SOURCE :- BBC NEWS

ٹرمپ، احتجاج، انڈیا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, وسعت اللہ خان
  • عہدہ, صحافی و تجزیہ کار
  • 57 منٹ قبل

پاکستان مسلسل قائم ہے کہ اس نے انڈیا کے تین رفال سمیت پانچ طیارے چھ-سات مئی کو ہی مار گرائے۔ انڈیا نے اب تک اس دعوے کی باضابطہ تردید یا تصدیق نہیں کی۔

انڈیا نے پاکستان کے دو فضائی اڈوں (نور خان ایئربیس اور بھولاری ایئربیس) پر میزائل حملوں کے نقصان کی سیٹلائٹ تصاویر جاری کر دی ہیں۔ مگر پاکستان نے انڈین فضائی اڈوں پر ہونے والے مبینہ نقصان کی سیٹلائٹ تصاویر جاری کرنے کے بجائے میڈیا بریفنگز میں حملوں کے ڈیجیٹل زائچے دکھائے ہیں۔

انڈیا کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم او) نے دس مئی کو جنگ بندی کے لیے رابطہ کیا، ہمارے جنگی مقاصد چونکے پچھلے 72 گھنٹوں میں ایک سو ’دہشت گردوں‘ کو مار کے پورے ہو چکے تھے چنانچہ ہم نے معاملہ مزید آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے پاکستان کی درخواست مان لی۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ جب ہم نے دس مئی کو فجر کے وقت انڈیا کے مسلسل حملوں کا پہلی بار بھرپور میزائلی و ڈرونی حملوں سے جواب دیا تو ’دشمن‘ کے چھکے چھوٹ گئے اور دشمن نے صدر ٹرمپ سے جنگ رکوانے کی درخواست کی، ہم نے صدر ٹرمپ کے سیکریٹری خارجہ کی بات رکھتے ہوئے مزید کارروائی روک دی۔

Getty Images

،تصویر کا ذریعہGetty Images

صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ جب مجھے امریکی انٹیلی جینس ذرائع سے معلوم ہوا کہ معاملہ کسی بھی وقت روایتی سے ایٹمی جنگ میں بدل سکتا ہے تو پھر میں نے نئی دلی کو نائب صدر جے ڈی وینس اور اسلام آباد کو مارکو روبیو کے ذریعے سیدھا پیغام دیا کہ جنگ نہیں روکو گے تو ہم سے تجارت بھول جاؤ (امریکہ دونوں ملکوں کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے)۔ یوں میں نے تجارتی انتباہ کے ذریعے ایٹمی تصادم رکوا دیا۔

پاکستان تو اپنی سفارتی و فوجی ’کامیابیوں‘ پر خوش ہے مگر انڈیا نے اب تک صدر ٹرمپ کے جنگ رکوانے کے دعوے کی باضابطہ تردید جاری نہیں کی۔ جبکہ ٹرمپ پچھلے ہفتے کم از کم چار بار کسی نہ کسی بہانے دنیا کو جتا چکے ہیں کہ جنگ ’آپ کے بھائی‘ نے ہی رکوائی ہے۔

ٹرمپ کی بات یوں دل کو لگتی ہے کہ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ پچھلے 60 برس میں جو بھی جنگیں ہوئیں یا جب جب دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آستینیں چڑھائیں، کسی ’باہرلے‘ نے ہی آ کر پنڈ چھڑوایا۔

Getty Images

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مثلاً 1965 کی جنگ رکوانے میں سوویت یونین اور امریکہ نے بنیادی کردار ادا کیا۔ 71 کی جنگ میں مشرقی پاکستان میں انڈین کامیابی کے بعد صدر نکسن کے کہنے پر قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر نے انڈیا کو مغربی پاکستان کے محاذ پر جنگ بندی پر مجبور کیا۔

1999 کے کارگل تصادم میں وزیرِ اعظم نواز شریف نے صدر کلنٹن سے ملاقات کر کے انھیں بیچ میں پڑنے پر آمادہ کیا اور پھر امریکہ نے واجپائی جی کو راضی کیا۔

دسمبر 2001 میں لوک سبھا کی عمارت پر دہشت گرد حملے کے بعد جب انڈیا نے پاکستان کی سرحد پر پانچ لاکھ اور پاکستان نے تین لاکھ فوج جمع کر دی تو 10 ماہ بعد امریکہ نے ہی دونوں ممالک کو فوجیں پیچھے ہٹانے پر رضامند کیا۔

فروری 2019 میں بالاکوٹ حملے کے بعد کشیدگی کو محدود رکھنے میں بھی اس وقت کے امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو کا کردار ابھی کل کی ہی بات ہے۔

یا تو جنوبی ایشیا کی دو ارب آبادی میں کم از کم دو ایسے آدمی ہوں جو جنگ کے بادل چھانٹ سکیں اور دونوں ممالک کی ’ذہین قیادت‘ کو کامن سنس کے فوائد بھی سمجھا سکیں۔ ورنہ تو لامحالہ ہر بار کوئی تیسرا ہی کودے گا تاکہ ایٹمی پاگل پن سے باقی دنیا کو محفوظ رکھا جا سکے۔

انڈیا کسی نہ کسی شکل میں بین الاقوامی دباؤ یا بلاواسطہ ثالثی با دل نا خواستہ قبول کرتا رہا ہے لہذا 2025 میں اس کا جزبز ہونا سمجھ میں نہیں آتا۔

جہاں تک ہمارا (پاکستان کا) معاملہ ہے تو جنگ چھوڑ ہم تو اپنے گھریلو سیاسی بحرانوں کو بھی ’آؤٹ سورس‘ کرنے سے کبھی نہیں ہچکچائے۔

شاید آپ کو یاد ہو کہ مارچ 1977 کے انتخابات کے بعد پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کی بھٹو مخالف تحریک میں سعودی سفیر ریاض الخطیب ہی تھے جنھوں نے بھٹو حکومت اور پی این اے کو سیاسی سمجھوتے پر آمادہ کیا۔ وہ الگ بات کہ جنرل ضیا الحق اور ان کے ساتھی اس سمجھوتے سمیت سب کچھ اچک لے گئے۔

Getty Images

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

نواز شریف اور اہلِ خانہ کو ایک انڈرسٹینڈنگ کے تحت پرویز مشرف نے سعودیوں کی جانب سے ضمانت کے بعد ہی 10 برس جدہ میں رکھنے کی اجازت دی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور پرویز مشرف کے درمیان این آر او امریکہ اور برطانیہ نے بطور ضمانتی متحدہ عرب امارات کی میزبانی میں کروایا۔ وہ الگ بات کہ بعد میں نہ بے نظیر رہیں، نہ پرویز مشرف رہے اور نہ ہی سپریم کورٹ نے این آر او رہنے دیا۔

تازہ لڑائی اگرچہ میدان کی حد تک دس مئی کی سہہ پہر تھم گئی مگر میڈیا اور سوشل میڈیا پر اب تک جوشیلی جھڑپیں جاری ہیں۔ جنھوں نے جنگ صرف ہالی وڈ کی فلموں میں ہی دیکھی ہے، زیادہ تر وہی ٹی وی اینکرز اور یو ٹیوبرز سب سے اوپر اچھل رہے ہیں۔

انڈین حکومت نے جنتا کو آپریشن سندور کی ’بے مثال کامیابیوں‘ سے آگاہ کرنے کے لیے گھر، گھر رابطہ مہم اور کانگریسی رہنما ششی تھرور سمیت چھ سیاسی دگجوں کو بیرونِ ملک اسی کام پر مامور کیا ہے۔ جبکہ پاکستان میں راتوں رات اہم شاہراہوں پر سبز بینرز اور عمارات پر سبز نیون سائنز پر صرف ایک نام تصویر کے ساتھ نمودار کروایا گیا ہے ’جنرل حافظ سید عاصم منیر‘۔

فی الحال دونوں جانب کامیابیوں کے ڈنکے بجنے اور اپنا اپنا بیانیہ اپنی اپنی رعایا کے دماغوں میں اتارنے کا وقت ہے۔ اس غوغے کے بیچ معیشت، سیاسی و میڈیائی و آئینی و عدالتی آزادیاں فی الحال ایک جانب آرام سے بیٹھ کے اپنی باری کا انتظار کریں۔ شکریہ۔

SOURCE : BBC