SOURCE :- BBC NEWS

قبرستان، مسیحی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, شکیل اختر
  • عہدہ, بی بی سی اردو
  • 3 گھنٹے قبل

انڈیا کی سپریم کورٹ نے اس حوالے سے افسوس ظاہر کیا ہے کہ ایک بیٹے کو اپنے والد کی تدفین کے لیے ملک کی سب سے اعلیٰ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔

انڈین ریاست چھتیس گڑھ کے ایک شخص نے سپریم کورٹ سے اس لیے رجوع کیا تاکہ انھیں اپنے والد کی لاش کی مسیحی رسم و رواج کے مطابق آبائی گاؤں میں دفن کرنے کی اجازت مل سکے۔

سپریم کورٹ کے لیے یہ معاملہ اس لیے تکلیف کا باعث بنا کیونکہ ریاستی حکومت اور مقامی انتطامیہ اس تنازع کو حل نہیں کر سکے۔

اس سے پہلے چھتیس گڑھ ہائی کورٹ نے گاؤں میں امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کے خدشے کے پیش نظر عرضی گزار کی درخواست مسترد کر دی تھی۔

سپریم کورٹ اس معاملے کی مزید سماعت بدھ کے روز کرے گی۔

تدفین کو امن و امان کے مسئلے سے جوڑنے پر سپریم کورٹ برہم

سبھاش باگھیل کا تعلق چھتیس گڑھ میں بستر ضلع کے چھنڈا واڑہ گاؤں سے تھا جہاں وہ ایک مقامی چرچ کے پادری تھے۔

7 جنوری کو ان کی وفات کے دو ہفتے بعد ان کے بیٹے رمیش باگھیل نے سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ ان کے والد کو گاؤں کے قبرستان میں اس جگہ دفن کرنے کی اجازت دی جائے جو مسیحیوں کے دفن کے لیے موقوف ہے۔

بستر ایک قبائلی آبادی کی اکثریت والا علاقہ ہے جہاں بیشتر لوگ مردوں کو دفناتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے ایک دو رکنی بنچ نے پیر کو اس کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر کوئی شخص ایک مخصوص گاؤں میں رہا ہے تو آخر وہ اس گاؤں میں کیوں نہ دفن ہو؟

’لاش سات جنوری سے مردہ گھر میں رکھی ہوئی ہے۔ یہ افسوس کا مقام ہے کہ ایک شخص کو اپنے والد کی تدفین کے لیے سپریم کورٹ آنا پڑے۔‘

’ہمیں یہ کہتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ نہ مقامی پنچایت، نہ ریاستی حکومت اور نہ ہی ہائیکورٹ اس مسئلے کو حل کر سکی۔ ہمیں ہائیکورٹ کے اس ریمارکس پر حیرت ہوئی ہے کہ تدفین سے امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو گا۔‘

عدالت نے یہ بھی کہا کہ ’ہمیں یہ دیکھ کر تکلیف ہو رہی ہے کہ ایک شخص اپنے والد کی تدفین نہیں کر پا رہا اور اسے سپریم کورٹ آنا پڑا۔‘

انڈیا، سپریم کورٹ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یہ ’پیچیدہ‘ معاملہ آخر ہے کیا؟

رمیش کے وکیل نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ سبھاش کا خاندان ہمیشہ سے اس گاؤں میں رہتا آیا ہے جہاں ان کی زرعی زمین بھی ہے۔

بیٹے نے اپنے بیان حلفی میں کہا کہ ان کی دو نسلوں کے لوگ گاؤں کے قبرستان میں مسیحی حصے میں دفن کیے جاتے رہے ہیں لیکن جب وہ اپنے والد کی لاش دفن کرنے کے لیے وہاں گئے تو گاؤں کے ’فرقہ پرست عناصر نے جارحانہ انداز میں تدفین کی مخالفت کی۔‘

رمیش کے وکیل کولن گنزالوس نے عدالت عظمی کو بتایا کہ ’وہ لوگ لاش کو ان کی ذاتی زمین پر بھی دفن کرنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔‘

درخواست گزار نے بتایا کہ ’جب صورتحال پُرتشدد ٹکراؤ میں بدلنے لگی تو پولیس نے مداخلت کی اور فیملی لاش گاؤں سے باہر لے جانے پر مجبور ہوئی۔ سبھاش کی لاش اس وقت سے ایک مردہ گھر میں رکھی ہے۔‘

چھتیس گڑھ کے علاقے بستر میں قبائلی آبادی کا غلبہ ہے اور وہاں مذہبی اور ثقافتی اعتبار سے تین گروپ بن گئے ہیں: ہندو قبائلی، وہ قبائلی جنھوں نے مسیحی مذہب اختیار کیا اور تیسرے فطرت کی پوجا کرنے والے۔

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

ان تینوں دھڑوں کے درمیان پچھلے کچھ سال سے مسلسل تنازعات کی صورتحال بنتی رہی ہے۔ یہ تنازع اب آپسی ٹکراؤ سے نکل کر مردوں کو دفن کرنے تک پھیل چکا ہے۔

مگر یہ اپنی نوعیت کا پہلا معاملہ نہیں۔ اس سے پہلے بھی ریاستی ہائیکورٹ میں ایک معاملہ آیا تھا جس میں عدالت عالیہ نے مردوں کو گاؤں میں دفنانے کا حکم دیا تھا۔

انڈیا میں بہت سے ایسے قبائلی اکثریت والے علاقے ہیں جن کو الگ الگ شیڈیولز میں رکھا گیا ہے۔ بستر کا علاقہ پانچویں شیڈیول میں آتا ہے۔ یہاں گرام سبھا یعنی مقامی منتخب پنچایتوں کو گاؤں سے متعلق ہر فیصلے کرنے کا اختیار ہے۔

چھتیس گڑھ کے صحافی آلوک پرکاش پوتول نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مختلف پنچایتوں نے یہ قرارداد منظور کر رکھی ہے کہ فطرت کے پوجنے والے قبائلی اور ہندو قبائلیوں کے علاوہ گاؤں میں کسی اور مذہب کی تبلیغ و ترسیل یہاں تک کہ عبادت تک نہیں کی جا سکتی۔‘

’مردوں کو دفنانے کے معاملے میں بھی الگ الگ گرام سبھاؤں نے قراردادیں منظور کر رکھی ہیں۔ کئی دفعہ تو ایسا بھی ہوا کہ مردوں کو دفنانے اور ہندو تنظیموں کی جانب سے اعتراض کے بعد انھیں قبر سے باہر نکلوایا گیا۔‘

آلوک پرکاش پوتول کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ 15 سال کے دوران چھتیس گڑھ میں مسیحی قبائلی اور ہندو قبائلیوں کے درمیان ٹکراؤ کی صورتحال میں اضافہ ہوا۔ ہندو تنظیموں کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا۔ تبدیلئ مذہب کے واقعات میں تیزی آئی۔ چرچوں پر حملے بڑھے اور ہندو تنظیموں کا اثر بڑھا۔ پچھلے کچھ سال میں مسیحی پیروکاروں، پادریوں اور متعلقہ لوگوں پر حملوں کے واقعات میں اضافہ ہوا۔‘

ہندو تنظیمیں یہ الزام لگاتی ہیں کہ مسیحی مشنری قبائلیوں کو لالچ کے ذریعے مسیحی بنا رہے ہیں۔ پچھلے کچھ سال میں قبائلی علاقوں میں مسیحی اثرات بڑھے ہیں۔

لیکن صحافی پوتول نے بتایا کہ 2001 کی مردم شماری کے مطابق ریاست میں مسیحیوں کی آبادی 1.92 تھی جو 2011 کی آخری مردم شماری میں 1.92 ہی رہی یعنی اس میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔

وہ کہتے ہیں کہ قبائلی خطے میں صورتحال ایسی ہو گئی ہے کہ ’جن لوگوں نے مسیحی مذہب اختیار کر لیا، ان کا گاؤں سے بائیکاٹ کر دیا گیا۔ گاؤں میں لوگ ان سے بات نہیں کرتے، ان سے خرید و فرخت پر پابندی ہے۔ ان کے کھیتوں میں کام کرنے کے لیے کوئی مزدور تیار نہیں ہوتا۔ ان سے کوئی دکاندار لین دین نہیں کرتا۔‘

’یہ صورتحال اب اور پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔‘

SOURCE : BBC