SOURCE :- BBC NEWS

صدر پوتن

،تصویر کا ذریعہEPA

ترکی کے شہر استنبول میں جمعرات کے روز یوکرین اور روس کے درمیان جاری جنگ کی روک تھام کے حوالے سے فریقین کے درمیان امن مذاکرات کے حوالے سے اہم مانا جا رہا ہے تاہم کریملن نے روس کی جانب سے امن مزاکرات میں شرکت کرنے والے حکام کی جو فہرست جاری کی ہے اس میں روسی صدر ولادیمیر پوتن کا نام شامل نہیں۔

یاد رہے کہ یوکرین کے صدر ولادیمر زیلنسکی نے مذاکرات کے لیے روسی صدر کی شرکت کی شرط رکھی تھی۔ کریملن کے بیان کے مطابق روسی وفد کی قیادت صدارتی مشیر ولادیمر میدینسکی کریں گے۔

اس حوالے سے یوکرینی صدر زیلنسکی پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر روسی صدر نے مذاکرات میں شرکت کی حامی بھری تو ہی وہ ان مذاکرات میں شریک ہوں گے اور پوتن سے بالمشافہ ملاقات کریں گے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی مذاکرات میں شرکت نہیں کریں گے حالانکہ انھوں نے اس سے قبل عندیہ دیا تھا کہ اگر روسی صدر پوتن شریک ہوں تو وہ بھی آئیں گے۔

یوکرینی صدر زیلینسکی کی آج (جمعرات کو) ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں صدر رجب طیب اردوغان سے ملاقات طے شدہ ہے۔

اور زیلنسکی اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ استنبول میں روس کے ساتھ امن مزاکرات میں براہِ راست شامل ہو سکتے ہیں اگر صدر پوتن بھی اس میز پر آئے۔

بدھ کی شب اپنے ویڈیو خطاب میں صدر زیلنسکی نے کہا تھا کہ

’میں ابھی دیکھ رہا ہوں کہ روس کی جانب سے کون آئے گا، اور پھر فیصلہ کروں گا کہ یوکرین کو کیا قدم اٹھانا چاہیے۔ اب تک ان کے میڈیا میں آنے والے اشارے غیر تسلی بخش ہیں۔‘

یاد رہے کہ صدر پوتن اور زیلنسکی کی آخری ملاقات دسمبر 2019 میں ہوئی تھی۔

روس اور یوکرین کے درمیان آخری براہِ راست مذاکرات مارچ 2022 میں استنبول میں ہوئے تھے جب ماسکو نے اپنے ہمسایہ ملک پر مکمل اور شدید حملہ کیا تھا اور تب سے اب تک دونوں ممالک کے درمیان جنگ جاری ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران روسی افواج نے آہستہ آہستہ یوکرین کے مشرقی حصوں میں مزید علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔

۔صدر پوتن کی براہِ راست مذاکرات کی تجویز اس وقت آئی تھی جب یورپی ممالک کی جانب سے نے ہفتے کے روز کییومیں ملاقات کے بعد 30 دن کی جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اتوار کو جب ٹرمپ نے یوکرین پر اس پیشکش کو قبول کرنے پر زور دیا تو صدرزیلنسکی نے کہا کہ وہ خود مذاکرات کے لیے جائیں گے۔

انھوں نے سوشل میڈیا پر لکھا تھا کہ ’قتل و غارت کو طول دینا بے فائدہ ہے۔ اور میں جمعرات کو ترکی میں پوتن کا انتظار کروں گا‘

روس اور یوکرین کے لیے ممکنہ طور پر ایک عظیم دن ہو گا: ٹرمپ

اس سے قبل صدر ٹرمپ نے بھی عندیہ دیا تھا کہ اگر پوتن آئے تو وہ خود بھی اجلاس میں شرکت کر سکتے ہیں۔
قطر میں موجود امریکی صدر نے صحافیوں سے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ روسی صدر آئیں گے یا نہیں

’میں جانتا ہوں کہ وہ چاہیں گے کہ میں وہاں موجود ہوں، اور یہ ممکن ہے۔ اگر ہم جنگ کا خاتمہ کر سکیں، تو میں ضرور اس بارے میں غور کروں گا۔‘

امریکہ کی جانب سے مذاکرات کے لیے اعلیٰ سطحی وفد بھیجے جانے کی توقع ہے۔

امریکی سیکرٹری خارجہ مارکو روبیو بدھ کو ترکی پہنچے جہاں وہ آج نیٹو کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کریں گے۔

روبیو جمعہ کو استنبول روانہ ہوں گے جہاں وہ یورپی وزرائے خارجہ کے ساتھ مذاکرات میں شرکت کریں گے تاکہ یوکرین میں جنگ پر بات کی جا سکے۔

یاد رہے کہ صدر ٹرمپ پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ روس اور یوکرین ایک معاہدے کے بہت قریب تھے۔

اتوار کو جب صدر پوتن نے براہِ راست مذاکرات کی تجویز دی تو ٹرمپ نے اپنے پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ ’روس اور یوکرین کے لیے ممکنہ طور پر ایک عظیم دن ہو گا۔‘

SOURCE : BBC