SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, وقارمصطفیٰ
- عہدہ, صحافی، محقق
-
58 منٹ قبل
‘خداوند نے مجھے بھیڑ باڑے سے نکالا اور اسرائیل کے تخت پر لا بٹھایا۔‘
مسیحیوں کی مقدس کتاب بائبل میں حضرت داؤد نے اپنا تعارف کچھ اس انداز میں کروایا۔ قرآن میں حضرت داؤد کو خدا کا ’برگزیدہ بنی‘ اور ’عادل حکمران‘ قرار دیا گیا ہے۔
بائبل میں حضرت داؤد کا نام ’ڈیوڈ‘ ہے جن کا تعارف ایک بادشاہ اور شاعر کے طور پر کروایا گیا ہے۔
تو آئیے دیکھتے ہیں کہ حضرت داؤد کا چرواہے سے بادشاہ، یا نبی بننے کا قصہ مختلف مذاہب میں کیسے بیان ہوا ہے۔
بنی اسرائیل پر مشکلات
حضرت موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل سرکش ہو گئے تھے۔ اور اُن کی سرکشی کی پاداش میں خدا نے اُن پر جالوت اور اُس کی جنگجو قوم ’عمالِقہ‘ (فِلِستیوں) کو مسلّط کر دیا، جنھوں نے اُن کے شہر چھینے اور اُن پر سختیاں کیں۔
قرآن میں ہے کہ وہ (بنی اسرائیل) ’ہزاروں کی تعداد میں تھے اور موت کے ڈر سے اپنے گھر چھوڑ کر اُن سے نکل کھڑے ہوئے؟ اِس پر اللہ نے اُن سے فرمایا کہ مردے ہو کر جیو۔ (اور وہ برسوں اِسی حالت میں رہے)۔‘
بائبل (کتاب سموئیل) میں ہے کہ ’فلستی (جالوت کی قوم) لڑے اور بنی اسرائیل نے شکست کھائی اور ہر ایک اپنے ڈیرے کو بھاگا اور وہاں نہایت بڑی خون ریزی ہوئی کیونکہ تیس ہزار اسرائیلی پیادے وہاں کھیت آئے (مارے گئے) اور خدا کا صندوق چھن گیا۔‘
امین احسن اصلاحی کی تفسیر ’تدبرِ قرآن‘ سے علم ہوتا ہے کہ ’بنی اسرائیل کے مصر سے خروج (نکلنے ) کے زمانے سے لے کر بیت المقدس کی تعمیر تک، اِسی صندوق کو بنی اسرائیل کے قبلہ کی حیثیت حاصل رہی۔۔۔ حضرت موسیٰ کے زمانے تک تو اِس میں تورات اور صحرا کی زندگی کے دور کی بعض یادگاریں محفوظ کی گئیں، اور پھر اُس میں حضرت موسیٰ، حضرت ہارون اور اُن کے خاندان کے بعض اور تبرکات بھی محفوظ کر دیے گئے۔‘
سموئیل (بائبل) سے پتا چلتا ہے کہ بنی اسرائیل اگرچہ تین لاکھ سے زیادہ تھے، مگر اپنی مذہبی اور اخلاقی حالت کی خرابی اور سیاسی ابتری کے باعث فلستیوں کا مقابلہ نہیں کر سکے اور عقرون سے لے کر جات تک اپنے شہر خالی کر کے اُن (جالوت کی قوم) کے حوالے کرنے پر مجبور ہو گئے۔
’اور جس دن سے صندوق قریت یعریم (ایک علاقے کا نام) میں رہا، تب سے ایک مدت ہو گئی، یعنی بیس برس گزرے اور اسرائیل کا سارا گھرانا خداوند کے پیچھے نوحہ کرتا رہا۔‘

بادشاہ مقرر کرنے کا مطالبہ اور اعتراض

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل کے سرداروں نے اپنے ایک نبی سے کہا کہ ’آپ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کر دیں تاکہ ہم (اُس کے حکم پر) اللہ کی راہ میں (فلستیوں) سے جنگ کریں؟‘
بائبل میں ہے کہ یہ نبی حضرت سموئیل تھے۔
قرآن میں ہے کہ ’اِس پر نبی نے کہا: ایسا نہ ہو کہ تم پر جہاد فرض کیا جائے اور پھر تم جہاد نہ کرو؟ وہ بولے: ہم کیوں اللہ کی راہ میں جہاد نہ کریں گے، جب کہ ہمیں ہمارے گھروں اور ہمارے بچوں سے دور نکال دیا گیا ہے؟‘
’لیکن (ہوا یہی کہ) جب اُن پر جہاد فرض کیا گیا تو اُن میں سے تھوڑے سے لوگوں کو چھوڑ کر باقی سب پِھر گئے۔‘
قرآن کی ’سورہ البقرہ‘ میں ہے کہ ’(اُن کے اِس مطالبے پر) اُن کے نبی نے اُنھیں بتایا کہ اللہ نے طالوت کو تمھارے لیے بادشاہ مقرر کر دیا ہے۔‘
بائبل میں یہ نام ساؤل ہے، طالوت غالباً اُن کا لقب ہے جس سے وہ اپنے غیر معمولی قدوقامت کی وجہ سے لوگوں میں مشہور رہے ہوں گے۔
قرآن میں ہے کہ ’(وہ) بولے: اُس کی بادشاہی ہم پر کس طرح ہو سکتی ہے، جب کہ ہم اِس بادشاہی کے اُس سے زیادہ حقدار ہیں اور وہ کوئی دولت مند آدمی بھی نہیں ہے؟‘
سموئیل میں یہی اعتراض یوں بیان ہے کہ ’پر شریروں میں سے بعض کہنے لگے کہ یہ شخص ہم کو کس طرح بچائے گا؟ سو اُنھوں نے اُس کی تحقیر کی اور اُس کے لیے نذرانے نہ لائے۔ پر وہ ان سنی کر گیا۔‘
قرآن کے مطابق ’نبی نے جواب دیا: اللہ نے اُسی کو تم پر (حکومت کے لیے) منتخب کیا ہے اور اِس مقصد کے لیے اُسے علم اور جسم، دونوں میں بڑی کشادگی عطا فرمائی ہے۔‘
سموئیل میں ہے کہ ’اور جب وہ لوگوں کے درمیان کھڑا ہوا تو ایسا قد آور تھا کہ لوگ اُس کے کندھے تک آتے تھے۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
خدا کا صندوق کیسے واپس ملا
قرآن میں ہے ‘اور اُن کے نبی نے اُن کے لیے مزید وضاحت کی کہ (اللہ کی طرف سے ) اُس کے بادشاہ مقرر کیے جانے کی نشانی یہ ہے کہ (تمھارا) وہ صندوق (تمھارے دشمنوں کے ہاتھ سے نکل کر) تمھارے پاس آ جائے گا جس میں تمھارے پروردگار کی طرف سے (تمھارے لیے ہمیشہ) بڑی سکینت رہی ہے اور جس میں وہ یادگاریں بھی ہیں جو موسیٰ اور ہارون کی ذریت نے (تمھارے لیے) چھوڑی ہیں۔ اُسے فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ اِس میں، یقیناً ایک بڑی نشانی ہے تمھارے لیے، اگر تم ماننے والے ہو۔‘
ایسا ہی ہوا۔ اللہ کے حکم سے فلستیوں نے اِس صندوق کو ایک گاڑی پر رکھ کر بنی اسرائیل کے علاقے کی طرف ہانک دیا۔
بائبل (سموئیل) میں ہے کہ ’اور دو دودھ والی گائیں لے کر اُن کو گاڑی میں جوتا اور اُن کے بچوں کو گھر میں بند کر دیا اور خداوند کے صندوق اور سونے کی چُہیوں اور اپنی گلٹیوں کی مورتوں کے صندوقچہ کو گاڑی پر رکھ دیا۔‘
’اِن گایوں نے بیت شمس کا سیدھا راستہ لیا۔ وہ سڑک ہی سڑک ڈکارتی گئیں اور دہنے یا بائیں ہاتھ نہ مڑیں اور فلستی سردار اُن کے پیچھے پیچھے بیت شمس کی سرحد تک گئے اور بیت شمس کے لوگ وادی میں گیہوں کی فصل کاٹ رہے تھے۔ اُنھوں نے جو آنکھیں اٹھائیں تو صندوق کو دیکھا اور دیکھتے ہی خوش ہو گئے۔‘
آزمائش اور ناکامی
قرآن کی آیات سے علم ہوتا ہے کہ ’(بنی اسرائیل کی حکومت سنبھالنے کے بعد) پھر جب طالوت فوجیں لے کر نکلے تو اُنھوں نے لوگوں کو بتایا کہ اللہ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ایک ندی کے ذریعے سے تمھیں آزمائے گا۔‘
’اِس کی صورت یہ ہو گی کہ جو اِس کا پانی پیے گا، وہ میرا ساتھی نہیں ہے اور جس نے اِس ندی سے کچھ نہیں چکھا، وہ میرا ساتھی ہے۔ ہاں، مگر اپنے ہاتھ سے ایک چلو کوئی پی لے تو پی لے۔‘
’لیکن ہوا یہ کہ اُن میں سے تھوڑے لوگوں کے سوا باقی سب نے اُس ندی کا پانی پی لیا۔‘
بائبل میں اِس امتحان کا تو ذکر نہیں ہے، لیکن اِسی سے ملتے جلتے ایک دوسرے امتحان کا ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
جالوت سے مقابلہ اور حضرت داؤد کی فتح
بائبل سے پتا چلتا ہے کہ یہ مہم فلستیوں کے مقابلے میں تھی جن کا سردار اُس زمانے میں جاتی جولیت (گولائتھ) تھا۔ قرآن میں نام ’جالوت‘ لکھا ہے۔
سموئیل اول میں یہ واقعہ یوں بیان ہوا ہے: ’پھر فلستیوں نے جنگ کے لیے اپنی فوجیں جمع کیں اور یہوداہ کے شہر شوکہ میں فراہم ہوئے اور شوکہ اور عزیقہ کے درمیان افسدمیم میں خیمہ زن ہوئے۔ اور ساؤل اور اسرائیل کے لوگوں نے جمع ہو کر ایلا کی وادی میں ڈیرے ڈالے اور لڑائی کے لیے فلستیوں کے مقابل صف آرائی کی۔ اور ایک طرف کے پہاڑ پر فلستی اور دوسری طرف کے پہاڑ پر بنی اسرائیل کھڑے ہوئے اور اُن دونوں کے درمیان وادی تھی۔‘
قرآن میں ہے کہ ’پھر جب طالوت اُس کے پار اُترے اور اُن کے وہ ساتھی بھی جو اپنے ایمان پر قائم رہے، (اور فوجیں دیکھیں) تو (جو لوگ آزمائش میں پور ے نہیں اترے تھے) اُنھوں نے کہہ دیا کہ ہم تو آج جالوت اور اُس کے لشکروں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔‘
’اِس پر وہ لوگ جنھیں خیال تھا کہ اُن کو اللہ سے ملنا ہے، بول اُٹھے کہ (حوصلہ کرو ، اِس لیے کہ) بہت جگہ ایسا ہوا ہے کہ اللہ کے حکم سے چھوٹے گروہ بڑے گروہوں پر غالب آئے ہیں، اور اللہ تو ثابت قدم رہنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔‘
سموئیل میں ہے کہ طالوت کے بیٹے یونتن نے کہا کہ خداوند کے لیے بہتوں یا تھوڑوں کے ذریعے سے بچانے کی قید نہیں۔
حضرت داؤد طالوت کی فوج میں شامل تھے۔ ’تدبرِ قرآن‘ کے مطابق اُن کی اِس شمولیت کے بارے میں تورات میں دو مختلف روایتیں ہیں۔
ایک تو یہ کہ وہ اِس جنگ سے پہلے ہی طالوت کے لشکر میں داخل ہو چکے تھے اور حضرت سموئیل نے مستقبل کے بادشاہ کے طور پر اُن کا مسح (سر پر تیل ڈالنا) بھی کیا تھا۔
دوسری روایت یہ ہے کہ وہ اپنی بکریاں چراگاہ میں چھوڑ کر اپنے بڑے بھائیوں کو، جو جنگ میں شریک تھے، اپنے باپ کے حکم سے کچھ کھانے کی چیزیں دینے آئے۔
’یہاں انھوں نے دیکھا کہ جالوت کی للکار کے مقابلے میں کوئی آگے نہیں بڑھ رہا ہے۔ انھوں نے طالوت سے مقابلے کی اجازت مانگی۔‘
’طالوت کو اِن کی کم عمری اور ناتجربہ کاری کی بنا پر اجازت دینے میں تردد ہوا۔ لیکن جب اِنھوں نے کہا کہ میں اپنی بکریوں پر حملہ کرنے والے شیروں اور ریچھوں کے جبڑے توڑ دیا کرتا ہوں، بھلا اِس کی کیا حیثیت ہے کہ یہ زندہ خداوند کی فوجوں کو رسوا کرے، تو طالوت نے انھیں اجازت دے دی اور خود اپنا جنگی لباس پہنا کر اپنے مخصوص اسلحہ سے اِن کو لیس کیا۔‘
وہ یہ پہن کر کچھ بندھا بندھا سا محسوس کرنے لگے۔ آخر طالوت کی اجازت سے چرواہوں کی طرح اپنی فلاخن (گوپھن یعنی پتھر پھینکنے کا آلہ) اٹھائی، چادر کے ایک کونے میں کچھ پتھر رکھے اور وقت کے سب سے بڑے دیو کے مقابل میں جا کے ڈٹ گئے۔
سموئیل میں ہے کہ حضرت داؤد نے میدان جنگ میں جالوت کے مقابل ہوتے ہوئے کہا: ’اور یہ ساری جماعت جان لے کہ خداوند تلوار اور بھالے کے ذریعے سے نہیں بچاتا، اِس لیے کہ جنگ تو خداوند کی ہے اور وہی تم کو ہمارے ہاتھ میں کر دے گا۔‘
پہلے تو اُس نے اِن کا مذاق اُڑایا۔ لیکن جب اِن کی طرف سے اُس کو ترکی بہ ترکی جواب ملا تو اُس نے کہا کہ ’اچھا آ، آج تیرا گوشت چیلوں اور کوّوں کو کھلاتا ہوں۔‘
اتنے میں حضرت داؤد نے فلاخن میں پتھر رکھ کر جو اُس کو مارا تو پتھر اُس کے سر سے چپک کر رہ گیا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ اتنے بڑے سپہ سالار کا ایک الھڑ چرواہے کی فلاخن سے اِس طرح مارا جانا، ظاہر ہے کہ ایک عظیم واقعہ تھا۔ چنانچہ فلستینی فوج میں بھگدڑ مچ گئی اور اِدھر بنی اسرائیل کی عورتوں کی زبان پر یہ گیت جاری ہو گیا: ’ساؤل نے تو ہزاروں کو مارا، پر داؤد نے لاکھوں کو مارا۔‘
قرآن کے مطابق ’اور (یہی سچے مسلمان تھے کہ) جب جالوت اور اُس کی فوجوں کا سامنا ہوا تو اُنھوں نے دعا کی کہ پروردگار، ہم پر صبر کا فیضان فرما اور ہمارے پاؤں جما دے اور اِن منکر لوگوں پر ہمیں غلبہ عطا کر دے۔‘
بادشاہت اور نبوت
’چنانچہ (اُن کی دعا قبول ہوئی اور) اللہ کے حکم سے اُنھوں نے اپنے اُن دشمنوں کو شکست دے دی اور جالوت کو داؤد نے قتل کر دیا اور اللہ نے اُسے بادشاہی دی اور حکمت عطا فرمائی اور اُسے اُس علم میں سے سکھایا جو اللہ چاہتا ہے کہ اپنے اِس طرح کے بندوں کو سکھائے۔‘
سموئیل اول میں ہے ’سو فلستی مغلوب ہوئے اور اسرائیل کی سرحد میں پھر نہ آئے اور سموئیل کی زندگی بھر خداوند کا ہاتھ فلستیوں کے خلاف رہا اور عقرون سے جات تک کے شہر جن کو فلستیوں نے اسرائیلیوں سے لے لیا تھا، وہ پھر اسرائیلیوں کے قبضے میں آئے اور اسرائیلیوں نے اُن کی نواحی بھی فلستیوں کے ہاتھ سے چھڑا لی۔‘
سموئیل اوّل کے مطابق اس واقعے نے حضرت داؤد کو تمام اسرائیلیوں کی آنکھوں کا تارا بنا دیا، طالوت نے اپنی بیٹی ان سے بیاہ دی اور آخر کار وہی اسرائیلیوں کے فرمانروا ہوئے۔
قرآن میں ہے کہ ’اللہ نے اُنھیں (بنی اسرائیل کو) دوبارہ زندگی عطا فرمائی۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اللہ لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے، مگر لوگوں میں زیادہ ہیں جو (اُس کے) شکر گزار نہیں ہوتے۔‘
حضرت داؤد کا تذکرہ قرآن میں دیگر مقامات پر کہیں خصوصی فضیلت اور زبور عطا ہونے کے ضمن میں ہے تو کہیں انھیں طاقتور، بردبار اور اللہ کی طرف رجوع کرنے والا قرار دیا گیا ہے۔ پہاڑ اور پرندے اُن کے ساتھ اللہ کی تسبیح کرتے تھے۔ معجزہ تھا کہ ان کی سریلی اور خوبصورت آواز میں اس قدر تاثیر تھی کہ جب وہ زبور کی تلاوت کرتے تھے تو انسانوں کے ساتھ چرند پرند بھی وجد میں آ جاتے تھے۔ حضرت داؤد کی اسی طرزِ تلاوت کو لحن داؤدی کہا جاتا ہے۔
’سورۃ سبأ‘ میں ہے کہ حضرت داؤد کو لوہا نرم کرنے کی صلاحیت دی گئی اور انھیں زِرہ بنانے کا فن سکھایا گیا۔ ’سورۃ الأنبیاء‘ میں حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کے ایک مقدمے کا ذکر ہے، جہاں دونوں نے اجتہاد کیا۔ ’سورۃ النمل‘ میں حضرت داؤد اور اُن کے بیٹے حضرت سلیمان کو علم عطا کیے جانے کا ذکر ہے۔
حضرت داؤد کی سلطنت خلیج عقبہ سے دریائے فرات کے مغربی کناروں تک پھیلی ہوئی تھی جس پر وہ حضرت عیسیٰ کی آمد سے 965 سال پہلے تک حکومت کرتے رہے۔
SOURCE : BBC