہم قانونی عمل میں نہیں جائیں گے۔ پہلے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس شخص کو گرفتار کرکے انڈین قانونی نظام میں لایا جائے، اسی لیے اب دراندازی کی اتنی خبریں سننے کو مل رہی ہیں کیونکہ ان کیسز میں اضافہ ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے بھی ہر سال چار سے پانچ ہزار افراد کو گرفتار کیا جاتا تھا، وہ جیل جاتے تھے، جس کے بعد انھیں عدالت میں پیش کیا جاتا۔ اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم انھیں اپنے ملک میں نہیں لائیں گے، بلکہ واپس ان کے ملک دھکیلیں گے، یہ ایک نیا رجحان ہے، یہی وجہ ہے کہ اعداد و شمار زیادہ معلوم ہوتے ہیں، لیکن پش بیک کی وجہ سے اب یہ تعداد کم ہوگی۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق رواں ہفتے تری پورہ کے وزیر اعلیٰ مانک ساہا نے بھی کہا تھا کہ ’گذشتہ سال کے مقابلے میں بین الاقوامی سرحد سے غیر قانونی طور پر تری پورہ میں داخل ہونے والے لوگوں کو حراست میں لینے کے واقعات میں 36 فیصد اضافہ ہوا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہم تینوں اطراف سے بنگلہ دیش سے گھرے ہوئے ہیں۔ سرحدی سلامتی کے معاملات میں بی ایس ایف پہلی لائن میں، تریپورہ سٹیٹ رائفلز دوسری جبکہ ریاستی پولیس تیسری لائن میں ہے۔ پچھلی حکومتوں کے برعکس اس بار پولیس کو آزادی دی گئی ہے اور ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم ان کے کام میں مداخلت نہیں کریں گے۔ پولیس امن و امان برقرار رکھنے کے لیے کام کر رہی ہے۔‘

واضح رہے کہ پہلگام حملے کے بعد انڈیا کی کئی ریاستوں میں غیر قانونی بنگلہ دیشی شہریوں کے خلاف کریک ڈاؤن تیز ہو گیا ہے۔

گجرات، راجستھان، اتر پردیش، دہلی اور اڑیسہ سمیت کئی ریاستوں میں ایسے مبینہ غیر قانونی شہریوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ حال ہی میں اس اپریشن کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔

گزشتہ تین ہفتوں میں گجرات اور راجستھان پولیس نے ایک ہزار سے زائد مبینہ غیر قانونی بنگلہ دیشی شہریوں کو گرفتار کیا ہے۔

بی بی سی کے ساتھی صحافی موہر سنگھ مینا کے مطابق راجستھان سے گرفتار کیے گئے 148 افراد کی پہلی کھیپ کو گزشتہ بدھ کو خصوصی طیارے کے ذریعے تری پورہ کے شہر اگرتلہ روانہ کیا گیا۔

ادھر بی بی سی بنگلہ نے تصدیق کی ہے کہ حال ہی میں سرحد سے بنگلہ دیش بھیجے گئے افراد میں وہ لوگ شامل ہیں جو گجرات یا راجستھان میں پکڑے گئے تھے۔

گجرات اور راجستھان پولیس نے کہا ہے کہ جن بنگلہ دیشی شہریوں کی شناخت کی تصدیق ہو گئی ہے انھیں ملک بدر کر دیا جائے گا۔

اڑیسہ سمیت بعض دیگر ریاستوں میں بنگلہ دیشی شہریوں کی گرفتاری کی اطلاعات ہیں۔ پولیس ان مبینہ غیر قانونی بنگلہ دیشی شہریوں کو ’درانداز‘ قرار دے رہی ہے۔

بنگلہ دیش کے شہر کھگرا چاری کی ایڈیشنل کمشنر نظم الآرا سلطانہ نے بی بی سی بنگلہ کو تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ بدھ کی صبح کھگرا چاری میں مٹیرنگا، شانتی پور اور پنچھاری کی سرحدوں سے کل 72 افراد کو بنگلہ دیش زبردستی وگاپس بھیجا گیا۔

کھگرا چاری کے مقامی صحافی سمیر ملک نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ ’حراست میں لیے گئے لوگوں نے انکشاف کیا کہ بی ایس ایف کے اہلکار انھیں ہوائی جہاز کے ذریعے گجرات سے تریپورہ لے گئے تھے۔ پھر وہ ایک گھنٹے تک پیدل چلے اور پھر بی ایس ایف نے انھیں سرحد کے پار بھیج دیا۔‘

اس وقت بے دحل کیے جانے والوں کو بی جی بی کی نگرانی میں سرحد پر مختلف مقامات پر رکھا گیا ہے۔

گجرات پولیس نے 25 اپریل کو احمد آباد میں سرچ آپریشن کیا۔ پولیس کے مطابق احمد آباد میں اب تک تقریباً 900 مبینہ بنگلہ دیشیوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔

احمد آباد کے علاوہ، پولیس نے سورت، راجکوٹ اور وڈودرا میں ’غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں‘ کو بھی گرفتار کیا۔

’گجرات سے تریپورہ لے جایا گیا‘

گجرات پولیس نے اپریل میں ایک ہزار سے زیادہ لوگوں کو حراست میں لیا تھا۔

بنگلہ دیش کے شہر کھگرا چاری کی ایڈیشنل کمشنر نظم الآرا سلطانہ نے بی بی سی بنگلہ کو تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ بدھ کی صبح کھگرا چاری میں مٹیرنگا، شانتی پور اور پنچھاری کی سرحدوں سے کل 72 افراد کو بنگلہ دیش زبردستی وگاپس بھیجا گیا۔

کھگرا چاری کے مقامی صحافی سمیر ملک نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ ’حراست میں لیے گئے لوگوں نے انکشاف کیا کہ بی ایس ایف کے اہلکار انھیں ہوائی جہاز کے ذریعے گجرات سے تریپورہ لے گئے تھے۔ پھر وہ ایک گھنٹے تک پیدل چلے اور پھر بی ایس ایف نے انھیں سرحد کے پار بھیج دیا۔‘

اس وقت بے دحل کیے جانے والوں کو بی جی بی کی نگرانی میں سرحد پر مختلف مقامات پر رکھا گیا ہے۔

گجرات پولیس نے 25 اپریل کو احمد آباد میں سرچ آپریشن کیا۔ پولیس کے مطابق احمد آباد میں اب تک تقریباً 900 مبینہ بنگلہ دیشیوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔

احمد آباد کے علاوہ، پولیس نے سورت، راجکوٹ اور وڈودرا میں ’غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں‘ کو بھی گرفتار کیا۔

دہلی سے گرفتار کر کے ٹرین کے ذریعے کلکتہ روانہ

بارڈر گارڈ بنگلہ دیش نے کہا ہے کہ اس نے سرحد پر گشت بڑھا دیا ہے

،تصویر کا ذریعہMehedi Nur Porosh

انگریزی اخبار دی ہندو کی ایک رپورٹ کے مطابق بی ایس ایف کی جانب سے گجرات میں گرفتار کیے گئے ’غیر قانونی‘ بنگلہ دیشی تارکین وطن کو زبردستی بے دخل کرنے سے بہت پہلے، دارالحکومت دہلی سے حراست میں لیے گئے 80 تارکین وطن کو سرکاری طور پر کلکتہ بھیج دیا گیا تھا۔

اخباری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 23 اپریل کو دہلی میں غیر ملکیوں کے علاقائی رجسٹریشن آفس نے بی ایس ایف ایسٹرن کمانڈ کو ایک خط لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ 80 لوگوں کے ایک گروہ کو کولکتہ لایا جائے گا۔

اس خط میں کلکتہ پولیس سے مدد مانگی گئی تھی کہ ان گرفتار افراد کو ٹرین کے ذریعے پہنچنے کے بعد ان کو بی ایس ایف کے حوالے کیا جائے۔

گزشتہ چند ماہ سے دہلی پولیس ایک مہم کے ذریعے غیر قانونی بنگلہ دیشی شہریوں کو گرفتار کر رہی ہے۔

جمعہ کو دہلی پولیس کی کرائم برانچ نے کہا کہ اس نے 16 غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن کو گرفتار کیا ہے۔

قانونی کارروائی سے بچنے کی کوشش

سماجی کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ حراست میں قانونی طریقہ کار پر عمل نہیں کیا جا رہا ہے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

دوسری جانب ان خبروں پر گجرات، راجستھان، دہلی پولیس اور بی ایس ایف کی طرف سے کوئی سرکاری ردعمل سامنے نہیں آیا۔

تاہم بی ایس ایف کا کہنا ہے کہ ’پش بیک‘ کا لفظ ان کی ڈکشنری میں نہیں لیکن سکیورٹی فورسز کے کچھ ذرائع نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ جن لوگوں کی شناخت حال ہی میں غیر قانونی بنگلہ دیشی شہری کے طور پر ہوئی ہے، انھیں چھوٹے اور بڑے گروپوں میں تقسیم کر کے واپس بھیجا جا رہا ہے۔

ان ذرائع نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ اگر گرفتاریاں ظاہر کی گئیں تو زیر حراست افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے گا اور پھر انھیں جیل میں ڈال دیا جائے گا۔

اس کے بعد طویل سفارتی پیچیدگیوں سے گزرنے کے بعد انھیں بنگلہ دیش واپس بھیجنے کا طریقہ اختیار کیا جائے گا۔ یہ ایک بہت طویل عمل ہے اور اس میں کئی سال لگتے ہیں۔

پناہ گزینوں کی مدد کے لیے ایک تنظیم چلانے والے آصف فاروق نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ ’ہمیں ان کی مدد کے لیے ہیلپ لائن شروع کیے ہوئے تقریباً ایک ماہ ہو گیا ہے۔ ہمیں گجرات سے تقریباً 550 اور راجستھان سے تقریباً 200 کالز موصول ہوئی ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اب تک ہم گجرات میں 68 اور راجستھان میں 109 شکایات کو حل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ صرف ایک معاملے میں ہمیں معلوم ہوا ہے کہ مغربی بنگال کے ضلع نادیہ سے گرفتار ایک شخص کو عدالت میں پیش کیا گیا اور اب وہ حراستی کیمپ میں ہے۔

SOURCE : BBC