SOURCE :- BBC NEWS

تصویر

،تصویر کا ذریعہRawalpindi Police

  • مصنف, شہزاد ملک
  • عہدہ, بی بی سی اردو، اسلام آباد
  • ایک گھنٹہ قبل

پاکستان کے شہر راولپنڈی میں پولیس کا دعویٰ کیا ہے کہ تحصیل مندرہ میں سات سالہ بچی کے ساتھ مبینہ طور پر ریپ کر کے اسے قتل کرنے والا ملزم اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہو گیا ہے۔

مقامی پولیس کے مطابق ملزم مبینہ ریپ کے بعد قتل کی گئی بچی کا سگا ماموں تھا۔

مسیحی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی سات سالہ بچی شفق 20 اپریل (ایسٹر کے روز) کو لاپتہ ہو گئی تھیں اور بعدازاں اُن کی لاش ایک زیر تعمیر مکان سے ملی تھی۔ پولیس نے دو روز قبل دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے مبینہ ریپ اور قتل میں ملوث ملزم کو گرفتار کر لیا ہے جو بچی کا ماموں ہے۔ پولیس نے مزید دعویٰ کیا تھا کہ ملزم نے قتل کرنے سے قبل اپنی بھانجی کا ریپ کیا تھا۔

تاہم منگل کے روز راولپنڈی پولیس کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا کہ ملزم کو آلہ قتل برآمد کروانے کے لیے ساتھ لے جایا جا رہا تھا کہ ’راستے میں ملزم کے ساتھیوں نے اسے چھڑانے کی کوشش کی اور پولیس پارٹی پر فائرنگ کر دی جس کی زد میں آ کر ملزم زخمی ہو گیا۔‘

پولیس نے مزید دعویٰ کیا کہ ملزم کو طبی امداد فراہم کرنے کے لیے ہسپتال لے جایا جا رہا تھا مگر وہ راستے میں دم توڑ گیا۔

راولپنڈی پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان کی گرفتاری کے لیے شہر بھر کی ناکہ بندی کر دی گئی ہے تاہم ابھی تک کوئی ملزم گرفتار نہیں ہوا جبکہ ہلاک ہونے والے ملزم کی لاش ورثا کے حوالے کر دی گئی ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان میں حالیہ عرصے میں ریپ اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث زیر حراست ملزمان کی پراسرار حالات میں ’ساتھیوں کے ہاتھوں‘ ہلاکت کی خبریں میڈیا کی زینت بنتی رہی ہیں۔

’بچی کی لاش زیرِ تعمیر مکان سے ملی‘

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سات سالہ شفق کی گمشدگی کی رپورٹ تھانہ مندرہ میں 20 اپریل یعنی ایسٹر کے روز اُن کے والد کی مدعیت میں درج کی گئی تھی۔

اس کیس کی ایف آئی آر کے مطابق والد نے بتایا تھا کہ 20 اپریل کو اُن کی کمیونٹی (مسیحی برادری) کی عید تھی اور اُن کی سات سالہ بیٹی شفق کھیلنے کے لیے گھر سے باہر گئی ہوئی تھی۔

والد کے مطابق عید کی وجہ سے اُن کے گھر کافی مہمانوں کا آنا جانا لگا ہوا تھا اسی لیے ابتدائی طور پر گھر والوں نے شفق کی غیر موجودگی کا کوئی نوٹس نہ لیا، تاہم جب شام چھ بجے تک اُن کی بیٹی گھر واپس نہ آئی تو انھیں اس بارے میں تشویش لاحق ہوئی تو وہ اس کی تلاش میں نکل پڑے۔

شفق کے والد کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنی بیٹی کو اہل محلہ اور رشتہ داروں کے گھروں میں تلاش کیا لیکن اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔

والد کے مطابق جب رات کے دس بجے وہ اپنی بیٹی کو ڈھونڈتے ہوئے عزیز و اقارب کے ہمراہ محلے میں زیرِ تعمیر ایک مکان میں گئے تو وہاں ایک سٹور نما کمرے میں شفق کی لاش پڑی ہوئی تھی۔

ایف آئی آر کے مطابق شفق کے والد نے بتایا کہ ان کی بیٹی ’ٹراؤزر اُترا ہوا تھا اور اس کے ماتھے اور گلے پر زخم کے نشانات تھے۔‘

مندرہ پولیس نے یہ مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا تھا۔ پولیس کے مطابق جائے وقوعہ سے فرانزک شواہد حاصل کر کے ملزم کی شناخت اور گرفتاری کے لیے ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں جبکہ پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ میں معلوم ہوا تھا کہ بچی کو اس کی موت کے بعد ریپ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

پولیس ملزم تک کیسے پہنچی؟

زینب

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مواد پر جائیں

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

راولپنڈی پولیس کے ایس ایس پی آپریشنز کاشف ذوالفقار نے بی بی سی کو بتایا کہ سات سالہ بچی کے قتل سے متعلق درج ہونے والے مقدمے کی تفتیش شروع کی تو پولیس نے پہلے جائے وقوعہ اور علاقے کا دورہ کیا اور پھر وہاں کے لوگوں سے معلومات حاصل کیں اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ اخری مرتبہ بچی کو کس کے ساتھ دیکھا گیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ لوگوں سے ملنے والی معلومات کی روشنی میں جب تفتیش کا دائرہ وسیع کیا گیا تو پولیس کو بچی کے ماموں اور کیس میں ملزم سنیل کی حرکات مشکوک دکھائی دیں۔

انھوں نے کہا کہ جب بچی گھر سے لاپتہ ہوئی تو ملزم سنیل بچی کو تلاش کرنے کے حوالے سے مقتولہ کے والدین سے ’بھی زیادہ متحرک دکھائی دے رہا تھا۔‘

ایس ایس پی آپریشنز کا کہنا تھا کہ چند سال قبل قصور میں ہونے والے واقعے میں کمسن بچی زینب کو ریپ کا نشانہ بنانے کے بعد جس طرح اس مقدمے میں ملوث مجرم عمران متحرک دکھائی دے رہا تھا بالکل اسی طرح ملزم سنیل بھی متحرک تھا۔

انھوں نے کہا کہ پولیس اہلکاروں نے ملزم سنیل کو حراست میں لے کر جب اس سے تفتیش کی تو ملزم نے سات سالہ بچی کو ریپ اور قتل کرنے کا اعتراف کر لیا۔

پولیس کے مطابق ملزم ایسٹر والے دن اپنی بھانجی کو کھانے پینے کی اشیا دلانے کے بہانے زیر تعمیر مکان میں لے گیا تھا۔

مقامی پولیس کا دعویٰ ہے کہ ملزم نے دوران تفتیش بتایا کہ جب اُس نے بچی کو ریپ کرنے کی کوشش کی تو بچی نے شور مچانا شروع کر دیا جس پر ملزم نے ’اپنی جیب سے قینچی نکال کر اس کا گلا کاٹا اور پھر بچی کے سر پر اینٹ مار کر اسے قتل کر دیا۔‘

مقامی پولیس کا دعویٰ ہے کہ ملزم نشے کا عادی تھا۔

ایس ایس پی آپریشنز کے مطابق ملزم اس کے بعد گھر واپس آ گیا تھا اور بعدازاں متاثرہ فیملی کے ساتھ مل کے اسے تلاش کرتا رہا۔

تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ پولیس گرفتار ملزم کو آلہ قتل کی برآمدگی کے لیے لے جا رہی تھی کہ اس دوران نامعلوم ملزمان کی جانب سے پولیس پارٹی پر فائرنگ کی گئی۔ ’فائرنگ کے دوران زیر حراست ملزم شدید زخمی ہوا جو ہسپتال منتقلی کے دوران ہلاک ہو گیا۔‘

ریپ کے ملزمان پولیس حراست میں کیوں مارے جاتے ہیں؟

راولپنڈی میں سات سالہ شفق کے ریپ اور قتل کے الزام میں زیرِ حراست ملزم کا، پولیس کے بقول، اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہونے کا واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔ پاکستان میں ریپ اور سنگین جرائم میں ملوث زیر حراست ملزمان ’ٹھوس شواہد اور اعترافِ جرم‘ کے باوجود پراسرار حالات میں مارے جاتے رہے ہیں۔

ایسے واقعات کے بعد پولیس کی جانب سے عموماً یہ روایتی بیان جاری کیا جاتا ہے جس میں دعویٰ ہوتا ہے کہ ملزم کو برآمدگی کے لیے لے جایا جا رہا تھا جب ’ملزمان کے مسلح ساتھیوں نے پولیس پارٹی پر حملہ کر دیا اور اس دوران ہونے والی فائرنگ سے ملزم ہلاک ہو گیا۔‘

عموماً اس طرح کے واقعات میں ایف آئی آر میں مقام، تاریخ اور ملزم کا نام بدلنے کا علاوہ باقی عبارت لگ بھگ ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔

ملزم کی ہلاکت کے حوالے سے درج ایف آئی آر میں پولیس نے دعویٰ کیا تھا، ’ملزم دُھند اور تاریکی کا فائدہ اٹھا کر کانسٹیبل کو دھکا دے کر گاڑی سے چھلانگ مار کر اُترا اور ہتھکڑی سمیت فرار ہو گیا۔ پولیس نے ملزم کا پیچھا کیا اور اسی دوران ایک مقام پر دو سے تین افراد کے شور، گالی گلوچ اور پھر فائرنگ کی آوازیں آئیں۔‘

’پولیس اہلکاروں کے للکارنے پر نامعلوم افراد فرار ہو گئے، تاہم اس مقام سے ایک شخص شدید زخمی حالت میں ملا جس کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا تاہم وہ جانبر نہ ہو سکا۔ مرنے والے کی شناخت زہرہ کیس کے ملزم کی حیثیت سے ہوئی ہے۔‘

اس سے قبل 2023 میں اسلام آباد میں ایف نائن پارک میں خواتین کے ساتھ مبینہ ریپ کے ملزمان کے پولیس مقابلے میں ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ پولیس کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا کہ ان ملزمان نے سیکٹر ڈی 12 میں پولیس کے ناکے پر موجود اہلکاروں پر فائرنگ کی اور جوابی فائرنگ سے دونوں ملزمان مارے گئے۔

ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ حالیہ پولیس مقابلوں میں ملزمان کی پراسرار ہلاکت کی وجوہات کیا ہے اور اس رجحان کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہوتے ہیں؟

فوجداری مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل بشارت اللہ خان نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’پولیس اہلکار ہی پراسیکوشن میں تعینات ہوتے ہیں اور سنگین نوعیت کے مقدمات کا چالان بھی انھوں نے بنانا ہوتا ہے۔‘

انھوں نے کہا تھا کہ کمزور پراسیکوشن کی وجہ سے سنگین جرائم میں ملوث افراد کے عدالتوں سے رہائی ملنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اس لیے مبینہ طور پر ایسے ملزمان کو ٹھکانے لگانے کے لیے اسی نوعیت کے ’پولیس مقابلوں‘ پر انحصار کیا جاتا ہے۔

بی بی سی نے چند روز قبل اس حوالے سے متعدد پولیس افسران سے بات چیت کی جنھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پولیس مقابلے کی منصوبہ بندی کیسے ہوتی ہے اور ٹھوس شواہد کے باوجود ملزمان کے خلاف قانونی چارہ جوئی سے گریز کیوں کیا جاتا ہے؟

SOURCE : BBC