SOURCE :- BBC NEWS

انڈیگو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, نیاز فاروقی
  • عہدہ, بی بی سی اردو، دلی
  • 13 منٹ قبل

21 مئی کی شام دلی سے سری نگر جانے والی پرواز میں موجود شیخ سمیع اللہ کے ’دل کی دھڑکن اب بھی تیز ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مجھے نئی زندگی ملی ہے۔ اللہ کا شکر گزار ہوں۔‘

220 سے زیادہ مسافروں سے بھری انڈین ایئرلائن انڈیگو کی یہ پرواز سفر کے دوران شدید جھٹکوں اور ٹربیولنس کا شکار ہوئی اور اس کا اگلا حصہ بھی ٹوٹ گیا۔ جبکہ تمام مسافر محفوظ رہے۔

شیخ سمیع اللہ یاد کرتے ہیں کہ ’اچانک شدید جھٹکا لگا۔ ایسا لگا جیسے یہ ہماری آخری پرواز ہے۔ سب خوفزدہ تھے، سب کو لگا کہ یہ اب حادثہ ہو جائے گا۔ یہ ایک انتہائی تکلیف دہ تجربہ تھا۔‘

دراصل اس طیارے کو ریاست پنجاب کی فضا میں شدید اولوں کے طوفان کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کی وجہ سے جہاز میں شدید جھٹکے آئے اور پائلٹ نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں سری نگر میں ایئر ٹریفک کنٹرول کو ’ایمرجنسی‘ رپورٹ کیا۔

اس 1.15 گھنٹے کی پرواز میں چار ارکان پارلیمنٹ بھی شامل تھے۔

ایئرلائن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پرواز کو اچانک شدید اولوں کے طوفان کا سامنا کرنا پڑا، لیکن جہاز بحفاظت سری نگر ایئرپورٹ پر اترا۔ ’پرواز اور کیبن کے عملے نے طے شدہ پروٹوکول پر عمل کیا، اور جہاز سری نگر میں بحفاظت لینڈ کر گیا۔‘

لیکن سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز سے ظاہر ہوتا ہے کہ فضائی جھٹکوں نے مسافروں میں شدید خوف و ہراس پیدا کر دیا اور وہ شدت سے حفاظت کی دعائیں مانگتے دکھائی دیے۔

سمیع اللہ نے نیوز ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا کہ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا۔ ‘پائلٹ نے لینڈنگ سے تقریباً 30 منٹ قبل ایک خطرناک مرحلے کے بارے میں اعلان کیا اور کہا کہ مسافر اپنی سیٹ بیلٹس باندھ لیں۔’

سمیع اللہ، جو ایک لاجسٹکس سٹارٹ اپ کے شریک بانی ہیں، نے کہا کہ ‘میں ہمیشہ سفر کرتا رہتا ہوں لیکن میں نے کبھی ایسا فضائی جھٹکا محسوس نہیں کیا۔ یہ خوفناک تھا۔ میں پائلٹ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے ہمیں بحفاظت اتارا۔’

انہوں نے کہا کہ لینڈنگ کے بعد جب انھوں نے جہاز کی حالت دیکھی تو وہ مزید صدمے میں چلے گئے۔ ‘جہاز کا اگلا حصہ ٹوٹ چکا تھا۔’

X پوسٹ نظرانداز کریں

X کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

X پوسٹ کا اختتام

مواد دستیاب نہیں ہے

X مزید دیکھنے کے لیےبی بی سی. بی بی سی بیرونی سائٹس پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے.

لیکن سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز سے ظاہر ہوتا ہے کہ فضائی جھٹکوں نے مسافروں میں شدید خوف و ہراس پیدا کر دیا اور وہ شدت سے حفاظت کی دعائیں مانگتے دکھائی دیے۔

سمیع اللہ نے نیوز ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا کہ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا۔ ’پائلٹ نے لینڈنگ سے تقریباً 30 منٹ قبل ایک خطرناک مرحلے کے بارے میں اعلان کیا اور کہا کہ مسافر اپنی سیٹ بیلٹس باندھ لیں۔‘

سمیع اللہ، جو ایک لاجسٹکس سٹارٹ اپ کے شریک بانی ہیں، نے کہا کہ ’میں ہمیشہ سفر کرتا رہتا ہوں لیکن میں نے کبھی ایسا فضائی جھٹکا محسوس نہیں کیا۔ یہ خوفناک تھا۔ میں پائلٹ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے ہمیں بحفاظت اتارا۔‘

انہوں نے کہا کہ لینڈنگ کے بعد جب انھوں نے جہاز کی حالت دیکھی تو وہ مزید صدمے میں چلے گئے۔ ’جہاز کا اگلا حصہ ٹوٹ چکا تھا۔‘

’لاہور ایئر ٹریفک کنٹرول سے رابطہ کیا گیا تھا‘

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

انڈیا کے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف سول ایوی ایشن نے جمعہ کو جاری ایک بیان میں تصدیق کی کہ جہاز کے اگلے حصے کو نقصان پہنچا تھا۔

جہاز کے عملے کے ارکان کا حوالہ دیتے ہوئے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف سول ایوی ایشن نے مزید کہا کہ ‘عملے نے موسم کی خرابی کی وجہ سے ناردرن کنٹرول (انڈین ایئر فورس) سے بین الاقوامی سرحد کی طرف بائیں جانب جانے کی اجازت مانگی لیکن اسے منظوری نہیں ملی۔’

‘بعد میں عملے نے لاہور (ایئر ٹریفک کنٹرول) سے موسمی خرابی سے بچنے کے لیے فضائی حدود میں داخلے کی اجازت مانگی اسے مسترد کر دیا گیا۔’

بی بی سی اردو نے اس بیان کے حوالے سے پاکستان میں سول ایوی ایشن کے حکام سے رابطہ کیا ہے مگر تاحال ان کی طرف سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

یاد رہے کہ رواں ماہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں اضافے کے باعث دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کی ایئرلائنز کے لیے اپنی فضائی حدود کو بند کر دیا تھا۔

دریں اثنا انڈین سول ایوی ایشن کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ انڈیگو پرواز کے عملے نے ابتدا میں واپسی کی کوشش کی لیکن چونکہ وہ طوفانی بادلوں کے قریب تھے اس لیے انھوں نے اس سے گزرنے کا فیصلہ کیا۔

انڈیگو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کیا جہاز پر ٹربیولنس جان لیوا ہوسکتی ہے؟

بی بی سی کے موسمیات کے ماہر سائمن کنگ، جو کہ انگلینڈ رائل ایئر فورس کے افسر بھی رہ چکے ہیں، کے مطابق زیادہ تر فضائی جھٹکے بادلوں میں ہوتے ہیں جہاں ہوا کے بہاؤ میں اتار چڑھاؤ آتا ہے۔

چھوٹے بادلوں میں یہ جھٹکے نسبتاً ہلکے ہوتے ہیں لیکن طوفان جیسے بڑے بادلوں میں ہوا کی بے ترتیب حرکت شدید فضائی جھٹکوں کا باعث بن سکتی ہے، جسے عام طور پر ٹربیولنس کہا جاتا ہے۔

جہاز اس قسم کے فضائی جھٹکوں کو جھیلنے کے لیے ڈیزائن کیے گئے ہیں۔

یہ امکان بہت کم ہے کہ فضائی جھٹکے کسی جہاز کو تباہ کر دیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ خراب موسم کی صورت میں شدید جھٹکے کی وجہ سے جہاز کے ڈھانچے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

شدید فضائی جھٹکے مسافروں کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں۔ سیٹ بیلٹ نہ باندھنے کی صورت میں اچانک حرکت کیبن میں انھیں ادھر اُدھر پھینک سکتی ہے۔

Facebook پوسٹ نظرانداز کریں

Facebook کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Facebook کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Facebook ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔

Facebook پوسٹ کا اختتام

لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ فضائی جھٹکوں کے نتیجے میں اموات اور زخمی ہونے کے واقعات کم ہوتے ہیں۔

کچھ محققین کا خیال ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے فضائی جھٹکوں کا امکان زیادہ ہو گیا ہے۔ دیگر یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم فضا میں اب کافی زیادہ سفر کر رہے ہیں، اسی لیے اس طرح کے واقعات زیادہ محسوس ہو رہے ہیں۔

انڈیگو کی اس پرواز کی بعض ویڈیوز میں جہاز کے اندر کا ہنگامی منظر دکھائی دیتا ہے جہاں مسافر چیخ رہے ہیں، رو رہے ہیں اور حفاظت کی دعائیں مانگ رہے ہیں۔

اویس مقبول حکیم، جو اس پرواز میں موجود تھے، نے ایکس پر لکھا کہ ‘میں جہاز میں تھا اور سری نگر سے اپنے گھر واپس جا رہا تھا۔ یہ ایک موت کو قریب سے دیکھنے جیسا تجربہ تھا۔ جہاز کا اگلا حصہ ٹوٹ چکا ہے۔۔۔ وہاں خوف و ہراس تھا اور لوگ چیخ رہے تھے۔ ہر کوئی خوفزدہ تھا۔’

انھوں نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ ابتدا میں موسم ٹھیک تھا لیکن اچانک خراب ہو گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘میں کھڑکی والی سیٹ پر تھا۔ پہلے دو منٹ کوئی اعلان نہیں ہوا۔ ٹربیولنس ہوا تو پہلے سوچا کہ نارمل ہے۔ پھر اچانک سے جہاز کافی تیزی سے نیچے گیا۔

‘اگر میں نے سیٹ بیلٹ نہ پہنی ہوتی تو میرا سر چھت سے جا لگتا۔’

21 مئی کی شام دلی اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں شدید اولوں اور طوفان نے درجنوں پروازوں کو دلی سے ہٹ کر دیگر جگہوں کی طرف مُڑنے پر مجبور کیا۔

بارش اور طوفان کی وجہ سے تباہی کے باعث دلی شہر میں کم از کم چار ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں۔

SOURCE : BBC