SOURCE :- BBC NEWS

لاہور دلی سازش کیس

،تصویر کا ذریعہbridgemanimages/Public Domain

  • مصنف, وقار مصطفیٰ
  • عہدہ, صحافی، محقق
  • ایک گھنٹہ قبل

23 دسمبر 1912 کو وائسرائے اور گورنر جنرل لارڈ چارلس ہارڈنگ اور اُن کی اہلیہ ونیفریڈ کا کلکتہ سے منتقلی کے بعد برطانوی ہندوستان کے نئے دارالحکومت دِلی میں داخلہ شاندار تھا۔

لیکن دِلی کے ریلوے سٹیشن پر شاہی ریاستوں کے حکمرانوں سے سلامی لے کر لال قلعے کی طرف جلوس کی شکل میں جاتے ہاتھی پر سوار وائسرائے ہارڈنگ کو اچانک بے چینی کا احساس ہوا۔

اُن کی یادداشتوں ’مائی انڈین ایئرز‘ سے پتا چلتا ہے کہ انھوں نے اس موقع پر اپنی اہلیہ ونیفریڈ سے کہا کہ ’میں کافی بُرا محسوس کر رہا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ کچھ خوفناک ہونے والا ہے۔‘

اہلیہ ونیفریڈ نے جواب دیا ’بس آپ تھکے ہوئے ہیں۔ اور آپ کو ایسی رسمیں بھی تو ہمیشہ ناپسند رہی ہیں۔‘

جوزف مکوید اپنی کتاب ’فیوجیٹو آف ایمپائر‘ میں لکھتے ہیں کہ سخت حفاظتی اقدامات میں ’یہ جلوس سٹیشن سے قلعے کے درمیان تقریباً آدھا فاصلہ طے کر چکا تھا۔ سڑک کے ساتھ ساتھ اور ملحقہ عمارتوں کی کھڑکیوں سے باہر لوگوں کا ہجوم تھا۔ شور ایسا تھا کہ کان پڑی آواز سُنائی نہیں دیتی تھی۔‘

’جیسے ہی وہ ہاتھی جس پر ہارڈنگ اور اُن کی اہلیہ سوار تھے پنجاب نیشنل بینک کی عمارت کے سامنے سے گزرا، کوئی چیز دھب سے ہودے (ہاتھی پر سواری کے لیے رکھا جانے والا چبوترہ) کے پچھلے حصے سے ٹکرائی۔‘

’اور ایک لمحے بعد ایک بم ’خوفناک طاقت کے ساتھ‘ پھٹا۔ دھماکے کی آواز میلوں تک سنی گئی۔‘

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

وائسرائے کی اہلیہ ونیفریڈ زور سے آگے کی طرف گریں لیکن انھیں کوئی چوٹ نہیں آئی۔

وائسرائے ہارڈنگ کو پہلے تو یہ احساس نہیں ہوا کہ وہ زخمی ہوئے ہیں لیکن بعد میں انھوں نے محسوس کیا کہ ’جیسے کسی نے مجھے پیٹھ میں بہت زور سے کچھ مارا ہو، اور مجھ پر اُبلتا ہوا پانی ڈالا گیا ہو۔‘

ہارڈنگ کی کمر میں تقریباً چار انچ لمبے گہرے زخم سے اُن کے کندھے کا بلیڈ دکھائی دینے لگا تھا۔ گردن کے دائیں جانب ایک اور دائیں کولھے پر چار زخم آئے۔ ہودے کی چاندی کی پلیٹوں کی بدولت ہارڈنگ مہلک زخموں سے محفوظ رہے۔

مکوید لکھتے ہیں کہ دھماکے کی شدت سے وائسرائے کا ہیلمٹ گِر گیا، اور اگر وائسرائے ننگے سر ہوتے وہ دھماکے کی شدت سے تقریباً یقینی طور پر ہلاک ہو جاتے۔

اس واقعے میں ہارڈنگ اور اُن کی اہلیہ کو سایہ دیتا ایک خدمت گار فوری ہلاک ہو گیا۔ ایک ذاتی ملازم کے کان کے پردے پھٹ گئے، اُس کا سُرخ کوٹ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور اسے درجنوں معمولی زخم آئے۔

بم کے ٹکڑوں سے کم از کم 20 راہگیر زخمی ہوئے اور پریڈ دیکھنے کی غرض سے سڑک پر بیٹھا ایک 16 سالہ لڑکا موقع پر ہی دم توڑ گیا۔

ہاتھی اور اس کا مہاوت بڑی حد تک محفوظ ہی دکھائی دیے۔ لیکن خوفزدہ ہاتھی نے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا۔ زخمی وائسرائے ہارڈنگ کو ہاتھی سے نیچے اُتارنے کے لیے لکڑی کے کریٹ رکھنا پڑے۔

بم دھماکے کی تحقیقات: جاسوس پھیل گئے، کئی شہروں میں گرفتاریاں

اس کے بعد شروع ہونے والی تحقیقات کی قیادت ڈیوڈ پیٹری کو سونپی گئیں۔ تفتیش کاروں کا ابتدائی اتفاق رائے یہ تھا کہ حملے میں استعمال ہونے والا بم پنجاب نیشنل بینک کی عمارت میں سے پھینکا گیا تھا۔

جائے وقوعہ کے معائنے سے معلوم ہوا کہ بم دیسی ساختہ مگر جدید ترین تھا۔ بالکل ویسا ہی جیسا کہ بنگال میں ہونے والے دو سابقہ حملوں میں استعمال کیا گیا تھا۔

مکوید کے مطابق مقامی پولیس نے بینک سے باہر نکلنے کے راستے پر موجود افراد سے پوچھ گچھ کی۔

وہ بتاتے ہیں کہ موقع پر موجود ’خواتین کی تلاشی کرنے کے لیے سینٹ جانز ایمبولینس سے خواتین نرسوں کو لایا گیا اور یہ یقینی بنایا گیا کہ کوئی بھی مرد خاتون کے بھیس میں نہ ہو۔ دوسرے شہروں کو حملے سے متعلق تار بھیجے گئے۔‘

’شہر سے باہر جانے والے ہر شخص سے پوچھ گچھ کے لیے دلی کے ریلوے سٹیشنوں کو گھیرے میں لے لیا گیا۔ سراغ رساں اور پولیس کے جاسوس شہر بھر میں پھیل گئے۔‘

تفتیش کاروں نے حملے سے پہلے اور اس کے بعد کے دنوں میں ’قریبی دفاتر کے ذریعے بھیجے گئے یا موصول ہونے والے ہزاروں ٹیلی گرامز کا جائزہ لیا۔‘

پولیس نے علی گڑھ، لکھنؤ، بنارس، پشاور، شملہ، حیدرآباد، اندور، میرٹھ، کراچی اور یہاں تک کہ خلیج فارس کے آبادان جیسے دور دراز شہروں میں سو سے زیادہ متفرق تحقیقات، نگرانی کی کارروائیاں اور گرفتاریاں کیں۔ لیکن اس سازش کا کوئی سِرا نہ مل پایا۔

تحقیقات کی قیادت کرنے والے ڈیوڈ پیٹری اُمید کھونے لگے تھے کہ اہم معلومات بالآخر سامنے آ گئیں۔

دلی-لاہور سازش کیس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

لاہور میں دھماکے سے متعلق نئی معلومات ملیں

17 مئی 1913 بروز ہفتہ رات 8:30 بجے لاہور کی جم خانہ لائبریری کے ملازم رام پدرتھ دن کی آخری ڈیلیوری یعنی لائبریری کے اعزازی سیکریٹری میجر سدرلینڈ کے لیے کتابوں کا ایک پارسل لیے عمارت سے باہر نکلے۔

ڈیلیوری مکمل ہو گئی تو لائبریرین نے پدرتھ کو گھر جانے کی اجازت دے دی۔

مکوید لکھتے ہیں کہ ’لارنس گارڈنز کے گراؤنڈ کے کنارے پر اپنی قیام گاہ کی طرف پیدل جاتے ہوئے پدرتھ نے یورپی حکام کی اوپن ایئر بار کے پاس سے تھوڑا سا لمبا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔‘ یاد رہے کہ اب لاہور کے سابقہ لارنس گارڈن کا نام ’باغِ جناح‘ ہے۔

’لارنس اور منٹگمری ہال سے زرا آگے، سڑک پر پڑے ایک لپٹے ہوئے پیکٹ پر یا تو اُن کا پاؤں آیا یا انھوں نے اسے اٹھایا اور غلطی سے گرا دیا، یا اسے لات ماری۔ کچھ بھی ہو ا ہو، اس میں رکھا گیا بم زبردست طاقت کے ساتھ پھٹ گیا۔‘ لارنس اور منٹگمری ہالز کو سنہ 1984 میں ’قائد اعظم لائبریری‘ بنا دیا گیا تھا۔

اس دھماکے سے موقع پر ہی پدرتھ کی ٹانگ جل گئی، دو لمبی سوئیاں اُن کے پیٹ میں پھنس گئیں، اور ٹن اور شیشے کے ٹکڑوں نے ان کے جسم کے اعضا کو چھلنی کر دیا۔

یہ دھماکہ ’اتنا زوردار نہیں تھا کہ سڑک میں گڑھا پڑ جائے۔ لیکن تفتیش کاروں کو بعد میں دھماکے کی جگہ سے 30 فٹ تک قریبی سٹریٹ لیمپ اور کھجور کے درختوں سے سوئیاں، کیلیں، شیشہ اور دیگر ملبہ ملا۔‘

جب دھماکے کے باعث پدرتھ کی سڑک پر موت ہوئی تو عین اسی موقع پر موسلا دھار بارش ہونے لگی۔

جائے وقوعہ کے معائنے سے یہ بات سامنے آئی کہ بم اُسی نوعیت کا تھا جو پہلے کئی حملوں میں استعمال ہوا تھا جس میں سب سے اہم وائسرائے ہارڈنگ پر حملہ تھا۔

بارش نے جائے وقوعہ پر زیادہ تر شواہد کو دھو ڈالا تھا لیکن دھماکے سے پدرتھ کی دائیں ٹانگ اور پاؤں پر پکرک ایسڈ کی مخصوص پیلے رنگ کی چھوٹی لکیریں پڑ گئی تھیں اور لاہور کے سول سرجن کو اُن کی بائیں ٹانگ کی جِلد پر آرسینک نامی مادے کی باقیات ملی تھیں۔

اس طرح یہ بم کیمیائی اعتبار سے وائسرائے اور اُن کی اہلیہ پر حملے میں استعمال ہونے والے بم سے ملتا جلتا تھا۔

’صاحبوں‘ کے قتل کا منصوبہ

لاہور بم دھماکے کے پیچھے محرکات جاننے کی کوشش میں تفتیش کار ڈیوڈ پیٹری نے محسوس کیا کہ آسام میں سابق اسسٹنٹ کمشنر لارنس گورڈن اُس وقت نزدیکی اوپن ایئر بار میں موجود تھے۔

اسسٹنٹ کمشنر لارنس گورڈن 27 مارچ کو پنجاب منتقل ہونے سے پہلے مولوی بازار (سلہٹ) میں اپنی رہائش گاہ پر ایک حملے کا نشانہ بن جاتے مگر بم وقت سے پہلے پھٹ گیا۔

پیٹری نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مشرقی اور مغربی بنگال کے ساتھ ساتھ پورے شمالی ہند اور پنجاب میں مختلف انقلابی آپس میں رابطے میں تھے اور ممکنہ طور پر کوئی ایک فرد یا گروہ مختلف حملوں کے لیے بم فراہم کر رہا تھا۔

بعدازاں ملنے والے شواہد کی بنیاد پر پولیس نے کلکتہ میں ایک عمارت پر چھاپا مارا، چار افراد کو گرفتار کیا گیا اور بم بنانے کا مواد اور نوآبادیاتی مخالف لٹریچر سمیت بہت سے شواہد قبضے میں لیے گئے۔

اہم بات ان کتابچوں کی دریافت تھی جو حال ہی میں لاہور، دلی اور یو پی میں تقسیم کیے گئے تھے۔

وارنٹ حاصل کرتے ہوئے پیٹری نے مقامی حکام کو 16 فروری کو امیر چند نامی شہری کے گھر سمیت دلی کے متعدد مقامات پر بیک وقت چھاپے مارنے کی ہدایت کی۔

پولیس کو انقلابی لٹریچر کا ایک ذخیرہ، روئی میں لپٹے ہوئے بم کے لیے ڈیٹونیٹر، پکرک ایسڈ اور ایسے کاغذات ملے جن میں ’صاحبوں‘ کو قتل کرنے کے منصوبے کی تفصیل تھی۔

لیکن اہم دریافت ایک شخص کی شناخت تھی جن کا نام راش بہاری بوس تھا اور جو حال ہی میں امیر چند کے ساتھ رہے تھے۔

دستاویزات سے پتا چلا کہ بوس انقلابی سرگرمیوں کے دو بڑے مراکز دلی اور لاہور کے درمیان کلیدی ربط فراہم کرتے تھے۔

پولیس کو اودھ بہاری کے نام لکھا گیا ایک خط بھی ملا، بعدازاں بہاری نے پولیس کی جانب سے کی گئی پوچھ گچھ کے دوران تسلیم کیا کہ یہ خط انھیں لاہور کے ایک طالب علم دینا ناتھ نے بھیجا تھا۔

مقامی حکام نے انھیں بھی فوری طور پر گرفتار کر لیا۔ دینا ناتھ نے انکشاف کیا کہ راش بہاری بوس بنگال کے انقلابیوں کے ساتھ رابطے میں تھے اور یہ کہ بوس ہی نے دلی اور لاہور میں بم فراہم کیے تھے۔

یہ بھی واضح ہو گیا کہ ایک بنگالی نوجوان بسنتا کمار بسواس، جو پہلے اودھ بہاری کے ساتھ رہتے تھے، لاہور بم دھماکے کے ذمہ دار تھے اور یہ کہ بوس ہی نے بسواس کو بھرتی کیا تھا۔

جب قاتل نے قاتلانہ حملے کی مذمت کی

جنوری کے آخر میں وائسرائے ہارڈنگ ہمالیہ کے دامن میں واقع دہرہ دون میں صحتیابی کے لیے گئے۔

وہ اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ وہاں وہ ایک گھر کے قریب سے گزرے جہاں کئی ہندوستانیوں نے گیٹ کے باہر انھیں پُرجوش سلام کیا۔

وائسرائے ہارڈنگ نے متجسس ہو کر پوچھا کہ ’یہ کون لوگ ہیں؟‘ انھیں بتایا گیا کہ جس شخص نے سلامی کی قیادت کی تھی وہ ایک بنگالی تھا جس نے صرف دو دن پہلے وائسرائے پر قاتلانہ حملے کی مذمت کے لیے ایک عوامی اجتماع کا اہتمام کیا تھا۔

ہارڈنگ نے ممکنہ طور پر شکر گزاری کی کیفیت محسوس کی لیکن بعد میں انھیں معلوم ہوا کہ یہ بنگالی کوئی اور نہیں بلکہ راش بہاری بوس تھے جنھوں نے انھیں تقریباً قتل ہی کر دیا تھا۔

بسواس کو 26 فروری 1914 کو پوراگچھا، ناڈیا سے اُس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ اپنے والد کی آخری رسومات ادا کرنے گئے تھے۔ ان پر لاہور کے لارنس گارڈن میں بھی بم پھینکنے کا الزام تھا۔

دلی، لاہور سازش مقدمے کی سماعت 23 مئی 1914 کو دلی میں شروع ہوئی۔ مقدمے میں امیر چند، اودھ بہاری اور بھائی بالمکند کو سزائے موت سنائی گئی۔ بسنتا بسواس کو ابتدائی طور پر عمر قید کی سزا دی گئی لیکن اپیل کے بعد انھیں بھی پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔

چرن داس کو عمر قید کی سزا ہوئی۔ وہ انقلابی پارٹی کے رکن تھے اور خفیہ خط لکھنے کے لیے انقلابیوں کے لیے ڈاک کے پتے جمع کرتے تھے۔ چرن داس نے انقلابیوں کو پولیس کی نظروں سے دور رہائش فراہم کی اور ان کی مدد کے لیے چندہ اکٹھا کیا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد سیاسی مقدمات پر نظرثانی کے بعد ان کی عمر قید پانچ سال میں تبدیل کر دی گئی۔ لالا ہنومت سہائے کو جزائر انڈمان میں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

دلی-لاہور سازش کیس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بوس فرار ہو کر جاپان چلے گئے

لیکن بوس بچ نکلے۔ اب وہ ہندوستان میں سب سے زیادہ مطلوب آدمی تھے۔

نورالہدیٰ، ’علی پور بم کیس‘ میں لکھتے ہیں کہ راش بہاری بوس تقریباً تین سال تک کامیابی کے ساتھ گرفتاری سے بچتے رہے اور پھر سنہ 1915 میں جاپان فرار ہو گئے۔

اپنے ساتھیوں کی پھانسی کے بعد راش بہاری بوس زیر زمین چلے گئے اور بنارس (اب واراناسی) سے باہر مقیم رہے۔ اس دوران میں انھوں نے عملی طور پر اپنے چیف ’لیفٹیننٹ‘ سچندر ناتھ سانیال کی مدد سے کارروائیوں کو مربوط کرتے ہوئے انگریزوں کے خلاف ملک گیر مسلح جدوجہد کی قیادت سنبھالی۔

بنارس میں وی کے پنگلے کی گرفتاری اور برطانوی کریک ڈاؤن کے بعد راش بہاری بوس نے پی این ٹیگور (رابندر ناتھ ٹیگور کے ایک رشتہ دار) کا روپ دھارا اور جاپان فرار ہو گئے۔

جاپان، پہلی عالمی جنگ کے دوران میں، برطانیہ کا اتحادی تھا اور انھیں ملک بدر کرنے میں تعاون کرنے کے لیے تیار تھا۔ تاہم جاپانی معاشرے کے کچھ طبقے ان کے مقصد سے ہمدردی رکھتے تھے۔

راش بہاری بوس نے تین سال کی مدت میں متعدد بار اپنی شناخت اور رہائش تبدیل کی۔ وہیں شادی کی اور اُن کے دو بچے ہوئے اور سنہ 1923 تک وہ جاپانی شہری بن گئے۔

مؤرخ آر وی سمتھ کے مطابق لالا ہنومت سہائے کو کالا پانی میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی لیکن بالآخر اپیل پر لاہور میں قید بامشقت کے بعد معاف کر دیا گیا۔

’یہ راز میرے ساتھ قبر میں جائے گا‘

اپنے ایک مضمون ’چاندنی چوک کا انقلابی‘ میں سمتھ لکھتے ہیں کہ سہائے سے اُن کی آخری بار سنہ 1965 میں ملاقات ہوئی تھی۔ سردیوں کا موسم تھا اور وہ کمبل میں لپٹے گاجر کا حلوہ کھا رہے تھے مگر بہت کمزور لگ رہے تھے۔

چاندنی چوک میں وہ کمرہ جس میں انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گزارا اُن انقلابیوں کا ٹھکانا رہا تھا جنھوں نے وائسرائے لارڈ ہارڈنگ کو قتل کرنے کا عہد کیا تھا۔

لالا جی نے اپنے کمرے کے قریب والی بالکونی کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اُن کی والدہ اور خالہ سمیت اُن کے خاندان کی خواتین بھی وہاں کھڑی وائسرائے کا جلوس دیکھ رہی تھیں۔ جب بم پھٹا تو سب اندر بھاگے اور کچھ دیر بعد وہ بھی اُن کے ساتھ ہو گئے کیونکہ وہ اُن کے ملوث ہونے سے بے خبر تھے۔

تاہم، انھیں یاد آیا کہ پولیس چھاپے کے دوران میں انھوں نے ایک چارپائی کے نیچے بیٹھ کر کھچڑی کھائی تھی، اپنی ماں کی ساڑھی اپنے سر پر لپیٹ کر اپنی شناخت چھپانے کے لیے۔

دوسرے ’سازشی‘ پنجاب نیشنل بینک کی عمارت میں چھپ گئے تھے۔

سمتھ کے مطابق ہارڈنگ بم کی سازش کلکتہ سے دارالحکومت کی دلی منتقلی کا براہ راست نتیجہ تھی۔ ایسا نہیں ہے کہ دلی کے لوگوں نے اس اقدام کو پسند نہیں کیا لیکن وہ انگریزوں کے اس سے فائدہ حاصل کرنے کے مخالف تھے۔

مکوید لکھتے ہیں کہ بم کس نے پھینکا اس پر متضاد باتیں ہیں، ریکارڈ میں بوس اور بسواس دونوں کا نام ہے۔

عام طور پر مانا جاتا ہے کہ بوس ہی نے ہارڈنگ پر بم پھینکا تھا جبکہ بسواس نے ایک خاتون کے بھیس میں بم چھپایا تھا۔ لارڈ ہارڈنگ کے بیان سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔

لیکن سمتھ لکھتے ہیں کہ مرتے دم تک سہائے نے اس شخص کا نام ظاہر نہیں کیا جس نے حقیقت میں بم پھینکا تھا۔ انھوں نے اعلان کیا کہ ’یہ راز میرے ساتھ قبر میں جائے گا۔‘

اور انھوں نے اپنی بات کی لاج رکھی۔

SOURCE : BBC