SOURCE :- BBC NEWS

محمد یونس، مودی، حسینہ واجد

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, شکیل اختر
  • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دلی
  • ایک گھنٹہ قبل

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے انڈیا کو ایک سفارتی پیغام بھیجا ہے جس میں انڈیا سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ معزول وزیر اعظم شیخ حسینہ کو بنگلہ دیشی حکومت کے حوالے کر دے۔

بنگلہ دیش میں خارجہ امور کے مشیر توحید حسین نے میڈیا کو بتایا کہ ‘بنگلہ دیش انھیں عدالتی عمل کے لیے واپس لانا چاہتا ہے۔’

انڈیا کی وزارت خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ بنگلہ دیش نے شیخ حسینہ کی حوالگی کے بارے میں باضابطہ سفارتی خط بھیجا ہے لیکن وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا کہ وہ اس مرحلے پر اس سے زیادہ کچھ اور نہیں کہہ سکتے۔

یاد رہے کہ بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ ملک میں اپنی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج اور پر تشدد مظاہروں کے بعد پانچ اگست کو ڈھاکہ سے ایک طیارے کے ذریعے دلی آگئی تھیں۔

اس وقت سے وہ دلی میں مقیم ہیں۔ ابتدائی طور پر اس طرح کی خبریں آئی تھیں کہ وہ دلی سے برطانیہ چلی جائیں گی لیکں وہ کسی وجہ سے وہاں نہیں جا سکیں۔

شیخ حسینہ اور ان کی جماعت عوامی لیگ کو دلی کے بہت قریب سمجھا جاتا ہے۔

بنگلہ دیش میں اگست کے عوامی احتجاج اور مظاہروں کے بعد وہاں کی عبوری حکومت نے ابتدائی تفتیش کے بعد معزول وزیر اعظم کے خلاف سینکڑوں طلبہ کی ہلاکت اور دوسرے معاملات میں کئی مقدمات درج کیے ہیں۔

انڈیا سے ان کی قربت اور یہاں پناہ لینے سے بنگلہ دیش کے عوام میں انڈیا کے خلاف شدید ناراضگی کے جذبات پائے جاتے ہیں۔

محمد یونس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’بنگلہ دیش نے عوام کو دکھانے کے لیے محض خانہ پوری کی ہے‘

انڈیا اور بنگلہ دیش کے درمیان مجرموں اور مطلوبہ افراد کی حوالگی کا معاہدہ ہے۔ انڈیا کی حکومت یہ توقع کر رہی تھی کہ کسی نہ کسی مرحلے پر بنگلہ دیش کی عبوری حکومت شیخ حسینہ کی حوالگی کا مطالبہ کرے گی۔ اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ انڈیا انھیں ڈھاکہ کے حوالے کرے گا۔

جنوبی ایشیائی امور کی تجزیہ کار نروپما سبھرامنین کا خیال ہے کہ ‘بنگلہ دیش کو بھی پتا ہے کہ انڈیا شیخ حسینہ کو اس کے حوالے نہیں کرے گا۔ اگر ڈھاکہ نے اس سلسلے میں قانونی قدم بھی اٹھایا تو اس عمل میں کئی برس لگ جائیں گے۔’

وہ کہتی ہیں کہ ڈھاکہ نے دراصل یہ قدم اپنے عوام کو دکھانے کے لیے اٹھایا ہے کہ اس نے شیخ حسینہ کی حوالگی کے لیے انڈیا کو نوٹس جاری کیا ہے۔ ‘اس نے محض رسمی خانہ پوری کی ہے، درخواست کے لیے معاہدے کے قانونی ضابطوں پر بھی عمل نہیں کیا ہے۔’

محمد یونس کی قیادت میں ڈھاکہ میں عبوری حکومت کے قیام کے بعد انڈین میڈیا میں نئی حکومت کو ایک ریڈیکل اسلام پرست اور انڈیا مخالف اور ہندو مخالف حکومت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

یہاں میڈیا میں مسلسل ایسی خبریں دکھائی گئیں جن میں ملک کے اقلیتی ہندو طبقے اور ان کے مندروں پر حملے کے مناظر تھے۔

انڈیا کی وزارت خارجہ نے بھی گزشتہ مہینوں میں کئی بار بنگلہ دیش کے اقلیتی ہندوؤں اور ان کے مندروں پر ہونے والے حملوں کے بارے میں تشویش ظاہر کی۔

انڈیا اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتا ہوا تناؤ

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

ابھی گذشتہ ہفتے انڈیا اور بنگلہ دیش کے درمیان ایک اور تنازع اس وقت اُٹھتا ہوا نظر آیا تھا جب بنگلہ دیشی حکومت کے سربراہ محمد یونس کے مشیر محفوظ عالم نے فیس بُک پر ایک پوسٹ شیئر کی تھی جس میں انڈیا کی تین ریاستوں تریپورہ، مغربی بنگال اور آسام کو بنگلہ دیش کا حصہ دکھایا گیا تھا۔

تاہم تنقید کے بعد محفوظ عالم نے یہ پوسٹ فیس بُک سے حذف کر دی تھی۔

انڈیا میں سٹریٹجک امور کے ماہر براہما چیلانی نے محفوظ عالم کی فیس بُک پوسٹ کا سکرین شاٹ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ‘محمد یونس نے سابق امریکی صدر بِل کلنٹن کی موجودگی میں محفوظ عالم کا تعارف بطور شیخ حسینہ کی حکومت گرانے کے ماسٹر مائنڈ کے کروایا تھا۔’

‘اب یہ اسلامی طالب علم رہنما اکھنڈ بنگلہ دیش چاہتے ہیں جس میں یہ انڈِیا کے بھی کچھ حصے شام کرنا چاہتے ہیں۔ محفوظ عالم کو محمد یونس کی حکومت میں وزیر کا درجہ دیا گیا ہے۔’

گذشتہ ہفتے انڈیا کی وزارتِ خارجہ سے بھی محفوظ عالم اور ان کی فیس بُک پوسٹ کے حوالے سے سوال پوچھا گیا تھا اور انھوں نے جواب دیا تھا کہ: ‘جہاں تک ہمیں معلوم ہے وہ فیس بُک پوسٹ ڈیلیٹ کر دی گئی تھی۔ ہم خبردار کرنا چاہتے ہیں کہ ایسے بیانات دیتے وقت محتاط رہا جائے۔’

‘بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات سے شمال مشرق ریاستوں کی سیکورٹی جڑی ہے’

خارجہ امور کی تجزیہ کار نینیما باسو کہتی ہیں کہ ‘وہاں ہندوؤں پر حملے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ بیشتر ہندو عوامی لیگ کے حامی ہیں۔ بیشتر حملے دراصل عوامی لیگ کے حامی ہندوؤں پر ہوئے ہیں۔ یہ حملے بڑے پیمانے پر مسلمانوں پر بھی ہوئے ہیں۔ اس لیے ان کی نوعیت مذہبی نہیں سیاسی ہے۔ لیکن یہاں جس طرح اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اس سے یقیناً دونوں ممالک کے تعلقات پر اثر پڑا ہے۔’

نینیما عبوری حکومت کے قیام کے بعد بنگلہ دیش کا دورہ کر چکی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہاں کے ہندو ملک کے بدلتے ہوئے نظام میں اپنے جمہوری حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘ایسا نہیں ہے کہ اگر بنگلہ دیش کے ہندوؤں کو موقع مل جائے تو وہ سب انڈیا آ جائیں گے۔ انھیں اگر موقع ملے تو وہ سب امریکہ اور یورپ کا رخ کریں گے۔انھیں انڈیا سے کوئی خاص رغبت نہیں ہے۔’

عبوری حکومت کے قیام کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات بہت خراب ہو چکے ہیں۔ تو کیا اب شیخ حسینہ کی حوالگی کے مطالبے سے یہ تعلقات اور بھی خراب ہوں گے؟

تجزیہ کار نروپما سبھرامنین کہتی ہیں کہ اس کا دونوں ملکوں کے تعلقات پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘انڈیا کے خارجہ سیکریٹری وکرم مشری نے حال میں ڈھاکہ کا دورہ کیا۔ یہ ایک طرح سے دلی کا یہ اعتراف تھا کہ شیخ حسینہ اب مستقبل قریب میں اقتدار میں نہیں آنے والی ہیں اور ان کی جماعت عوامی لیگ کو دوبارہ ایک فعال اور مقبول پارٹی بننے میں بہت وقت لگے گا۔ اس لیے انڈیا کے سامنے یہی راستہ ہے کہ وہ عبوری حکومت کے ساتھ اپنے روابط بہتر کرے۔’

ان کا مزید کہنا ہے کہ یہ صرف اس لیے ضروری نہیں ہے کہ بنگلہ دیش میں ایک بڑی ہندو اقلیت ہے بلکہ اس لیے بھی بنگلہ دیش سے اچھے تعلقات رکھنے ہوں گے کیونکہ اس سے ملک کی شمال مشرقی ریاستوں کی سیکورٹی جڑی ہوئی ہے۔ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا بھی سوال ہے۔ خارجہ سکریٹری کا ڈھاکہ کا دورہ اس سمت پہلا بڑا قدم ہے۔’

بنگلہ دیش

،تصویر کا ذریعہANI

انڈیا میں سرکاری سطح پر ایک عمومی تشویش یہ پائی جاتی ہے بنگلہ دیش میں اب جمہوریت کمزور پڑ جائے گی اور سخت گیر مذہبی عناصر اقتدار پر قابض ہو جائیں گے۔ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت میں روشن خیال ارکان کے ساتھ ساتھ ایسے بھی عناصر ہیں جو سخت گیر مذہبی نظریے میں یقین رکھتے ہیں۔

وہاں پہلے سے ایک کوشش رہی ہے کہ تاریخ کو ذرا پیچھے کی سمت موڑ دیا جائے لیکن بنگلہ دیش میں اس طرح کی کوششوں کی مزاحمت ہوتی رہی ہے۔

خارجی امور کی تجزیہ کار نینیما باسو کہتی ہیں کہ ‘شیخ حسینہ کے خلاف عوام کی سب سے بڑی شکایت تھی کہ وہ خود ہی الیکشن لڑتی تھیں اور خود ہی الکشن جبیتی تھیں۔ دوسری جماعتوں کو انتخاب میں حصہ ہی نہیں لینے دیا جاتا تھا۔ وہاں کے لیے سب سے ضروری چیز ہے کہ وہاں جلد انتخابات ہوں اور اس میں سبھی جماعتوں کو حصہ لینے کی اجازت ہو۔ کیونکہ جمہوریت میں سبھی کی شراکت ضروری ہے۔ عبوری حکومت کئی بار یہ کہہ چکی ہے کہ بنگلہ دیش ایک مسلم اکثریتی ملک ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ دوسری مذہبی اقلیتوں کو برابر کے حقوق نہیں حاصل ہوں گے۔’

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت ایک مشکل مقام پر کھڑی ہے۔ اس نے جمہوریت کوفروغ دینے اور بڑے پیمانے پر انتظامی اصلاحات کے پروگرام کے ساتھ عوام کی توقعات بہت بڑھا دی ہیں۔ لیکن اگر اصلاحات کے عمل میں تاخیر ہوتی ہے اور ملک کی لڑکھڑاتی ہوئی معیشت میں بہتری نہیں آتی تو عبوری حکومت کے بارے میں عوام کا صبر ٹوٹنے لگے گا۔

انڈیا بنگلہ دیش

،تصویر کا ذریعہGetty Images

واشنگٹن میں واقع ولسن سنٹرکے ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ مائیکل کوگل مین نے ایک مضمون میں بنگلہ دیش کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ‘یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ ڈھاکہ میں کوئی منتخب حکومت نہیں ہے۔ اس کے باوجود جمہوریت کو بحال کرنے کا عزم لیے ہوئے نئے طاقتور سیاسی گروپ کے ابھرنے سے بنگلہ دیش کی جمہوریت کے لیے امیدیں برقرار ہیں۔ ان میں وہ احتجاجی طلبہ رہنما بھی شامل ہیں جنھوں نے شیخ حسینہ کو ملک سے باہر نکالا۔ ان میں سے بعض رہنما عبوری حکومت میں شامل ہیں۔ اس عبوری حکومت میں حقوق انسانی کے معتبر علمبردار اور بہت سے ایسے عناصر شامل ہیں جو جمہوری اصلاحات پر زور دیتے ہیں۔’

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کی قیادت نوبل انعام یافتہ محمد یونس کر رہے ہیں۔ ان کا شمار ملک کے سرکردہ جمہوریت پسندوں میں کیا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش کے عوام بالخصوص نوجوان طبقے میں انھیں بہت احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

مائیکل کوگل مین کہتے ہیں ‘ماضی میں اس طرح کی کئی مثالیں ملتی ہیں جب مزاحمت کاروں نے اپنے ملک کی جمہوریت کو مستحکم کیا ۔ اس سلسلے میں چیکو سلواکیہ کے وکلاو ہیویل اور جنوبی کوریا کے کم ڈائی جونگ کا نام لیا جا سکتا ہے۔ ان ملکوں میں مزاحمتی جماعتوں نے اقتدار پر قبضہ حاصل کیا اور اس کے بعد وہاں جمہوریت کو مستحکم کیا۔ اس امکان کو خارج نہیں کیا جا سکتا کہ یونس اور ان کے ساتھ آنے والے سٹوڈنٹ لیڈر بنگلہ دیش کے خاندانی اور غیر جہوریت پسند سیاسی رہنماؤں کی سیاست کے خاتمے کے لیے خود اپنی سیاسی جماعت بنا لیں۔’

SOURCE : BBC