SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہGetty Images
ایک گھنٹہ قبل
پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جمعرات کی شب ایک بیان جاری کیا گیا جس میں ایک مرتبہ پھر سے پاکستان کی جوہری تنصیبات کے محفوظ ہونے کی بات کی گئی۔ لیکن اس بار یہ وضاحت کسی انڈین اہلکار نہیں بلکہ ایک سابق امریکی عہدیدار کے بیان پر دی گئی۔
یہ شخصیت وائٹ ہاؤس کے سابق مشیر برائے قومی سلامتی اور اقوامِ متحدہ کے لیے امریکہ کے سابق سفیر جان بولٹن ہیں جن کی جانب سے امریکی خبر رساں اداروں کو دیے گئے انٹرویو میں پاکستان پر تنقید کی گئی ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان اپنے جامع جوہری سکیورٹی نظام اور اپنے کمانڈ اینڈ کنٹرول ڈھانچے کی مضبوطی کے معاملے پر مکمل طور پر پُراعتماد ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کی جوہری تنصیبات پاکستان اور انڈیا کی جانب سے ایک دوسرے پر حملوں کے بعد سے خبروں میں ہیں جس کی وجہ انڈیا کے وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ کے بیانات اور ’کرانہ ہلز پر حملے‘ سے متعلق جعلی خبر ہے۔
انڈین میڈیا میں اس حوالے سے غیرمصدقہ اطلاعات سامنے آئی تھیں جن میں دعویٰ کیا گیا کہ انڈین فضائی حملوں کے دوران پاکستان کے کرانہ ہلز پر حملہ کیا تھا جہاں پر مبینہ طور پر پاکستان کے جوہری میزائلوں کا ایک ذخیرہ ہے۔
انڈین ذرائع ابلاغ پر موجود ان غیرمصدقہ خبروں کی تردید انڈین حکام بھی بذات خود کر چکے ہیں جبکہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی نے بھی پاکستان میں تابکاری کے رساؤ سے متعلق انڈین میڈیا کی رپورٹس کی تردید کی ہے۔
اس کے علاوہ انڈین وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے بیان دیا تھا کہ وہ دنیا سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ ’کیا پاکستان جیسی غیرذمہ دار قوم کے ہاتھوں میں موجود ایٹمی ہتھیار محفوظ ہیں؟ میرا ماننا ہے کہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کو بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی نگرانی میں لیا جانا چاہیے۔‘
ادھر خود انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے ’آپریشن سندور‘ اور پھر دونوں ملکوں کے درمیان سیز فائر کے بعد کہا تھا کہ اب سے انڈیا پاکستان کے ہاتھوں ’نیوکلیئر بلیک میل نہیں ہوگا۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
جان بولٹن نے کیا کہا ہے؟

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
جان بولٹن نے گذشتہ روز مختلف انڈین خبر رساں اداروں کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ انڈیا اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے اور اگر پاکستان کی سرزمین انڈیا کے خلاف دہشتگردی کے لیے استعمال ہوتی ہے یا پاکستان ایسے عناصر کی پشت پناہی کرتا ہے تو اسے ان ٹھکانوں پر کارروائی کرنے کا حق ہے۔
ثالثی میں امریکی مداخلت سے متعلق سوال کے جواب میں انھوں نے کہا ٹرمپ کی یہ عادت ہے کہ وہ ہر چیز کا کریڈٹ لینا چاہتے ہیں، لیکن اس ثالثی میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور نائب صدر جے ڈی وینس نے اپنا کردار ضرور ادا کیا۔
انھوں نے کہا کہ ٹرمپ کی جانب سے ثالثی کا کریڈٹ لینے کے اقدام کو انڈیا کے خلاف نہیں دیکھنا چاہیے۔
تاہم جان بولٹن کی جس بات پر پاکستان کو بھی جواب دینا پڑا ہے وہ دراصل یہ ہے کہ ’دنیا میں کہیں بھی جوہری ہتھیاروں کی حفاظت امریکہ کے لیے اولین ترجیح ہے۔ کیونکہ میں 9/11 کے دوران جارج ڈبلیو بش انتظامیہ کا حصہ تھا اور اس وقت کے وزیرِ خارجہ کولن پاول کے ساتھ پاکستان اور انڈیا کے دوروں پر بھی آیا تھا۔‘
’اس وقت کے صدر مشرف سے جس بارے میں پاول نے بات کی تھی وہ یہ تھا کہ پاکستان کی جوہری تنصیبات کتنی محفوظ ہیں۔‘
’یہ خدشہ آج بھی موجود ہے اور انڈیا کے ساتھ پاکستان کی سرحد کے باعث یہ خدشہ بڑھ جاتا ہے کیونکہ ان جوہری ہتھیاروں کا دہشتگردوں یا غیر ذمہ دار کمانڈرز کے ہتھے چڑھنے سے صورتحال بہت زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہforiegn
پاکستانی وزارتِ خارجہ کا جواب
پاکستانی وزارت خارجہ کی جانب سے سابق امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کے ایک انڈین میڈیا کے ادارے کو دیے گئے ریمارکس کے بعد جاری کیا ہے جس میں وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں سے متعلق بیان کا ذکر تھا۔
ترجمان وزارت خارجہ نے کہا کہ یہ ستم ظریفی ہے کہ جان بولٹن کے ریمارکس راج ناتھ سنگھ کے بیان سے شروع ہوئے، جو ایک ہندو انتہا پسند تنظیم سے منسلک رہنما ہیں اور پاکستان کے خلاف جارحیت کی بار بار دھمکیاں دینے کی شہرت کے حامل ہیں۔
ترجمان وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ درحقیقت بین الاقوامی برادری کو اس بات پر زیادہ فکر مند ہونا چاہیے کہ انڈیا کے جوہری ہتھیار راج ناتھ سنگھ جیسے افراد کے کنٹرول میں ہیں، جو پاکستان اور مسلم دشمنی کے حوالے سے جانے جاتے ہیں ور اپنی عظمت کے خطرناک وہم میں مبتلا ہیں۔
ترجمان وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ انڈیا کے سیاسی منظر نامے، میڈیا اور اس کے معاشرے کے بعض حصوں کی بڑھتی ہوئی بنیاد پرستی جوہری سکیورٹی کے جائز خدشات کو جنم دیتی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ خدشات انڈیا میں جوہری بلیک مارکیٹ کی موجودگی کی وجہ سے مزید بڑھ جاتے ہیں، جو اس کے جوہری سکیورٹی فریم ورک میں سنگین خامیوں کو اجاگر کرتی ہے، جیسا کہ حساس جوہری مواد کی چوری اور غیر قانونی سمگلنگ کے بار بار ہونے والے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے۔
جان بولٹن اور ان کے پاکستان سے متعلق متنازع خیالات
جان بولٹن کا تعارف بش انتظامیہ میں ایک قدامت پسند رپبلکن کے طور پر تھا اور وہ سنہ 2003 کی عراق جنگ کے حامیوں میں سے تھے حالانکہ اس وقت کے امریکی صدر بش خود بھی اس جنگ کو ایک ‘بڑی غلطی’ قرار دے چکے ہیں۔
تاہم ان کے ناقدین کی جانب سے ان پر انتہائی جارحانہ فارن پالیسی فیصلے کرنے کا بھی الزام عائد کیا جاتا ہے۔ سابق رپبلکن سینیٹر رینڈ پال نے بولٹن کو ایک مرتبہ ان الفاظ میں یاد کیا تھا: ’وہ گذشتہ 15 میں امریکی فارن پالیسی کی غلطیوں کو دہرانے پر مصر ہیں۔‘
وہ بالٹیمور کے ایک فائر مین کے بیٹے ہیں اور اپنی جوانی سے ہی سخت گیر قدامت پسند سمجھے جاتے ہیں۔
15 سال کی عمر میں انھوں نے سکول سے چھٹیاں لے کر 1964 کی بیری گولڈ واٹر کی صدارتی مہم میں حصہ لیا۔
ییل یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری کرنے والے بولٹن کو متعدد سکالرشپس ملیں اور اپنی کتاب میں انھوں نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ وہ کیپمس پر ویتنام جنگ کے مخالفین کی بڑی تعداد میں خود کو بہت اکیلا محسوس کرتے تھے۔
تاہم جنگ کے حامی ہونے کے باوجود جب لڑائی کا وقت آیا تو بولٹن نے ایسا کرنے سے انکار کیا اور فوج میں بھرتی ہونے کے موقع کو جانے دیا اور اس کے برعکس نیشنل گارڈ جوائن کر لی۔
اپنی سوانح عمری میں انھوں نے اس بارے میں لکھا ہے کہ انھوں نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ لبرلز نے امریکہ کو جنگ پہلے ہی ہرا دی تھی کیونکہ جنگ کے حوالے سے جو ضروری اقدامات اٹھائے جانے تھے وہ اس سے امریکہ کو روک چکے تھے۔
بولٹن نے لکھا کہ ’میں اپنا وقت ایک ہاری ہوئی جنگ میں ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اپنے ملک کے لیے مرنا ایک بات ہے لیکن ایسی زمین پر قبضے کے لیے مرنا جسے بعد میں کانگریس میں موجود جنگ مخالف لوگوں نے واپس کر دینا ہے، یہ خاصا احمقانہ تھا۔
’جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو میں اپنے فیصلے سے زیادہ خوش نہیں ہوں۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
بولٹن نے رونلڈ ریگن، جارج ایچ ڈبلیو بش اور جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ میں کام کیا۔ جارج بش کے دور میں ان پر عراق جنگ اور اس مفروضے کو تقویت دینے کی کوشش کی کہ صدام حسین کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں، جو بعد میں غلط ثابت ہوا۔
تاہم بولٹن کی جس حوالے سے تعریف کی جاتی ہے وہ ان کی جانب سے ایک بین الاقوامی معاہدہ کروانے کے حوالے سے ہے جس کے تحت انھوں نے پرولفریشن سکیورٹی انیشیئیٹو کی شروعات کی تھیں۔
جب صدر بش نے جان بولٹن کو امریکی سفیر برائے اقوامِ متحدہ بنایا تو 100 سے زیادہ سابق امریکی سفیروں نے ایک خط کے ذریعے اس کی مخالفت کی کیونکہ ماضی میں بولٹن یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ‘اقوامِ متحدہ جیسی کوئی چیز موجود نہیں ہے اور امریکہ ہی صحیح معنوں میں دنیا کی ‘واحد طاقت ہے۔’
وہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر اقوامِ متحدہ کی 38 منزلہ عمارت کی ’10 منزلیں نہ بھی ہوں تو ذرا بھی فرق نہیں پڑے گا۔’
بولٹن نے ایک دفعہ امریکی وزارتِ خارجہ کے اہلکاروں پر تنقید کرتے ہوئے انھیں ‘غیرملکیوں کے ساتھ مفاہمت کرنے اور امریکی مفادات کے حوالے سے جارحانہ سفارت کاری نہ کرنے’ کا طعنہ دیا تھا۔
بولٹن یہ بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ انھوں نے دوسرے ممالک کی حکومتوں کا تختہ الٹنے کی منصوبہ بندی میں مدد فراہم کی تھی۔
سنہ 2019 میں صدر ٹرمپ کی جانب سے بولٹن پر امریکہ کو وینیزویلا کی جنگ میں گھسیٹنے کا الزام لگایا تھا۔
جان بولٹن کے ماضی میں بھی پاکستان کے حوالے سے جارحانہ اور متنازع خیالات تھے۔ فروری سنہ 2018 میں ایک بیان میں انھوں نے کہا تھا کہ امریکہ کو افغانستان سے اس لیے نہیں نکلنا چاہیے کیونکہ اس کی وجہ سے پاکستان میں شدت پسند بڑھ جائے گی۔
انھوں نے کہا تھا کہ ’شدت پسند پہلے ہی پاکستان کی انٹیلیجنس پر اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور فوجی افسران میں بھی اس طرح کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔‘ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’اگر پاکستان میں شدت پسندوں کے ہاتھ جوہری تنصیبات لگ گئیں تو یہ ‘ایران آن سٹیرائڈز’ جیسا ہو گا۔‘
ماضی میں بھی اسلام آباد ایسے دعوؤں کی تردید کر چکا ہے اور یہ اصرار کرتا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام محفوظ ہے۔
وہ اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ اسلام آباد پر امریکہ کو مزید دباؤ ڈالنا چاہیے تاہم ایک انٹرویو میں وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں سنہ 1947 سے حکومتیں کمزور رہی ہیں اور یہ کہ ان پر زیادہ دباؤ ڈالنے سے یہ الٹا شدت پسندوں کے ہتھے چڑھ سکتی ہیں۔
SOURCE : BBC