Home LATEST NEWS urdu تازہ ترین خبریں خضدار سکول بس حملہ: ’ایک باپ نے اپنے سارے بچے کھو دیے،...

خضدار سکول بس حملہ: ’ایک باپ نے اپنے سارے بچے کھو دیے، بچوں کی ٹانگیں چاک جبکہ آنتیں جسم سے باہر لٹکی ہوئی تھیں‘

2
0

SOURCE :- BBC NEWS

اپ کی ڈیوائس پر پلے بیک سپورٹ دستیاب نہیں

  • مصنف, محمد کاظم
  • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ
  • 21 مئ 2025

    اپ ڈیٹ کی گئی 22 مئ 2025

اس رپورٹ میں موجود تفصیلات قارئین کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں۔

’جائے وقوعہ پر ہر طرف تباہی کا منظر تھا۔ طلبا و طالبات کی کتابیں، جوتے اور دیگر اشیا ہر طرف بکھری ہوئی تھیں جبکہ سکول بس اور اُس گاڑی کے پرخچے دور دور تک بِکھرے ہوئے تھے جس میں حکام کے مطابق دھماکہ خیز مواد نصب تھا۔‘

یہ کہنا ہے بلوچستان کے ضلع خضدار کے سینیئر صحافی اقبال مینگل کا جو بدھ کی صبح بچوں سے بھری سکول بس پر ہوئے حملے کے کچھ دیر بعد جائے وقوعہ پر پہنچے تھے۔

ایک سینیئر پولیس افسر کے مطابق یہ سکول بس خضدار چھاؤنی کے ایک حصے سے سکول کے بچوں اور بچیوں کو لے کر کینٹ کے دوسرے حصے میں واقع سکول کی جانب جا رہی تھی اور جب یہ خضدار شہر سے 8 کلومیٹر جنوب مغرب میں کوئٹہ کراچی ہائی وے اور خضدار رتو ڈیرو شاہراہ کی سنگم پر زیرو پوائنٹ کے مقام پر پہنچی تو اس کو نشانہ بنایا گیا۔

کم از کم دو سینیئر افسران نے بی بی سی کو بتایا کہ بظاہر یہ ایک خودکش حملہ تھا اور مبینہ طور پر حملہ آور نے دھماکہ خیز مواد سے لدی اپنی گاڑی کو سکول بس سے ٹکرایا، تاہم سرکاری سطح فی الحال اس کی تصدیق نہیں ہو سکی اور گذشتہ روز وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کہا تھا کہ یہ حملہ ’گاڑی میں نصب دھماکہ خیز مواد‘ کی مدد سے کیا گیا۔

حکام کے مطابق اس حملے میں چار بچیوں اور بچوں سمیت چھ افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں بس کے ڈرائیور اور کنڈکٹر بھی شامل ہیں جبکہ ڈپٹی کمشنر خضدار یاسر دشتی کے مطابق دھماکے میں 36 سے زائد طلبا زخمی بھی ہوئے ہیں۔

جو بچے شدید زخمی ہوئے تھے وہ سی ایم ایچ کوئٹہ میں زیر علاج ہیں۔

’ایک باپ نے اپنے سارے بچے کھو دیے‘

خضدار حملہ

،تصویر کا ذریعہAbdullah Shahwani

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

یاد رہے کہ صحافیوں کو جائے حادثہ اور سی ایم ایچ کوئٹہ تک رسائی نہیں دی گئی اور ان مقامات پر سکیورٹی فورسز کو تعینات کیا گیا ہے۔

تاہم جن سرکاری حکام نے ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کی اُن میں کمشنر کوئٹہ ڈویژن محمد حمزہ شفقات بھی شامل ہیں۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر انھوں نے لکھا کہ وہ اس دھماکے میں زخمی ہونے والے بچوں کی عیادت کے لیے ہسپتال گئے تھے۔

اُن کے مطابق ’ہسپتال میں میں نے ایک والد کو دیکھا جس نے اپنے تمام بچوں کو کھو دیا ہے۔ اُن کی ایک بیٹی موقع پر ہی فوت ہو گئی جبکہ دوسری ہسپتال پہنچ کر۔ اُن کا تیسرا بیٹا انتہائی تشویشناک حالت میں زیر علاج ہے۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ کچھ ’بچوں کی ٹانگیں چاک ہو چکی تھیں، آنتیں جسم سے باہر نکل چکی تھیں۔ کچھ بچوں کی ٹانگیں کچلی ہوئی یا ٹوٹ چکی تھیں۔ کیونکہ دھماکے کی شدت سے بس کی چھت اڑ گئی تھی اور دھماکے کی شدت نے بچوں کو ان کی سیٹوں سے اچھال کر کئی فٹ فضا میں پھینک دیا تھا اور وہ واپس آ کر بس پر یا زمین پر گرے۔‘

کمشنر نے لکھا کہ ایک بچے کی دونوں آنکھیں ضائع ہو گئیں اور وہ ہمیشہ کے لیے نابینا ہو گیا ہے جبکہ چھروں نے بچوں کے جسموں کے مختلف حصوں کو چھلنی کر دیا۔ ’میں اس سے بدتر منظر کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ وہاں لوگوں کو جس صورتحال کا سامنا ہے میں وہ بیان نہیں کر سکتا۔‘

’12 سال سے کم عمر کے بچے۔ یہاں تک کہ ڈاکٹرز بھی پریشان تھے۔ بچے خوفزدہ اور سکتے کی حالت میں ہیں۔ والدین سب کچھ کھو چکے ہیں۔‘

انھوں نے استفسار کیا کہ ’ایسا کون کر سکتا ہے۔‘ انھوں نے الزام عائد کیا کہ بلوچستان میں گذشتہ ایک سال کے دوران انڈین سرپرستی میں ہونے والا شدت پسندوں کا یہ 25واں حملہ ہے۔ یاد رہے کہ انڈیا نے اس ضمن میں لگائے گئے الزامات کو مسترد کیا ہے۔

جائے وقوعہ پر جانے والے دیگر افراد کیا بتاتے ہیں؟

تصویر

،تصویر کا ذریعہIqbal Mengal

جس مقام پر اس سکول بس کو نشانہ بنایا گیا اس سے کچھ فاصلے پر خضدار سے تعلق رکھنے والے رئیس عمران نامی شہری کا پیٹرول پمپ ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ دھماکے کی شدت کی وجہ سے اُن کے پیٹرول پمپ کو نقصان پہنچا اور اس کے شیشے ٹوٹ گئے۔

اُن کا کہنا تھا کہ چونکہ وہ گذشتہ رات کو دیر سے گھر آئے تھے اور دھماکہ صبح کے اوقات میں ہوا، اس لیے وہ دھماکے کے وقت پیٹرول پمپ پر موجود نہیں تھے مگر ان کے دو ملازمین وہیں پر تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ جس وقت دھماکہ ہوا ان کے دونوں ملازمین سو رہے تھے اور بعدازاں انھوں نے بتایا کہ جب دھماکہ ہوا تو وہ اس سے اٹھ گئے اور ان کو ایسا لگا جیسے کوئی شدید زلزلہ آیا ہو۔

’دونوں ملازمین نے بتایا کہ وہ جب باہر نکلے تو ان کو اس مقام سے بہت زیادہ دھواں اور مٹی اڑتا ہوا دکھائی دیا جہاں بس دھماکے کی زد میں آئی تھی۔‘

شاہد جاوید (فرضی نام) ان افراد میں شامل ہیں جو دھماکے کے کچھ ہی دیر بعد جائے وقوعہ پر پہنچے۔ انھوں نے بتایا کہ جب وہ وہاں پہنچے تو زخمیوں اور لاشوں کو ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔

اُن کا کہنا تھا کہ انھوں نے وہاں جن لوگوں سے بات کی وہ دھماکے کی وجہ سے بہت زیادہ خوفزدہ تھے اور انھوں نے بتایا کہ سیکورٹی اہلکاروں نے وہاں آنے کے بعد جائے وقوعہ کو گھیرے میں لیا اور جو لوگ دکانوں یا ہوٹل وغیرہ میں موجود تھے اُن سے ان کے موبائل فون وغیرہ لے لیے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ سکول کے بچوں اور بچیوں کی کتابیں، بستے، جوتے اور دیگر اشیا کے علاوہ گاڑیوں کے ٹکڑے دور دور تک پڑے ہوئے۔

’میں نے ایک بچے کی نیلے فریم والے عینک کو بھی دیکھا جو کہ دھماکے کی وجہ سے دور گر گئی تھی مگر محفوظ اور دھول مٹی سے اٹی ہوئی تھی۔‘

’خون آلود کتابوں کو دیکھ کر دل افسردہ ہوا‘

تصویر

،تصویر کا ذریعہAbdullah Shehwani

خضدار کے سینیئر صحافی اقبال مینگل جائے وقوعہ کو کلیئر قرار دینے کے بعد سہہ پہر کو وہاں پہنچے تھے۔

انھوں نے کہا کہ ‘جائے وقوعہ پر ہر طرف تباہی کا منظر تھا۔ طلبا و طالبات کی کتابیں، جوتے اور دیگر اشیا ہر طرف بکھری ہوئی تھیں جبکہ اُس گاڑی کے پرخچے دور دور تک بِکھرے ہوئے تھے جس میں حکام کے مطابق دھماکہ خیز مواد نصب تھا۔’

انھوں نے کہا کہ سکول جانے والے بچوں کی اشیا بکھری دیکھ کر وہ بہت افسردہ ہوئے۔ انھوں نے بتایا کہ دھماکے کی شدت کی وجہ سے وہاں میٹلڈ روڈ بھی اچھا خاصا متاثر ہوا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس دھماکے میں لوگ زندگی کی بازی ہار گئے جبکہ بعض شدید زخمی بھی ہیں تاہم ان کے علاوہ وہاں جن چیزوں کو دیکھ کر دل زیادہ افسردہ ہوا وہ وہاں طلبا اور طالبات کی بکھری ہوئی کتابیں تھیں جن میں سے بعض خون آلود بھی تھیں۔ بچوں اور بچیوں کی دیگر اشیا بھی وہاں بکھری پڑی تھیں۔دھماکے کی وجہ سے وہاں بعض گاڑیوں کے علاوہ دکانوں کو بھی نقصان پہنچا۔

پاکستان کا الزام، انڈیا کی تردید

خضدار حملہ

،تصویر کا ذریعہAbdullah Shahwani

اس واقعے کے بعد وزیراعظم پاکستان شہباز شریف اور پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ‘انڈیا کے دہشتگرد نیٹ ورک نے بلوچستان میں اپنی پراکسی تنظیموں’ کے ذریعے یہ حملہ کروایا۔

وزیر اعظم اور فیلڈ مارشل عاصم منیر نے اس واقعے کے بعد کوئٹہ کا ہنگامی بنیادوں پر دورہ کیا اور انھوں نے کور ہیڈکوارٹر کوئٹہ میں اس واقعے کے حوالے سے ایک بریفنگ میں بھی شرکت کی۔

وہ سی ایم ایچ بھی گئے جہاں انھوں نے دھماکے میں زخمی ہونے والے بچوں اور بچیوں کی عیادت کی اور ان کی جلد صحتیابی کی دعا کی۔

اس واقعے کے بعد وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے بعض وزرا اور پارلیمانی سیکریٹریز کے ہمراہ ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں حملے کا الزام انڈیا پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ ‘یہ انڈیا کی بزدلانہ سوچ ہے کہ وہ بچوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ دشمن سے اس قدر گرنے کی توقع نہیں تھی۔’

انھوں نے کہا کہ اس واقعے میں ملوث تمام عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔

تاہم بھارتی وزارتِ خارجہ نے پاکستان کی جانب سے خضدار میں سکول بس پر حملے میں انڈیا کے ملوث ہونے کے الزام کو مسترد کر دیا ہے۔

انڈین وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا کہ ‘انڈیا خضدار کے واقعے میں ملوث ہونے کے بارے میں پاکستان کی جانب سے لگائے گئے بے بنیاد الزامات کو مسترد کرتا ہے۔’

ادھر کوئٹہ میں نیشنل اسٹوڈنٹس موومنٹ کے زیر اہتمام وزیرستان میں ڈروں حملوں اور خضدار میں اسکول بس پر حملے میں بچوں کی ہلاکت کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ۔

کوئٹہ پریس کلب کے باہر ہونے والے مظاہرے کے شرکاء نے دونوں واقعات کے بارے میں تحقیقات کرنے اور ان میں ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے کھڑا کرنے کا مطالبہ کیا۔

خضدار کہاں واقع ہے؟

خضدار

،تصویر کا ذریعہAbdullah Shahwani

خضدار شہر بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ سے اندازا ساڑھے تین سو کلومیٹر کے فاصلے پر جنوب مغرب میں واقع ہے۔

کوئٹہ کراچی شاہراہ پر واقع اس شہر کا شمار کوئٹہ کے بعد بلوچستان کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے اور یہ قلات ڈویژن کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔

شہر سمیت ضلع خضدار کی آبادی مختلف بلوچ قبائل پر مشتمل ہے۔ اس ضلع کا شمار بلوچستان کے ان علاقوں میں ہوتا ہے جو کہ شورش سے متاثر ہیں۔ چند روز قبل ضلع میں لیویز فورس کی ایک چیک پوسٹ پر ہونے والے حملے میں لیویز فورس کے چار اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔

اس سے قبل جنوری کے مہینے میں خضدار شہداد کوٹ روڈ پر ایک مسافر بس پر ہونے والے حملے میں ایک شخص ہلاک اور متعدد افراد زخمی ہوئے تھے۔

رواں سال اس کے دو علاقوں زہری اور اورناچ میں مسلح افراد کی ایک بڑی تعداد آئی تھی اور وہ کئی گھنٹے تک وہاں موجود رہے تھے۔

ان مسلح افراد نے دونوں علاقوں سے پولیس اور لیویز فورس کے تھانوں سے اسلحہ بھی لے گئے تھے جبکہ بعض سرکاری دفاتر کو نذر آتش بھی کیا تھا۔

طویل عرصے سے خضدار شہر اور اس ضلع کے دیگر علاقوں میں سنگین بدامنی کے واقعات پیش آتے رہے ہیں تاہم سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ حکومتی اقدامات کی وجہ سے ماضی کے مقابلے میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئی ہے۔

SOURCE : BBC