SOURCE :- BBC NEWS

کولہاپوری

،تصویر کا ذریعہGetty Images

    • مصنف, نیاز فاروقی
    • عہدہ, بی بی سی نیوز، دہلی
  • 30 جون 2025

    اپ ڈیٹ کی گئی ایک گھنٹہ قبل

انڈیا کی جانب سے شدید ردعمل کے بعد عالمی فیشن برانڈ پرادا نے انڈیا میں بننے والی کولہاپوری چپل سے متاثر ایک ڈیزائن لانچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کا کہنا ہے کہ اطالوی لگژری برانڈ پرادا نے انڈیا میں مہاراشٹرا اور کرناٹک ریاست میں کمپنیوں کے ساتھ معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت ایسی چپلوں کے 2,000 جوڑے بنائے جائیں گے۔

دنیا بھر میں ان چپلوں کی فروخت پرادا کی ویب سائٹ اور سٹورز پر فرروری 2026 سے شروع ہو گی۔

اطلاعات کے مطابق اس کی قیمت 939 ڈالر ہو گی جو انڈیا کی مقامی کرنسی کے مطابق 84 ہزار روپے ہو گی۔

یہ تنازع اس وقت شروع ہوا تھا جب رواں سال گرمیوں میں میلان میں منعقدہ فیشن ویک میں ماڈلز نے بالکل ویسی چپلیں پہنیں جیسی انڈین ریاستوں مہاراشٹرا اور کرناٹک میں دہائیوں سے پہنی جا رہی ہیں۔

پرادا کی جانب سے میلان فیشن ویک میں ان چپلوں کے استعمال کے بعد انڈیا میں ایک تنازع کھڑا ہو گیا تھا جس کے بعد اطالوی فیشن برانڈ پرادا نے تسلیم کر لیا کہ ان کی چپلوں کا نیا ڈیزائن انڈیا میں بننے والی کولہاپوری چپلوں سے متاثر ہے۔

پرادا نے ان چپلوں کو ’لیدر فُٹ ویئر‘ کا نام دیا تھا لیکن اس کے انڈیا سے تعلق کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا جس کے بعد انڈیا میں اطالوی فیشن برانڈ کے خلاف ثقافتی تخصیص کے الزامات بھی منظرِ عام پر آئے تھے۔

کولہاپوری

،تصویر کا ذریعہReuters

جمعرات کو اس معاہدے پر انڈیا اور اٹلی کے کاروباری فورم 2025 میں دستخط کیے گئے۔

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

روئٹرز کے مطابق انڈیا میں ہونے والے تنازعے کے وقت پرادا کے ہیڈ آف کارپوریٹ سوشل رسپونسیبلیٹی نے اس خط کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ چلپیں ’ابھی ڈیزائن ہونے کے ابتدائی مرحلے‘ میں ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پرادا ’انڈیا کے مقامی کاریگروں کے ساتھ معنی خیز بات چیت‘ کے لیے تیار ہے اور کمپنی اس پر مزید بات چیت کے لیے فالو اپ میٹنگز بھی رکھے گی۔

میلان فیشن ویک میں چپل کی نمائش کے بعد سوشل میڈیا پر انڈین صارفین نے شدید اعتراض کیا تھا۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک صارف نے لکھا تھا کہ ’پرادا کولہاپوری چپل 1 لاکھ 20 ہزار انڈین روپے میں فروخت کر رہی ہے اور یہ ڈیزائن اس نے انڈیا کی چمار کمیونٹی سے چُرایا۔‘

ایک اور صارف ہرش گوئنکا اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ’پرادا کولہاپوری کی طرح نظر آنے والی چپلیں ایک لاکھ انڈین روپے سے زیادہ میں فروخت کر رہی ہے۔ ہمارے کاریگر کے ہاتھوں سے بنائی گئی یہ چپلیں 400 انڈین روپے میں فروخت ہوتی ہیں۔‘

اس تنقید پر ردِعمل دیتے ہوئے پرادا نے بی بی سی کو ایک بیان میں تسلیم کیا کہ یہ چپلیں روایتی انڈین ڈیزائن سے متاثر ہیں۔

بیان میں پرادا کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ ان کی کمپنی نے ’ہمیشہ ہنرمندی، ثقافت اور ڈیزائن کی روایات کا احترام‘ کیا اور وہ ’اس موضوع پر مہاراشٹرا کے چیمبر آف کامرس، انڈسٹری اینڈ ایگریکلچر سے رابطے میں ہے۔‘

مہاراشٹرا کے چیمبر نے پرادا کو ایک خط بھی لکھا تھا ان کاریگروں کو اس ڈیزائن کا کریڈٹ نہیں دیا جا رہا جن کی نسلیں اس ڈیزائن کو بنا رہی ہیں۔

روئٹرز کے مطابق پرادا کے ہیڈ آف کارپوریٹ سوشل رسپونسیبلیٹی نے اس خط کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ چلپیں ’ابھی ڈیزائن ہونے کے ابتدائی مرحلے‘ میں ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پرادا ’انڈیا کے مقامی کاریگروں کے ساتھ معنی خیز بات چیت‘ کے لیے تیار ہے اور کمپنی اس پر مزید بات چیت کے لیے فالو اپ میٹنگز بھی رکھے گی۔

ان چپلوں کا نام مہاراشٹرا کے ایک شہر کے نام پر رکھا گیا تھا اور اس کی جڑیں 12ویں صدی سے ملتی ہیں۔

سنہ 2019 میں انڈین حکومت نے کولہاپوری چپل کو جیوگرافیکل انڈیکیشن کی حیثیت دی تھی۔

ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے مطابق جیوگرافیکل انڈیکیشن کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی پروڈکٹ نے کسی خاص جگہ یا خطے میں جنم لیا تھا۔

اس تنازع کے کھڑے ہونے کے بعد کولہاپور میں متعدد کاریگروں نے پرادا کی جانب سے ان کے ڈیزائن کو بغیر کریڈٹ دیے استعمال کرنے پر دُکھ کا اظہار کیا ہے۔

کولہاپوری چپل کی ایک کاریگر پربھا ستپوتے نے بی بی سی مراٹھی کو بتایا کہ ’یہ چپلیں چمڑے کا کام کرنے والے کاریگر انتہائی محنت سے بناتے ہیں اور ان کا نام کولہاپوری کے نام پر ہی رکھنا چاہیے۔ کسی اور کی محنت کا فائدہ نہ اُٹھائیں۔‘

پرادا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

انڈین کاروباری شخصیت ہرش گوئنکا اس پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انڈیا میں ہاتھوں سے چپلیں بنانے والے کاریگر مشکل سے چند سو روپے کماتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’وہ ہار رہے ہیں جبکہ بڑے برانڈز ہماری ثقافت سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔‘

پرادا

،تصویر کا ذریعہX

ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا کہ کسی عالمی برانڈ پر انڈیا کی ثقافتی تخصیص کی خلاف ورزی کرنے کے الزامات لگ رہے ہیں۔

2025 کے کانز فلم فیسٹول میں بالی وڈ کی اداکارہ عالیہ بھٹ نے ایک ساڑھی پہنی تھی اور گوچی نے اسے ’گاؤن‘ کا نام دیا تھا۔

رواں برس مئی میں ٹک ٹاک پر مقبول ہونے والے ٹرینڈ پر بھی اس وقت تنقید ہوئی تھی جب لوگوں نے دوپٹے کو سکینڈینیوین سکارف کا نام دینا شروع کر دیا تھا۔

تاہم کولہاپور میں کچھ کاریگروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پرادا کی طرف سے ان کے ڈیزائن کے استعمال پر انھیں فخر ہے۔

کولہاپور میں مقیم کاروباری شخصیت دلیپ مورے کا کہنا تھا کہ ’کاریگر خوش ہیں کیونکہ ان کے کام کو تسلیم کیا جا رہا ہے۔‘

SOURCE : BBC