SOURCE :- BBC NEWS

ٹرمپ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, ٹام بیٹمین
  • عہدہ, نامہ نگار برائے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ
  • ایک گھنٹہ قبل

امریکی صدر ٹرمپ ایران اسرائیل تنازعے میں ایک بار پھر اپنے موقف میں تبدیلی لاتے دکھائی دے رہے ہیں، پہلے انھوں نے اسرائیل کے ایران پر حملوں کی مکمل حمایت کی اور اب وہ تیزی سے ان تبصروں سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔

اس اہم تنازعے پر بڑھتی کشیدگی میں ان کے ابہام نے غیر یقینی کی فضا کو مزید بڑھایا ہے۔ اس سب کے دوران وہ کینیڈا میں منقعدہ جی سیون ممالک کے اجلاس سے بھی اٹھ کر چلے گئے اور انھوں نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن واپس جانے کے لیے ان کے پاس ‘اہم وجہ’ ہے۔

وائٹ ہاؤس نے ان کے جی سیون ممالک کے اجلاس سے چلے جانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ‘مشرق وسطی کی صورتحال’ اس کی وجہ ہے جبکہ بعدازاں انھوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ‘اس کا سیز فائر سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔’

اس سے قبل اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کا کہنا تھا کہ ایران پر حملے امریکہ کی ’مکمل مشاورت‘ سے کیے گئے ہیں۔

جس کے بعد یہ سوال ابھرتا ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو ٹرمپ پر اثر انداز ہو رہے ہیں اور اب ٹرمپ کیا اقدامت کر سکتے ہیں؟

ایران کے سرکاری ٹی وی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

نتین یاہو کے دباؤ کے آگے جھک جائیں اور کشیدگی کو مزید بڑھائیں

جمعرات کو تہران پر اسرائیلی میزائل حملوں کے بعد ٹرمپ نے ایران کے رہنماوں کو دھمکی دی تھی کہ وہ ان کے اسرائیلی اتحادی کی جانب سے امریکی ببموں سے لیس ‘مزید خطرناک حملوں’ کے لیے تیار رہیں۔

ہمیں ٹرمپ کے بنیادی مقصد کے متعلق علم ہے۔ نیتن یاہو کی طرح انھوں نے کہا ہے کہ ایران ایٹمی بم کی صلاحیت نہیں رکھ سکتا۔ مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے نتین یاہو کے برعکس ایران کی جوہری صلاحیت ختم کرنے کے لیے امریکہ اور ایران کے درمیان ایک معاہدے کرنا کا کہا ہے۔ ( یہ اقدام ان کے خود ساختہ بیان کردہ عالمی سطح کے ثالث کا عکاس ہے۔)

لیکن انھوں نے اس بارے میں بہت شور مچایا ہے کہ وہ اس معاہدے تک کیسے پہنچ سکتے ہیں۔ کبھی انھوں نے ایران پر طاقت کا استعمال کرنے کی بات کی تو کبھی سفارتکاری پر زور دیا۔ گذشتہ ہفتے انھوں نے یہاں تک کہا کہ ایران پر اسرائیلی حملے یا تو معاہدے میں مددگار ہوں گے یا پھر اسے ‘ختم کر دیں گے۔’

ڈونلڈ ٹرمپ کا ناقابلِ پیشن گوئی رویہ اکثر ان کے حامیوں میں بھی نظر آتا ہے جو کہ ایک سٹریٹیجک حقیقت ہے اور خارجہ امور کی نام نہاد ‘میڈ مین’ تھیوری سے مطابقت رکھتا ہے۔

یہ نظریہ وہ ہے جو پہلے ٹرمپ کے مذاکراتی حربوں کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے اور یہ تجویز کرتا ہے کہ جان بوجھ کر غیر یقینی یا غیر متوقع طور پر تنازعات میں کشیدگی مخالفوں (یا حتیٰ کہ ٹرمپ کے معاملے میں اتحادیوں) کو تعمیل کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہ طریقہ صدر رچرڈ نکسن کے سرد جنگ کے کچھ طریقوں سے بھی منسوب کیا جاتا ہے۔

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

ٹرمپ کے کچھ مشیر اور حامی ایران کے معاملے میں اس نظریے کے ‘زیادہ سے زیادہ دباؤ’ والے حصے کی حمایت کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ آخر میں دھمکیاں ہی کام آئیں گی، ان کا اصرار ہے کہ ایران مذاکرات کے لیے سنجیدہ نہیں ہے (حتی کہ سنہ 2015 میں بھی ایران نے صدر اوباما کی زیر قیادت جوہری معاہدہ کیا تھا جس سے بعدازاں ٹرمپ نکل گئے گئے۔’

نتین یاہو نے مسلسل ٹرمپ پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ ایران کے معاملے میں سفارتکاری کا راستہ اپنانے کی بجائے عسکری راستہ اپنائیں اور امریکی صدر امن کا نوبل انعام جیتنے کی خواہش کے باوجود بلاخر اس دباؤ میں آ کر ایران کی قیادت کو مزید سنگین دھمکیاں دیتے ہوئے کوئی ایسا اقدام اٹھانے پر مجبور ہو جائیں۔

اسرائیل پس پردہ ایران جنگ میں امریکی مداخلت پر بھی زور ڈال سکتا ہے تاکہ وہ اپنا کام ختم کر سکے۔ امریکہ کے پاس بنکر شکن بم ہیں اور اسرائیل کا ماننا ہے وہ بم ایران کے زیر زمین یورینیم افزودگی کے فردو جوہر پلانٹ کو تباہ کر سکتے ہیں۔

جیسا کہ دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے ویسے ہی ٹرمپ پر کانگرس میں موجود شاطر ریپبلکنز کا دباؤ بھی بڑھ رہا ہے۔ کیونکہ ایک عرصے سے رپبلکنز ایران میں ‘رجیم چینج’ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ٹرمپ کو یہ دلیل بھی دی جائے گی کہ یہ ایرانیوں کو اب کمزور ہاتھ سے ان کے ساتھ مذاکرات کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایرانی پہلے ہی اس میز پر موجود تھے، کیونکہ اتوار کو عمان میں ٹرمپ کے ایلچی سٹیو وٹ کوف کے ساتھ مذاکرات کے چھٹے دور کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ تاہم اب مذاکرات کو ختم کر دیا گیا ہے۔

نیتن یاہو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

درمیانی راستے کا انتخاب

اب تک ٹرمپ نے بارہا یہ کہا ہے کہ امریکہ ایران پر اسرائیل کے حملے میں ملوث نہیں ہے۔ مزید کشیدگی ٹرمپ کو ایک اہم اور ممکنہ طور پر ان کی میراث کے خطرات کے موڑ پر لے آئی ہے۔ امریکی بحری بیڑے اور خلیجی ممالک میں موجود ان کے دفاعی نظام پہلے ہی ایرانی میزائلوں کو ناکارہ بنانے میں اسرائیل کی مدد کر رہے ہیں۔

امریکی قومی سلامتی کونسل میں ٹرمپ کے مشیروں میں سے کچھ ممکنہ طور پر ان کو ایسا کچھ بھی کرنے سے خبردار کر رہے ہیں جو فوری طور پر ایران پر اسرائیل کے حملوں کی شدت میں اضافہ کر سکتا ہے، خاص طور پر کچھ ایرانی میزائلوں کے ساتھ جو اسرائیل اور امریکہ کے دفاعی نظام تو توڑتے ہوئے اسرائیل پر گر رہے اور کافی نقصان کر رہے ہیں۔

نیتن یاہو اب اس بات پر دلیل دے رہے ہیں ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کو نشانہ بنانے سے کشیدگی بڑھے گی نہیں بلکہ تنازعہ ختم ہو جائے گا۔

لیکن ایک نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر امریکی اعلیٰ عہدیدار نے چند میڈیا اداروں کو بتایا کہ ٹرمپ نے نتین یاہو پر واضح کر دیا کہ وہ اس اقدام کے خلاف ہیں۔

trump

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے‘ کے مطالبات کے پیش نظر پیچھے ہٹنا

ایران اسرائیل تنازعے کے دوران صدر ٹرمپ کے ذہن میں جو ایک سیاسی عنصر موجود ہو گا وہ ان کی امریکہ میں سیاسی حمایت ہے۔

کانگریس میں اب بھی بیشتر ریپبلکنز اسرائیل کی بھرپور حمایت کرتے ہیں اور اسرائیل کو امریکی ہتھیار فراہم کرنے کے سخت حامی ہیں۔ بہت سوں نے سرعام ایران پر اسرائیلی حملوں پر ساتھ دیا ہے۔

مگر ٹرمپ کی ‘امریکہ جو دوبارہ عظیم بنانے’ کی تحریک میں بھی کچھ ایسے اہم آوازیں یا افراد شامل ہے جو اب امریکہ کی ‘اسرائیل کی سیسہ پلائی’ روایتی حمایت کو مسترد کر رہے ہیں۔

گذشتہ چند دنوں کے دوران انھوں نے سوال پوچھا ہے کہ ٹرمپ کے ‘سب سے پہلے امریکہ’ کے وعدے کے باوجود امریکہ مشرق وسطیٰ کی جنگ میں دھکیلے جانے کا خطرہ کیوں مول لے رہا ہے۔

ٹرمپ حامی صحافی ٹکر کارلسن نے جمعہ کے روز ایک سخت تنقید لکھتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کے اس میں ملوث نہ ہونے کے دعوے درست نہیں ہیں، اور یہ کہ امریکہ کو ‘اسرائیل کا ساتھ چھوڑ دینا’ چاہیے۔

انھوں نے تجویز دی کہ نتین یاہو اور ان کی ‘جنگ کی بھوکی حکومت’ اس طرح کے اقدامات کر رہی ہے جو امریکی فوجیوں کو اس کی جگہ لڑائی میں دھکیل دے گے۔

کارلسن نے لکھا کہ ‘مشرق وسطی کی جنگ میں شامل ہونا ان کروڑوں امریکی ووٹرز کے منھ پر طمانچہ ہو گا جنھوں نے سب سے پہلے امریکہ کی پالیسی والی حکومت بنانے کی امید میں ووٹ دیا تھا۔’

اسی طرح ٹرمپ کے کٹر حامی امریکی نمائندہ مارجوری ٹیلر گرین نے ایکس پر پوسٹ کیا کہ ‘جو کوئی بھی امریکہ کو اسرائیل ایران جنگ میں مکمل طور پر شامل ہونے کے لیے کہتا ہے وہ ‘سب سے پہلے امریکہ یا امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے’ کے نظریے کا حامی نہیں ہے۔’

یہ ٹرمپ کے لیے کافی خطرے کی نمائندگی کرتا ہے۔اس سے ان پر دباؤ بڑھتا ہے کہ وہ اسرائیل کی جارحیت پر فاصلہ پیدا کریں اور کم از کم عوامی سطح پر ایسے اشارے موجود ہیں کہ انھوں نے ایسا جواب دیا ہے۔

ویک اینڈ پر امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے کی بحث ایک بار پھر اس وقت سامنے آئی جب انھوں نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا کہ وہ روس کے صدر پوتن کے ساتھ جنگ کے خاتمے کے مطالبے میں شامل ہیں۔ اتوار کو انھوں نے کہا کہ ایران اور اسرائیل کو ایک معاہدہ کرنا چاہیے، انھوں نے مزید کہا کہ ‘امریکہ کا ایران پر حملے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔’

ایران نے پہلے ہی امریکہ کو دھمکی دی ہے کہ اگر اس نے اسرائیل کی مدد کی تو وہ خطے میں موجود امریکی اڈوں کو نشانہ بنائے گا، اور ایسا اب ہو رہا ہے۔

اس تنازعے میں کسی بھی امریکی ہلاکت کا خطرہ ممکنہ طور پر امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے کی دلیل کو تیزی سے بڑھاوا دے گا، جس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر ٹرمپ پر دباؤ ڈالا جائے گا کہ وہ پیچھے ہٹیں اور نیتن یاہو سے جارحانہ کارروائی کو جلد انجام تک پہنچانے پر زور دیں۔

SOURCE : BBC