SOURCE :- BBC NEWS
،تصویر کا ذریعہAFP/Getty Images
-
- مصنف, سارہ حسن
- عہدہ, صحافی
-
39 منٹ قبل
بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے پاکستان کو ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی قسط تو جاری کر دی لیکن اپنے اصلاحاتی پروگرام کے تحت پاکستان پر جو گیارہ شرائط عائد کیں اُن کے تحت پاکستان کو کہا گیا ہے کہ وہ ترسیلات زر کی اپنی پالیسی کا جائزہ لے۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان نے مختلف سکیموں کے ذریعے قانونی چینلز میں ملک میں ترسیلاتِ زر میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔ آئی ایم ایف نے کہا کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان مئی 2026 تک ترسیلاتِ زر کی لاگت پر مکمل جائزہ رپورٹ مرتب کرے اور اس حوالے ایکشن پلان بنایا جائے۔
آئی آیم ایف کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے بیرون ملک کی جانی والی ادائیگیوں میں بہتری کا امکان ہے لیکن حکومت کی جانب سے فاریکس مارکیٹ میں استحکام کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کو خدشہ ہے کہ پاکستان کی ترسیلات زر کی لاگت آئندہ چند برسوں میں ڈیڑھ ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔
پاکستان نے گذشتہ مالی سال کے دوران ترسیلات زر حاصل کرنے کے لیے کی گئی ادائیگیوں کی مد میں 100 ارب روپے کمرشل بینکوں اور بیرون ملک موجود منی ٹرانسفر کمپنیوں کو کمیشن کی مد میں دیے ہیں۔
حکومت نے بجٹ میں یہ رقم مختص نہیں کی تھی جس کے بعد خصوصی منظوری کے تحت رقم ادا کی گئی۔
پاکستان کا ترسیلات زر یا بیرون ملک سے پاکستان پیسے منگوانے کا مکمل پلان کیا ہے اور پاکستان اس پر کس قسم کی ادائیگی کر رہا ہے جو آئی ایم ایف کے لیے تشویش کا باعث ہے؟ اس سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ترسیلات کیا ہوتی ہیں اور پاکستان معیشت میں ان کا کردار کیا ہے؟
پاکستان جیسے ملک کی معیشت میں ڈالر یا غیر زرمبادلہ کے مستحکم ذخائر ملک میں مالیاتی استحکام کی ضمانت ہیں۔
کسی بھی ملک کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری، برآمدات اور بیرون ملک مقیم اُس کے شہریوں کی جانب سے بھیجے گئے ترسیلاتِ زر یعنی ریمٹینس غیر ملکی زرمبادلہ کمانے کا ذریعے ہیں۔
غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر اور ترسیلاتِ زر پر انحصار

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
موجودہ حالات اور مختلف وجوہات کی بنا پر غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کرنا چاہتے، برآمدت گذشتہ کئی سال سے بڑھ نہیں سکیں لیکن پاکستان کو کبھی گندم تو کبھی چینی جیسے بنیادی کھانے پینے کی اشیا بھی دوسرے ممالک سے خریدنی پڑتی ہیں اور ادائیگی کے لیے ڈالر چاہیے ہوتے ہیں۔
ان حالات میں پاکستان کی معیشت میں ترسیلاتِ زر غیر ملکی زرمبادلہ کمانے کا سب سے اہم ذریعہ بن گیا ہے اور حکومت اسے اپنی کامیابی سمجھتی ہیں۔
مالی سال 2024-25 میں پاکستان کو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر کی مد میں 38 ارب 30 کروڑ ڈالر موصول ہوئے جبکہ اس دوران پاکستان کی برآمدات 32 ارب ڈالر رہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مختلف سکیموں اور مراعات کے سبب قانونی یا بیکنگ کے چینلز سے آنے والے ترسیلاتِ زر میں آضافہ ہو رہا ہے۔
اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ گذشتہ چند برسوں میں ملکی حالات کے سبب بڑی تعداد میں پاکستانی ہنر مند افراد ملک سے باہر گئے، قانونی چینلز سے رقوم بھجوانے کے لیے کیے گئے اقدامات اور پاکستانی روپے کی مستحکم قدر یہ وہ عوامل ہیں جنھوں نے ترسیلاتِ زر کو پاکستان کے لیے غیر ملکی زرمبادلہ کے حصول کا اہم ترین ذریعہ بنا دیا۔
پاکستان نے رواں مالی سال میں جون کے اختتام تک ترسیلاتِ زر سے حاصل ہونے والی آمدن کا ہدف 40 ارب ڈالر مقرر کیا اور یکم جولائی سے 30 نومبر تک پہلے پانچ ماہ میں پاکستان کو ترسیلاتِ زر کی مد میں تین ارب 20 کروڑ ڈالر موصول ہوئے۔
،تصویر کا ذریعہReuters
پاکستان کو سب سے زیادہ ترسیلاتِ زر کہاں سے موصول ہوتی ہیں؟
پاکستان میں ملکی پیدوار یا جی ڈی پی میں ترسیلاتِ زر کا تناسب نو فیصد سے زیادہ ہے۔ پاکستانیوں کی بڑی تعداد روزگار کے سلسلے میں سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو سب سے زیادہ ترسیلات زر سعودی عرب سے موصول ہوتے ہیں۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق مالی سال 2024 2025 میں سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں نے سب سے زیادہ نو ارب 30 کروڑ ڈالر پاکستان بھجوائے۔
متحدہ عرب امارات سے پاکستان کو سات ارب 80 کروڑ ڈالر، برطانیہ سے پانچ ارب 90 کروڑ ڈالر مالیت کی ترسیلات زر موصول ہوئیں۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق اس دوران دیگر یورپی ممالک سے ساڑھے چار ارب ڈالر کی ترسیلاتِ زر موصول ہوئیں۔
پاکستان انڈیا، میکسیکو، چین اور بنگلہ دیش سمیت دنیا کے اُن پانچ ممالک میں شامل ہے جنھیں سب سے زیادہ ترسیلاتِ زر موصول ہوتی ہیں۔
آئی ایم ایف کو ترسیلاتِ زر کے پروگرام پر کیا اعتراض ہے؟
آئی ایم ایف نے پاکستان کی معیشت پر جاری جائزہ رپورٹ میں پاکستان کے ترسیلات زر کے لیے بنائے گئے پروگرام پر اعتراض اُٹھائے ہیں۔
2009 میں پاکستان نے ترسیلاتِ زر بڑھانے اور ہنڈی حوالے کے ذریعے بیرون ملک سے پاکستان میں رقوم بھیجنے کی حوصلہ شکنی کے لیے ایک خصوصی پروگرام متعارف کروایا تھا۔
پاکستان ریمیٹینس انیشیٹو کے نام سے شروع ہونے والے اس پروگرام کا مقصد بیرون ملک سے پاکستان ترسیلات بھجوانے والے افراد کو مراعات دینے اور اُن کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہے لیکن 2009 سے اب تک اس پروگرام میں فوقتا فوقتا تبدیلیاں کی گئیں۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ترسیلاتِ زر کے لیے آنے والی لاگت اور اس کی مد میں مختلف ممالک کو کی جانے والی ادائیگیوں کا مکمل جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
آئی ایم ایف نے کہا کہ مئی 2026 تک پاکستان غیر ملکی زرمبادلہ کے مستحکم ذخائر کے لیے مکمل ایکشن پلان بنائے۔
ترسیلاتِ زر پر آنے والی لاگت کے بارے میں چند ماہ قبل سینیٹ کی کمیٹی برائے خزانہ نے بھی تشویش کا اظہار کیا تھا۔
کمیٹی کے چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ اس وقت ملک میں ترسیلات زر لانے والی کمپنیوں اور بینکوں کو ہر ٹرانزیکشن پر کمیشن دیا جا رہا ہے۔
انھوں نے کہا تھا کہ کمیشن کے لیے کم سے کم رقم بھجوانے کی حد پہلے ہزار ڈالر تھی جو بعد میں تبدیل کر کے پانچ سو اور پھر سو ڈالر تک بھی ہو گئی۔
سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اس سے ہوا یہ کہ رقم بھیجنے والے فرد کی بجائے بینکوں اور کمپنیوں کو زیادہ فائدہ ہونے لگا کیونکہ وہ اب ایک ہزارڈالر متعدد ٹرانزکشنز کے ذریعے بھیجتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ سینیٹ کی کمیٹی برائے خزانہ میں اس معاملے پر بات ہوئی تھی اور سٹیٹ بینک نے کہا تھا کہ وہ کمیشن دینے کے معاملے پر نظرثانی کریں گے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
سینیئر صحافی مہتاب حیدر کے مطابق وزراتِ خزانہ اس پروگرام کے تحت ہر ٹرانزکیشن پر کمیشن دیتا ہے جو سٹیٹ بینک کے ذریعے دیگر کمرشل بینکوں اور بیرون ملک ایجنٹس کو دیے جاتے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان نے بیرون ممالک میں موجود ایجنٹس کو کمیشن کی مد میں جو رقم دی وہ ایک طرح کی سبسڈی ہے اور بجٹ میں بھی اس کے لیے رقم مختص نہیں کی گئی۔
مہتاب حیدر کا کہنا ہے کہ اس پروگرام کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اعتراض یہ ہے کہ بجٹ میں اس کے لیے رقم نہیں رکھی گئی بلکہ بعد میں رقم جاری کی گئی۔ اُن کے مطابق پروگرام کی مالیاتی لاگت ہی آئی ایم ایف کا مسئلہ ہے۔
دوسری جانب مہتاب حیدر کے مطابق کئی افراد ترسیلاتِ زر پر دی گئی ٹیکس چھوٹ کو غلط طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔
ترسیلاتِ زر بھجوانے کے لیے پاکستان کا سسٹم کیا؟
پاکستان نے حالیہ برسوں میں ترسیلات زر سے حاصل ہونے والی آمدن بڑھانے کے لیے پاکستان ریمیٹینس انیشیٹو کے تحت کئی سکیمیں متعارف کروائیں۔
2023 میں متعارف کروائی گئی سکیم کا مقصد بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ہنڈی اور حوالے کے مقابلے میں قانونی راستوں سے رقم بھجوانے کی جانب راغب کرنا تھا۔ اس سلسلے میں اُن کو ڈیجیٹل اکاؤنٹس کھولنے کے لیے آسانیاں پیدا کی گئیں۔
اس سکیم کے تحت بیرون ملک مقیم افراد کے لیے اپنے پاکستانی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے رقم ٹرانسفر کرنے کے لیے فوری اور سادہ ڈیجیٹل ٹرانسفرز نظام متعارف کروایا گیا۔ رقوم بھجوانے پر فیس ختم کی گئی اور زیادہ اور بار بار رقم بھجوانے والوں کو ریوارڈ یا انعامی پوائنٹس دینے کا سسٹم بھی متعارف کروایا گیا۔
اس کے علاوہ بیرون ملک موجود منی ٹرانسفر کمپنیز اور کمرشل بینکوں کو بھی ہر ٹرانزکشن کے عوض رقم ادا کی جاتی ہے۔
ایک محتاط اندازے کے تحت پاکستان کو زرمبادلہ سے حاصل ہونے والے ایک ڈالر کے عوض حکومت 20 سے 25 روپے ادا کرتی ہے۔
کمرشل بینکوں کو یہ رقم سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذریعے دی جاتی ہے جس کی ادائیگی وزارتِ خزانہ کرتی ہے۔ اس ادائیگی کو ’ریمیٹنس کاسٹ‘ کا نام دیا گیا۔
،تصویر کا ذریعہEPA
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان نے گذشتہ مالی سال کے دوران ریمیٹنس کاسٹ کی مد میں کمرشل بینکوں کو 100 ارب روپے دیے۔
فوریکس اور منی ایکسچینج بزنس سے وابستہ ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ بیرون ملک مقیم بینکس اور منی ٹرانسفر کمپنیاں اس مراعات کا غلط اور بے بجا استعمال کر رہی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اگر کسی نے امریکہ سے ایک ہزار ڈالر پاکستان بھجوانے ہیں تو وہ بغیر کسی اضافی رقم ادا کیے، ایک ہزار ڈالر پاکستان بھجوا سکتا ہے لیکن منی ٹرانسفر کمپنیاں عام صارف کے لیے روپے کو انڈر ویلیو کرتی ہیں اور پھر اُسی ایک ہزار ڈالر کو پانچ سے دس ٹرانزیکشنز میں ظاہر کر کے حکومت سے ہر ٹرانزکشن پر 20 سے 25 ڈالر کا کمیشن چارج کرتی ہیں۔
طفر پراچہ کے بقول یہی وجہ ہے کہ ہر سال حکومت اس مد میں بہت زیادہ سبسڈی دے رہی ہے جس پر آئی ایم ایف نے اعتراض کیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ فائدہ یا کمیشن عام صارف کو ملنا چاہیے نہ کہ بینکوں اور منی ٹرانسفر کمپنیوں کو۔
آئی ایم ایف کی شکایت دور کرنے کے لیے کیا کرنا پڑے گا؟
تجزیہ کاروں اورماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حکومت کو آئی ایم ایف کو ترسیلاتِ زر کی لاگت اور اس پروگرام کے بارے میں واضح طور پر بتانا ہو گا۔
اُن کے مطابق آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ اس سسٹم کو مانیٹر کیا جائے اور کمرشل بینکوں کو ترسیلاتِ زر ملک میں لانے کے لیے جو رقم دی جا رہی ہے اُس کی سبسڈی یا ختم کی جائے یا پھر اُس کی ادائیگی حکومت کے علاوہ کوئی اور کرے۔
بی بی سی نے اس سلسلے میں وزارتِ خزانہ کا موقف جاننے کی کوشش کی لیکن وزیر خزانہ کے معاون خرم شہزاد نے کہا کہ وزارت خزانہ آئی ایم ایف کی شرائط پر اپنا بیان جاری کرے گی تاہم اس خبر کی اشاعت تک یہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔
صحافی مہتاب حیدر کا کہنا ہے کہ ترسیلاتِ زر کی لاگت کے حوالے سے آئی ایم ایف کے اعتراض کو دور کرنے کے لیے حکومت اس کی ادائیگی کی ذمہ داری بینکوں پر ڈال سکتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ جب ملک میں بجلی، گیس اور دیگر بنیادی ضروریات پر سبسڈی دینے کی اجازت نہیں تو پھر ترسیلات زر کو حکومت کیسے آئی ایم ایف کے پروگرام میں رہتے ہوئے سبسیڈائزڈ کر سکتی ہے۔
سینیٹ کی کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اس پروگرام کو ختم نہیں ہونا چاہیے لیکن اس میں اصلاحات کی گنجائش موجود ہے۔
SOURCE : BBC






