SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, سوتک بسواس
- عہدہ, بی بی سی نیوز
-
ایک گھنٹہ قبل
پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ کشیدگی میں کوئی الٹی میٹم نہیں تھا اور نہ ہی کوئی دھمکیاں لیکن پھر بھی دونوں ممالک کے درمیان عسکری جوابی کارروائیوں، خفیہ اشاروں اور تیز بین الاقوامی ثالثی نے خطے کے خطرناک ترین سائے کو جنم دیا۔
اگرچہ یہ بحران جوہری جنگ کی طرف نہیں بڑھا لیکن یہ اس بات کی یاد دہانی تھی کہ یہ کشیدگی کتنی جلدی اس جانب بڑھ سکتی ہے۔
اس ماڈل میں یہ مفروضہ اپنایا گیا کہ سنہ 2025 میں انڈیا کی پارلیمنٹ پر عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد پاکستان اور انڈیا میں ایٹمی جنگ کا آغاز ہو گا۔
اور چھ سال بعد حقیقی دنیا میں دونوں کے درمیان کشیدگی سے اس تنازعے کے پھیلنے اور ایک بڑی جنگ میں بدلنے کے خطرات منڈلانے لگے تھے۔ اگرچہ سنیچر کے روز امریکہ نے ثالثی کر کے دونوں کو روک دیا مگر اس حالیہ تنازعے نے ایک بار پھر سب کو یاد کروا دیا کہ خطے میں استحکام کتنا نازک ہو سکتا ہے۔
جیسے ہی یہ کشیدگی بڑھی پاکستان نے ’دوہرے اشارے‘ بھیجے، ایک جانب اس نے عسکری جوابی کارروائی کی اور دوسری جانب نیشنل کمانڈ اٹھارٹی کا اجلاس بلانے کا کہا، جو اس کے ایٹمی طاقت ہونے کی یاد دہانی تھی۔
نیشنل کمانڈ اتھارٹی ملک کے ایٹمی ہتھیاروں کے کنٹرول اور ممکنہ استعمال کے اختیارات کے معاملات کی نگرانی کرتا ہے۔ آیا یہ اقدام علامتی تھا، سٹریٹجک تھا یا حقیقی انتباہ، ہم شاید کبھی نہیں جان پائیں گے لیکن یہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے مبینہ طور پر اس بحران کو ختم کرنے کے لیے دونوں ممالک کے ساتھ بات چیت شروع کی ہی تھی۔
صدر ٹرمپ نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان جاری بحران کو ختم کروانے کے بعد کہا کہ امریکہ نے صرف سیز فائر ہی نہیں کروایا بلکہ اس نے ایک ’ایٹمی لڑائی‘ کو روکوایا۔ پیر کو انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’ایٹمی حملے کے حوالے سے بلیک میل نہیں ہوں گے، انڈیا ایٹمی حملوں کی دھمکیوں سے نہیں ڈرے گا۔‘
مودی نے مزید کہا کہ ’اس کی آڑ میں کام کرنے والی دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو فیصلہ کن حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘
سیپری کے جنوری 2024 تک کے ایک تخمینے کے مطابق دنیا بھر میں 12,121 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ ان میں سے تقریباً 9,585 عسکری ذخیروں میں رکھے گئے ہیں، جن میں سے 3,904 فعال طور پر تعینات تھے اور یہ سنہ 2023 کے مقابلے میں 60 زیادہ ہیں۔ امریکہ اور روس کے پاس 8000 سے زیادہ جوہری ہتھیار ہیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
امریکہ کی البانی یونیورسٹی میں سکیورٹی امور کے ماہر کرسٹوفر کلیری کے مطابق، انڈیا اور پاکستان دونوں کے تعینات کردہ ہتھیاروں کا بڑا حصہ ان کی زمین پر مبنی میزائل فورسز میں ہے، حالانکہ دونوں ہی ایسے ایٹمی ہتھیار تیار کر رہے ہیں جو زمین، ہوا اور سمندر سے مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ممکنہ طور پر پاکستان کے مقابلے میں انڈیا کے پاس فضائی برتری ہے یعنی ایسے طیارے زیادہ ہیں جو جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہوں جبکہ ہم پاکستان بحریہ کی قوت کے متعلق بہت کم جانتے ہیں، لہذا یہ کہنا مناسب ہو گا کہ انڈیا کی جوہری بحری قوت پاکستان کے مقابلے میں زیادہ بہتر اور جدید ہے۔‘
کرسٹوفر کلیری کا کہنا ہے کہ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ حالیہ کچھ عرصے میں پاکستان نے وہ ’وقت یا پیسہ‘ نہیں لگایا جو انڈیا نے اپنی جوہری آبدوز بنانے میں لگایا اور یہ پاکستان کے مقابلے میں انڈیا کو واضح برتری دیتا ہے۔
سنہ 1998 میں جوہری ہتھیاروں کے تجربے کے بعد سے پاکستان نے کبھی بھی باضابطہ طور پر جوہری نظریے کا اعلان نہیں کیا۔
کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کی سعدیہ تسلیم کے مطابق پاکستان کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق باضابطہ نظریے کی عدم موجودگی کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان کے پاس کچھ نہیں۔
سرکاری بیانات، انٹرویوز اور جوہری ترقی سے متعلق خبریں اکثر اس کے استعمال اور موقف سے متعلق واضح اشارے دیتی ہیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
پاکستان کی جانب سے کن صورتوں میں جوہری ہتھیار استعمال کیے جا سکتے ہیں اس بارے میں اب بھی ابہام ہے تاہم سنہ 2001 میں اس وقت کے نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے سٹرٹیجک پلان ڈویژن کے سربراہ خالد کدوائی نے اس متعلق چار سرخ لکیریں کھینچی تھیں۔ جن میں دشمن ملک کی جانب سے پاکستان کے بڑے رقبے کا نقصان ہونا، اہم عسکری تنصیبات کی تباہی، معاشی طور پر گلا گھونٹنا یا ملک میں سیاسی عدم استحکام پھیلانا شامل ہے۔
سنہ 2002 میں اس وقت کے پاکستان کے صدر پرویز مشرف نے واضح کیا تھا کہ ’جوہری ہتھیاروں کا مقصد صرف اور صرف انڈیا ہے‘ اور انھیں صرف اس صورت میں استعمال کیا جائے گا جب ’ایک ریاست کے طور پر پاکستان کا وجود‘ خطرے میں ہو۔
اپنی یادداشت میں سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے لکھا کہ انھیں ایک بے نام ’انڈین ہم منصب‘ سے بات کرنے کے لیے رات کو سوتے سے جگایا گیا تھا جنھیں خدشہ تھا کہ پاکستان انڈیا کے ساتھ 2019 کے تنازعے کے دوران جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔
اس وقت کے دوران پاکستان کے میڈیا نے ایک سینیئر حکام کا حوالہ دیا تھا جنھوں نے انڈیا کو واضح دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں امید کرتا ہوں کہ تم جانتے ہو (نیشنل کمانڈ اتھارٹی) کیا ہے اور اس میں کون لوگ ہیں۔ میں نے کہا تھا ہم تمہیں چونکا دیں گے۔ اب اس کا انتظار کرو۔۔۔ تم نے جنگ کا راستہ یہ جانے بغیر اپنایا کہ اس سے خطے کے امن اور سکیورٹی کے لیے کیا نتائج نکلیں گے۔‘
1999 کی کارگل جنگ کے دوران اس وقت کے پاکستان کے سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد نے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ملک اپنے دفاع کے لیے ’کسی بھی قسم کا ہتھیار استعمال کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرے گا۔‘ چند برسوں بعد امریکی اہلکار بروس ریڈیل نے انکشاف کیا تھا کہ خفیہ معلومات یہ ظاہر کرتی تھی کہ پاکستان اپنے جوہری ہتھیاروں کی ممکنہ تعیناتی کی تیاری کر رہا تھا۔
مگر دونوں جانب اس طرح کے دعوؤں کو مشکوک انداز میں دیکھا جاتا ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
پاکستان میں سابق انڈین ہائی کمشنر اجے بساریہ نے اپنی یادداشت میں لکھا کہ پومپیو نے جوہری کشیدگی کے خطرے اور 2019 میں تنازعے کو پرسکون کرنے میں امریکی کردار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔
جبکہ پاکستانی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کارگل کے دوران، پاکستان ’جانتا تھا کہ انڈین فضائیہ اس کی سرزمین میں داخل نہیں ہوگی‘ لہذا پاکستان کی طرف سے حقیقی طور پر جوہری حملے کا کوئی خطرہ یا محرک نہیں تھا۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے دفاعی تجزیہ کار اعجاز حیدر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سٹرٹیجک سگنلنگ دنیا کو یاد دلاتی ہے کہ کوئی بھی تنازعہ بڑھ سکتا ہے اور انڈیا اور پاکستان دونوں ہی جوہری قوتیں ہیں اس لیے یہ خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دونوں طرف سے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔‘
لیکن جوہری اضافہ حادثاتی طور پر بھی ہو سکتا ہے۔ سائنسدانوں کی ایک عالمی ٹیم کے تاریخی 2019 کے مقالے کے مرکزی مصنف اور رٹگرز یونیورسٹی کے پروفیسر ایلن روبوک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ انسانی غلطی، ہیکرز، دہشت گردوں، کمپیوٹر کی ناکامی، سیٹلائٹس کے خراب ڈیٹا اور غیر مستحکم لیڈروں کی وجہ سے ہو سکتی ہے۔‘
مارچ 2022 میں انڈیا نے غلطی سے ایک جوہری صلاحیت رکھنے والا کروز میزائل داغ دیا تھا جو پاکستان کی حدود میں 124 کلومیٹر اندر تک آ کر پنجاب کے شہر میاں چنوں کے پاس گرا تھا جس سے مبینہ طور پر شہری املاک کو نقصان پہنچا تھا۔
پاکستان نے کہا تھا کہ انڈیا اس واقعے کے دو دن بعد تک فوجی ہاٹ لائن استعمال کرنے یا عوامی سطح پر کوئی بیان جاری کرنے میں ناکام رہا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ شدید کشیدگی کے دوران ہوا ہوتا تو یہ واقعہ سنگین تنازعہ کی شکل اختیار کر سکتا تھا۔(مہینوں بعد انڈین حکومت نے فضائیہ کے تین افسران کو ’حادثاتی طور پر میزائل فائر‘ کرنے کے الزام میں برطرف کر دیا تھا۔)
کرسٹوفر کلیری کہتے ہیں کہ اگرچہ خطرہ ضرور ہے مگر لیکن انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایٹمی جنگ کا خطرہ ’کم ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’جب تک کوئی سرحدوں پر کوئی بڑی زمینی لڑائی نہیں ہوتی دونوں کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کرنے کا خطرہ کم اور قابو میں ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’زمینی لڑائی میں ’اسے استعمال کریں یا اسے کھو دیں‘ کا مسئلہ اس امکان کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ آپ کی زمینی پوزیشنیں دشمن کے قبضے میں آ جائیں گی۔‘ (اسے استعمال کریں یا اسے کھو دیں سے مراد وہ دباؤ ہے جو جوہری ہتھیاروں سے لیس ملک اپنے ہتھیاروں کو کسی مخالف کی طرف سے پہلے حملہ کرنے کی صورت میں تباہ کرنے سے پہلے اسے لانچ کرنے کے لیے محسوس کر سکتا ہے۔)
سٹینفورڈ یونیورسٹی کے ہوور انسٹیٹیوشن کے سینیئر فیلو سومیت گنگولی کا خیال ہے کہ ’نہ ہی انڈیا اور نہ ہی پاکستان چاہتے ہیں کہ انھیں ہیروشیما کے بعد جوہری ہتھیار استعمال کرنے والے پہلے ممالک کے طور پر دیکھا جائے۔‘
سومیت گنگولی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس کے علاوہ، جو بھی فریق جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا سہارا لے گا، اسے بھرپور جوابی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا اور اسے ناقابل تلافی جانی نقصان اٹھانا پڑے گا۔‘
مگر ایک ہی وقت میں انڈیا اور پاکستان دونوں اپنے جوہری ہتھیاروں میں اضافہ کر رہے ہیں۔
امریکی سائنسدانوں کی فیڈرشن کے نیوکلیئر انفارمیشن پراجیکٹ کی جانب سے تحقیق شدہ دی نیوکلیئر نوٹ بک کے مطابق پاکستان کی جانب سے جوہری افزودگی کے نئے نظام یعنی چار پلوٹونیم ری ایکٹرز اور یورینیم کی افزودگی میں توسیع کے ساتھ 2020 کی دہائی کے آخر تک پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد 200 کے قریب پہنچ سکتی ہے۔
انٹرنیشنل پینل آن فزائل میٹریل کے مطابق 2023 کے اوائل تک انڈیا کے پاس تقریباً 680 کلوگرام پلوٹونیم ہونے کا تخمینہ لگایا گیا تھا جو تقریباً 130-210 جوہری ہتھیاروں کے لیے کافی ہے۔
بار بار کے بحرانوں اور جنگ تک پہنچنے والی کشیدگی کے باوجود دونوں فریق اب تک جوہری تنازع سے بچنے میں کامیاب رہے ہیں۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار عمر فاروق لکھتے ہیں کہ ’ڈیٹرنس نے ابھی تک ایک دوسرے کو پکڑ رکھا ہے۔ پاکستان نے روایتی حملوں کا جواب اپنے جوابی اور روایتی حملوں سے دینا تھا۔‘
اس کے باوجود جوہری ہتھیاروں کی موجودگی دونوں ممالک کے درمیان جوہری جنگ کے ایک مستقل خطرے کو جنم دیتی ہے اور اس سے کبھی بھی مکمل طور پر انکار نہیں کیا جا سکتا، چاہے قیادت کتنی ہی تجربہ کار ہو یا ارادے کتنے ہی محدود کیوں نہ ہوں۔
ایک غیر سرکاری تنظیم سینٹر فار آرمز کنٹرول اینڈ نان پرولیفریشن کے سینیئر پالیسی ڈائرکٹر جان ایراتھ کہتے ہیں کہ ’جب جوہری ہتھیاروں کو استعمال کیا جا سکتا ہو تو وہاں ہمیشہ ایک غیر معمولی خطرہ رہتا ہے۔‘
’انڈیا اور پاکستان کی حکومتیں ماضی میں ایسی صورتحال یا کشیدگی سے باہر آئی ہیں لہذا اس کا خطرہ کم ہے لیکن جوہری ہتھیاروں کی موجودگی میں چھوٹا خطرہ بھی بہت بڑا ہوتا ہے۔‘
SOURCE : BBC