SOURCE :- BBC NEWS

،تصویر کا ذریعہX
12 منٹ قبل
انڈیا اور پاکستان کے درمیان تناؤ کے عروج پر انڈیا کے شہر حیدرآباد میں موجود تاریخی کراچی بیکری کے سامنے ہلڑ بازی اور بی جے پی کے کارکنان کی جانب سے اس کے سائن بورڈ کو ڈنڈے مارنے کی ویڈیوز دونوں ملکوں کے سوشل میڈیا پر شیئر کی جا رہی ہیں۔
انڈیا کے مقامی میڈیا کے مطابق یہ واقعہ 10 مئی کا ہے یعنی جس روز دونوں ممالک کے چار روز تک ایک دوسرے کے خلاف عسکری کارروائیوں کے بعد سیز فائر معاہدہ طے پایا تھا۔
سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کراچی بیکری کے سامنے موجود چند افراد جنھوں نے گلے میں نارنجی رنگ کے مفلر ڈال رکھے ہیں اور ہاتھوں میں انڈیا کے جھنڈے ہیں وہ ‘پاکستان مردہ باد’ کے نعرے لگا رہے ہیں۔
ایک اور ویڈیو میں وہ ڈنڈوں کے ذریعے سائن بورڈ توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس دوران ‘بھارت ماتا کی جے’ کا نعرہ لگایا جا رہا ہے۔ اس دوران تین پولیس اہلکار انھیں روکنے کی کوشش کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
صحافی انوشہ روی سود نے اس بارے میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اس حوالے سے ویڈیوز اپ لوڈ کرتے ہوئے لکھا کہ ‘یہ ایک 60 سال پرانی بیکری ہے جو ایک انڈین برانڈ ہے اور اسے خانچند رمنانی نے بنایا تھا۔ بیچاری کراچی بیکری جس کا پاکستان سے کچھ لینا دینا نہیں ہے اس ہر دفعہ پاکستان کے ساتھ تناؤ کے دوران اس قسم کی حرکتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
کراچی بیکری میں توڑ پھوڑ کی مذمت
اس واقعے پر انڈیا میں سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے بھی تنقید کی جا رہی ہے۔
ایک صارف سنجیو نے لکھا کہ ’یہ لوگ جھنڈوں کو اسلحہ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں ان پر مقدمہ کر کے انھیں جیل بھیجنا چاہیے۔‘

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
صارف رجیندرا کوشیک نے ایکس پر لکھا کہ ’اس سے پتا چلتا ہے کہ ان غنڈوں کے ذہنوں میں بیوقوفی بھری ہوئی ہے۔‘
انھوں نے ساؤتھ فرسٹ کو بتایا کہ ’مجھے بی جے پی کے کسی بھی کارکن کی توڑ پھوڑ کے اس واقعے میں ملوث ہونے کے بارے میں علم نہیں ہے تاہم مجھے یہ پتا ہے کہ کراچی بیکری کو توڑ پھوڑ کا سامنا کرنا پڑا۔
’میں نہیں سمجھتا کہ یہ ٹھیک ہوا ہے۔ صرف اس لیے کہ اس کے نام میں کراچی ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کا تعلق بھی کراچی سے ہو۔ بیکری کی متعدد برانچز کے باہر فخر سے انڈین جھنڈے لگائے جاتے ہیں۔‘
تین روز قبل کراچی بیکری نے اپنے انسٹاگرام ہینڈل سے ایک پوسٹ میں لکھا تھا کہ ’ہمیں انڈین ہونے پر فخر ہے۔ کراچی بیکری 100 فیصد انڈین برانڈ ہے، یہ انڈیا کے شہر حیدرآباد میں 1953 میں قائم ہوئی تھی۔ ہمارا نام ہماری تاریخ کا حصہ ہے لیکن ہماری قومیت کا نہیں۔ ہم آپ سے حمایت کی درخواست کرتے ہیں، ہم ایک انڈین برانڈ ہیں جو انڈیا کی محبت سے خدمت کر رہا ہے۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔
X پوسٹ کا اختتام, 1
مواد دستیاب نہیں ہے
X مزید دیکھنے کے لیےبی بی سی. بی بی سی بیرونی سائٹس پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے.
تاہم آر جی آئی ایئر پورٹ پولیس کے انسپیکٹر کے بالاراجو نے اس واقعے کے بارے میں میڈیا کو بتایا ہے کہ ’کچھ بی جے پی کے کارکن شمشاباد کراچی بیکری کے باہر سنیچر کو تین بجے آئے تھے اور انھیں بیکری کے نام سے مسئلہ تھا، انھوں نے سائن بورڈ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی، ہم نے انھیں نقصان پہنچانے پر حراست میں لے لیا تھا، لیکن پولیس کو انھیں اس لیے چھوڑنا پڑا کیونکہ کراچی بیکری ان کے خلاف کارروائی نہیں چاہتی تھی۔
خیال رہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کراچی بیکری کے ساتھ پاکستان اور انڈیا کے درمیان تناؤ کے دوران ایسا واقعہ پیش آیا ہو۔ اس سے پہلے سنہ 2020 میں شیو سینا کے رہنما نتن نند گاؤنکر کی بمبئی میں واقع کراچی بیکری کے مالک سے بیکری کا نام تبدیل کرنے کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔

،تصویر کا ذریعہX
ان کو اس ویڈیو میں بیکری کے مالک سے یہ بھی کہتے سنا جا سکتا تھا کہ ’آپ کے آباؤ اجداد کا تعلق پاکستان سے ہے جنھوں نے تقسیم کے دوران وہاں سے ہجرت کی۔ ہم آپ کا سواگت کرتے ہیں لیکن مجھے کراچی نام سے نفرت ہے۔ پاکستان کا یہ شہر دہشت گردوں کا گڑھ ہے۔‘
آپ کو یہ کرنا پڑے گا، ہم آپ کو وقت دے رہے ہیں۔ ‘کراچی’ کو مراٹھی میں کسی نام سے تبدیل کر دیں۔’
اس وقت انڈین میڈیا کے مطابق شیو شینا رہنما کے مطالبے کے بعد دکاندار نے بیکری کے نام کو اخبار کے ساتھ ڈھانپ دیا تھا اور مالک نے انڈیا ٹوڈے کو بتایا تھا کہ ‘میں کوئی پریشانی نہیں چاہتا۔’
ایک انڈین صارف نے لکھا کہ ’کراچی کی بندرگاہ نہ سہی کراچی بیکری ہی سہی۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔
X پوسٹ کا اختتام, 2
مواد دستیاب نہیں ہے
X مزید دیکھنے کے لیےبی بی سی. بی بی سی بیرونی سائٹس پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے.
’ہم انڈیا کا جھنڈا لگا رہے ہیں‘
ایک صارف عرفان حبیب نے لکھا کہ ’حیدرآباد میں کراچی بیکری کو یہ ثابت کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ اسے قائم کرنے والا شخص انڈین ہے۔ وہ کراچی سے ہجرت کر کے آئے تھے، بہت سے لوگ اپنی جذباتی وابستگی بحال رکھنے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ یہ پاگل پن ختم ہونا چاہیے۔‘
کراچی بیکری کی جانب سے اپنی ویب پر اپنی تاریخ لکھی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ’کیسے اسے قائم کرنے والے خانچند رمنانی تقسیم ہند کے دوران کراچی سے انڈیا کے شہر حیدرآباد آئے تھے اور پھر 1953 میں یہ بیکری قائم کی تھی۔ جس کے بعد اس کی برانچز انڈیا کے مختلف شہروں میں کھلنے لگیں۔‘
خیال رہے کہ نریندر مودی کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے انڈیا میں ناموں کی تبدیلی کی ایک لہر سنہ 2018 کے بعد سے شروع کی گئی تھی جس کے بعد سے مختلف جگہوں کے ناموں کو تبدیل کیا گیا۔
کراچی بیکری کے مالک نے خبررساں ادارے پی ٹی آئی کو بتایا کہ ‘کراچی بیکری 1953 سے حیدرآباد میں ہی ہے اور ہمارے دادا نے حیدرآباد سے ہی شروع کیا تھا آج 72 سال ہو چکے ہیں، ہمارا سب کچھ انڈیا میں ہی ہے، نام ہمارا کراچی بیکری اس لیے رکھا گیا تھا کیونکہ جب ہمارا دادا یہاں آئے تھے تو وہ اپنی محبت اور نام لے کر آئے تھے۔ ہم اپنے وزیرِاعلیٰ، پولیس چیف اور کمشنر سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ہماری حمایت کریں تاکہ ہمیں اپنا نام تبدیل نہ کرنا پڑے۔ ہم انڈیا کا جھنڈا لگا رہے ہیں۔’
SOURCE : BBC