SOURCE :- BBC NEWS
- مصنف, کرسٹل ہیز، فل میک کاسلینڈ
- عہدہ, بی بی سی نیوز
-
20 جنوری 2025
اپ ڈیٹ کی گئی ایک گھنٹہ قبل
ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کے 47ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے فوراً بعد امیگریشن، ماحولیات اور ٹک ٹاک سے لے کر متعدد شعبوں سے متعلق ایگزیکٹیو حکمنامے اور ہدایت نامے جاری کر دیے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کا باقاعدہ مکین بنتے ہی ٹرمپ نے اپنے نئے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے بہت سی ایگزیکٹیو سمریوں، صدارتی یادداشتوں اور پالیسی ترجیحات سے متعلق درجنوں حکمناموں پر دستخط کیے ہیں۔
اگرچہ جاری ہونے والے اِن صدارتی ایگزیکیٹو آرڈرز کی قانونی حیثیت بھی ہوتی ہے تاہم ان حکامات کو بعد میں عدالتیں یا آنے والے نئے صدور ختم کر سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ صدارت کا عہدے سنبھالتے ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے سابق امریکی صدر جو بائڈن کے دور اقتدار میں جاری کردہ 78 صدارتی حکمناموں کو منسوخ بھی کیا ہے۔
امریکہ میں کسی بھی نئے صدر کی جانب سے عہدہ سنبھالتے ہی ایگزیکٹیو حکمناموں پر دستخط کرنا عام سی بات ہے لیکن امریکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں اپنے پہلے ہی دن 200 سے زیادہ حکمناموں پر دستخط کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اور اگر ایسا ہی ہوتا ہے تو یہ کسی بھی امریکی صدر کی جانب سے منصب صدارت سنبھالنے کے پہلے ہی روز جاری کردہ حکمناموں کی سب سے بڑی تعداد ہو گی۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے جاری کردہ حکمناموں کی تفصیل میں جانے سے قبل یہ جان لیتے ہیں کہ ایگزیکٹیو آرڈر ہوتا کیا ہے اور انھیں کیوں جاری کیا جاتا ہے؟
ایگزیکٹیو آرڈر کیا ہوتا ہے اور اسے کیوں جاری کیا جاتا ہے؟
ایگزیکیٹو آرڈر یا صدارتی حکمنامہ امریکی صدر کی طرف سے وفاقی حکومت کو ایک تحریری حکم ہوتا ہے جس کے لیے کانگریس کی اجازت نہیں چاہیے ہوتی۔ یہ بڑی پالیسی میں تبدیلی بھی ہو سکتی ہے جیسے صدر ٹرمپ نے 2017 میں دو متنازع آئل پائپ لائنوں کی تعمیر کی اجازت دے دی تھی، یا چھوٹی بات بھی ہو سکتی ہے جیسے سنہ 2015 میں صدر اوباما نے کرسمس ایو کے موقع پر آدھے دن کی چھٹی دے دی تھی۔
امریکی آئین کا آرٹیکل 2 صدر کو ایگزیکیٹیو آرڈر جاری کرنے کا اختیار دیتا ہے۔
کبھی کبھار اس نوعیت کے احکامات اندرونی بحران سے بچنے کے لیے یا جنگی صورتحال میں جاری کیے جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر دوسری عالمی جنگ کے تناظر میں فروری 1942 میں صدر فرینکلن ڈی روساویلٹ نے ایک ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے ایک لاکھ 20 ہزار جاپانی نژاد امریکیوں کے لیے حراستی مراکز بنانے کا حکم دیا تھا۔
اس کے علاوہ سنہ 1952 میں صدارتی حکمنامے کے ذریعے ہڑتال سے بچنے کے لیے صدر ہیری ٹرومین نے سٹیل انڈسٹری کو حکومتی کنٹرول میں دے دیا تھا۔
کوئی امریکی صدر اُس وقت بھی حکم دے سکتا ہے جب کانگریس کو مخصوص فیصلہ کرنے میں بہت زیادہ وقت لگ رہا ہو یا جب انھیں کسی نئے قانون کی تفصیلات سامنے لانے کی ضرورت پیش آ رہی ہو۔
اب دیکھتے ہیں کہ آفس میں پہلے ہی روز ٹرمپ نے کون سے ایگزیکٹیو حکمنامے اور ہدایت نامے جاری کیے ہیں۔
امیگریشن: سرحد پر قومی ایمرجنسی
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
اوول آفس (امریکی صدر کا دفتر) میں، ٹرمپ نے امریکہ کی جنوبی سرحد (میکسیکو سرحد) پر قومی ایمرجنسی نافذ کرنے کے حکمنامے پر دستخط کرتے ہوئے یہ الفاظ ادا کیے ‘یہ بہت بڑا ہے۔’
انھوں نے چند مجرمانہ گروہوں کو دہشت گرد تنظیم نامزد قرار دیا ہے، اور ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن کے امریکہ میں پیدا ہونے والے بچوں کو حاصل شہریت کے حق سے متعلق حکمنامے پر بھی دستخط کیے ہیں۔
ٹرمپ نے ایک ایسے حکمنامے پر بھی دستخط کیے ہیں جس کے تحت چار ماہ کے لیے امریکی پناہ گزینوں کی آباد کاری کے پروگرام کو معطل کیا گیا ہے، اس فیصلے سے متعلق تفصیلات فی الحال واضح نہیں ہیں۔
ٹرمپ کے دستخط کردہ ایک اور ایگزیکٹیو آرڈر میں امریکی فوج کو ملک کی ‘سرحدیں سیل کرنے’ کا حکم دیا ہے۔ یہ حکمنامہ جاری کرنے کے لیے منشیات کی ترسیل، انسانی سمگلنگ اور سرحدی علاقوں میں جرائم کا حوالہ دیا گیا ہے۔
جرائم پیشہ گروہ بطور دہشت گرد تنظیم نامزد
صدر نے ایک ایسے حکمنامے پر بھی دستخط کیے ہیں جس کے تحت بین الاقوامی منشیات فروش اور جرائم پیشہ گروہوں کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔ سلواڈور کے پناہ گزینوں پر مشتمل گینگ ‘ایم ایس 13’ اور وینزویلا کے گینگ ’Tren de Aragua‘ کو دہشت گرد تنظیموں کی اُس فہرست میں شامل کیا گیا ہے جس میں القاعدہ، نام نہاد دولت اسلامیہ اور حماس جیسی عسکریت پسند اور دہشت گرد تنظیمیں شامل ہیں۔
سرحد پر دیوار کی تعمیر کا دوبارہ آغاز
جنوبی سرحد پر اپنے ہنگامی اعلان کے ایک حصے کے طور پر صدر ٹرمپ نے قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے سربراہان کو ہدایت کی ہے کہ وہ امریکہ کی ’جنوبی سرحد کے ساتھ اضافی رکاوٹیں تعمیر کرنے‘ کی کوششیں کا دوبارہ آغاز کریں۔
یہ ہدایت کسی ایگزیکٹو آرڈر کے تحت جاری نہیں کی گئی اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ اس کام کے لیے فنڈنگ کہاں سے حاصل کی جائے گی۔ یاد رہے کہ ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں دیوار کی تعمیر کے لیے درکار فنڈز کا حصول ہی اس کام کو مکمل کرنے میں اہم رکاوٹ تھا۔
جب ٹرمپ 2016 میں پہلی بار صدر منتخب ہوئے تھے تو انھوں نے جنوبی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے سے متعلق ایگزیکٹیو آرڈر پر دستخط کیے تھے۔ اگرچہ اس دیوار کے کچھ حصے تعمیر کیے گئے تھے لیکن زیادہ تر کام اب بھی نامکمل ہے۔
ٹک ٹاک
صدر ٹرمپ نے چینی ملکیت والے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹک ٹاک‘ پر پابندی کے قانون کے نفاذ کو آئندہ 75 دنوں کے لیے ملتوی کرنے کے ہدایت نامے پر بھی دستخط کیے ہیں۔
ٹک ٹاک انتظامیہ نے ٹرمپ کے اس اقدام کا خیرمقدم کیا ہے۔ یاد رہے کہ ٹرمپ کے عہدے کا حلف اٹھانے سے کچھ دیر قبل ٹک ٹاک نے کچھ وقت کے لیے امریکہ میں اپنی سروسز کو بند کر دیا تھا تاہم یقین دہانی کے بعد سروسز کو بحال کر دیا گیا تھا۔
ٹرمپ نے کہا تھا کہ ان کے اس اقدام سے ٹک ٹاک انتظامیہ کو امریکہ میں اپنا پارٹنر تلاش کرنے کے لیے مزید وقت ملے گا۔ تاہم فی الحال جس ہدایت نامے پر ٹرمپ نے دستخط کیے ہیں اس کی مزید تفصیلات واضح نہیں ہیں۔
یاد رہے کہ صدر ٹرمپ ماضی میں ٹک ٹاک پر پابندی کے حامی تھے تاہم اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اپنی انتخابی مہم کے دوران ملنے والی بڑی مقبولیت کے بعد انھوں نے اپنا فیصلہ تبدیل کیا ہے۔
حکومتی اصلاحات
ٹرمپ نے ایک ایسے ہدایت نامے پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت ’ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشیئنسی‘ تخلیق کیا جائے گا۔ اس ادارے کا مقصد حکومت کی کارکردگی کو بہتر اور مؤثر بنانا ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ اس کی قیادت ایلون مسک کریں گے۔
ٹرمپ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ایلون مسک کو اس نئی ایجنسی کے قیام کے بعد تقریباً 20 ملازمین اور نیا دفتر ملے گا۔
اسی طرح ٹرمپ نے وفاقی سطح پر نئی سرکاری بھرتیوں کو روکنے سے متعلق ہدایت نامے پر دستخط کیے ہیں اور اس پابندی کا اطلاق اس وقت تک رہے گا جب تک ٹرمپ انتظامیہ حکومت پر مکمل کنٹرول حاصل نہ کر لے۔ تاہم امریکی فوج میں بھرتیوں کو اس سے استثنی ہو گا۔
اس طرح ٹرمپ نے ایک اور دستاویز پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت وفاق حکومت کے ملازمین کو ورک فرام ہوم یعنی گھروں سے کام کرنے کے بجائے آفس آ کر کام کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
سینسر شپ
ڈونلڈ ٹرمپ نے ’آزادی اظہار کی بحالی اور حکومتی سنسرشپ کو روکنے‘ کے لیے بھی ایک حکمنامہ جاری کیا ہے۔ اس حکمنامے کی زیادہ تفصیلات دستیاب نہیں ہیں۔
حکمنامے میں اٹارنی جنرل کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ گذشتہ انتظامیہ کے دور میں محکمہ انصاف، سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن اور فیڈرل ٹریڈ کمیشن جیسی ایجنسیوں کے اہلکاروں کی سرگرمیوں کی چھان بین کرے۔
سیاسی مقدمات
نئے امریکی صدر کی جانب سے ایک ہدایت نامے پر دستخط کیے گئے ہیں جس کا مقصد ’سیاسی مخالفین کے خلاف حکومت کو بطور ہتھیار استعمال‘ روکنے کی کوشش ہے۔ فوری طور پر اس ہدایت نامے کے متعلق تفصیلات دستیاب نہیں۔
عالمی ادارہ صحت سے علیحدگی
ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) سے علیحدہ ہونے کا عمل شروع کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
اس دستاویز پر دستخط کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا، ’اوہ، یہ بہت بڑا ہے۔‘
یہ ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکہ کو عالمی ادارہ صحت سے الگ کرنے کرنے کی کی دوسری کوشش ہے۔
ٹرمپ کوویڈ 19 کے دوران عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کے ناقد رہے ہیں۔ وبائی امراض کے دوران بھی انھوں نے امریکہ کے ڈبلیو ایچ او چھوڑنے کا شروع کیا تھا تاہم ان کے بعد آنے والے صدر جو بائیڈن نے اس فیصلے کو واپس لے لیا تھا۔
بائیڈن کی پالیسیوں کا خاتمہ
بائیڈن دور کے ضوابط کی منسوخی
ٹرمپ کی جانب سے دستخط کیے جانے والے پہلے ہدایات ناموں میں ایک دستاویز بائیڈن دور میں جاری ہونے والے تقریباً 80 ہدایت ناموں کو منسوخ کرنے کے متعلق ہے۔ امریکی صدر نے یہ نہیں بتایا کہ منسوخ کیے گئے ضوابط کس بارے میں تھے۔
نئے ضوابط کے اجرا پر پابندی
ٹرمپ نے ایک ہدایت نامہ جاری کرتے ہوئے تمام وفاقی ایجنسیوں کو ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے حکومت کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے تک کوئی بھی نئے ضوابط جاری کرنے سے روک دیا ہے۔
ٹرانس جینڈر افراد
ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹیو آرڈر جاری کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ امریکہ صرف دو جنسوں کو تسلیم کرے گا: مرد اور عورت۔
اس ہدایت نامے سے حکومتی مواصلات، شہری حقوق کے تحفظات اور وفاقی فنڈنگ کے ساتھ ساتھ جیلوں کے حوالے سے ٹرانس جینڈر پالیسیاں متاثر ہوں گی۔ اس سے پاسپورٹ اور ویزا جیسی سرکاری دستاویزات پر بھی اثر پڑے گا۔
اسی حکمنامے میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ان تمام سرکاری پروگراموں، پالیسیوں، بیانات اور مواصلات کو ختم کرنے کا حکم دیا ہے جو ’جنسی نظریہ‘ کو فروغ دیتی ہیں یا اس کی حمایت کرتی ہیں۔
ایک علیحدہ ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے ٹرمپ نے وفاقی حکومت کے تحت تمام ڈی ای آئی پروگراموں کو روکنے کا حکم دیا ہے۔ ڈی ای آئی ایسے پروگرام ہیں جن کے تحت کام کی جگہوں پر شفافیت، عزت اور سب کی شمولیت جیسے عوامل کو فروغ دیا جاتا ہے۔
خلیجِ میکسیکو کا نام تبدیل
ڈونلڈ ٹرمپ کے ابتدائی حکمناموں میں سے ایک کے ذریعے خلیجِ میکسیکو کا نام تبدیل کر کے خلیجِ امریکہ کر دیا گیا ہے۔
اسی حکمنامے کے تحت 25ویں امریکی صدر ولیم مکنلی کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کی غرض سے الاسکا کے ماؤنٹ دینالی کا نام ماؤنٹ مکنلی رکھنے کا حکم دیا ہے۔ صدر ٹرمپ مکنلی کی ٹیرف پالیسیوں سے بہت متاثر ہیں۔
سابق امریکی صدر براک اوباما نے اس پہاڑ کا نام ماؤنٹ مکنلی کا نام تبدیل کرکے ماؤنٹ دینالی رکھا تھا۔
معیشت
ایک حکمنامے کے ذریعے صدر ٹرمپ نے تمام وفاقی اداروں اور ایجنسیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ عام امریکی شہریوں کی ’کاسٹ آف لیونگ‘ یعنی گزر بسر کے لیے درکار اخراجات کو کم کرنے کی کوششیں کریں۔
یہ واضح نہیں ہے کہ اس ضمن میں کس ادارے یا ایجنسی کو کیا کام تفویض کیا گیا ہے۔
ماحولیات اور توانائی
صدر ٹرمپ نے پیرس کے موسمیاتی تبدیلی کے معاہدے سے دستبرداری کے ایگزیکٹیو حکمنامے پر بھی دستخط کر دیے ہیں۔ اپنے پہلے دورِ صدارت میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ نے پیرس کے موسمیاتی تبدیلی کے معاہدے سے دستبرداری اختیار کر لی تھی تاہم جو بائیڈن نے بطور صدر پہلے ہی دن 2021 میں اس معاہدے میں دوبارہ شمولیت اختیار کر لی تھی۔
یاد رہے کہ یہ حکمنامہ ان انتہائی ابتدائی حکمناموں میں سے ایک ہے جس پر ٹرمپ نے عہدہ صدارت سنبھالتے ہی سب سے پہلے دستخط کیے۔ ٹرمپ نے ایک ایسے خط پر بھی دستخط کیے ہیں جو اقوام متحدہ کو بھیجا جائے گا اور جس میں امریکہ کے اس اقدام کی وجوہات درج ہوں گی۔
ٹرمپ نے امریکہ میں تیل کے دستیاب سٹریٹجک ذخائر کو دوبارہ بھرنے کا وعدہ کرتے ہوئے قومی توانائی کے شعبے میں ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان بھی کیا ہے۔
انہوں نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے جس کے تحت ریاست الاسکا میں دستیاب غیر معمولی قدرتی وسائل کی صلاحیت سے مستفید ہونا ہے، یہ حکمنامہ تیل، گیس اور دیگر قدرتی وسائل سے متعلق ہے۔
کیپیٹل ہل فسادات
ڈونلڈ ٹرمپ نے چار سال قبل امریکی کیپیٹل ہل میں ہونے والے فسادات میں ملوث تقریباً 1600 افراد کے لیے معافی اور سزا میں کمی کا ایگزیکٹیو حکم بھی جاری کر دیا ہے۔ جنوری 2021 میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ہزاروں حامیوں نے 2020 کے صدارتی انتخاب کے نتائج مسترد کرتے ہوئے امریکی قانون ساز اسمبلی پر دھاوا بول دیا تھا اور یہاں توڑ پھوڑ کی تھی۔
اس کے علاوہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے محکمہ انصاف کو کیپیٹل ہل فسادات میں ملوث مشتبہ افراد کے خلاف تمام زیر التوا مقدمات ختم کر نے کا حکم جاری کیا ہے۔
ثونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جن افراد کو معافی دی گئی ہے ان میں اوتھ کیپر گروہ کے رہنما سٹیورٹ رہوڈز شامل ہیں۔ انھیں جنہیں 2023 میں 18 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
پراؤڈ بوائز کے سابق رہنما ہنری ٹیریو جنھیں بغاوت کی سازش کے الزام میں 22 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی ان کے وکیل کا کہنا ہے کہ ان کے مؤکل کی بھی رہائی کی امید ہے۔
SOURCE : BBC